غلام غوث صدیقی، نیو ایج
اسلام
10 ستمبر 2021
ایک فرضی کہانی جو مساجد،
سیکرٹریوں اور اماموں سے متعلق ایک متوازی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے۔
اہم نکات:
1. شیطان حضرت آدم
علیہ السلام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوا
2. دھوکہ دہی کے
معاملے میں سیکرٹری کبھی شیطان سے آگے نکل جاتا ہے
3. جب رقص کرنے سے منع
کیا تو سیکرٹری نے امام صاحب کو ہی نکال دیا
4. سیکرٹری اور امام صاحب کی تذلیل
5. امام صاحب نے قسم
کھا لی کہ وہ اپنے پیدا ہونے والے بچے کو مولوی نہیں بنائیں گے
6. شیطان سیکرٹری کی
تعریف کرتا ہے
7. مسلم کمیونٹی نے
اپنے ائمہ کے احترام اور ان کی ضروریات کو نظر انداز کر دیا ہے
......
ایک دفعہ کی بات ہے کہ ایک
شیطان نے مسجد کے ایک سیکرٹری سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران دونوں کے درمیان یہ
بحث چھڑ گئی کہ کس کے پاس زیادہ طاقت ہے۔ شیطان کے پاس یا مسجد کے سیکرٹری کے پاس؟
شیطان نے کہا: "میں
تمام انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام کو دھوکہ دینے اور جنت سے نکالنے میں کامیاب
ہوا۔ یہ میری طاقت ہے۔"
سیکریٹری نے کہا کہ اس
میں بڑی بات کیا ہے؟ "ہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے [نائب رسول]
کو مسجد سے نکالنے کے لیے پروپیگنڈا کرتے ہیں"۔
شیطان نے کہا ، "میں
لوگوں کو پریشان کرتا ہوں، انہیں بہکاتا ہوں اور گمراہ ہونے میں ان کی مدد کرتا
ہوں۔"
سیکرٹری نے کہا کہ تم
شیطان ہو جو مسلمانوں کو نماز فجر میں سلا دیتے ہو جبکہ ہم انہیں سکون سے سونے
نہیں دیتے۔
شیطان نے کہا کہ ہم نے
ایک مولوی کے پیچھے ستر شیطان مقرر کر رکھے ہیں۔
سیکرٹری: "تمہاری
خامی ظاہر ہو گئی۔ تم صرف ایک مولوی کو دھوکہ دینے کے لیے ستر شیطان اس کے پیچھے
لگتے ہو!!! ارے، ستر اماموں کو مشتعل کرنے کے لیے صرف ایک ہی سیکرٹری کافی ہوتا
ہے۔
شیطان خاموش ہو گیا اور
جواب دینے سے قاصر رہا۔
سیکرٹری نے مسکراتے ہوئے
خوشی سے اپنا پاجامہ اوپر اٹھایا اور رقص کرنے لگا۔ جب مسجد کے امام نے اسے دیکھا
تو اس نے اسے رقص کرنے سے روک دیا۔
سیکرٹری نے امام سے کہا،
"کیا آپ مجھے منع کریں گے؟! میں آپ سے زیادہ علم والا ہوں۔ میں نے شیطان کو
بھی مات دی ہے۔
اور سنو! "اب ہماری
مسجد میں آپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پاس بزرگوں (مسجد بورڈ کے ارکان) سےبات
چیت کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ اپنا ساز و سامان سمیٹیں اور مسجد سے نکل جائیں۔
جب غریب امام صاحب اپنے
ساز و سامان کے ساتھ مسجد سے نکلے تو انہوں نے عزم کیا کہ وہ اپنے پیدا ہونے والے
بچے کو مولوی یا مسجد کا امام نہیں بنائیں گے تاکہ وہ اس طرح کی ذلت کا شکار نہ
ہوں۔
"تم نے میرے ہنر کو مات دیدی ہے !!" شیطان نے سیکرٹری سے
کہا، جب اس نے یہ سب ہوتا ہوا دیکھا اور کہا، "تم تو ہم سے بھی ماہر ہو۔ ہم
بچوں کی پیدائش کے بعد انہیں مذہبی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں،
لیکن تم نے ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کا حساب کتاب برابر کر دیا، واہ کیا
شاندار کام کیا تم نے؟ واہ تمہارے پاس واقعی اس فیلڈ میں کافی مہارت ہے !!! "
نوٹ: یہ کہانی صرف مساجد
کے ظالموں اور جابروں نیز ان پڑھ اور بے ایمان سیکرٹریوں اور ارکان کے لیے ہے۔ یہ
ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اس وقت مساجد کے بیشتر سیکرٹری اور بورڈ ممبران اماموں
کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔
کہانی کا لب لباب
یہ ایک خیالی کہانی ہے۔
تاہم، جب ہم اپنے پڑوس کی مساجد، ان کی کمیٹی کے ارکان اور اماموں کی حالت پر غور
کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری مسلم کمیونٹی اخلاقی زوال کا شکار
ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہماری مساجد کے آئمہ ایک معمولی تنخواہ پر ملازمت کرتے
ہیں۔ آج کی افراط زر کے ماحول میں بھی ان کی آمدنی تقریبا 5،000 ، 7،000 یا 10،000
ہے۔ اپنے خاندان کو سنبھالنے اور اپنے بچوں کی پرورش کے لیے انہیں جی توڑ محنت
کرنای پڑتی ہے۔ اس سے قطع نظر وہ امت مسلمہ کی خدمت کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے
کہ بعض رپورٹ کے مطابق ائمہ کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کی توہین کی جاتی ہے۔ وہ
امام جو نماز کی امامت کرتے ہیں اور اصلاح امت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں انہیں
کمیٹی کے ارکان معمولی باتوں پر ذلیل کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی اجرت روک
دی جاتی ہے۔ وہ اپنی امامت کے فرائض سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔
اکثر اس کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ ہم مسلمان محض نماز پڑھنے کے لیے مسجدوں میں
جاتے ہیں اور اپنے ائمہ کی حالت و کیفیت جانے بغیر ہی اپنے گھروں کو واپس آ جاتے
ہیں۔ ہم نے ایک زمانے سے اماموں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی فکر کرنا ان کی
خدمات کی سراہنا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی مسلم
برادری میں اماموں کے لیے احترام اور ان کی فکر کا احساس پیدا کریں اور ایسے
اماموں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جائزہ لں۔
ائمہ کو بھی معاشرے میں
اپنے مقام اور مرتبے سے باخبر رہنا چاہیے۔ وہ محض نماز کے امام نہیں ہیں۔ بلکہ ان
کے اعمال، اخلاق اور کردار دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ محض نماز کی امامت کرنا
ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ انہیں ایسے کام کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے جو ان کے
وقار اور مقام و مرتبے کی توہین ہو۔ انہیں اسلام نے لوگوں کے اعمال و عقائد کی
اصلاح کا کام سونپا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب وہ عملی طور پر نیک اور
صالح ہوں۔ ان کی ذمہ داریاں اتنی ہی اہم ہیں جتنی ان کی اہمیت و عظمت۔ اگرچہ ان کے
نیک اور اچھے اخلاق و اعمال معاشرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں، ان کی ایک معمولی سی
سبقت لسانی بھی ان گنت لوگوں کے لیے فساد اور برائی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "امام ضامن ہے"۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امام نہ صرف اپنے مقتدیوں کی نمازوں کا ضامن ہے، یعنی اس کے
مقتدیوں کی نمازوں کی درستگی کا انحصار اس کی نمازوں کی درستگی پر ہے۔ بلکہ امام
اپنے مقتدیوں کی عملی زندگی کا بھی ضامن ہے، اور اگر کوئی مقتدی امام سے متاثر ہو
کر کوئی اچھا راستہ اختیار کرتا ہے تو امام کو بھی اللہ کی بارگاہ میں اس کا اجر
دیا جائے گا۔ اور اگر کوئی امام کی شرارتوں کی وجہ سے اسلام اور مسجد کی توہین
کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار امام ہوگا۔ لہذا
ضروری ہے کہ امام اور مقتدیوں دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ان کے مزاج
میں ہمارے سماجی نظام کی بہتری میں نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
English Article: Who is the Superpower? Satan or the Mosque-Secretary
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism