غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
ہندوستان کی صورت حال اب بہت تیزی سے بدلتی جا رہی ہے۔آئے دن نئے نئے متنازع بیانات سننے کو مل رہے ہیں۔ان میں سب سے اہم مسئلہ طلاق ثلاثہ کا ہے۔ایک طلاق دینا ہی اللہ کو ناپسند ہے ۔لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص ایک طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح تین طلاق ایک مجلس میں دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا ، لیکن اگر کوئی شخص تین طلاق ایک مجلس میں دے دے تو یہ نافذ ہو جاتی ہے۔ایک روایت کے مطابق آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا ۔فقہائے جمہور کا موقف ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی بھی ایک مجلس کی تینوں طلاقوں کے وقوع پر دلیل ہے، اگر ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی مانی جاتی تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ناراض نہیں ہوتے اور اسی ناراضگی کے سبب بھی احناف کا موقف یہ رہا کہ اگرچہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین مانی جاتی ہیں لیکن چونکہ یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے اسی لئے طلاق کا یہ طریقہ ناجائز و گناہ ہے۔ ایک مجلس کے تین طلاق کے تین واقع ہونے پر ائمہ اربعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔بے شماراحادیث و آثار صحابہ اس پر گواہ ہے۔ علمائے جمہور کے مطابق خود قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ میں تین طلاق کے مسئلہ کو عام معنی میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر تین طلاق دے دی جائیں تو یہ طلاق مغلظہ ہو جائے گی ، اس آیت کریمہ میں عام معنی یہ نکلتا ہے کہ خواہ وہ تین مجلس میں ہو ں یا تین طہر میں ہو یا ایک مجلس میں ہوں ، تین طلاق دینے کے بعد طلاق مغلظہ ہو جائے گی۔لیکن سب سے بہتر طلاق کا طریقہ جو قرآن کریم نے بتایا ہے اسے اسلام کے اکابرین، فقہائے کرام اور علمائے عظام طلاق احسن کا نام دیتے ہیں۔ اس موضوع پر میں قرآن و سنت اور آثار صحابہ اور علمائے جمہور کے دلائل کی روشنی میں تفصیل سے میں ایک کتابچہ لکھ رہا ہوں ، جسے بہت جلد منظر عام پرلانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔(ان شاء اللہ)۔یہاں صرف علمائے کرام اور اکابرین کی بارگاہ میں یہ سوال رکھنا مقصود ہے کہ کیا کسی ایسے قانون کو بنایا جا سکتا ہے جس میں یہ کہا جائے کہ ’’کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق نہ دے ۔اگر دے گا تو وہ معتبر نہ ہوگی‘‘ جیساکہ علامہ غلام سرور قادری حنفی نے ایسے ہی قانون کی مانگ حکومت پاکستان سے کی تھی، حالانکہ یہ بہت عجیب ہو سکتی ہے ۔پھر بھی میں حسب ذیل غلام سرور قادری صاحب کا مختصر تعارف دے کر ان کے اقوال کو نقل کر رہا ہوں ۔اس سے میرا مقصد یہ ہے ہندوستان کے علمائے کرام اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ پر اپنی رائے کو عوام کے سامنے خوب اچھی طرح پیش کردیں ، کیونکہ کئی ممالک میں کچھ اسی طرح کا قانون ہے اور اب بعض لوگ ایسے ہی قانون کی مانگ کرنا بھی شروع کر چکے ہیں۔
فاضل جلیل علامہ مفتی غلام سرور قادری کا مختصر تعارف : وہ پاکستان کے مشہورعلمائے کرام میں سے ہیں۔وہ قابل مدرس اور ماہر مفتی ہونے کے علاوہ تحریر و تقریر میں بھی خط وافر کے مالک مانے جاتے ہیں۔آپ کی بعض مشہور تصانیف یہ ہیں: (۱) الاجتہاد فی الاسلام (اردو) (۲) الصلوۃ والسلام علی سیدنا الانام (عربی)، تفویض الاحکام الی خیر الانام ، تحفۃ الذکی فی شرح اسماء اللہ والنبی، ہدیۃ الخلیل فی شرح حدیث جبرائیل ، الشاہ احمد رضا خان بریلوی، تحفہ مومن، افضلیت سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، تنزیہ الغفار عن تکذیب الاشرار،معاشیات نظام مصطفی، رسالہ شرائط بیعت ، فتاوی اہل سنت (زیر ترتیب) وغیرہ۔آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ عبد الرحمان بھرچونڈی شریف اور شیخ غلام رسول قادری ردتوی سے اکتساب فیض کیا اور مجدد دین و ملت کے صاحبزادہ مفتی اعظم ہندعلیہ الرحمہ مولانا الشاہ مصطفی رضا خان بریلی شریف سے سلسلہ عالیہ قادریہ نوریہ رضویہ میں بیعت کی اور حضرت نے آپ کو تمام علوم و اوراد اور وظائف و اعمال اور سلسلئہ قادریہ نوریہ رضویہ کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔
مفتی غلام سرور قادری اپنی کتاب ’’شدید غصہ کی طلاق کا شرعی حکم‘‘ میں ’’گواہوں کے بغیر دی گئی طلاق کا حکم‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’بعض صحابہ و ائمہ دین کے نزدیک گواہوں کے بغیر دی گئی طلاق تو مؤثر ہی نہیں ہوتی خواہ فون پر دی گئی ہو یا سامنے دی گئی ہو وہ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں طلاق دینے والا رجوع کر سکتا ہے۔چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: ’’ویشھد شاھدین‘‘ یعنی طلاق کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ طلاق دینے والا طلاق دیتے وقت دو گواہ بنائے ۔اس کی شرح میں امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں : ’’ماخوذ من قولی تعالی ’’واشھدو ا ذوی عدل منکم‘‘وھو واضح‘‘(فتح الباری ، ص ۹۸۔۹) کہ سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان قرآن کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ ’’طلاق پر دو گواہ بناؤ‘‘ اور یہ گواہ بنانے کا حکم بالکل واضح ہے اور امر یعنی حکم وجوب کے لئے ہوتا ہے لہذا اطلاق پر گواہ بنانا ضروری ہے اس کے بغیر طلاق مؤثر نہ ہوگی۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ گویا یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو امام ابن مردویہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت فرمایا کہ مہاجرین کا ایک گروہ گواہوں کے بغیر یا غیر (محل )یعنی حیض کی حالت میں طلاق دیتے اور رجوع کر لیتے تھےتو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حکم ہوا کہ طلاق دیتے اور رجوع کرتے وقت گواہ بنا لیا کرو۔
اس کے بعد پھر مزید لکھتے ہیں: ’’تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ نے فرمایا: "ان اراد مراجعتها قبل ان تنقضي عدتها اشهد رجلين كما قال تعالى "واشھدوا ذوی عدل منکم عند الطلاق و المراجعۃ‘‘۔ ترجمہ ’’اگر عدت کے گزرنے سے پہلے بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو دو مردوں کو گواہ بنائے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ طلاق دیتے اور طلاق سے رجوع کے وقت دو گواہ بنا لو‘‘۔امام ابن جریر اس کے بعد حضرت امام سدی علیہ الرحمۃ سے سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں انہوں نے اللہ تعالی کے فرمان کہ ’’اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ’’علی الطلاق والرجعۃ‘‘ کی طلاق پر بھی ’’گواہ بنا ؤ اور رجوع پر بھی‘‘ گواہ بناؤ۔ (تفسیر امام ابن جریر ، ج ۲۸، ص ۸۸)‘‘
اس کے بعد علامہ غلام سرور قادری لکھتے ہیں : ’’واضح ہو کہ اللہ تعالی کا فرمان ’’اشھدوا‘‘ کہ طلاق دیتے وقت گواہ بناؤ، فعل امر ہے اس کا مصدر ’’اشھاد‘‘ سے جس کا معنی ہے ’’گواہ کرنا‘‘ اور فقہائے کرام بالخصوص احناف کے نزدیک امر وجوب کے لئے ہے اگرچہ طلاق دیتے وقت اور طلاق سے رجوع کرتے وقت گواہ بنانے کے وجوب و عدم وجوب میں اختلاف ہے تاہم اس میں شک نہیں کہ طلاق و رجعت کی حالت ایسی ہونی چاہئے جس سے شریعت کے تقاضے پورے ہوں اور بعد میں جھگڑا یا پریشانی نہ ہو‘‘۔
اتنا لکھنے کے بعد مولانا غلام سرور قادری اپنی پاکستانی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’یہ قانون بنا دینا چاہئے کہ کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق نہ دے ۔اگر دے گا تو وہ معتبر نہ ہوگی اس میں قانون سازی کی گنجائش ہے کیونکہ جس مسئلہ میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف رائے ہوتو حکومت عوام کے فائدے کے لئے کسی بھی رائے کو قانون کی حیثیت دے سکتی ہے اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ عوام میں بے تہاشہ طلاق دینے کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور عورتوں کی آئے دن کی پریشانی ختم ہو جائے گی‘‘۔ (ماخوذ من ’’شدید غصہ کی طلاق کا شرعی حکم ، ص۸۹ تا ۹۲)
اب میراسوال یہ ہے کہ کیا مولانا غلام سرور قادری کا یہ موقف مسلم پرسنل لا کے لئے درست ثابت ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس کی توضیح و تشریح عوام کے سامنے پیش کرنا از حد ضروری ہے ۔ اہل سنت کے پاکباز علمائے کرام کا اس سلسلہ میں کیا موقف ہے؟اگر مولانا سرور قادری صاحب کا موقف درست نہیں تو اسکے مخالف جو دلائل ہیں انہیں عوام پر واضح کرنا بھی بے حد ضروری ہے ۔ذاتی طور پر میں نے اس سلسلہ کئی باتیں پڑھیں جن کی روشنی میں مولانا غلام سرور قادری کا موقف عجیب معلوم پڑتا ہے ۔لیکن مجھے ہندوستان کے حالات کا مزاج دیکھتے ہوئے ہندوستان ہی کے مستند علمائے اہل سنت سے اپیل ہے کہ وہ قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس مسئلہ کو خوب اچھی طرح واضح کر دیں ۔ (ذاتی طور پر پاکباز علمائے کرام ہی میرے لئے مشعل راہ ہیں بالخصوص مسلک اہل سنت جس کی صحیح پیشکش اعلی حضرت امام احمد رضا نے کی ہے ، وہی میرے لئے ذریعہ نجات ہے ۔خیر یہ تو میرا ذاتی مسئلہ ہے یہاں وضاحت کی حاجت نہیں)۔ میرا مقصد یہ ہے علمائے کرام اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ پر تفصیل و توضیح کو عوام کے سامنے خوب اچھی طرح پیش کردیں ، کیونکہ کئی ممالک میں کچھ اسی طرح کا قانون ہے کہ بغیر گواہ کے قضاء طلاق واقع نہیـں ہوتیاور اب بعض لوگوں نے اسی قانونی شکل کو ذہن میں رکھ کر حکومت ہند سے بھی ایسے ہی قانون کی مانگ کرنے لگے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ruling-talaq-pronounced-without-witnesses/d/110891
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism