غلام رسول دہلوی ، نیو ایج اسلام
08 دسمبر 2017
انہدامِ بابری مسجد کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر مسلمانوں کے درمیان اشتعال انگیزی بھڑکانے کے لئے انصار غزوۃ الہند 'دارالحرب' اور 'دار الاسلام' جیسے قرون وسطی کے اسلامی اصول کا استعمال کر رہا ہے۔۔۔۔۔
ہندوستان میں انتہا پسند جہادی بیان بازی پوری طرح اس حادثے پر مبنی ہے جو آج سے کئی دہائیوں قبل پیش آیا تھا اور اسی واقعہ کی بنیاد پر اس کا جواز بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اتر پردیش کی ایک سب سے بڑی مسجد جسے مغل شہنشاہ بابر کے حکم پر میر باقی نے 29 -1528 میں تعمیر کیا تھا اسے مسمار کر دیا گیا۔ 6 دسمبر، 1992 کو اس دن پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی جب بابری مسجد کو کار سیوکوں نے مسمار کر دیا تھا۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ حادثہ اب بھی کچھ زخموں کو کرید رہا ہے۔ انتہاپسند اسلامی تنظیمیں نے اب بھی ہندوستانی نوجوان مسلمانوں کو اس کا جواب دینے کے لئے بر انگیختہ کر رہی ہیں۔
6 دسمبر کو انہدامِ بابری مسجد کی سالگرہ کے موقع پر مسلمانوں کے درمیان اشتعال انگیزی بھڑکانے کے لئے انصار غزوۃ الہند نے جو کہ کشمیر میں عالمی دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی شاخ ہے، ہندوستانی مسلمانوں کو "جہاد کا راستہ اختیار کرنے کے لئے" بر انگیختہ کیاہے۔ اپنے ایک تازہ ترین وڈیو پیغام میں جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جماعت انصار غزوۃ الہند نے یہ دعوی کیا ہے کہ "عہد شکن اور دغاباز ہندو اس وقت تک اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہیں گے جب تک ان کا مشن مکمل نہیں ہو جاتا- اور ان کا مشن تمام مسلمانوں کا یکسر خاتمہ ہے، خواہ وہ ہمارے بچے ہوں بوڑھے ہوں، مرد ہوں یا خواتین ہوں خواہ ہمارے بھائی ہوں یا ہمارے بیٹے ہوں"۔
(ماخذ: hyoutube.com/watch?v=dbDizYx4K88)
انصار غزوۃ الہند نے جمہوری نطام حکومت اور سیاست کو نشانہ بناتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو کہا کہ "کانگریس اور بی جے پی، سماج وادی پارٹی اور ڈراوڈ منیتر کڈگم ،ترنمول کانگریس یا بہوجن سماج پارٹی ان سب سے ہوشیار رہیں کیوں کہ یہ تمام پارٹیاں ظلم و جبر کے مختلف چہرے ہیں"۔
اپنے تازہ ترین وڈیو پیغام میں جسے سلطان زابل الہندی (ایک تخلص) نے پیش کیا ہے ، جس کے گرامر اور تلفظ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کی مادری زبان ہندی نہیں ہے، تنظیم القاعدہ کا یہ دعوی ہے کہ "تمہارے تمام مسائل کا واحد حل صرف شرعی نظام حکومت ہی ہے، جس کا اللہ نے حکم دیا ہے"۔ انصار غزوۃالہند کے اس اعلان جنگ میں صرف ہندوستانی مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ پاکستانی ناظرین سے بھی خطاب کیا گیا ہے، جس میں اسلام آباد میں واقع اسلام پسندوں کی لال مسجد پر فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے حملہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ "بابری مسجد اور لال مسجد ایک ہی تھی اور جنہوں نے انہیں مسمار کیا وہ بھی ایک ہی تھے یعنی دونوں "بت پرست" تھے۔
قیاساً، 'سلطان زابل الہندی' میں لفظ 'زابل' کے استعمال کا مطلب ہے کہ وہ جنوبی افغانستان میں خدمت انجام دے رہا ہے یا اپنی خدمات انجام دے چکا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں بے شمار ڈھانچے پہلے ہی ڈھائے جا چکے ہیں۔ آئے دن ان 'اسلامی' ملکوں میں یہ انتہاپسند جماعتیں مسجدیں، مقبرے اور دیگر اسلامی عمارتوں کو منہدم کر رہی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انصار غزوۃالہند یا دیگر القاعدہ کی تنظیموں کا دفاع کرنے والے پاک و افغان خطے میں ہیں جان بوجھ کر مذہب اور تاریخ کے ساتھ اس مذاق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ پاکستانی اور افغانستانی جہادی غنڈے پاکستان اور افغانستان میں مساجد اور مزارات پر معمولاً انجام دئے جانے والے حملوں پر خاموش کیوں ہیں؟ کیونکہ یہ 'ہندو انتہا پسند' نہیں بلکہ وہ ان کے اپنے تشدد پسند کارکنان ہیں، اور وہ اپنے ہی مذہب کے نام پر تباہی و بربادی کا ننگا ناچ کر رہے ہیں۔ لہٰذا، جان بوجھ کر مذہب اور تاریخ کی غلط ترجمانی اور ان کا مذاق بنیاد پرست اسلام پسندوں کے بیانات کی بنیاد ہے۔ اور صرف کوئی احمق ہی اس کا شکار ہوسکتا ہے۔
اب، انصار غزۃ الہند کی جانب سے مذہب اور تاریخ کی عمداً غلط تعبیر و تشریح ‘دارالحرب’ اور ‘دار اسلام' جیسے قرون وسطی کے اسلامی اصولوں کی شکل میں کی جا رہی ہے۔ اس کا ایک اردو بینر جو کہ پرمپوروہ کے قریب عسکریت پسند مغیس احمد میر کی رہائش گاہ کے قریب وادی میں پہلی بار شائع ہوا تھا ، اس طرح تھا:
"مغیس بھائی کا ایک پیغام ........ کشمیر بنے گا دارالاسلام"۔ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کے گھر کے قریب انصار غزۃ الہند کے بینر پر یہ نعرہ لکھا ہوا ہے۔ قابل ذکر یہ امر ہے کہ اس بینر پر القاعدہ کا علامتی نشان اور اسامہ بن لادین کی تصویر اور دوسرےگوشے میں مغیس کی تصویر بھی چھپی ہوئی تھی جس کے ایک ہاتھ میں بندوق تھی اور گود میں چند ماہ کا ایک بچہ ۔ جیسا کہ اس کی رپورٹنگ سرینگر میں مقیم کشمیری صحافی احمد علی فیاض نے Quint کے لئے کے لئے اپنی رپورٹ میں کی ہے۔ thequint.com/news/al-qaeda-isis-show-signs-in-kashmir-valley
اسے کشمیر میں سرگرم عمل بین الاقوامی جہادی تنظیم انصار غزوۃ الہند کے ایک تازہ ترین ویڈیو پیغام میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ اس کی سرگرمیاں صرف وادی کشمیر کے لیے ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اس کی وسیع پیمانے پر جدوجہد ہندوستان کو دار الاسلام میں تبدیل کرنے کے لئے ہے۔ کشمیرکے اندر ذاکر موسی کی حمایت میں حالیہ مظاہروں کے پیش نظر اس طرح کی نظریاتی بنیادیں پریشان کن ہیں اور وہ ممکنہ طور پر جمو کشمیر کے سادہ لوح مذہبی مسلم نوجوانوں کے ذہنوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔
چونکہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت اعتقادی، بریلوی (اہل سنت و جماعت) یا دیوبندی مکتبہ فکر کے ماننے والی ہے اسی لئے کشمیری نوجوانوں پر ضروری ہے کہ وہ ‘دار الحرب’ اور ‘دار الاسلام’ جیسے دو اسلامی اصطلاحات کے درست معانی و مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کریں جیسا کہ خود ان کے اپنے نظریہ سازوں نے اپنی تحریروں میں ان اصطلاحات کا استعمال کیا ہے۔ اگرچہ ان کی ایجاد اسلام کے قرون وسطی دور میں کی گئی لیکن اس مسئلے پر ایک باخبر اور واضح مسلم نقطہ نظر کی بنیاد بریلوی اور دیوبندی علماء کی تحریروں پر ہونی چاہئے۔
اسلامی نظریہ میں 'دار الحرب' کی اصطلاح قرون وسطی کے دور سے متعلق ہے جب مسلم ریاستوں کی سرحد پر غیر مسلم ریاستوں نے وہاں رہنے والے یا وہاں جانے والے مسلمانوں کی مذہبی آزادی میں دخل اندازی کی جس کی وجہ سے پڑوسی مسلم ریاستوں کو اپنے حقوق کی حفاظت یا مسلم کمیونٹی کی طرف سے بغاوت کی حمایت کرنے کے لئے ایک عذر مل گیا۔
لیکن آئین ہند میں مسلمانوں سمیت تمام مذہبی برادریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل طور پر اجازت دی گئی ہے۔ ایسے مقامی واقعات یا استثنائی حادثات پیش آ سکتے ہیں جن سے عارضی طور پر آئینی حقوق کی خلاف ورزی لازمی ہوتی ہے، لیکن ملک مذہبی آزادی کے لئے حقیقی معنوں میں پر عزم ہے۔ لہذا، کسی بھی فقہی پہلو سے اور یہاں تک کہ اس اسلامی اصطلاح کے قرون وسطی کے معنی میں بھی اس ملک کو دارالحرب نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کسی بھی داخلی انتہا پسند گروہ یا غیر ملکی جہادی جماعت کو جو 'مسلمانوں کے محافظ' یا 'اسلام محافظ' ہونے کا دعوی کرتے ہیں، انہیں ملک کے قومی معاملات میں مداخلت کرنے کے لئے پولرائزڈ ماحول کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
چونکہ آئین ہند کے آرٹیکل 25 سے 28 میں نہ صرف یہ کہ لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کا اقرار کرنے بلکہ ان کی تبلیغ و اشاعت کرنے کرنے کے بھی حق کو محفوظ کیا گیا ہے ، لہٰذا ، ہندوستانی مسلمان مذہب کی آئینی آزادی پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مستند ہندوستانی علماء نے جنگ سے متعلق ایسے ہجرت اور جہاد کے تصورات کی تائید نہیں کی ہے، جن کا تعلق دار الحرب سے ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے غیر منقسم ہندوستان کو 'دار الاسلام' قرار دیا ہے کیونکہ یہاں مسلم شہریوں کو آزادانہ طور پر اپنے مذہبی حقوق کا استعمال کرنے کے لئے ایک پرامن ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ یہ فتوی معروف اسلامی فقیہ اور ہندوستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان المعروف بہ اعلیٰ حضرت نے جاری کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب اعلام الاعلام بان ھندوستان دار السلام میں اس نقطہ نظر کو واضح کرتے ہوے لکھا ہے کہ "ہندوستان دار الحرب نہیں ہے بلکہ دار الاسلام ہے"۔ اسلامی خلافت کے موضوع پر اپنی کتاب دوام العیش فی ائمۃ القریش میں آپ نے اسلامی خلافت کے قیام کے لئے سخت اصول و شرائط کو ذکر کیا ہے۔ ذاکر موسیٰ کے اندر کسی اسلامی ملک میں بھی خلیفہ ہونے کی اہلیت نہیں ہے کسی جمہوری ملک کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
1950 ء میں، دارالعلوم دیوبند نے ایک اور اہم فتویٰ جاری کیا تھا جس میں اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہندوستان ' دارالصلاح ' 'یا' دارالمعاہدہ' ہے یعنی ہندوستان مصالحت اور امن معاہدے کی سر زمین ہے۔ جمعیت علماء ہند کے بانی مولانا حسین احمد مدنی نے اردو میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ‘‘اسلام اور متحدہ قومیت’’ رکھا۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کے خلاف قرآن اور حدیث کے متعدد حوالہ جات پیش کئے۔ اس نقطہ نظر کو ثابت کرتے ہوئے کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں، انہوں نے دلیل دی کہ مذہب عالمگیر ہے اور اسے قومی حدود کے اندر محدود نہیں کیا جاسکتا، لیکن قومیت کا معاملہ جغرافیائی ہے، اور مسلمانوں کو اپنے غیر مسلم بھائیوں (برادر وطن) سمیت اپنی مادر وطن کے ساتھ وفادار ہونا ضروری ہے۔
لہٰذا، اب اس امر میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ طالبان مبلغین جو پاکستان میں اعتدال پسند مسلمانوں کی ہلاکت کو جائز قرار دیتے ہیں وہ مولانا حسین احمد مدنی کے مذکورہ فتویٰ کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایک ہندوستانی عالم دین ہونے کے ناطے وہ مذہبی مفادات پر مبنی قومیت کے بجائے علاقائی قوم پرستی سے متاثر تھے۔ تاہم، اسلامی تفوق پسندی کا ذریعہ تلاش کرنے والے دیوبندی اور بریلوی علماء کے ایک طبقے نے دو قومی نظریہ پر مبنی مسلم لیگ کے نظریات کی حمایت کی۔ انہوں نے 1806 کے دار الحرب قانون کا بھی سہارا لیا جسے آج بھی انتہا پسند جماعتیں اکثر اپنے پر تشدد کاروائیوں کا جواز پیش کرنے کے لئے پیش کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1806 کا فتویٰ آج کے ہندوستان میں نافظ نہیں ہوتا، کیونکہ وہ برطانوی ہندوستان تھا۔ 1937 ء میں مولانا حسین مدنی نے دہلی میں ایک سیاسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بہت ہی اہم بیان دیا تھا: "غیر ملکوں میں ہندوستانیوں سے نفرت کی جاتی تھی کیونکہ وہ برطانیہ کے غلام تھے۔ آج ملک کی بنیاد پر ایک قوم کی تشکیل ہوئی ہے۔ اگر ملک میں مختلف مذاہب موجود ہیں تو یہ ملک مختلف نہیں ہے۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/islam-politics/decoding-meanings-medieval-islamic-terminologies/d/113498
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism