غلام رسول دہلوی، نیو ایج
اسلام
18 دسمبر 2021
(انگریزی سے ترجمہ، نیو ایج اسلام)
حنفی، شافعی اور مالکی مکاتب
فکر کے فقہاء مسلم لڑکیوں کے نکاح کی عمر کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں
اہم نکات:
کیرالہ میں اسلامی اداروں
نے ہندوستان میں لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر میں ترمیمی اقدام کی مخالفت کی ہے۔
مسلم لیگ کے رہنما ای ٹی محمد
بشیر نے لوک سبھا میں ایڈجرمنٹ موشن پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "یہ فیصلہ
مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہے"۔
ہندوستان میں لڑکیوں کے لیے
شادی کی عمر میں ترمیم یکساں سول کوڈ کی جانب ایک اور قدم ہے۔
کیرالہ کیتھولک بشپس کونسل
(KCBC)، جو عیسائیوں کی ایک اعلیٰ تنظیم ہے، اس نے مردوں اور عورتوں کی شادی
کی عمر میں یکسانیت لانے کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکیوں کے لیے کم از کم شادی
کی قانونی عمر کو 18 سے بڑھا کر 21 کئے جانے والے بل کے درمیان، جس سے مسلمانوں، عیسائیوں
اور دیگر مذہبی برادریوں کی شادیوں پر اثر پڑے گا، اور خاص طور پر شادی اور وراثت سے
متعلق عقیدے پر مبنی پرسنل لاء میں ترمیم کی ضرورت ہوگی، سنی علماء کی تنظیم سمستھ
کیرالہ جمیعت العلماء اور کیرالہ کے کئی دیگر اسلامی اداروں نے اس اقدام کی مخالفت
کی ہے۔
مسلم لیگ کے رہنما ای ٹی محمد
بشیر نے لوک سبھا میں ایڈجرمنٹ موشن پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "یہ فیصلہ
مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہے اور یہ ملک میں یکساں سول کوڈ کی طرف ایک اور قدم ہے۔"
واضح رہے کہ لیگ کی خواتین
ونگ نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کی عمر میں تاخیر سے
"لیو ان ریلیشن شپ اور ناجائز تعلقات" کو راستہ ملے گا۔
جبکہ دوسری طرف مرکزی کابینہ
نے اپنی میٹنگ میں اس تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ خبروں کے مطابق، حکومت پارلیمنٹ کے
جاری سرمائی اجلاس میں بل لانے والی ہے - جو خواتین کی شادی کی کم از کم عمر کو مردوں
کے برابر کر دے گی۔
کیرالہ کے سمستھ جمعیت العلماء
بنیادی طور پر فقہ یا اسلامی فقہ اور قانونی نظام کے لحاظ سے ایک سنی-شافعی مکتبہ فکر
ہے۔ پی کے محمد مصلیار جیسے ممتاز مقامی سنی-شافعی فقہاء اور اسلامی ماہرین کی ایک
جماعت سمستھ 1921 میں کیرالہ میں سلفی تحریک کے ردعمل کے طور پر مپیلا بغاوت کے نتیجے
میں ابھری۔
حنفی، شافعی اور مالکی مکاتب
کے فقہاء کے، جسمانی اور دیگر پیچیدگیوں کے مدنظر مسلم لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر کے
بارے میں مختلف آراء ہیں۔ ان کی قانونی معقولیت (علۃ شرعیۃ) کے مطابق مختلف معاشروں
کے جغرافیائی حالات اور سماجی و ثقافتی ارتقاء کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
اسلامی فقہ یا فقہی قانون
کے تحت 'شادی کی عمر' کا تنقیدی تجزیہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلامی فقہا کی مختلف
قانونی آراء (فقہی رائے) کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے 'تاریخییت یا تاریخی طریقہ کار
استعمال کیا جائے۔ اسلامی فقہ کے چاروں مکاتب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ لڑکیوں
کے لیے شادی کی عمر، خاص طور پر اس کی تکمیل کو، اس وقت تک ملتوی کیا جانا چاہیے جب
تک کہ وہ عاقل نہ ہو جائیں نہ کہ صرف 'بالغ' ہوں۔ صرف سنی حنفی روایت پسند ہی نہیں،
بلکہ بہت سے جدت پسند شیعہ فقیہ بھی اس عقلی نقطہ نظر کی پیروی کریں گے جو شادی کے
قرآنی احکامات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
درحقیقت قرآن نے لڑکیوں کی
شادی کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ قرون وسطی کے زمانے میں، مسلم شادیاں
زیادہ تر عرب اور غیر عرب معاشروں میں روایتی طریقوں پر مبنی تھیں۔ نکاح کے متعلق قرآنی
آیات کا عملی حصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچوں (الاطفال) کے متعلق ایسے قوانین نازل
کئے جو بلوغت کو پہنچنے والے نوعمروں (بلوغ) سے بالکل مختلف ہیں اور نکاح کی عمر کو
پہنچنے والوں کے لیے بالکل مختلف قوانین ہیں۔ " (حتى اذا بلغوا النكاح) جیسا کہ
درج ذیل آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
’’اور یتیموں کو آزماتے رہو
یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں
سپرد کردو‘‘ (قرآن 4:6)
عربی لفظ (بلغوا) پر غور کریں۔
اس کا واضح مطلب ہے "جب وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں"۔ اس کا مطلب یہ ہے
کہ انہیں بتدریج جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو برسوں میں پروان
چڑھتا ہے۔ اور ان کی ذہنی نشوونما کے بعد شادی اور جائیداد کی ملکیت جیسے معاملات کے
لیے ان سے رابطہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس بات کا تعین کر سکیں کہ ان کے لیے کیا بہتر
ہے۔ آج کل لڑکی ہو یا لڑکا، کم از کم اپنی گریجویشن جو کہ عموماً 20/21 میں مکمل ہوتی
ہے، اس کے بعد ہی اپنے معاملات خود سنبھالنے کے قابل ہوتے۔
قرآن کی مندرجہ بالا آیت سے
بات واضح ہو چکی کہ: جب انسان جوانی میں "مکمل جسمانی طاقت اور ذہنی نشوونما"
(اشدہ) تک پہنچ جائے تبھی وہ "شادی کی عمر" کے لائق ہو سکتا ہے (قرآن
4:6)۔ "اشدہ" کی قرآنی اصطلاح کے مطابق عقل و بلوغت، حکمت اور دنیوی علم،
مادی تکمیل اور روحانی پختگی سب بالغ اور بلوغت کے معنی شامل ہیں جیسا کہ قرآن کی ادبی
اور لسانیاتی کتب میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس نکتے کے علاوہ، مندرجہ ذیل
آیات بھی مخصوص تفصیلات فراہم کرتی ہیں اس سے اس کی توثیق کرتی ہیں: بچیوں کو
"فتایا" (نوجوان خواتین) تب ہی سمجھا جائے گا جب وہ "شادی" کے
لیے تیار ہو جائیں(4:25) اور اس طرح "اطفال" (چھوٹے بچوں) کی شادی کرنے کی
اجازت کسی کو نہیں ہے (4:25، 24:59)۔
ایک عربی محاورہ جو اکثر احادیث
نبوی میں استعمال ہوتا ہے اسی کو ظاہر کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں
کو شادی کے لیے اپنی نصیحت ان الفاظ میں کی: "اے شباب! (یا معشر الشباب)۔ لیکن
حدیث اور قرآن کی ان تمام باریکیوں سے سراسر ناواقف لفظ پرست سلفی اور سنی اور بعض
اوقات شیعہ، یہ گھسا پٹا سوال پوچھتے ہیں: تو پھر اس وقت کی 9 سالہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا کیا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ
ایسے سوالات حنبلی عرف سلفی منہج (طریقہ کار) کے زیر اثر قرآن اور حدیث کی انتہائی
لفظ پرست تشریحات سے نکلتے ہیں۔ انہوں نے اسلام اور جدید ترقی کے بارے میں مسلمانوں
اور غیر مسلموں میں ایسی باتیں پیدا کر دی ہیں جو ہندوستان کے دیہی علاقوں میں مسلم
لڑکیوں کی شادی جیسے مسائل پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، جہاں غیر مسلم لڑکیوں
کی بھی کم عمری میں ہی شادی کر دی جاتی ہے۔
قرآن کی آیات مبینات میں لڑکیوں
کی شادی کے لیے نہ صرف "بلوغت" کو کم از کم فطری تقاضہ قرار دیا گیا ہے بلکہ
اس کے لئے "عاقل ہونا" بھی ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود
"بلوغت کی عمر تک پہنچنے کی" کی گمراہ کن تشریحات اب بھی معاشرے میں موجود
ہیں۔ سلفی اور بہت سے سنی عمومی طور پر "اشدہ" اور "بلغ" کی لفظی
تشریح کرتے ہوئے اس سے محض 'بلوغت' مراد لیتے ہیں، جبکہ قرآن کے جدید مفسرین نے بلوغت
کی تعریف 'عقلمند ہونے' سے کی ہے۔
مولانا عنایت اللہ سبحانی
جیسے سنی عالم دین، جنہوں نے اسلامی قانون پر مشہور کتاب "حقیقت رجم" تصنیف
کی ہے، ایک اصلاح پسند مفکر جاوید احمد غامدی، اور آیت اللہ خمینی جیسے شیعہ عالم دین
جیسے کچھ لوگ لڑکیوں کی بلوغت کو 'معاملات کو سنبھالنے، ماں ہونے کی ذمہ داری کو سنبھالنے
اور سماجی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت' سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاہم، یہ ان نایاب اسلامی
فقہاء میں سے ہیں جنہوں نے روایتی فقہاء کو چیلنج کیا ہے جن کے خود آپس میں بے شمار
اختلاف ہیں۔ لیکن ایک تنقیدی-روایتی سنی حنفی عالم کے مولانا وارث مظہری نے بھی نشاندہی
کی ہے کہ وہ بھی اس متنازعہ فیہ حدیث کے لفظی تشریح کی تردید میں ’’مسلم معذرت خواہی‘‘
کا شکار ہیں جس کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی 6، 9 یا 11 سال کی عمر میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی۔
یہاں امام بخاری کے جامع سے
وہ مکمل حدیث نقل کی جا رہی ہے جس سے تمام سنی فرقے لڑکیوں کی کم از کم 9 سال کی عمر
میں شادی کرنے کا جواز اخذ کرتے ہیں۔ حدیث اس طرح ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت نکاح کیا جب وہ چھ سال کی تھیں اور اس نکاح
کی تکمیل اس وقت فرمائی جب آپ 9 سال کی تھیں‘‘ (بخاری، 64-65، 88)۔ اسی طرح کی ایک
حدیث میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت نکاح
کیا جب وہ ۱۱
سال کی تھیں۔ ذاکر نائیک جیسے بنیاد پرست اسلامی مبلغین
نے اسی حدیث کو بنیاد بنا کر یہ کہا کہ آج بھی "ایک مسلمان لڑکی کی شادی
11/12 سال کی عمر میں ہو سکتی ہے۔" اس خطرناک سنّی سلفی لفظ پرستی پر کوئی صرف
حیران ہی ہو سکتا ہے۔
ہندوستان میں لڑکیوں کے لیے
شادی کی عمر کا تعین، خاص طور پر اقلیتوں کے لیے ایک کثیر ثقافتی اور کثیر نسلی ماحول
میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ ان کے پدرسرانہ خاندانی اقدار اور اکثریتی اور اقلیتی
دونوں برادریوں کے مذہبی تعصبات کے ساتھ مضبوط تعلق ہے۔ نتیجۃ یہ ہے کہ حکومت کی جانب
سے شادی کی عمر میں ترمیم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شادی کی عمر کے تعین میں
قانونی مضمرات کے علاوہ، روایتی مذہبی رہنماؤں اور علماء کا ایک بڑا طبقہ، لڑکیوں کی
کم عمری میں شادی کے پیچھے سماجی اور مذہبی جواز کا حوالہ دیتے دیگا جس سے تمام مذاہب
میں اس ترمیم کے خلاف آواز اٹھے گی۔ لیکن تمام مذہبی روایات کے جدید اور ترقی پسند
مذہبی ماہرین بشمول چاروں اسلامی مکاتب فکر کے اس اقدام کو منظوری دیں گے۔ سوائے ان
چند لوگوں کے جنہیں اس بات کا خوف ہے کہ اس سے نوعمر لڑکیوں کی آزادی داؤ پر لگ جائے
گی، تقریباً سبھی لوگ اس اقدام کی تعریف کریں گے۔ خاص طور پر، کیرالہ کیتھولک بشپس
کونسل (KCBC)، جو عیسائیوں کی ایک اعلیٰ تنظیم ہے، اس نے مردوں اور عورتوں کی شادی
کی عمر میں یکسانیت لانے کے فیصلے کی ستائش کی ہے۔ کیرالہ کیتھولک بشپس کونسل کے فیملی
کمیشن کے سیکرٹری فادر پال سیمنتھی نے کہا "ہم محسوس کرتے ہیں کہ تعلیم ایک اہم
عنصر ہے اور 21 کی عمر تک خواتین کو اپنی گریجویشن مکمل کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ ایک
پختہ رشتے اور صحت مند خاندان کی راہ ہموار کرے گا۔ لہذا، ہم اس فیصلے کو مثبت طور
پر دیکھتے ہیں"۔ اس بیان سے اسلامی فقہاء اور قانونی ماہرین کو بھی کچھ سیکھ حاصل
کرنا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان
کے اندر شادی اور دیگر مذہبی معمولات میں پرسنل لاء کی بالادستی ہے۔ اس میں شادی کے
لیے کچھ معیارات بیان کئے گئے ہیں، بشمول دولہا اور دلہن کی عمر کے۔ مثال کے طور پر،
ہندو میرج ایکٹ، 1955 کا سیکشن 5 (iii) دلہن کے لیے کم از کم 18 سال اور دولہا کے لیے 21 سال مقرر کرتا ہے۔
انڈین کرسچن میرج ایکٹ 1872 کے تحت عیسائیوں کے لیے بھی ایسا ہی قانون ہے۔ لیکن مسلمانوں
کے لیے عمر کا معیار بلوغت ہے جس سے مراد دولہا یا دلہن کا 15 سال کا ہو جانا ہے۔
English
Article: Amendment Of The Marriageable Age For Girls In India
In The Legal Islamic Framework
Malayalam
Article: Amendment Of The Marriageable Age For Girls In India
In The Legal Islamic Framework ഇന്ത്യയിലെ പെൺകുട്ടികളുടെ വിവാഹപ്രായ ഭേദഗതി നിയമപരമായ
ഇസ്ലാമിക ചട്ടക്കൂട്ടിൽ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism