غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین اور تعلیمات انسانیت کو عطا کیں وہ مکمل طور پر رحمت و شفقت اور محبت و تکریم پر مبنی ہیں۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد بار آپ کی رحمت کا تذکرہ فرمایا ہے ۔حسب ذیل ہم قرآن کریم کی بعض آیات طیبہ اور ان کی مقبول تفاسیر پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جان رحمت ہیں۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
۱۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
ترجمہ ‘‘اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے’’(۲۱:۱۰۷)
صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی متوفی ۱۳۶۷ ھ‘‘ رحمۃ للعالمین’’ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہان کے لیے رحمت ہیں)کوئی ہو جن ہو یا انس مومن ہو یا کافر ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضور کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والوں کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لائے۔ مومن کے لئے تو آپ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت تاخیر عذاب ہوئی اور خسف، مسخ اور استیصال کے عذاب اٹھا دئے گئے۔ تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمت مطلقہ تامہ کاملہ عامہ شاملہ جامعہ محیطہ پر جمیع مقیدات رحمت غیبیہ و شہادت علمیہ و عینیہ و وجودیہ و شہودیہ و سابقہ و لاحقہ و غیر ذالک تمام جہانوں کے لئے عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔ (دیکھئے حاشیہ بر کنزالایمان للامام احمد رضا ، ص ۵۳۱)
۲۔ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَo
ترجمہ : ‘‘تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم انکے لئے نرم دل ہوئے۔اور اگر تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ ضرور آپ کے گرد سے پریشان ہو جاتے’’۔ (سورہ آل عمران: ۱۵۹)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں: ‘‘اور آپ کے مزاج میں اس درجہ لطف و کرم اور رافت و رحمت ہوئی کہ روز احد غضب نہ فرمایا’’ (دیکھئے حاشیہ بر کنز الایمان ص ۱۰۴، سورہ آل عمران: ۱۵۹)
۳ ۔ وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ط وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَo
‘‘اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب! تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں’’ (الأنفال، 8 :33)
صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:‘‘کیونکہ رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہو اور سنت الہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا جس سے سب کے سب ہلاک ہو جائیں اور کوئی نہ بچے۔ایک جماعت مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو استغفار کیا کرتے تھے تو ‘‘وماکان اللہ معذبھم ’’نازل ہوا جس میں بتایا گیا کہ جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا۔پھر جب وہ حضرات بھی مدینہ طیبہ کو روانہ ہو گئے تو اللہ تعالی نے فتح مکہ کا اذن دیا اور یہ عذاب موعود آگیا جسکی نسبت اس آیت میں فرمایا ‘‘وما لھم الا یعذبھم اللہ’’۔محمد بن اسحاق نے کہا کہ ‘‘ماکان اللہ لیعذبھم’’ بھی کفار کا مقولہ ہے جو ان سے حکایۃ نقل کیا گیا ۔اللہ عز و جل نے انکی جہالت کا ذکر فرمایا کہ اس قدر احمق ہیں آپ ہی تو یہ کہتے ہیں کہ یا رب اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر نازل کر اور آپ ہی یہ کہتے ہیں کہ یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جب تک آپ ہیں عذاب نازل نہ ہوگا کیونکہ کوئی امت اپنے نبی کی موجودگی میں ہلاک نہیں کی جاتی کس قدر معارض اقوال ہیں’’۔۔۔۔اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔ (دیکھئے حاشیہ بر کنز الایمان زیر آیت الأنفال، 8 :33)
۴ ۔ لَقَدْ جَأءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُفٌ رَّحِيْمٌ o
‘‘بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بڑے شفیق مہربان’’ (التّوبة، 9 :128)
اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اور رحیم دو ناموں سے ذکر کیا گیا ہے ۔تفسیر مدارک للنسفی میں ہے کہ اللہ تعالی نے اور کسی کے لیے اس کے ناموں میں دو نام ایک جگہ اکٹھے نہیں ذکر فرمایا صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رؤف رحیم (شفیق مہربان) دو نام جمع کرکے ذکر فرمایا ۔(تفسیر مدارک مدارک التنزیل و حقائق التاویل للنسفی ج ۲ ص ۵۰، زیر آیت مذکورہ ، ناشرمکتبۃ العلم اردو بازار )
۵۔ فَلَوْلَا فَضْلُ اﷲِ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَتُه لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَo
‘‘پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقینا تباہ ہو جاتےo’’ (البقرة، 2 :64)
اس آیت کریمہ میں فضل و رحمت سے یا توفیق توبہ مراد ہے یا تاخیر عذاب۔ (حاشیہ بر کنز الایمان ، مدارک وغیرہ ،زیر آیت مذکورہ)۔ تاخیر عذاب کا سبب خود مصطفی جان رحمت ہیں جیساکہ اوپر گذرا۔
۶ ۔ يٰـايُهَا النَّاسُ قَدْ جَأءَ تْکُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَأءٌ لِّمَا فِيْ الصُّدُوْرِ وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَo قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَo
‘‘ اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے۔ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے’’ (يونس، 10 :57-58)
صدر الافاضل لکھتے ہیں : ‘‘اس آیت میں قرآن کریم کے آنے اور اس کے موعظت و شفا و ہدایت و رحمت ہونے کا بیان ہے کہ یہ کتاب ان فوائد عظیمہ کی جامع ہے۔موعظت کے معنی ہیں وہ چیز جو انسان کو مرغوب کی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ۔خلیل نے کہا کہ موعظت نیکی کی نصیحت کرنا ہے جس سے دل میں نرمی پیدا ہو ۔شفا سے مراد یہ ہے کہ قرآن پاک قلبی امراض کو دور کرتا ہے ۔(کیونکہ) دل کے امراض اخلاق ذمیمہ عقائد فاسدہ اور جہالت مہلکہ ہیں ، قرآن پاک ان تمام امراض کو دور کرتا ہے ۔قرآن کریم کی صفت میں ہدایت بھی فرمایا کیونکہ وہ گمراہی سے بچاتا اور راہ حق دکھاتا ہے اور ایمان والوں کے لیے رحمت اس لیے فرمایا کہ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔حضرت ابن عباس و حسن و قتادہ نے کہا کہ اللہ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے ۔ایک قول یہ ہے کہ فضل اللہ سے قرآن اور رحمت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مراد ہیں۔ ( حاشیہ بر کنز الایمان ص ۳۱۱ ، زیر آیت مذکورہ)
۷ ۔ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًاo
‘‘(اے حبیبِ مکرّم!) تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں غم سے’’ (الکهف، 18 :6)
شیخ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ‘‘فلعلک باخع نفسک (شاید کہ اے محبوب آپ اپنی جان کو ہلاک کر دیں گے ) اپنی جان کو قتل کرنے والے ہیں ۔علی آثارھم (ان کے پیچھے) کفار کے پیچھے ۔اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے منہ موڑنے ، ایمان نہ لانے کو اور ان کے اعراض پر جو آپ پر غم طاری ہوتا ہے ایک ایسے آدمی سے تشبیہ دی جس کے دوست اس سے جدا ہوں اور وہ ان کے نشانہائے قدم پر حسرت و افسوس سے اپنے آپ کو گرا رہا ہو اور ان پر غم کی شدت اور جدائی پر افسوس میں ہلاکت کے قریب کردے’’ ۔(تفسیر مدارک للنسفی ج ۲ ص ۴۵۰ زیر آیت مذکورہ)۔
میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑی رحمت کفار کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دین و دنیا میں ان کی بھلائی کے لیے اس حد تک فکر مند ہیں کہ وہ اپنی جان کو بھی ہلاکت میں ڈالنے پر آمادہ ہو گئے ۔
۸۔ وَمِنْهُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَيْرٍ لَّکُمْ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
‘‘اور ان (منافقوں) میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو نبی (مکرّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان (کے کچے) ہیں۔ فرما دیجئے : تمہارے لیے بھلائی کے کان ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان (کی باتوں) پر یقین کرتے ہیں اور تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں، اور جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔’’ (التّوبة، 9 :61)
اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ منافقین اپنے جلسوں میں سید عالم صلی اللہ وسلم کی شان میں ناشائستہ باتیں بکا کرتے تھے ان میں سے بعضوں نے کہا کہ اگر حضور کو خبر ہو گئی تو ہمارے حق میں اچھا نہ ہوگا ۔جلاس بن سوید منافق نے کہا ہم جو چاہیں کہیں حضور کے سامنے مکر جائیں گے اور قسم کھا لیں گے وہ تو کان میں ان سے جو کہ دیا جائے سن کر مان لیتے ہیں ۔اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور یہ فرمایا کہ اگر وہ سننے والے بھی ہیں تو خیر اور صلاح کے سننے اور ماننے والے ہیں شر اور فساد کے نہیں ۔(دیکھئے حاشیہ بر کنز الایمان زیر آیت مذکورہ)
۹. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاo وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًاo
‘‘اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے دینے والا ا ٓ فتاب o اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہےo’’ (الأحزاب، 33 :45-47)
۱۰ ۔ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللہ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُون
‘‘تو تمہاری جان ان پر حسرتوں میں نہ جائے اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔’’ (فاطر، 35 :8)
وہ لوگ جو ایمان نہ لائے او رحق کو قبول کرنے سے محروم رہے ان کے متعلق اللہ رب العزت اپنے حبیب کو منع فرما رہا ہے کہ وہ ان لوگوں کے کفر و ہلاکت پر غم نہ فرمائیں ۔ ۔(دیکھئے حاشیہ بر کنز الایمان زیر آیت مذکورہ)
۱۱. وَ اَطِيْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
‘‘ اور اللہ و رسول کے فرمانبردار رہو اس امید پر کہ تم رحم کیے جاؤo’’ (آل عمران، 3 :132)
اگر تم سے بڑے سے بڑا گناہ ہو جائے ، اس کے بعد تمہیں پچھتاوا ہو اور سچے دل سے توبہ کر لو پھر اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن جاؤ تو شاید تم پر رحم ہو جائے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت الہی ہے اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اللہ کا فرمانبردار نہیں ہو سکتا ۔
۱۲. الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونََo
''وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع کرے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جو ان پر تھے اتا رے گا، تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے'' (الأعراف، 7 :157)
۱۳۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہ تَوَّابًا رَّحِيمًاo
‘‘اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیںo’’ (النّساء، 4 :64)
۱۴ . وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَo
‘‘اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتےo’’ (سبا، 34 :28)
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عامہ ہے تمام انسان اس کے احاطہ میں ہیں گورے ہوں یا کالے عربی ہو یا عجمی ، پہلے ہوں یا پچھلے سب کے لیے آپ رسول ہیں اور وہ سب آپ کے امتی ۔(حاشیہ بر کنز الایمان ، زیر آیت مذکورہ )
۱۵ ۔ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo
‘‘بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولوo’’ (الفتح، 48 :8.9)
۱۶. فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْo وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْo وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo
‘‘سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo اور (اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo’’ (الضحیٰ، 93 :9.11)
دور جاہلیت میں یتیموں کو دبایا جاتا تھا،ان پر زیادتی کی جاتی تھی ۔حدیث شریف میں ہے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کے گھروں میں وہ بہت اچھا گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور وہ بہت برا گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا برتاؤ کیا جاتا ہے ۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ یتیموں کو کچھ دے دو یا انہیں حسن اخلاق اور نرمی کے ساتھ عذر کر دو ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سائل سے طالب علم مراد ہے اس کا اکرام کرنا چاہیے اور جو اس کی حاجت ہو اس کو پورا کرنا اور اس کے ساتھ ترش روئی و بد خلقی نہ کرنا چاہئے ۔یہاں نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائیں اور وہ بھی جن کا حضور سے وعدہ فرمایا ۔نعمتوں کے ذکر کا اس لیے حکم فرمایا کہ نعمت کا بیان کرنا شکر گزاری ہے۔ (حاشیہ بر کنز الایمان ، زیر آیت مذکورہ )
۱۷. وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَo
‘‘اور آپ اپنا بازوئے (رحمت و شفقت) ان مومنوں کے لیے بچھا دیجئے جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہےo’’ (الشعراء، 26 :215)
۱۸ . لاَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَo
‘‘ اپنی آنکھ اٹھاکر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے ان کے جوڑوں کو برتنے کو دی اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ اور مسلمانوں کو اپنی رحمت کے پروں میں لے لوo’’ (الحجر، 15 :88)
۱۹. وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَوَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo
‘‘اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ان میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں o اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول، ہمیں اللہ ہی کی طرف رغبت ہے o ’’ (التّوبة، 9 :58. 59)
۲۰. وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
‘‘اور نماز برپا رکھو اور زکوٰة دو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اس امید پر کہ تم پر رحم ہو ’’ (النور، 24 :56)
۲۱. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًاo
‘‘اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا، اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے o’’ (الأحزاب، 33 :53)
۲۲. يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍo
‘‘(یہ منافقین) ’’اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا اور بیشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہوگئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے، اور اگر منہ پھیریں تو اللہ انہیں سخت عذاب کرے گا دنیا اور آخرت میں، اور زمین میں کوئی نہ ان کا حمایتی ہوگا اور نہ مددگار’’ (التّوبة، 9 :74)
۲۳. النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُوْلُواْ الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًاo
‘‘یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ والے اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں بہ نسبت اور مسلمانوں اور مہاجروں کے مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرو یہ کتاب میں لکھا ہے’’ (الأحزاب، 33 :6)
شیخ ابو عبدا للہ محمد بن احمد بن ابو بکر قرطبی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ‘‘ابن عطیہ نے کہا : علما عارفین میں سے ایک نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نفسوں سے زیادہ خیر خواہ ہیں کیونکہ ان کے نفوس انہیں ہلاکت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نجات کی طرف بلاتے ہیں ۔ اسی امر کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کرتا ہے:‘‘انا آخذ بحجزکم عن النار وانتم تقحمون فیھا تقحم الفراش’’ ترجمہ : میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر جہنم سے بچا رہا ہوں جب کہ تم اس یوں داخل ہونا چاہتے ہو جس طرح پتنگ آگ میں گرتا ہے ۔ میں (صاحب تفسیر ) کہتا ہوں : اس آیت کے معنی اور تفسیر میں یہ اچھا قول ہے‘‘۔۔۔۔۔پھر مزید لکھتے ہیں۔
‘‘ایک قول یہ کیا گیا ہے : اولی بھم سے مراد ہے جب آپ کسی چیز کا حکم دیں اور نفس کسی اور چیز کی طرف دعوت دے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اطاعت کے زیادہ لائق ہے’’۔(تفسیر قرطبی ج ۷ ص ۵۰۸ زیر آیت الاحزاب ، ۶:۳۳)
صدر الافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:‘‘دنیا و دین کے تمام امور میں اور نبی کا حکم ان پر نافذ اور نبی کی طاعت واجب اور نبی کے حکم کے مقابل نفس کی خواہش واجب الترک یا یہ معنی ہیں کہ نبی مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ رافت و رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اور نافع تر ہیں ۔’’(حاشیہ بر کنز الایمان ، زیر آیت الاحزاب ، ۶:۳۳)
واللہ اعلم بالصواب
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism