New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 06:22 AM

Urdu Section ( 8 Sept 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Was Swami Vivekananda anti-Islam کیا سوامی ویویکانند اسلام مخالف تھے

 

غلام رسول دہلوی ، نیو ایج اسلام

4 ستمبر ، 2013

نریندرناتھ دت  جنہیں درویشی اختیار کر لینے کے  بعد سوامی ویویکانند کا  نام دے دیا گیا ، 12 جنوری ، 1863 کو کولکاتہ  میں پیدا ہوئے۔ وہ ان با اثر روحانی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے  ہندوستان کے احیاء  نو میں قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ وہ ویدانت کے فلسفہ کی تجدید، عالمی بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کے  زبردست حامی تھے ۔ رام کرشن پرم ہنس  کے خاص  شاگرد ہونے کی وجہ سے انہوں نے عالمی پیمانے پر دو  روحانی تحریکوں کی بنیاد رکھی جنہیں " رام کرشن مٹھ " اور " رام کرشن مشن " کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ ان کی انسانی فلاح وبہبود اور سماجی خدمت کے نظریات سے متاثر ہو کر دونوں تنظیمیں ایک صدی سے زائد عرصہ سے پوری سرگرمی کے ساتھ  انسانیت کی  فلاح و بہبود اور خدمت خلق کے  مختلف  کاموں میں مصروف ہیں ۔

 سوامی جی، مذہبی تعصب کے سخت مخالف تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ خدا تک پہنچنے کے راستے  تنگ، مسدود، مقفل یا کسی ایک نظریہ تک محدود نہیں ہیں ۔ اگر چہ وہ ایک ہندو تھے، مگر انہوں نے ذات پات کے نظام پر مبنی ہر برتری کی سخت مذمت کی اور سماجی مساوات  اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا موقف اختیار کیا  ۔

ویویکانند کا ماننا تھا کہ تمام مذاہب اپنے حتمی مقاصد  میں ایک ہیں ۔ مثال کے طور پر جیسے ہندو فلسفہ کے مطابق موکش ( آزادی ) کے ذریعے نروان (برہمن یا ذات  باری سے اتصال ) زندگی کا حقیقی اور حتمی مقصد ہے ۔ بالکل اسی طرح اسلامی روحانیت ( تصوف ) کے مطابق انسان کی سب سے بڑی  کامیابی  وصال الٰہی میں مضمر ہے۔

بدقسمتی سے، ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں کے کچھ مذہبی متشددیدین اور متعصبین  اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے  ہندوستان کے دو سب سے بڑے مذاہب کے سماجی، ثقافتی اور مذہبی روابط کو خراب کر رہے ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ آگ کو ہوا  دیتے ہوئےہندوستان کے روحانی رہنماؤں کی شبیہ بگاڑنے کی حد تک چلے جاتے ہیں ۔ اپنے اس مضر  مقصد کے حصول  کی مجنونانہ کوشش میں  وہ سراسر دروغ گوئی پر مبنی یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ سوامی ویویکانند اسلام کے زبردست مخالف تھے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سوامی جی اسلام کے بنیادی اقدار کے بہت بڑے مداح تھے جن کے بارے میں ان کا  عقیدہ یہ تھا کہ  روئے زمیں پر اسلام کی بقا کی واحد وجہ اس کے اندر پوشیدہ زبردست روحانی واخلاقی اقدار ہیں۔ اپنے اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک خطاب میں سوالیہ انداز میں یہ  بیان دیا کہ ‘‘ تم پوچھتے ہو  کہ  پیغمبر  مساوات محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے دین میں کیا خوبی ہے؟ اگر ان کے مذہب میں کوئی خوبی یا اچھائی نہیں ہوتی  تو ان کا دین آج تک کیسے زندہ رہتا؟ صرف اچھائی ہی زندہ اور باقی رہتی ہے ، اگر ان کی  تعلیمات میں کوئی اچھائی نہیں ہوتی تو  اسلام کیسے زندہ رہتا ؟ ان کے مذہب میں بہت اچھائی ہے۔’’

سوامی ویویکانند کا مذکورہ بیان " سوامی ویویکانند کی تعلیمات " کے عنوان سے تصنیف کی گئی ایک کتاب ' محمد اور اسلام ’ کے ایک خوبصورت باب کا ایک اقتباس ہے۔ یہ کتاب برطانوی مصنف کرسٹوفر ایشروود (Christopher Isherwood) کے  30 صفحات پر پھیلے ہوئے ایک حیرت انگیز علمی مقدمہ پر مشتمل ہے۔ یہ باب امریکی سامعین کے سامنے کئے گئے  ویویکانند کے خطاب کے چنندہ اقتباسات  کا ایک مجموعہ ہے ۔ بغیر کسی تبصرہ کے میں قارئین کے سامنے ان میں سے کچھ اقتباسات  کواس امید کے ساتھ  نقل کرتا ہو ں کہ قارئین اسلام اور حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے متعلق سوامی ویویکانند کے تاریخی بیانات کی حقیقی اہمیت ومعنویت کو از خود بخوبی سمجھیں گے:

" محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی  زندگی کے ذریعہ اس بات کا مظاہرہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان کامل مساوات ہونی چاہئے  ۔ نسل ، ذات، رنگ یا جنس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ترکی کا سلطان افریقہ کے بازار سے ایک حبشی خرید سکتا ہے ، اور زنجیروں  میں اسے ترکی لا سکتا ہے، لیکن وہ اپنی کمتر قابلیت  اور صلاحیت کے بغیر بھی سلطان کی بیٹی سے بھی شادی کر سکتا ہے ۔ اس کا موازنہ اس حقیقت کے ساتھ کریں کہ  حبشیوں  اور امریکی ہندوستانیوں کے ساتھ  اس ملک(ریاستہائے متحدہ امریکہ) میں کیسا سلوک کیا جاتا ہے، اور ہندو کیا کرتے ہیں ؟ اگر آپ کے مشنریوں میں سے کسی کو کسی قدامت پسند شخص کی خوراک کو چھونے کا موقع ہاتھ آئے  تو وہ اسے دور پھینک دیں گا۔ "

 " جیسے ہی ایک شخص مسلمان ہوجاتا ہے، اسلام کے تمام پیروکار کسی قسم کا کوئی امتیاز برتے بغیر اسے ایک بھائی کے طور پر قبول کر لیتے ہیں، جو کہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں پایا ۔ اگر کوئی امریکی ہندوستانی مسلمان بن جاتا ہے تو، ترکی کے سلطان کو اس کے ساتھ کھانا کھانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اگر اس کے پاس  دماغ ہے تو وہ کسی اعلی مرتبہ سے محروم نہیں ہوگا۔ اس ملک میں، میں نے ابھی تک کوئی ایسا چرچ نہیں دیکھا ہےجہاں سفید فام مرد اورحبشی  شانہ بہ شانہ ہو کر عبادت کے لئے جھک سکیں ۔ "

"یہ ایک غلط بیان ہے جو ہمیں باور کیا جاتا ہے کہ مسلمان اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ خواتین کے پاس بھی  روح ہوتی ہے...... میں مسلمان نہیں ہوں، لیکن مجھے اسلام کا مطالعہ کرنے کے بھر پور مواقع ملے۔ مجھے قرآن پاک میں ایک بھی آیت  ایسی نہیں ملی جو یہ کہتی ہو کہ عورتوں کے پاس کوئی روح نہیں  ہے بلکہ درحقیقت قرآن  یہ ثابت کرتا ہے کہ  ان کے پاس روح ہے۔ "

"مذہبی آزادی کی ویدانتی  روح نے (ہندوستانی) اسلام کو بہت متاثر کیا ہے۔ ہندوستان کا اسلام کسی بھی دوسرے  ملک کے اسلام سے یکسر مختلف ہے۔ کوئی انتشار یا افتراق صرف اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے، جب دیگر ممالک سے مسلمان آتے ہیں اور ہندوستان میں اپنے ہم مذہبوں پر ان لوگوں کے ساتھ نہ رہنے  کی تبلیغ کرتے ہیں جو ان کے مذہب کے نہیں ہیں۔ "

" عملی ادویتیت (ویدک فلسفے کا ایک مکتب فکر) کو  ہندوؤں کے درمیان عالمی پیمانے پر فروغ دینا ابھی باقی ہے ........ لہذا ہم اس بات کے زبردست حامی ہیں کہ ویدانت کے نظریات چاہے اپنے آپ میں وہ جس قدر خوبصورت اور شاندار ہوں، وہ عملی اسلام کی مدد کے بغیر باکل بے کار اور بڑے پیمانے انسانوں کے لئے بے سود ہیں ۔۔۔ ہمارے اپنے ملک کے لئے دو عظیم فکری نظام اسلام اور ہندو مت کا سنگم - ویدانت کا دماغ اور اسلام کا جسم- ہی صرف ایک امید ہے ۔۔۔ میں اپنی چشم تصور سے ہندوستان کا مستقبل مکمل،  اختلاف و انتشار اور نزاع و تصادم سے پاک، شاندار اور نا قابل تسخیر دیکھتا ہوں  جب ویدانت کا  دماغ اور اسلام کا جسم دونوں مل جائیں گے ۔ "

ویویکانند نے ایسے مسلمانوں پر ضرور تنقید کی ہے  جو مسلمانوں یا غیر مسلموں کے خلاف خباثت و سفاکیت  کا ارتکاب کرتے  ہیں ، لیکن انہیں  اس بات پر پختہ یقین تھا کہ مسلمانوں کے موجودہ اعمال اسلام کے آفاقی پیغام اخوت سے بالکل متصادم ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک اور روادارانہ تعلقات کی وکالت کی ہے لیکن بہت سے مسلمان اسلام کے اس آفاقی تصور کا صحیح ادراک کرنے میں بھی ناکام ہیں، اور اس وجہ سے وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے تئیں عدم روادار بن  گئے ہیں ۔ تاہم، وہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کی  بد سلوکی کے بنیادی وجوہات سے  بھی  واقف تھے یعنی اسلامی مذہبی مصادرکی غلط تشریح۔ انہوں نے  کہا تھا کہ: ‘‘تاہم، مسلمانوں کےدرمیان جب  بھی کوئی مفکر پیدا ہوا، وہ یقینی طور پر ان کے درمیان جاری ظلم و جفا کے خلاف احتجاج  کرتا رہا۔ اپنے اس عمل میں اس نے  مدد الٰہی کو ظاہر اور سچائی کے ایک پہلو کو اجاگر کیا۔  اس نے اپنے مذہب کے ساتھ کبھی کھلواڑ نہیں کیا۔ اس نے اپنی باتوں کے ذریعہ براہ راست سچائی سے پردہ اٹھایا۔ "

مذکورہ بالا الفاظ " اپنے دین کے ساتھ کھیلواڑ " ان لوگوں کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو  اسلامی کتب ومصادر کی غلط  تشریح کرکے غیر مسلموں کے تئیں بدسلوکی یا عدم رواداری کو جواز فراہم  کرتے ہیں۔

نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی تصوف  سے  وابستہ ایک عالم اور فاضل  (اسلامی سکالر ) ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف صوفی اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ  (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے  فراغت حاصل کی ، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے ، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں،  یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل  کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں  نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے  عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/swami-vivekananda-anti-islam/d/13346


URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/swami-vivekananda-anti-islam-/d/13423

Loading..

Loading..