New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 08:43 PM

Urdu Section ( 5 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hefazat-e-Islam, Bangladesh: Its Doctrines Are Brazenly Un-Islamic حفاظت اسلام، بنگلہ دیش کے نظریات سراسر غیر اسلامی ہیں

 

غلام رسول دہلوی ، نیو ایج اسلام

30 اکتوبر 2013 

26 سالہ نادیہ شرمین بنگلہ دیشی خاتون صحافی ہیں، حال ہی میں حفاظت اسلام بنگلہ دیش کے غندوں نے ان کی بری طرح پٹائی کی ۔ اپنے صحافتی کیرئر میں اب وہ اور بھی زیادہ باہمت ، پرعزم اور ثابت قدم ہو گئی ہیں ۔ ایک مسلم خاتون ہونے کے ناطےانہیں پورا حق ہے کہ وہ اپنے مہذب اور مؤقر  ملازمت  کو برقرار رکھیں ۔لہٰذا وہ  واضح ، مضبوط اور  باہمت انداز میں گفتگو کرتی  ہیں اور   ایسے بے لاگ سوالات کھڑے کرتی ہے جن سے  ہر  باشعور  مسلم کے ذہن میں چنگاریاں پھوٹ پڑتی ہیں اور  حفاظت اسلام کے نظریہ سازوں سے ان کے جوابات تلاش کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں ۔

‘‘ میں کچھ بزدلوں کی وجہ سے صحافت کو کیوں چھوڑ دوں ؟ اگر وہ بزدل نہیں تو اور کیا ہیں ؟ اگر وہ 50 ۔ 60 لوگ مل کر ایک نہتھی عورت کی پٹائی کرتے ہیں ؟ اگر وہ  عورتوں کے ساتھ  ایسا سلوک کرتے ہیں تو  پھر وہ کس طرح اسلام کی حفاظت کا دعویٰ  کرسکتے ہیں ؟ اگر وہ اپنے ہی پروگرام میں ایک خاتون صحافی کی حفاظت نہیں کر سکتے تو وہ کس طرح اسلام کی حفاظت کر سکتے ہیں ؟’’

(پولیٹیکل اسلام اینڈ الیکشن ان بنگلہ دیش ، فرانسس ہیریسن کی  ایک رپوٹ)

شرمین کی سر گزشت کو  پڑھنے کے بعد  جس بات نے میرے ذہن کو بالکل جھنجھوڑ دیا وہ اس نام (حفاظت اسلام)کے انتخاب کے پیچے اس متشدد مسلم آرگنائزیشن کے خطرناک منصوبے اور ارادے ہیں ۔ حفاظت اسلام کا معنیٰ اسلام کی حفاظت کرنا ہے ۔ قرآن سوزی ، مساجد میں غارت گری ، قومی املاک  کی تباہی ، دارالحکومت کی گھیرا بندی اور عورتوں کو اذیت دیکر اور انہیں ذلیل و رسوا کر کے حفاظت اسلام کے کارکنان  اور حمایتی آخر کس اسلام کی حفاظت کررہے ہیں؟ ۔ کیا تشدد کی یہ غیر معقول سر گر میاں  ‘‘اسلام کی حفاظت ’’کے ان  کے بلند بانگ دعوے  کا مذاق نہیں بناتیں ؟۔

‘‘اسلام کے محافظ ’’ کے روپ  میں اسلام اور انسانیت کے یہ حقیقی دشمن ‘‘حفاظت اسلام’’ جیسے اپنے پر فریب نام کے ذریعہ سیدھے اور سادہ لوح مسلمانوں کو  لبھاتے ہیں۔  اس میں کو شک نہیں کہ  اسلام کی صحیح تعلیمات سے نا واقف  بہت سارے مسلمان اس طرح  کی دہشت گرد جماعتوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو انہیں اپنے پرفریب اور گمراہ کن ناموں کے ذریعہ  اپنے دام مکرو فریب میں پھنسا لیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ایک واضح موقف کیوں نہیں اختیار کرتے  اور صاف طور پر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وہ وہابی ہیں ؟ آخر اس دنیا کو بھی ان کے اصل نام اور ان کی حقیقی  پہچان کو جاننے کا  حق ہے   تاکہ تمام مذاہب و ممالک  ان کی خطرناک سازشوں اور  ہلاکت خیز حملوں سے ہوشیار رہیں ۔

بنگلہ دیش کی سب سے بڑی  قدامت پرست اسلام پسند جماعت  حفاظت اسلام  کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھی ، جس کا مقصد بنیادی طور پر بنگلہ دیشی جمہوری حکومت کے ذریعہ اپنائی گئی خواتین کے لئے حقوق مساوات کی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنا تھا ۔ اپنے یوم تاسیس سے ہی ان کا مقصد اصلی حکومت کی ان تمام پالیسیوں اور  ایسے تمام مقاصد  کی زبر دست اور  پر تشدد مخالفت کرنا رہا ہے جن کا منشاء عورتوں کو با اختیار بنانا اور انہیں مردوں کے برابر اختیار عطا کرنا ہے  ۔ ابتدا سے ہی  محنتی اور ترقی پسند  خواتین کے تئیں حفاظت اسلام کا  رویہ معاندانہ اور  قابل نفرت رہا ہے ۔ ایکوشے ٹیلی ویژن (ETV)کی اسٹاف رپوٹر ، بنگلہ دیشی خاتون صحافی نادیہ شرمین نے اپنی آپ بیتی بتاتے ہوئے ایک غم ناک واقعہ سنایا کہ 6 اپریل 2013 کو ان کی ریلی کے درمیان خاتون صحافیوں کے ساتھ حفاظت اسلام کے غنڈوں نے کتنا برا سلوک کیا تھا ۔

‘‘میں ایک کرائم رپوٹر ہوں  اور مجھے معلوم ہے کہ میں کبھی بھی پریشان کن حالات میں گھر  سکتی ہوں لیکن ایسا ہولناک تجربہ مجھے پہلی بار ہوا ۔ وہ انسان نہیں تھے بلکہ خطرناک جانور یا جنگلی کتوں کے ایک جھنڈ کی طرح تھے  ۔ مجھے اس وقت لگا اور اب بھی یہ لگتا ہے کہ انہوں نے میرا قتل کرنا چاہا ۔ حفاظت اسلام  کے ممبران نے میرے ایک ایک عضو کو ٹکڑے  ٹکڑے  کرنا چاہا ۔ آخر کس وجہ سے وہ مجھے پلٹن  سے بجوئے نگر تک  اس  قدر مارتے اور پیٹتے رہے ۔؟ ’’

حفاظت اسلام کے متشدد ممبران نے ان کی اتنی بری پٹائی صرف اس لئے کی کیوں کہ وہ ایک خاتون صحافی تھیں اور ان کے پروگرام کو کور کرنے گئی تھیں ۔ ظاہر ہے کہ جس سیاسی اسلام پر حفاظت اسلام کے لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ  عورتوں کے لئے کسی بھی آزادی کو  تسلیم نہیں کرتا ۔ یہ بات اس وقت اور واضح ہو گئی جب حفاظت اسلام کے ممبران نے پرزور آواز  میں یہ چلاتے ہوئے نادیہ سرمین پر مظالم ڈھائے کہ ‘‘کیا تم نے ہمارے 13 نکاتی مطالبات کو نہیں پڑھا ؟ تم یہاں کیوں ہو ؟ کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ عورتیں یہاں نہیں آ سکتیں ؟

قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں حفاظت اسلام کے امیر نے 13 نکاتی مطالبات کے ساتھ حکومت کو آگاہ کیا ہے جس میں انہوں نے گھر سے باہر عورتوں کے کام کرنے کے حقوق پر پابندی کا مطالبہ کیا ۔ امیر حفاظت اسلام کی نظر میں عورتوں کو صرف اس  کے شوہر کے گھر میں رہنے ، اس کی  اور اس کے ساز و سامان کی دیکھ بھال کرنے اور ان کے بچوں کی پرورش کرنے کے لئے  پید اکیا گیا ہے ۔ وہ اپنے تبلیغی خطبات میں اپنے پیرو کاروں کو اسکول ، کالج اور یونیورسیٹیوں  میں اپنی بچیوں کو پڑھانے سے روکنے کا مشورہ دیتے ہیں اور اسکول میں ان کی تعلیم کو 4 یا 5 درجے تک ہی محدود رکھنے کی کا حکم دیتے ہیں ۔ یہاں جولائی 2013 میں حفاظت اسلام کے امیر  علامہ شاہ احمد شفیع کے ذریعہ دئے گئے خطبے کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے جو کہ یو ٹیوب پر موجود ہے ۔

 ‘‘ اے عورتو!  اگر تم اللہ پر ایمان رکھتی ہو تو اپنے گھر کی چہار دیواری میں ہی رہو ، اپنے گھروں سے باہر نہ جاؤ ......... تمہیں اپنے شوہر کے گھر میں  رہنا چاہئے،  اس کی اور  اس کے ساز و سامان کی دیکھ بھال اور ان کے بچوں کی پرورش کرنی چاہئے ۔ بس یہی تمہاری ذمہ داریاں ہیں ۔ تمہیں باہر جانے کی  ضرورت ہی  کیا ہے ؟..... اے لوگو، تمہاری عورتیں اسکول ، کالج  اور یونیورسٹیوں  کی تعلیم یافتہ کیوں ہیں؟ تمہیں  ان کی تعلیم کو 4 یا 5 درجے تک ہی محدود رکھنی چاہے تاکہ وہ شادی کے بعد اپنے شوہر کی آمدنی کا حساب و کتاب رکھ سکیں، ان کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے ۔’’ (http://www.youtube.com/watch?v=lpoI5aaFB7s)

اس قدر مکروہ اور گمراہ کن خطاب چتہ گونگ (بنگلہ دیش )‘جہاں حفاظت اسلام کی تنظیم واقع ہے ’ میں “Islamic grand conference” کے نام سے ایک بہت بڑے کانفرنس میں دیا گیا تھا ۔ یہ تمام باتیں حفاظت اسلام کے امیر نے کہیں جنہیں  ‘‘بورو ہجور’’(بڑے حضور ) کےنام سے بھی جانا جاتا ہے  جن کی حفاظت اسلام کے ممبران بڑی  تعظیم و توقیر کرتے ہیں اور انہیں اپنا عظیم اسلامی مبلغ اور مذہبی رہنما مانتے ہیں ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حفاظت اسلام  کے سربراہ شاہ احمد شفیع  نے ہندوستان میں  دیوبندی  مکتبہ فکر کے ایک معروف اور ممتاز اسلامی ادرے  دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی ہے، جو ملک کے بلند پایہ علماء کرام، اصحاب علم وفن اور ارباب دین ودانش کا گہوارہ ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ  حفاظت اسلام کے غنڈے شدت کے ساتھ عورتوں کو با اختیار بنائے جانے ، ان کی آزدی ، ان کی تعلیم اور  ملازمت کی زبردست  مخالفت کرتے ہیں جبکہ اسلام عورتوں کی آزادی کو  غیر معمولی اہمیت دیتا ہے  اور انسانی معاشرے کی ترقی میں عورتوں کی شمولیت کو اہم گردانتا ہے ۔ یہ قدامت پرست اور خود ساختہ اسلام کے محافظین ان لوگوں کی طرف غضبناک  نگاہیں اٹھاتے ہیں جو اپنی خواتین کو اعلیٰ تعلیم  فراہم کرتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تائید و توثیق کی ہے کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون  پورے خاندان کے لئے  خدا کی عظیم نعمت ہے۔ ان کے مذہبی قائدین کے رجعت پسندانہ تبصروں میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو 4 یا 5 درجے کے بعد تعلیم کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے جس سے ان کے ذہنی اور عقلی افلاس کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ یہ صراحتاً  اس پہلی قرآنی آیت (96:1) کے خلاف ہے  جو مرد اور عورت میں کوئی تمیز کئے بغیر بے انتہاء علم کے حصول کا حکم  دیتی ہے ۔

ہم مسلمانوں کے لئے سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ اسلامی اصولوں کی بری طرح خلاف ورزی کرنے کے باوجود حفاظت اسلام کو بڑی تعداد میں ایسے بنگالیوں کی حمایت حاصل ہےجو  پرامن اور حقوق نسواں کے علم بردار مذہب یعنی اسلام کو  ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسے بنگلہ دیش کے اسلامی اسکولوں اور اداروں پر بکثرت گرفت حاصل ہے ۔

مستقبل کے ان  اماموں کے ذریعہ   ملک کی مذہبی تکثیریت اور معاشرتی سالمیت  کی روایات کے لئے پیدا کیا گیا   سب سے بڑا خطرہ اس وقت ظاہر ہو گا جب وہ غیر متعلقہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا اپنے متشدد مقاصد میں کامیابی حاصل  کرنے  کے لئے  غلط استعمال کریں گے ۔ حفاظت اسلام کے مذہبی لیڈران خواتین پر سخت پابندیاں عائد کرنے  کی اپنی  کوشش میں ابھی یہی کر رہے ہیں ۔ وہ کسی بھی خارجی کام کے لئے باہر جانے سے عورتوں کو روکنے  اور انہیں گھر کی  چہار دواری میں قید کرنے  کے لئے،  ان پر اپنے غیر اسلامی جبر و تشدد کا جواز پیش کرتے ہوئے  وہ قرآنی آیت (الاحزاب 33 :33) کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ دراصل وہ اپنے نظریہ سازوں اور   مفسروں  کے ذریعہ کئے گئے قرآن  کے تراجم اور تفاسیر میں کچھ ایسی باتیں پاتے ہیں جو ان کے زن بیزار اصولوں کے مطابق ہیں ۔ ذیل میں ایک قرآنی آیت کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا جسے اکثر حفاظت اسلام کے لوگ اپنے مقصد کے حصول میں استعمال کرتے ہیں :

‘‘اپنے گھروں میں رہو اور اپنی آرائش  و زیبائش کو دیکھاتی ہوئے باہر مت بھرو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے ’’۔ (الاحزاب 33 :33)

اس آیت کی اس تفسیر سے قطع نظر، حفاظت اسلام کے ممبران عورتوں کے لئے اس قرآنی حکم کی لفظی تفہیم پر اڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘اپنے گھروں میں رہو ’’۔ یہ  وہ ترجمہ ہے  جو حفاظت اسلام کے سربراہ علامہ شاہ احمد شفیع  نے مسلم عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنی شعلہ بیان تقریر میں پیش  کیا ہے ۔

‘‘اے خواتین، اگر تم اللہ کی کتاب پر یقین رکھتی ہو تو اللہ تمہارے بارے میں یہ کہتا ہے : ‘‘اپنے گھروں میں رہو اور اپنی آرائش  و زیبائش کو دیکھاتی ہوئی  باہر مت پھرو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے ’’۔ انہوں نے اس آیت کو اس کے صحیح قرآنی مفہوم کے بالکل برخلاف پیش کیا ہے جو کہ حقیقتا اس طرح ہے ‘‘اے عورتو، اپنے گھروں  کی چہار دیواری  میں رہو اور اپنی آرائش  و زیبائش کو دیکھاتے ہوئے باہر مت پھرو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے ، یہ کس کا فرمان ہے ؟ اللہ کا ’’ ۔

حقیقت امر یہ ہے کہ اس آیت میں عربی لفظ ‘‘وقرن’’ استعمال کیا گیا ہے جس کا مادہ ‘‘القرار’’ ہے اور اس کا مطلب ‘‘امن ’’ ، ‘‘سکون ’’ اور اطمینان ہے ۔ اب اس آیت کے معنی ٰ کو سمجھنا مشکل نہیں ہے ، یہ آیت عورتوں سے اس طرح مخاطب ہے ‘‘اپنے گھروں میں امن و سکون سے رہو’’۔ اس آیت کا مقصد عورتوں کو گھر کی چہار دیواری میں قید رکھنا نہیں ہے ، اور نہ ہی یہ آیت عورتوں کو باہر جانے اور ملازمت کرنے سے روکتی ہے ۔ بلکہ یہ آیت عورتوں کو  ان  کے گھروں میں امن و سکون قائم کرنے کا حکم دیتی ہے ۔

جہاں تک اس آیت کے دوسرے حصے میں استعمال کئے گئے عربی  لفظ ‘تبرج ’ کی بات ہے، تو اس کا لغوی معنیٰ ‘دوسروں کے سامنے واضح طور پر بغیر  کسی پردے کے آنا ہے ’ ۔ معروف علمائے کرام اور  مفسرین قرآن کی تفاسیر اور تشریحات کے مطابق  اس لفظ کا شرعی معنیٰ: ‘‘بغیر کسی کام کے یا  پر کشش انداز میں یا نخرے کا ساتھ ادھر  اُدھر گھومنا ہے ’’(یہ تشریح مجاہد ، قتادہ اور ابن ابی نجیح وغیرہ نے کی ہے ) یا مردوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے عورتوں کا اپنے جسم ، لباس اور آرائش و زیبائش ظاہر کرنا ہے (یہ تفسیر مبرّد اور ابو عبیدہ نے کی ہے )۔

نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی ایک عالم اور فاضل  (اسلامی سکالر ) ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ  (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے  فراغت حاصل کی ہے، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے ، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل  کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں  نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے  عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔

URL for English article:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/hefazat-e-islam,-bangladesh-its/d/14224

URL for Urdu article:

https://newageislam.com/urdu-section/hefazat-e-islam,-bangladesh-its/d/14289

 

Loading..

Loading..