غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
21 اکتوبر، 2014
آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور سے لے کر متعدد تاریخی اسلامی یادگاروں اور مقدس مقامات کو منہدم کرنے کی درپردہ سازش کے تحت انہیں بت پرستی کا اڈہ قرار دیا جا رہا ہے۔ لہذا ان مقامات کی تاریخ اور مذہبی حرمت کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان فوری طور پر بیداری پیدا کرنا ایک اہم دینی وملی فریضہ بن چکا ہے۔ تقریبا تمام مسلم ممالک میں طالبان، القاعدہ، داعش، بوکو حرام اور دیگر تمام انتہا پسند سلفی تنظیمیں مسلمانوں کے تاریخی مقامات، اسلامی باقیات، تہذیبی یادگاروں، انبیاء واولیاء کی قبروں اور دیگر روحانی مراکز پر بم باری کر رہے ہیں اور اسلام کی تاریخی ورثہ کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ثقافتی تباہی کی سب سے بدترین شکل اس وقت دنیا کے سامنے آئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو مسمار کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کے تئیں ایک مخصوص عداوت کے نظریہ سے متاثر ہو کر ‘‘خالص توحید’’ کے احیائے نو کے نام پر خود ساختہ جہادی دہشت گرد تنظیموں نے اسلام کے اولین مساجد کو بھی مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔
قرآن کریم میں اسلامی آثار و باقیات کی اہمیت
ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے ثقافتی وراثتیں، فنی وتعمیراتی باقیات اور قدیم تاریخی مقامات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ فن تعمیر ثقافتی روایات میں شامل مذہبی اثرات کا عکس ہے۔ یہی معاملہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہے۔ تاریخ اور ثقافت کے تحفظ کے عام تصور کے علاوہ مسلمانوں کو اپنے آثار و باقیات کی حفاظت کے لیے قرآنی احکامات سے تحریک حاصل ہوئی۔ قرآن کریم میں تاریخی یادگاروں کو ‘شعائر اللہ’ (اللہ کی نشانیاں) کہا گیا ہے اور ان کے تحفظ کو ‘تقویٰ القلوب’ (دلوں کی پاکیزگی) ( القرآن۔ 22:32) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وسیع معنوں میں اللہ کی نشانی ہر وہ چیز ہے جو روحانی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے اور جس سے اللہ کی کوئی نہ کوئی نشانی ظاہر ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر مکہ مکرمہ میں صفا اور مروہ نامی دو چھوٹی پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان سعی کرنا حج اور عمرہ کے دوران مسلمانوں پر واجب ہے۔ قرآن کی نظر میں یہ دونوں پہاڑیاں "شعائر اللہ" ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ حضرت ہاجرہ کا ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کرنے کا عمل اللہ تعالی کو اتنا پسند آیا کہ اس نے ہر حاجی پر اس رسم کی ادائیگی کو واجب قرار دیا۔ قرآن کا فرمان ہے: "بے شک! صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (2:158) "۔
یہی اہمیت آب زم زم کو بھی حاصل ہے جو معجزاتی طور پرہزاروں سال پہلے اس وقت جاری ہوا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شیر خوار بیٹے اسماعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے پانی کے لیے رو رہے تھے۔ چونکہ قرآن کریم میں ان تاریخی آثار و باقیات کے تحفظ وپاسداری کو حصول تقوی اور پاکیزگیٔ قلب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، اس لئے یہ امر مترشح ہے کہ عالم اسلام کے دیگر اسلامی مقامات کو بھی ایک غیرمعمولی اور عالی شان مقام فراہم کیا جانا اسلامی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین سے لے کر عرب کے اموی وعباسی مسلم خلفاء اور اولین حکمرانوں نے تاریخی یادگاروں کے تحفظ اور ان کی تعمیر و توسیع میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی مسلمانوں نے ساسانی اور بازنطینی طرز پر شاندار عمارتوں اور یادگاروں کی تعمیر کر لی تھی۔ وہ مذہبی اور ثقافتی دونوں طرز کی تھیں۔
اسلام کی سب سے مقدس یادگاریں
مسلمانوں کے تاریخی آثار و باقیات میں عام طور پر مساجد، مدارس، گنبد ومینار، مزارات انبیاء واولیاء اور مقابر مسلمین وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل کعبہ، پھر مدینہ میں اسلام کی پہلی مسجد، مسجد نبوی، مسجد قبا، یروشلم میں قبۃ الصخرۃ، دمشق کی جامع مسجد، مسجد ابن طولون، مسجد جامع القيروان الاكبر تیونس، سلیمیہ مسجد، مسجد جامع اصفہان ، کاروان سرائے، طاق كسرى، حصن الاخضر، الحمرا، توپ قاپی محل استنبول، جامع السلطان حسن مصر، رباط السوسہ تیونس، نزائر کا قلعہ، اور خلیفہ المنصور کے زمانہ عراق میں بغداد کی متعدد تاریخی و مذہبی عمارتیں۔
عظیم اسلامی یادگاروں میں سب سے مقدس یادگار مکہ مکرمہ میں بیت اللہ یعنی کعبہ شریف ہے۔ یہ دنیا کی سب سے مقدس مسجد ہے جس کی طرف رخ کر کے مسلمان اپنی پنجگانہ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے مطابق سب سے پہلے کعبہ کی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی اور اس کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ یہ چاہ زمزم کے قریب واقع ہے اور اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کعبۃ اللہ اس روئے زمین پر بنائی جانے والی سب سے پہلی جگہ ہے۔
کعبہ کے بعد سب سے اہم مقام مسجد نبوی ہے۔ مسجد نبوی مغربی عرب کے خطۂ حجاز میں مدینہ منورہ میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ وہی شہر ہے جہاں رسول صلی الله علیہ وسلم اور ان کے اصحاب نے اس وقت ہجرت کی جب وہ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے نالاں وپریشان ہو گئے اور آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کرنا ان کے لیے ایک مشکل کام ہوگیا تھا۔ تاریخ اسلام کی سب سے پہلی مسجد، مسجد قباء بھی مدینہ منورہ میں ہی واقع ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ اسلام میں علم و تدریس، احسان وسلوک اور تصوف کی پہلی درسگاہ، صفہ کا چبوترہ بھی مسجد سے ہی متصل ہے۔ دراصل صفہ سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی ہے۔ صفہ کے طلبہ روحانیت کی طرف مائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ تھے جنہوں نے علم وحکمت، سپریچول سائنس (روحانی علم) اور رموز دین ودنیا سیکھنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔
تاریخ میں تیسری سب سے اہم اسلامی جگہ یروشلم ہے جس کی طرف عارضی طور پر رخ کر کے مسلمانوں نے نماز ادا کی۔ مسلمانوں کے دل میں اس شہر کی بڑی عظمت اور قدر ہے کیوں کہ اس شہر میں دو انتہائی اہم اسلامی آثار موجود ہیں: ایک قبۃ الصخرة دوسری مسجد اقصی۔ قبۃ الصخرة یروشلم میں سب سے اہم اسلامی مقام ہے۔ بالکل کعبہ کی ہی طرح اس کی تعمیر بھی ایک مقدس پتھر پر ہوئی ہے۔ یہ پتھر مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لئے بڑی تاریخی اور مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ میں یروشلم کے پرانے شہر کے بارے میں کافی تذکرہ ملتا ہے۔ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ کے بعد روئے زمین پر تیسرے سب سے مقدس ترین مقام ہونے کی وجہ سےیہ تمام سامی مذاہب میں ایک عظیم یادگار ہے۔ یروشلم میں جن مقامات پر سب سے زیادہ زائرین آتے ہیں ان میں حائط البراق، قبۃ الصخرة، الحرم القدسي الشريف اور کنیسۃ القیلۃ ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں بہت سے حیرت انگیز عجیب مقامات بھی پوشیدہ ہیں۔ العشاء الأخير کے پاس کنواری مریم کی جائے پیدائش یا ایتھوپیائی خانقاہ ‘دیر سلطان’ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ آپ کس مذہب کے ماننے والے ہیں یا آپ کا کوئی مذہب ہے بھی یا نہیں، یروشلم کا تاریخی ومذہبی وثقافتی تقدس آپ کے دل کو موہ لے گا۔
تاہم، آج کل اردو اور عربی اخبارات میں مسجد اقصی کے بارے میں ایک غلط فہمی رائج ہے۔ ان میں عام طور پر مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا "قبلہ اول" کہا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ سے بھی پہلے "کعبہ" ہی قبلہ اول تھا۔ اس تاریخی حقیقت کے باوجود اسے قبلہ اول کہنا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مسجد اقصی کو محض ساڑھے سولہ مہینوں کے لیے عارضی طور پر اسلامی قبلہ بنایا گیا تھا جس کے پیچھے حکمت الہیہ کار فرما تھی۔ علاوہ ازیں، ایک حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کعبہ کی تعمیر مسجد اقصی کے قیام سے 40 سال پہلے ہوئی تھی۔ ایک بار ایک یہودی نے مسلمانوں سے کہا کہ بیت المقدس ان کا قبلہ ہے اور مذہبی حیثیت میں کعبہ سے بھی بڑا ہے، اس لیے کہ اس کی تعمیر کعبہ سے پہلے ہوئی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: "اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے" (3:96)۔
جب 691-692 میں قبۃ الصخرۃ کی تعمیر ہوئی تو اس کے فوراً بعد ہی اموی خلیفہ الولید نے 705ء اور 715ء کے درمیان دمشق کے دارالحکومت میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی۔ دمشق اس زمانے میں مشرق وسطی میں سب سے زیادہ اہم شہروں میں سے ایک تھا اور اس کے بعد اموی خلافت کا دارالحکومت بنا۔ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا بیان ہے کہ: "قرون وسطی دمشق میں دستکاری صنعت کا ایک پھلتا پھولتا مرکز تھا۔ اپنی تاریخ کے مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے 125 یادگاروں کے درمیان 8ویں صدی کی عظیم اموی مسجد سب سے شاندار عمارتوں میں سے ایک ہے جس کی تعمیر آسرحدون میں ہوئی ہے۔ دمشق کی اموی مسجد کو جامع دمشق بھی کہا جاتا ہے، اور یہ بھی مسلمانوں کی ایک شاندار یادگار ہےجسے ہزاروں قبطی، فارسی، ہندی اور بازنطینی کاریگروں مل کر بنایا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے ایڈیٹرز لکھتے ہیں: "جنوبی دیوار کی کھڑکیوں میں لگے ماربل کی جالیاں اسلامی فن تعمیر میں جیومیٹرک انٹرلیس سکیننگ کے قدیم ترین نمونے ہیں۔ ایک زمانےمیں مسجد کی دیواریں ایک ایکڑ سے زیادہ پچی کاری ڈھکی ہوئی تھیں جن سے قرانی جنت کی عکاسی ہوتی تھی، لیکن صرف اس کے ٹکڑے ہی باقی بچے۔ اس مسجد کو 1401 میں تیمور نے تباہ کر دیا تھا جس کی دوبارہ تعمیر عربوں نے کی اور 1893میں پھر اسے آگ سے تباہ کر دیا گیا، اور اگرچہ اس کی اصل شان کو اب تک بحال نہیں کیا جا سکا لیکن وہ مسجد اب بھی ایک شاندار فن تعمیر کی علامت ہے۔
(جاری ہے)
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-history/historicity-religious-sanctity-architecture-islam/d/99648
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/historicity-religious-sanctity-architecture-islam/d/100278