غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
26 فروری 2018
پہلے حصہ میں ہم نے ان دو آیات 2:190 اور 22:39 کے تعلق سے متنازع فیہ بیانات کا ذکر کیا کہ ان دونوں آیتوں میں سے کون سی آیت نزول کے اعتبار سے پہلی ہے اور کس آیت میں جنگ کی اجازت پہلے ملی۔ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نزول کے اعتبار سے جنگ کی اجازت میں نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت سورہ بقرہ کی ۲:۱۹۰ مانی جاتی ہے اور یہی قول راجح بھی ہے؛ جبکہ علماء کا ایک دوسرا طبقہ اس حوالے سے مختلف رائے رکھتا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ جنگ کی اجازت میں نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت 22:39 ہے۔ ہم نے ان دونوں متضاد بیانات کے درمیان تطبیق پیدا کرنے کے لئے چند ممکنہ وجوہات بھی پیش کئے تھے۔ اب اس حصہ میں ہم اس آیت 22:39کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں جسے اضافی طور پر جنگ کی اجازت میں نازل ہونے والی آیت شمار کیا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے،
"پروانگی (اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے(22:39)۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے، اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے۔’’(22:40)
اس آیت 22:39 سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی مارنا یا اس کی جان لینا قطعاً حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے قبطی کو غصے میں ایک ہاتھ لگایا جس میں اس کی جان چلی گئی تو خود انہوں نے اسے "شیطانی کام" قرار دیا۔ انہوں نے ایسا اس لئے کہا کہ انہیں اللہ کی طرف سے کافروں کے ساتھ لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ ( تفسیر روح بیان 22:39)۔ آیت 22:39 کا مطلب یہ ہے کہ دفاع میں جنگ کی اجازت انہیں دی گئی تھی جو مظلوم تھے اور جنہیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ "صرف اس لئے کہ انہوں نے کہا کہ:" ہمارا رب اللہ ہے"۔
اس آیت (22:39) کی شان نزول بیان کرتے ہوئے مفتی نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں،
کفار مکہ اصحاب رسول ﷺکو روز مرہ ہاتھ اور زبان سے شدید ایذائیں دیتے اور آزار پہنچاتے رہتے تھے اور صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے، کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے یا کسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے روز مرہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہ اقدس میں پہنچتی تھیں اور صحابہ کرام کفار کے مظالم کی حضور کے دربار میں فریادیں کرتے حضور یہ فرما دیا کرتے کہ صبر کرو مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ جب حضور نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہی پہلی آیت ہے جس میں کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان علی کنزالایمان-22:39)
اس آیت میں دفاع میں لڑنے کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو عطا کی گئی تھی، لیکن سب سے پہلے جب کفار عرب کی جانب سے ان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے توں صبر کا حکم دیا گیا تھا۔ اس آیت 22:39کی تفسیر کرتے ہوئے ابن زید نے کہا، "مشرکین اور کفار کو معاف کرنے کے حکم کے دس سال کے بعد یہ آیت 22:39 دفاع میں جنگ کی اجازت کے ساتھ نازل ہوئی (جامع البیان 19100/ تبیان القرآن۔ ج7، ص۔ 763)
علامہ پير کرم شاہ ازہری نے آیت 22:39 کی تفسیر میں لکھا ہے،
حضور نبی کریم ﷺ نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر جب مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دی تو ان کی آتش غضب بھڑک اٹھی ۔ مخالفت کا طوفان برپا ہو گیا۔ وہی زبانیں جو صادق و امین کہتے نہ تھکتی تھیں اب شاعر، مجنوں اور مفتری جیسے ناروا الزام لگانے میں بیباک ہو گئیں۔ جو شخص اسلام قبول کر لیتا اس پر بھی مظالم کی انتہا کر دی جاتی۔ صرف بلا ل کو ہی دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا نہیں جاتا تھا۔ صرف یاسر اور ان کی اہلیہ سمیہ کو ہی برچھے مار مار کر گھائل نہیں کیا جاتا تھا۔ ان کے جور و جفا کے تیر فقط نادار اور بے یار و مددگار لوگوں کے سینوں کو ہی چھلنی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ معزز اور متمول خاندانوں کے چشم و چراغ بھی اگر اسلام قبول کر لیتے تو وہ بھی ان کے ظلم و تعدی سے محفوظ نہ رہتے۔ حضرت عثمان کو آپ کا چچا کچے چمڑے میں کس کر باندھ دیتا اور چلچلاتی دھوپ میں پھینک دیتا ۔ دھوپ ، پسینہ اور تعفن کے مارے جان نکلنے لگتی۔ حضرت ابو بکر کو ایک دفعہ اتنی زد و کوب کی گئی کہ آپ لہو لہان ہو گئے اور پہروں بے ہوش پڑے رہے۔
جسمانی اذیت رسانیوں کے علاوہ بات بات پر مذاق ، ہر آیت پر اعتراض، ہر حکم شریعت پر آواز کسے جاتے۔ غرضیکہ کفر کے ترکش جور و جفا میں جتنے تیر تھے سب چلائے گئے۔ باطل کے اسلحہ خانہ میں جس جس قسم کا اسلحہ تھا سب ہی آزمایا گیا۔ ان دل آزاریوں، ستم شعاریوں، اور مجروح دلوں پر نمک پاشیوں کا سلسلہ سال دو سال نہیں بلکہ پورے تیرہ سال شدت کے ساتھ جاری رہا۔ اس کے باوجود مظلوموں کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ انہیں ان کے رب کا یہ حکم تھا کہ صبر اور ضبط سے کام لیں اور کسی طرح کی جوابی یا انتقامی کاروائی نہ کریں۔ نبوت کے تیرہویں سال ہجرت کی اجازت ملی۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام مکہ سے ڈھائی تین سو میل دور یثرب نامی ایک بستی میں جمع ہو گئے۔ لیکن کفار مکہ کی آتش غضب اب بھی سرد نہ ہوئی۔ یہاں بھی مسلمانوں کو چین کا سانس نہ لینے دیا۔ دس دس بیس بیس کافروں کے جتھے آتے۔ مکہ کی چراگاہوں میں اگر کسی مسلمان کے مویشی چر رہے ہوتے تو انہیں لے اڑتے۔ اکا دکا مسلمان مل جاتا تو اسے بھی قتل کرنے سے باز نہ آتے۔
چودہ پندرہ سال تک صبر و ضبط سے مظالم پرداشت کرنے والوں کو آج اجازت دی جا رہی ہے کہ تم اپنی مدافعت کے لئے ہتھیار اٹھا سکتے ہو۔ کفر کے ظل کی انتہا ہو گئی ہے۔ باطل کی جفاکشیاں حد سے بڑھ گئی ہیں۔ اب اٹھو ان سر کشوں اور مئے پندار سے مدہوش کافروں کو بتا دو کہ اسلام کا چراغ اس لئے روشن نہیں ہوا کہ تم پھونک مار کر اسے بجھا دو۔ حق کا پرچم اس لئے بلند نہیں ہو اکہ تم بڑھ کر اسے گرا دو۔ یہ چراغ اس وقت تک فروزاں رہے گا جب تک چرخ نیلوفری پر مہر و ماہ چمک رہے ہیں۔ (ضیاء القرآن ،جلد 3؛ ص ۔218)
مذکورہ بالا قرآنی آیت 22:39 کی شان نزول اور اس کے سیاق و سباق کو جاننے کے بعد اصل مسئلہ پر گفتگو کرنے کے لئے ہمیں سلسلہ کلام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جدید دہشت گرد تنظیمیں غیر شرعی معاملات کو نافذ کرنے کے لئے قرآنی آیات اور احادیث کا استعمال کر رہی ہیں، جوکہ حرام کاموں کو نافذ کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری نظروں میں ایسی متعدد قرآنی آیات اور احادیث ہیں جن میں جنگ سے متعلق حالات بیان کئے گئے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اگر ہم تمام قرآنی آیات اور احادیث کو ایک ساتھ جمع کر لیں اور ان سے اسلام کے مقصد کو سمجھنے کے لئے ایک درست اصولی طریقہ کار اپنا لیں تو اللہ کے فضل سے ہم اسی نتیجے پر آ کر رکیں گے کہ اسلام کا مقصد ظلم کا خاتمہ اور امن وانصاف کا قیام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی ملک یا تنظیم کو ظلم و تعدی کے خاتمے کے نام پر ظلم کا مظاہرہ کرنا چاہئے، یا کسی ملک کے شہریوں کو حفاظت فراہم کرنے کے نام پر معصوم شہریوں کا قتل کردیا جائے۔ہرگز نہیں، اسلام اس طرح کے کاموں کو واضح طور پر ممنوع قرار دیتا ہے۔
مندرجہ بالا آیت (22:39) سے یہ بات واضح ہو چکی کہ جنگ کی اجازت صرف ان لوگوں کو دی گئی تھی جو مظلوم تھے اور جنہیں ان کے گھروں سے صرف اس وجہ سے نکال دیا گیا تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ، "ہمارا رب اللہ ہے" اور اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں اور کفار عرب کے درمیان جنگ ہوئی۔ یہ جنگیں مسلمانوں پر کفار کے مظالم کا نتیجہ تھیں۔ جب ظلم و عدان کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو گئی، اور جب وہ اس دوراہے پر پہنچ گئے کہ وہ یاتو امن کے ساتھ رہیں یا جنگیں لڑیں، تو انہوں نے جنگ پر امن معاہدے کو ترجیح دی۔ مکہ کی فتح کے بعد غیر مسلموں کو جو غیر معمولی حقوق دئے گئے وہ مذہب کی آزادی، زندگی، دولت اور عزت کی حفاظت کے زمرے میں آتی ہے۔ جب تک مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان امن معاہدے قائم رہے وہ امن کے ساتھ رہتے تھے۔ آج کے تناظر میں ہمیں اسلام پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ لہذا، انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں میں اپنے اسلام پر عمل کریں، اور دوسرے شہریوں کے ساتھ پر امن طریقے پر زندگی بسر کریں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں، جہاں کہیں بھی انہیں قانون کی کسی بھی شکل میں امن معاہدے میسر ہوں انہیں ان امن معاہدوں کی خلاف ورزی کرنا منع ہے۔ یہ واضح طور پر احادیث اور فقہ کی متعدد کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کسی پرامن شہری کو قتل کر دیا اگر چہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، تو، "وہ جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا اگر چہ اس کی خوشبو چالیس سال (سفر) کی دوری پر ہی سونگھی جا سکتی ہے"۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے انسان کو آخرت میں سزا دی جائے گی۔ مضمون کے پہلے حصے میں، ہم نے اس قرآنی آیت کا حوالہ پیش کیا تھا، "اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے"(17:34)۔ لفظ 'عہد' میں امن کے معاہدے بھی شامل ہیں جس کی خلاف ورزی کرنے والے سے سوال کیا جائے گا۔
مجموعی طور پر اس مضمون سے دہشت گرد تنظیموں کو سبق ملتا ہے کہ وہ مندرجہ بالا آیت (22:39)، کی بنیاد پر دہشت گردی کے کسی بھی فعل کو انجام دینے کے لئے کسی بھی قسم کا جواز پیش نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے کسی بھی ملک کے مسلمانوں یا غیر مسلموں کو قتل کرنے کا جواز تلاش کرسکتے ہیں۔ اسلام کے حقیقی مقصد کو سمجھے بغیر، اگر وہ مسلسل دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہیں اور معصوم شہریوں کے قتل کو جاری رکھیں تو ان کا یہ عمل اسلامی شریتج پر افترا اور جھوٹ باندھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ اس طرح وہ ان جھوٹ باندھنے والوں کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے جن کا ذکر اللہ کے اس کلام میں ہے "اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔" (6:93)
URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-ideology/ghulam-ghaus-siddiqi,-new-age-islam/the-enlightening-commentary-on-the-war-related-quranic-verses--part-2/d/114418
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-enlightening-commentary-war-related-part-2/d/114771
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism