غلام نبی خیال
21فروری،2021
کشمیری مورخ محمد دین دین
فوق نے اگر چہ راجہ اننت کے بارے میں مفصل اطلاعات فراہم کی ہیں تاہم وہ کھیمیندر
کے بارے میں خاموش ہیں۔ راج اننت دیو اپنی کم فہمی اور نادانی کی وجہ سے سارا
اقتدار اپنے لالچی اورہوس پرست مصاحبوں کے ہاتھوں میں دے گیا جو علی الاعلان عوام
کو دن دہاڑے لوٹنے لگے اور ملک میں ایک طرح کی خانہ جنگی پھیلنے لگی۔ فوق لکھتا ہے
کہ: ”اننت دیو نے جالندھر کے راجہ کی چھوٹی لڑکی کی شری متی سے شادی کرلی تو اس
رانی کا قدم کشمیر کے لئے مبارک ثابت ہوا۔ شری متی نہ صرف حسن ظاہری میں بے نظیر
تھی بلکہ زیور علم و ادب اور فہم و فراست میں بھی اس سے بھی بڑھ کر آراستہ پیرا
ستہ یگانہ دہر خیال کی جاتی تھی۔اس نے بڑی حکمت عملی سے بے سمجھ راجہ کو راہ راست
پر لایا اوروہ بھی خواب خرگوش سے جاگ کر عدل و انصاف اور رعیت پروری کی طرف متوجہ
ہو“۔
ابھینوگپت کے اس شاگرد نے
جو دین کشمیر ی ادبیات کو عطا کی وہ عدیم المثال ہے۔ دیگر فنون لطیفہ کے علاوہ
کھیمیندر سماجی طنز و مزاح کا موجد بن گیا۔ اس لحاظ سے آٹھ ابواب پر مشتمل اس کی
تخلیق ”سمے ماتر کا“ روز مرہ کے گھومتے پھرتے حکیموں،بھکارنوں،دکاندار
لڑکیوں،سادھوؤں،چوروں اور سماج کے دیگر نچلے پائے کے طبقات کی زندگی کے دلچسپ اور
ظریفانہ بیانیہ کی ایک نادر مثال ہے۔
کھیمیندر کی تخلیقات میں
رامائن منجری، بھارت منجری، برہت کتھا منجری،نرم مالا اور سمے ماتر کا خصوصی اہمیت
کی حامل ہیں۔ اس کی ایک اور قابل ذکر تخلیق ”اوچتیہ وچار چرچا“کو ادبی تنقید کی
دنیا میں ایک بے بدل کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ کھیمیندر کے تخلیقی کارناموں کی
تعداد چالیس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ کچھ تحقیق کاروں نے یہ تعداد چونتیس بتائی ہے۔
اس پر مہاریشی ویاس کا اثر نمایا ں جسے وہ اپنا استاد مانتاتھا۔ اس نے جس صنف ادب
میں کمال حاصل کیا تھا وہ بے طنز و مزاج جوبظاہر اس کامحبوب موضوع رہا ہے۔ شاریکا
منشی نے اس الفاظ میں کھیمیندر کے فن اور علمیت پر روشنی ڈالی ہے:”وہ اننت راجہ کے
دور میں ادبیات کا نابغہ روزگار تھا۔ اس کی تخلیقات کا تعلق مختلف موضوعات سے ہے
جن میں اوتاروں کی زندگی کا حسن سلوک، فن خطابت اور اس کے دور کے سماجی اوراقتصادی
مسائل شامل ہیں۔ اس نے کلاسیکی مسودات کی تلخیص کی، سنسکرت کے حروف تہجی،وزن اور
اعراب پر مفصل بحث کا آغاز کیا اور نئے شاعروں کی سرپرستی کرتے ہوئے کھیمیندر نے
انہیں ایک ضابطہ عمل دیا جسے سارے ملک کے نو آموزشاعروں نے بسر وچشم قبول کیا۔“
تجزیہ کاروں کے بقول
کھیمیندر پر گوتم بدھ کا گہرا اثر تھا جس نے متاثر ہوکر اس نے بدھ کی زندگی کے حالات
قلم بند کئے۔کھیمیندر کا یہ قول بہت حد تک گوتم بدھ ہی کے فلسفے کی عکاسی کرتا ہے“
کچھ لوگ مال و دولت کی وجہ سے مغرور ہیں لیکن انہیں اچھی صفات کو ترک نہیں
کرناچاہئے۔ایک برتن اگر پانی سے لبالب بھرا ہوا ہے لیکن جب اس کی رسی ٹوٹ جاتی ہے
تو وہ دھم سے کنویں میں گرجاتا ہے“۔
کھیمیندر نے اپنی تخلیقات
میں وطن مالوف کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں قلم بندکی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کشمیر کو
پونچھ،راجوری وغیرہ سے ملانے والی مغل روڈ کو کھیمیندر نے نمک کی سڑک کا نام دیا
ہے کیونکہ صدیوں تک اسی راستے سے پنجاب کی کانوں سے نمک کشمیر میں لایا جاتا تھا۔
اس عہد ساز دانشورکے زمانے میں کشمیر اون کا بہت بڑا تجارتی مرکز تھا جب شمالی
کشمیر کا قصبہ پٹن اس تجارت کے فروغ کا خاطر بھیڑوں اور مویشیوں کی بہت بڑی منڈی
بن چکا تھا، کھیمیندر نے اس صنعت کا تفصیلی ذکر”نرمالا“ اور ”سمے ماترکا“ میں کیا
ہے۔
کھیمیندر کو عوامی شاعر
کہا جاتا ہے۔ اس کی یہ بھی وجہ ہے کہ اس نے خاص کر جو مزاحیہ اور طنزیہ کتابیں
لکھیں ان میں اس نے آسان اسلوب میں اپنے تیکھے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے ڈراموں
کی تعداد تین بتائی جاتی ہے۔للت رتن مالا، برہت کتھا سے لی گئی ایک کہانی پرمبنی ہے۔کنک
جانکی کا پس منظر رامائن کا ایک باب ہے اورچترا بھارت بھی مہابھارت کے ایک قصے سے
ماخوذ ہے۔
کھیمیندر نے اپنی
”نرمالا“ میں،جو راجہ اننت کے عہد میں لکھی گئی،انہی کائستھوں کے بارے میں لکھا ہے
کہ وہ اپنے سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال کرکے عوام کی نجی زندگی میں دخل اندازی
کرتے ہیں اور ان کی نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس ناقابل قبول طریق کارنے
کائستھوں کو لوگوں کی نظروں میں قابل نفریں بنایا ہے۔ اکالا نام کے بادشاہ نے تو
اس کے اقتدار کو کچلنے کی غرض سے کئی اقدام کئے لیکن اس کے بعد اس طبقے نے پھر سر
اٹھا یا او راپنی طاقت کو مجتمع کرکے از سرنو عام انسانوں کو ستانا شروع کیا۔
بڈ شاہ کی علم دوستی کے
پیش نظر یہ قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کے عہد میں کشمیر کے بلند مرتبہ سنسکرت
عالموں اور قلم کاروں کی تحریروں سے بھی چیدہ چیدہ فن پارے فارسی میں منتقل کئے
گئے ہوں کیونکہ اس وقت فارسی درباری زبان تھی اور ہر سطح پر اس کی آبیاری بھی کی
جاتی تھی۔ اگر ایسا ہے تو زمانے کی دست برونے ہم سے یہ عظیم سرمایہ بھی چھین لیا
ہے۔
کھیمیندر کی اصناف سخن
میں طنزومزاج کو زیادہ فوقیت حاصل ہے کیونکہ وہ اس فن کی تخلیق میں یدطولیٰ رکھتا
تھا۔ لیکن اس نے اپنے دورکی خاص کر طرائفوں اوربدقماش عورتوں کے بارے میں جو کچھ
بھی لکھا ہے اس پر اسے نقادوں نے آڑے ہاتھوں لیا ہے کیونکہ ایسی تحریروں میں فحش
نگاری کا عنصر نمایاں ہے او ر وہ بھی کھیمیندر نے بازاری زبان کا استعمال کرکے رطہ
تحریر میں لایا ہے۔مثلا:
”اس کی گفتار میں شہد کی مٹھاس،دل میں خنجر،ایک طوائف کلہاڑی کی
تیز دھار جیسی ہوتی ہے جو دم زدن میں اپنے یاروں کو برباد کرسکتی ہے“۔
”اگرچہ وہ ساٹھ سال سے تجاوز کرچکی ہے،وہ اپنا چہرہ خوبصورت بناتی
رہتی ہے اور دوسروں کو یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ سولہ سالہ دوشیزہ ہے، غالباً اس نے
کوؤں کے ساتھ امرت پیا ہوگا“۔
”ایک عقاب کی طرح اپنے شوہر کو ٹالتی ہے اوردوسرے درخت سے خط لیتی
ہے جو اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ وہ فطرتاً ایک بد فطرت مخلوق ہے۔ وہ ایک ناگن کی طرح
ہے اورکسی کی وفادات نہیں ہوسکتی۔“
”اس کے کئی دل،کئی زبانیں، کئی ہاتھ اور مردوں کو پھسلانے کے کئی
گر آتے ہیں۔ اس میں صداقت نام کی کوئی بات نہیں اور ایک طوائف کو پہچاننا ممکن
نہیں“۔
کھیمیندر نے اپنے ارد گرد
رہنے والے عام انسانوں کو اپنے موضو عات میں ترجیح دی ہے جن کی خامیوں اور خوبیوں
کو اس نے بعینہ اپنے قلم میں مقید کرلیا ہے۔ ان خامیوں کی نشان دہی بجائے خود ان
دنوں ایک انقلابی قدم تھی جب تقریر بازوں نے ہر شعبہ حیات کے لئے خود ساختہ معیار
قائم کئے تھے۔ کھیمیندر نے نہ صرف ایسی اجارہ داری کے خلاف بغاوت کی بلکہ اس نے
خود سماج کے لئے ایسے اقدار متعین کئے جو عوام پرور تھے۔”اس نے ادب میں ترقی پسند
خیالات کو اس وقت پوری طرح ابھارا جب زندگی کی قدریں آمرانہ احکام کے تحت کچلی
جارہی تھیں۔ اس طرح کھیمیندر کی شخصیت میں قاری کو مصلح اور شاعرکا امتزاج صاف نظر
آتاہے“۔
مجموعی طور پر کھیمیندر
کو مورخوں اور تجزیہ کارو ں نے کشمیر میں فنون لطیفہ کی دنیا میں طنزوہ مزاج کا بے
مثال خالق او ربے تاج شہنشاہ مانا ہے۔ سوم دیو(بارہویں صدی)
ہندوستان دنیا کا وہ واحد
ملک ہے جہاں کہانیاں سنانے کا شوق ایک فن کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ہند میں ہی
پارس کے باشندوں نے یہ فن سیکھ لیا اور اسے عربستان کی سرحدوں کے اندر تک پہنچا
یا۔مشرق وسطیٰ سے داستان گوئی نے قسطنطنیہ اور وینس کی وادی تک کا سفر کیا اورپھر
انگلستان اور فرانس تک جا پہنچا۔ اگرچہ ان کہانیوں نے ہر ملک میں وہاں کی مقامی
زندگی اور حالات کی جزبات کو اپنے اندر سمولیا،لیکن ان میں جو ہندوستانیت کا متزاج
تھا، وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا۔
ہندوستان میں بے شمار
کہانیاں سالہاسال تک سینہ بہ سینہ کہی اور سنی گئیں او ربعدمیں سب سے پہلے گناڈیہ
نے انہیں ایک مقامی بولی پشاجی میں جمع کرلیا اور اپنے مجموعے کا نام برہت کتھا
رکھا جو اب ہمارے پاس موجود نہیں۔
اس کے بعد ایک کشمیر ی
شاعر پنڈت سوم دیو نے اس گنج گم گشتہ کی باق ماندہ امارت سے استفادہ کرکے گیارہویں
صدی عیسوی میں ”کتھاسرت ساگر، کے نام سے ایک ضخیم کتاب قلم بندکرلی، جس میں اس نے
لوک کہانیوں کو اپنے مخصوص اسلوب میں بیان کیا۔روایت ہے کہ سوم دیو کی کتھا سرت سا
گرد نیا کی اولین لوک کہانیوں کا ایک ضخیم مجموعہ تھا جس میں اس کشمیری قلم کار نے
لاکھوں اشعار پر مبنی ہزاروں کشمیری لوک کہانیوں کی شیراز ہ بندی کی تھی۔ حاکم وقت
نے سوم دیو کی جمع کردہ کہانیوں کے اسلب پر تنقید کی جس سے دل برداشتہ ہوکر سوم
دیو نے اپنی کہانیوں کے اس بہت بڑے ذخیرے کو نذرِآتش کردیا۔ بعد میں اس حادثہ سے
جو کچھ بچا یا گیا،اسے پھر دوسرے ہاتھوں نے ازسر نو مرتب کرکے کتھا سرت سا گر کو
مکمل طور پر ضائع ہونے سے بچا یا اور بعد میں اس صورت حال میں اس کی اشاعت ہوئی۔
21فروری،2021،بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/kashmir-repository-sanskrit-poetry-/d/124379
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism