New Age Islam
Sat Dec 14 2024, 10:34 PM

Urdu Section ( 22 May 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Prophet Muhammad as Mercy Personified محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت بحیثیت رحمت

غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام

17 فروری 2017

مسلمان اپنے نبی اکرم  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں انصاف اور بخشش کو نمایاں مقام حاصل ہے، جس کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ آپ نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ اس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مثالی کردار نے بہت سارے سنگ دلوں کا پہلو نرم کیا جس نے عرب کے کفار و مشرکین کو اسلام کو گلے لگانے اورمسلمانوں کی طرف  متوجہ کرنے میں  اہم کردار ادا کیا۔

ایک حدیث کے مطابق جب بھی کبھی قانونی قصاص کا کوئی مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں لایا جاتا تو آپ ہمیشہ اپنی امت کو صبر کرنے اور مجرم کو معاف کر دینے کی تلقین کرتے تھے ۔

انس ابن مالک سے مروی ہے کہ: "میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ جب بھی کسی قانونی قصاص کا کوئی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں لایا جاتا تو آپ ہمیشہ مجرم کو معاف کر دینے کی تلقین کرتے۔ ( سنن ابو داؤد 4497، ماخذ: صحیح)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، "جو شخص تکلیف اٹھاتا ہے اور (اس کے  ذمہ دار شخص کو) معاف کر دیتا ہے ، تو الله اس کے درجات بلند کر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔" (سنن الترمذی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اپنے لوگوں کی طرح بے دماغ مت بنو، اور یہ نہ کہو کہ اگر لوگ میرے ساتھ بھلائی کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ بھلائی کروں گا اور اگر وہ میرے ساتھ برائی کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ برا برتاؤ کروں گا۔ بلکہ اگر لوگ تمہارے ساتھ بھلائی کریں تو ان کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کریں تو بھی ان کے ساتھ بلائی کرنے کی عادت ڈالو۔ "( سنن الترمذی)

عقبہ  ابن عامر بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور میں نے آپ ﷺ کا دست مبارک تھام کر یہ پوچھا ، اے اللہ کے رسول مجھے نیک اعمال کے بارے میں بتائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،" اے عقبہ جو تمہارے ساتھ قطع تعلق کرے اس کے ساتھ مصالحت کرو ، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس سے دور ہو جاؤ۔

ایک دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، " جو تمہارے ساتھ قطع تعلق کرے اس کے ساتھ رشتے استوار کرو ، جو تمیں مایوس کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو ، جو کوئی میں رزق میں اضافہ اور اپنی زندگی میں برکت چاہتا ہے [اور خوفناک موت سے نجات چاہتا ہے]، وہ اللہ سے ڈرے اور اپنے رشتہ داروں کی مدد اور ان پر مہربانی کرے"۔

اللہ تعالی فرماتا ہے: "اور ہم نے آپ کو بھیجا مگر ساری جہان کے لئے رحمت بنا کر۔" ( الانبیا 21:107)۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کی منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ ﷺ اپنے افعال و اقوال میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے  رحمت تھے۔ آپ ﷺ کی تمام تر جانفشانیاں صرف تمام انسانوں میں محبت، امن اور سکون تقسیم کرنے کے لئے تھیں۔

صحیح مسلم میں مندرج ایک روایت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں نے اپنے مظالم کی انتہا کر دی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان پر لعنت کرنے کے لئے آپ ﷺ سے درخواست کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، "میں لوگوں پر لعنت کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔" آپ ﷺ کے مخالفین نے آپ ﷺ پر اور آپ کے صحابہ پر اپنے وحشیانہ مظالم کا سلسلہ جاری رکھا لیکن آپ ﷺ نے ہمیشہ ان کے لئے دعا ہی کی۔

ایک مرتبہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے اس راستے سے گزر رہے تھے جہاں حجاز کے امراء موسم گرما میں موج مستی کر کے وقت گزارا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے اتنی بری طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے کہ آپ کا سارا جسم اقدس لہو لہان ہو گیا۔ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دینے کی کوشش کی تو انہوں نے آپ کی حکمت بھری باتیں سننے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گلی کے بدمعاش بچوں کو لگا دیا جنہوں نے غروب آفتاب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا۔ اس کے باوجود بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت نہیں بھیجی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر سے لیکر پاؤں تک لہو لہان ہو کر درد سے مکمل طور پر چور ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا ہی فرمایا: " اے میرے رب میری قوم کو سچے راستے کی ہدایت نصیب فرما اس لیے کہ وہ حقیقت سے ناواقف ہیں"۔

ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایاکہ "ایک سچا مومن وہ ہے کہ جس سے دوسرے لوگ خود کو محفوظ محسوس کریں اور جو نفرت کا بدلہ محبت سے دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت کر دی کہ ہمیں صرف ان لوگوں کے ساتھ ہی اچھا سلوک نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ صرف محبت ہی کا بدلہ محبت سے نہیں دینا چاہیے بلکہ ہمیں ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے جو ہو سکتا ہے کہ ہم سے نفرت کرتے ہوں۔

ایک اور حدیث کے مطابق ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس سے اس کے پڑوسی محفوظ نہیں ہیں"۔

اس حدیث سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہمیں کسی کو تکلیف دیے بغیر دوسروں کے ساتھ پھولوں کی طرح نرمی کے ساتھ رہنا چاہیے کانٹوں کی طرح سختی کے ساتھ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ذاتی طور پر اپنے ساتھ کیے گئے کسی بھی غلط کام کا اپنی طرف سے کبھی کوئی انتقام نہیں لیا۔ جب خدا کے احکام کی خلاف ورزی کی جاتی تھی تبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ کے لیے سزا کا نفاذ کرتے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تقریر میں کبھی بھی نازیبا، ناشائستہ یا فحش الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وہ گلیوں میں آواز بلند کرتے تھے، اور وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ وہ بخشے اور معاف فرما دیا کرتے تھے۔ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹا، ان پر طنز کیا، مذاق اڑایا، انہیں زد و کوب کیا اور ان کے ساتھ زیادتی کی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے مارنے کی کوشش کی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت فرما گئے تو انہوں نے ان کے خلاف جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کے باوجود جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے دس ہزار مسلمانوں کی ایک فوج کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے کسی سے بھی بدلہ نہیں لیا۔ انہوں نے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے خطرناک دشمن ابو سفیان بھی معاف کر دیا گیا تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلاف بہت ساری جنگیں لڑیں تھیں، اور اسے بھی معاف کر دیا گیا تھا جس نے ابو سفیان کے گھر میں پناہ لی۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں کسی جگہ اپنے صحابہ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ اسی دوران ایک جنازہ وہاں سے گزرا۔ اس کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی نے بتایا کہ یہ جنازہ ایک یہودی کا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا "کیا وہ انسان نہیں تھا؟"

ایک بوڑھی عورت کے گھر کے پاس سے جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم گزرا کرتے تھے تو اس عورت کی عادت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑے ڈالتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد جانے کے لیے روزانہ اس کے گھر کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہ بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکتی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ یا تکلیف کا اظہار کیے بغیر خاموشی کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے۔ یہ ایک روز مرہ کا معمول تھا۔

ایک مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بوڑھی عورت کے گھر کے قریب سے گزر رہے تھے تو وہ عورت کوڑا پھینکنے کے لیے وہاں موجود نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور اس کے پڑوسی سے اس کی خیریت دریاف کی۔ پڑوسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ عورت بیمار ہے اور بستر پر پڑی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر گئے اور شائستگی کے ساتھ اس سے اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں داخل ہوئے تو اس بوڑھی عورت نے سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی ایسی حالت میں اس بدلہ لینے کے لئے آئے ہیں کہ جب وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ میں تم سے بدلہ لینے کے لیے نہیں آیا ہوں، بلکہ میں تمہاری عیادت کرنے اور تمہاری ضروریات کو پوری کرنے آیا ہوں، اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے تو ایک مسلمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس کی عیادت کے لیے جائے اور ضرورت پڑے تو اس کی مدد کرے۔ وہ بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محبت اور رحم دلی سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ اور آپ ﷺ کے اس مثالی رویہ سے وہ یہ بات سمجھ گئی کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسلام ایک سچا دین ہے۔ اور اس نے کلمہ شہادت پرھ اسلام قبول کر لیا۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں مذہب ، رنگ اور نسل سے قطع نظر امن ، رحمت ، عفو و درگزر اور انصاف کا ایک مثالی نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اس مثال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ احسان اور عفو و درگزر پر قائم رہتے ہوئے نامساعد حالات میں صبر کا مظاہرہ کرنا نبی ﷺ کی سنت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آپ ﷺ کی یہ پیاری سنت آج ہماری زندگی سے غائب ہو چکی ہے- نہ صرف یہ کہ یہ سنت ہماری زندگیوں سے غائب ہو چکی ہے بلکہ ہم میں سے کچھ لوگ اس سنت کے خلاف بھی کام کر رہے ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-personalities/the-prophet-muhammad-mercy-personified/d/110111

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-prophet-muhammad-mercy-personified/d/115314

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..