غلام غوث
12ستمبر،2017
دہشت گردی ختم کرنا ضرور آسان ہے مگر وہ جو اسکے موجد ہیں وہ اسے ختم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسی میں انکا فائدہ ہے-دنیا حیران ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے آپ کو ایک دوسرے کے بھائی کہتے ہیں مگر آپس میں اتنا لڑتے جھگڑتے ہیں کہ ایک دوسرے کی جان و مال کا لحاظ نہیں کرتے اور قتل و غارتگری میں مبتلا رہتے ہیں - کچھ مسلمان حضرات حق جو اہل علم اور اہل دانش ہیں وہ بھی اس بات سے پریشان اور غمگین ہیں کہ یہ کیسا زمانہ آ گیا جہاں خصوصا عراق، شام، افغانستان اور پاکستان میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خون کا پیاسا بن گیا ہے-یہ مسلمان ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کر رہا ہے- سب نمازی ،سب روزے دار اور سب حلیہ سے دیندار مگر ایک بہت بڑا طبقہ اسی کی آڑ میں اور اسلام کے نام پر ایک دوسرے کے خون کاپیاسا ہے-داعش کے نوجوانوں کو اور طالبان کو دیکھیں تو سب کا حلیہ دیندار، سب کی زبانوں پر کلمہ اور تکبر مگر سب کے سب خونی بھیڑیے- ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ یہ زمانہ بہت ہی خراب اور پر فتن ہے - مگر جن لوگوں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ ایسا پہلی مرتبہ اور آخری مرتبہ نہیں ہو رہا ہے-یہ سلسلہ تو ہمارے پیغمبر کے انتقال فرمانے کے تین سال بعد ہی حضرت عثمانؓ کے زمانے سے شروع ہو گیا۔خود صحابہ کرام ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے اور ہزاروں شہید کر دیے گئے۔
کون حق پر تھا اور کون حق پر نہیں یہ الگ مسلہ ہے مرے اور اجڑے تو سہی۔ جنگ صفین کیا تھی؟ سب قرآن کے حافظ، سب قرآن کے ہر حکم کو جانتے تھے مگر اکثریت کیا کرتی تھی؟اخلاص اور للاہیت کا کیا ہوا ؟ حضرت علیؓ جنہوں نے اسلام کی حفاظت کے لئےہر قربانی دی ان کے ساتھ حضرت معاویہؓ نے کیا سلوک کیا ۔ صرف بیٹے کی محبت میں اسے اپنا جانشین بنایا اور بیت المال کا روپیہ غیر مستحق لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے استعمال کیا۔لوگوں سے اپنے لئے اور اپنے بیٹے یزید کیلئے طاقت کے بل پر بیت لی۔ انکار کرنے والوں کو سذائیں دیں اور قتل تک کرنے کی اجازت دے دی ۔یہ سب لوگ کون تھے، متقی اور پرہیزگار تھے اور ایمان والے تھے ۔ مارنے والے بھی قرآن اور حدیث میں ماہر اور مرنے والے بھی ۔بہت سے صحابی جو میدان جنگ میں رستم و اسفند یار کے کارناموں کو حقیر ثابت کر رہے تھے ۔ وہ سب اپنی تلواروں اور تیر کمانوں کو توڑ کر گھروں میں آ بیٹھے اور سپہ سالاری کے کام سے جدا ہو کر معلمی کے کام میں مصروف ہو گئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو فاتح ایران تھے اور جنگ قدسیہ کا میدان جیت چکے تھے وہ ان اندرونی اختلافات کے وقت گوشہ نشینی و گمنامی کی زندگی اپنے لئے پسند کر کے اونٹوں اور بکریوں کی نگہداشت میں مصروف ہو گئےتھے۔ چالاکیوں، ریشہ دانیوں اور فریب کاریوں کے واقعات سے کوئی زمانہ اور کوئی عہد خالی نظر نہیں آتا۔
حضرت امیر معاویہؓ کو جانشین بنانے کا خیال خود اپنے فائدے کےلئے مغیرہ بن شعبہ نے دیا تھا اور اس طرح مسلمانوں میں ایک ایسی رسم جاری کروا دی جس سے جمہوریت جاتی رہی اور باپ کے بعد بیٹا بادشاہ ہونے لگا ۔ یہ رسم اسلامی احکامات کے خلاف تھی مگر آج بھی جاری ہے اور آج بھی مخالفت کرنے والوں کو قید یا قتل کر دیا جاتا ہے ۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد بیس سال تک مکہ، مدینہ، عراق اور شام کے مسلمانوں میں جو جنگیں ہویں وہ آج کی داعش اور طالبان کی لڑائیوں سے کم نہیں تھیں۔ اس وقت کے حالات کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو کلیجہ منھ کو آ جا تا ہے اور دل نکل کر ہتھیلیوںمیں آ جاتا ہے ۔ عراق اور کوفہ والوں کی ریشہ دانیاں، ان کی غداری ، عبیداللہ بن زیاد کی زیادتی اور بے رحمی یہ سب آج کے داعش اور طالبان سے کم نہیں ہیں۔ عبداللہ بن زبیر ؓنے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ"لوگو!دنیا میں عراق کے آدمیوں سے برے کہیں کے آدمی نہیں ہیں اور عراقیوںمیں سب سے بد تر کوفی لوگ ہیں"۔ مسلم بن عقبہ نے ےزید کے حکم سے ۲۷ ذاالحجہ ۶۳ ھ میں مدینہ پر حملہ کیا اور داخل ہو کر تین دن تک قتل عام اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس نے یزید کے نام پر بیت کی وہ بچ گیا اور جس نے انکار کیا وہ قتل ہو گیا۔
۲۹محرم کو حصین بن نمیر نے کوہ ابو قبیس پر منجنیق نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری شروع کی اور یہ سنگ باری تین ماہ تک جاری رہی۔ اس سے خانہ کعبہ کے غلاف جل گئے اور دیواریں سیاہ ہو گئی جسمیں ہزاروں مسلمان مارے گئے، مختار بن ابو عبیدہ کا لڑائیوں کا سلسلہ چلا، جنگ خوارج چلی، مختار کا دعوی نبوت اور کرسی علی کا واقعہ پیش آیا، عبداللہ بن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کی حق اور انصاف کے لئے جنگیں اور کوفے والوں کا انکے ساتھ دھوکہ دے کر قتل کروانا ، عبدالملک بن مروان کا دھوکے کے ساتھ عمروبن سعید کا قتل کروانا یہ سب آج کے طالبان اور داعش کے ظلم وستم سے کم نہیں تھا۔
(کچھ مسلم اسکالرس کا یہ دعوی ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے صرف رتین سال بعد آپکی تعلیمات کا اثر صحابہ کرام پر زائل نہیں ہو سکتا اور اس طرح کی قتل و غارتگری ہو نہیں سکتی ۔ اسلامی تاریخ تو ساٹھ ستر سال بعد لکھی گئی اور لکھنے والے شعیہ اور خارجی تھے جو جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کر دیا اور منافق یہودی عبداللہ بن صباح نے تقوی اور پرہیز گاری کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے نام پر بدلے کی کاروائی کی (اللہ عالم)۔ کیا آج کا مسلمان کبھی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر سنگ باری کرے گا یا بمباری کرے گا؟ بلکل نہیں۔ مگر ۷۲ ہجری میں حجاج بن یوسف نے ماہ رمضان میں مکہ معظمہ کا محاصرہ کر کے کعبہ پر سنگ باری کی اور کوہ صفا کے قریب عبداللہ بن زبیر کو شہید کرکے سر تن سے جدا کر دیا اور لاش وہیں لٹکا دی ۔ کیا آج کوئی مسلمان ایسا کرنے کی سوچ سکتا ہے؟ کوفہ والوں نے ہمیشہ اہل بیعت کے ساتھ شیعان علی شعیان حسین ہونے کا دعوی کرنے کے با و جود حضرت علی کا ساتھ چھوڑ دیا ، حضرت امام حسین کو، حضرت مصعب بن زبیر کو زید بن علی بن امام حسین کو دھوکہ دیا اور انہیں قتل کروا دیا ۔ حال میں صدام حسین نے کیا کیا۔ لاکھوں لوگوں کو زہریلی گیس سے مروا دیا ۔موجودہ بشارالاسد کے والد نے پچاس ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ خود بشارالاسد نے پانچ لاکھ مسلمانوں کو قتل اور تیس لاکھ کو زخمی کر دیا اور لاکھوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سعودیوں نے لاکھوں ترکوں اور دیگر کو بموں اور گولیوں سے اڑا دیا۔
یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ مسلمانوں کو مسلمان ہی مارنے کا سلسلہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے۔ تب بھی نام اللہ کا اور اسلام کا لیا جاتا تھا اور آج بھی وہی ہو رہا ہے۔تب مسلمان خود ہی آپس میں سیاسی اقتدار کیلئے لڑ رہے تھے مگر اب مغربی ممالک آگ میں پٹرول ڈال رہے ہیں۔ طالبان اور داعش کیسے وجود میں آئے، کس نے ان کی مدد کی کس نے انہیں مال اور ہتھیار دیے یہ ہر کسی پر عیاں ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ کی اتنی بمباری کے بعد ، اتنی جنگوں کے بعد اور اتنی احتیاط کے باوجود دہشت گردی کیوں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ داعش اور طالبان کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی طاقت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی تو ہے جو انہیں مہلک ہتھیار سپلائی کر رہا ہے ۔ ظاہری طور پر اسکے دو مقصد نظر آتے ہیں ۔ ایک یہ کی مسلم ممالک آپس میں لڑتے رہیں ، ہتھیاروں کی سپلائی جاری رہے اور ہتھیار بنانے والی فیکٹریاں چوبیس گھنٹے چلتی رہیں اور منافع بڑھتا رہے۔
دوسرے اسرائیل کے اطراف رہنے والے ممالک کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ اسرائیل کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ نہ سکے۔ ایک اور نظریہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام خودکش بمباری ، پتھر بازی ، بمباری اور ہڑتال بند کریں اور عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں تب کہیں مسلہ کا حل بات چیت کے ذریعہ طئے ہو گا ۔ مگر نہ خود کش بمباری ختم ہو گی ، نہ پتھر بازی ، نہ بمباری اور نہ ہی ہڑتال اور یہ سلسلہ اور پچاس سال بھی چلتا رہے گا جس سے دنیا بھر میں دہشت اور اموات بڑھتے رہیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایسے شرط نہ رکھتے ہوے بات چیت شروع کرے اور امن قائم کرے ۔ کون جانے داعش میں کتنے غیر مسلم مسلمانوں کے حلیے میں موجود ہیں اور کتنے مسلمان لاعلمی کی وجہ سے اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہر حال میں داعش اور شدت پسند طالبان کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے ورنہ ان ممالک کے مسلمان آرام و چین سے جی نہیں سکتے۔ مغربی ممالک میں بہت ایسے افراد ہیں جو اس کا علاج پیش کر رہے ہیں مگر حکمران اسے سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اب دہشت گردی ایک ایسے مرض میں تبدیل ہو گئی ہے جو لا علاج ہے۔ مغربی ممالک کھربوں ڈالر خرچتے رہنے کے لئے تیار ہیں مگر اسکا تجزیہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔جو مسلے بات چیت سے اور تھوڑا لے دے کر سلجھائے جا سکتے ہیں ان کے لئے کھربوں ڈالر اور ہزاروں جانیں صرف کر رہے ہیں۔
12ستمبر،2017 بشکریہ : روزنامہ میرا وطن، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-easy-eliminate-terrorism-/d/112504
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism