غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
راقم الحروف اپنے قارئین کی خدمت میں حضرت استاذ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کے ‘‘ رسالہ قشیریہ’’ کے حوالے سے معرفت الہی اور بزرگوں کے اقوال کو حسب ضرورت وضاحت کے ساتھ سپرد قلم کر رہا ہے ،۔توجہ کے ساتھ مطالعہ فرمائیے!
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
‘‘وما قدروا اللہ حق قدرہ’’ ترجمہ: ‘‘ان لوگوں (یہود) نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہئے تھی’’ (سورہ الانعام آیت ۹۱)
تفاسیر میں اس کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ عز و جل کو کما حقہ نہ پہچانا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : إِنَّ دِعَامَةَ الْبَيْتِ أَسَاسُهُ، وَدِعَامَةَ الدِّينِ الْمَعْرِفَةُ بِاللَّهِ تَعَالَى وَالْيَقِينُ وَالْعَقْلُ الْقَامِعُ . فَقُلْتُ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , مَا الْعَقْلُ الْقَامِعُ ؟ قَالَ : الْكَفُّ عَنْ مَعَاصِي اللَّهِ وَالْحِرْصُ عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .
ترجمہ: مکان اپنی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور دین کا قیام اللہ عز و جل کی معرفت، یقین اور برائیوں سے روکنے والی عقل پر ہوتا ہے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، عقل قامع کیا ہے؟ فرمایا: گناہوں سے رکنا اور اللہ عزوجل کی اطاعت کی حرص’’ (رسالہ قشیریہ، باب معرفۃ اللہ)
حضرت استاذ ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘علما کے نزدیک ‘معرفت’ علم کو کہتے ہیں۔پس ہر علم معرفت ہے اور ہر معرفت علم ہے اور ہر عالم باللہ عارف ہے اور ہر عارف ، عالم ہے ۔لیکن صوفیائے کرام کے نزدیک معرفت اس شخص کی صفت ہے جو اللہ رب العزت کی ذات و صفات کے ساتھ اس کی پہچان رکھتا ہے ۔پھر اللہ تعالی کے ساتھ اپنے معاملات میں سچا ہوتا ہے ، پھر اپنے برے اخلاق اور ان کی آفات کو دور کرتا ہے ، پھر اس کے دروازے پر طویل عرصہ کھڑا رہتا ہے اور اپنے دل سے اسی دروازے پر معتکف رہتا ہے ۔اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی اچھی توبہ کا مستحق ہو جاتا ہے اور وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالی کے ساتھ سچائی کا معاملہ کرتا ہے۔ اس کے دل کے خیالات ختم ہو جاتے ہیں ۔جو قلبی خیالات اسے غیر اللہ کی طرف بلائے وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔جب وہ مخلوق سے اجنبی اور اپنی آفات سے بری ہو جاتا ہے اور کسی اور چیز کو دیکھنے سے پاک ہو جاتا ہے اور وہ راز میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کرتا ہے اور ہر لمحہ اللہ تعالی کی طرف اس کا رجوع صحیح ہو جاتا ہے ، اللہ تعالی اس سے یوں باتیں کرے کہ وہ تمام تقدیروں کے ردو بدل جو اللہ تعالی جاری کرتا ہے وہ اسے بتا دے تو اس وقت اس کو ‘عارف’ کہا جاتا ہے اور اس کی حالت کو ‘معرفت’ کہتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ جس قدر وہ اپنے نفس سے اجنبی رہتا ہے اسی قدر اس کو اپنےرب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ (رسالہ قشیریہ ، باب معرفۃ اللہ)
حضرت ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ معرفت کے بارے میں بزرگوں کے اقوال کے حوالے سے لکھتے ہیں:
مشائخ عظام نے عظام نے معرفت کے سلسلے میں گفتگو کی ہے اور ہر ایک نے وہ بات کی جو اسے پیش آئی اور اس نے اس حالت کی طرف اشارہ کیا جو اس نے اپنے وقت میں حاصل کی ۔
استاذ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ فرماتے تھے: معرفت باللہ کی علامات میں سے یہ بات بھی ہےکہ اللہ تعالی کی ہیبت پائی جائے ، پس جس کو معرفت زیادہ حاصل ہوگی اس کو اسی قدر زیادہ ہیبت بھی ہوگی۔
استاذ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ فرمایا کرتے تھے : معرفت سے دل کو سکون ملتا ہے جس طرح علم سکون کا باعث ہے پس جس شخص میں ‘معرفت’ ہوگی اس کو سکون بھی زیادہ حاصل ہوگا۔
حضرت احمد بن محمد بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے تھے : عارف کا غیر اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔نہ محب شکوہ کرتا ہے نہ بندہ کسی قسم کا دعوی کرتا ہے نہ ڈر نے والے کو قرار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شخص کو اللہ تعالی سے فرار ہو سکتا ہے۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے معرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اس کا آغاز اللہ تعالی سے ہوتا ہے اور اس کے آخر کی کوئی انتہا نہیں ۔
حضرت ابو العباس دینوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب سے مجھے اللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوئی ہے میرے دل میں حق اور باطل کچھ بھی داخل نہیں ہوا ۔
حضرت استاذ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ نے جو بات کہی ہے اس میں کچھ اعتراض ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ صوفیائے کرام کے نزدیک معرفت یہ ہے جو بندے کو اپنے نفس سے غائب کر دے ۔پس جس طرح عقل ان تمام احوال میں جو اسے پیش آتے ہیں ، دل اور اس کی فکر وذکر کی طرف لوٹتی ہے تو عارف کا رجوع اللہ رب العزت کی طرف ہوتاہے ۔پس جب وہ صرف اپنے رب کے ساتھ مشغول ہوگا تو اپنے دل کی طرف نہیں لوٹے گااور جس کا دل ہی نہ ہو اس کے دل میں میں کوئی خیال کیسے آ سکتا ہے ؟اور ایک شخص اپنے دل کے ساتھ زندہ ہو اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ زندہ ہو تو ان دونوں میں فرق ہے۔
حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مخلوق کے احوال ہوتے ہیں لیکن عارف کا کوئی حال نہیں ہوتا کیونکہ اس کے نشانات مٹ چکے ہوتے ہیں ، اس کی اپنی حقیقت غیر کی حقیقت میں فنا ہو چکی ہوتی ہے اور اس کے اپنے آثار غیر کے آثار میں چھپ چکے ہوتے ہیں۔
حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب تک بندے میں اللہ تعالی کے ساتھ ’استغنا‘اور اس کی طرف معرفت محتاجی موجود ہو ، معرفت صحیح نہیں ہوتی ۔
حضرت استاذ ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ’’افتقار ‘‘ (محتاجی) اور ’’استغنا‘‘ (بے نیازی) بندے کے ہوش میں ہونے اور اس کے نشانات کے باقی رہنے کی علامات میں سے ہیں کیونکہ یہ دونوں بندے کی صفتیں ہیں اور عارف اس ذات میں محو (مٹ چکا ) ہوتا ہے جس کی اسے معرفت حاصل ہوتی ہے ۔پس یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے (یعنی استغنا اور افتقار کا ذکر کیسے درست ہو سکتا ہے)، کیونکہ وہ وجود الہی میں فنا ہونے یا اس کے حضور میں استغراق کی وجہ سے ، اگر وہ اپنے وجود کو نہیں پہچان سکتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اوصاف کے احساس کو کھو چکا ہے ۔
حضرت ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ جب بندہ فنا فی اللہ ہوتا ہے تو وہ باقی تمام باتیں بھول جاتا ہے ۔راقم الحروف (غلام غوث) یہاں مزید وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا مطلب حقیقت میں یہ ہے کہ بندہ جب اپنے رب کے ذکر میں فنا ہوتا ہے تو وہ اپنے افتقار و استغنا کے شعور کو بھول جا تا ہے۔لیکن عوام اور اہل ظاہر اس کا ہرگز یہ مطلب نہ نکالے کہ بندہ فنا فی اللہ کی حالت میں اپنے رب کا محتاج نہیں ،بلکہ فنا فی اللہ کی حالت میں بھی وہ اپنے رب کا محتاج ہوتا ہے، کیونکہ محتاج ہونااس بندہ کی صفت ہے مگر بات سمجھنے کی صرف یہ ہے کہ وہ فنا فی اللہ کی حالت میں وہ بندہ اپنی صفت ’محتاجی‘ کے احساس و شعور کو بھول جاتا ہے ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
اسی لیے حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے اللہ تعالی کو پہچان لیا وہ غیر اللہ سے منقطع ہو گیا ، نہیں نہیں بلکہ گونگا ہوگیا اور اس کی بینائی چلی گئی۔ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ کی معرفت حاصل کر لی اب اسے اپنے رب کے سوا کسی اور کی طرف رجوع کرنے کا راستہ نظر نہیں آتا ، اس کی زبان بھی صرف اور صرف اللہ رب العزت کی حمد و ثنا کے لیے خاص ہوگئی ۔اس معنی میں وہ بندہ غیر اللہ کے لئے اندھا اور بہرہ ہو گیا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (لا احصی ثناعلیک) ’’اے اللہ! میں پوری طرح تیری تعریف نہیں کر سکتا ‘‘۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الدعا )
رسالہ قشیریہ میں اس حدیث کے حوالہ سے یہ بات لکھی ہے کہ یہ ان لوگوں کی صفات ہیں جن کا مطمع نظر بہت بعید ہے ، لیکن جو لوگ اس حد سے کم درجہ میں ہیں انہوں نے معرفت میں بہت زیادہ کلام کیا ہے ۔
پھر حضرت استاذ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ معرفت الہی کے متعلق بزرگوں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :
حضرت احمد بن عاصم انطاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: (من کان باللہ اعرف کان لہ اخوف) یعنی ’’جو شخص اللہ تعالی کی معرفت سب سے زیادہ رکھتا ہے وہ اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے ‘‘۔
بعض صوفیائے کرام فرماتے ہیں: جو شخص اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہے وہ دنیا میں زیادہ رہنے سے تنگ آجاتا ہے اور دنیا کشادگی کے باوجود اس پر تنگ ہو جاتی ہے ۔
یہ بھی کہا گیا ہے : جو شخص اللہ تعالی کو پہچان لے اس کی زندگی پاک صاف ہو جاتی ہے ۔ہر چیز اس ڈرتی ہے ، مخلوق کا خوف اس سے چلا جاتا ہے اور وہ اللہ کے ساتھ مانوس ہو جاتا ہے ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہے اس سے دنیوی چیزوں کی رغبت چلی جاتی ہے اور اس کے لیے جدائی اور وصل کوئی چیز نہیں ہوتے ۔
کسی نے کہا ہے کہ معرفت ، حیا اور تعظیم کا موجب ہے ۔جس طرح توحید رضا اور تسلیم کا سبب ہوتا ہے۔
حضرت رویم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :عارف کے لیے ’’معرفت‘‘ آئینہ ہے جب وہ اس میں دیکھتا ہے تو اس میں اس کے مولی کی تجلی ہوتی ہے۔
(مصدر الاستفادۃ: رسالہ قشیریہ، حضرت ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ ، اردو ترجمہ ، علامہ صدیق ہزاروی، متکبہ اعلی حضرت دربار مارکیٹ لاہور، سن اشاعت مئی ۲۰۰۹ بمطابق جمادی الاول ۱۴۳۰ ھ)
(جاری)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-divine-gnosis-words-great-part-1/d/113300