New Age Islam
Fri Oct 11 2024, 10:45 PM

Urdu Section ( 23 Nov 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Divine Gnosis and The Words of Great Sufis- Concluding Part معرفت الہی اورصوفیائے عظام کے اقوال -آخری قسط

غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام

راقم الحروف اپنے قارئین کی خدمت میں  حضرت استاذ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کے ‘‘ رسالہ قشیریہ’’ کے حوالے سے معرفت الہی اور بزرگوں کے اقوال کو  حسب ضرورت وضاحت کے ساتھ سپرد قلم کر رہا  ہے ،۔توجہ کے ساتھ مطالعہ فرمائیے!

حضرت استاذ ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں: میدان معرفت میں ‘‘ارواح انبیا’’ نے گھوڑے دوڑائے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی ارواح سے سبقت کر گئی اور ’’روضۂ وصال ‘‘ تک جا پہنچی۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عارف کے ساتھ میل جول رکھنا اللہ تعالی کے ساتھ میل جول کی طرح ہے۔وہ تمہاری باتوں کو برداشت کرتا ہے اور حلم (بردباری) اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ اخلاق خداوندی سے موصوف ہوتا ہے ۔

حضرت یزدانیار رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ عارف کب حق سبحانہ تعالی کا مشاہدہ کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جب شاہد (اللہ تعالی) ظاہر ہو اور ’’شواہد‘‘ فنا ہو جائیں، حواس چلے جائیں اور اخلاص مضمحل (کمزور) ہوجائے۔

حضرت حسین بن منصور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب بندہ مقام معرفت تک پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف اچھے خیالات کا الہام کرتا ہے اور اس کے باطن کی حفاظت کرتا ہے تاکہ اس میں اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے خیالات (خواطر حق) کے سوا کوئی خیال نہ آئے۔

وہ مزید فرماتے ہیں کہ عارف کی علامت یہ ہے کہ : (ان یکون فارغا من الدنیا والآخرۃ) یعنی ’’وہ دنیا اور آخرت کی (محبت ) سے فارغ ہوتا ہے ۔‘‘

حضرت سہل بن عبد اللہ فرماتے ہیں : معرفت کی انتہا دو چیزیں ہیں: خوف اور حیرت ۔

حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص اللہ تعالی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوتا ہے وہ اس کے بارے میں سب سے زیادہ حیرت والا ہوتا ہے ۔

حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ معرفت کس طرح حاصل کی ؟ انہوں نے فرمایا : بھو کے پیٹ اور ننگے بدن کے ساتھ (یعنی صرف ضرورت کے مطابق لباس پہنا اور ضرورت کے مطابق کھانا کھایا۔وضاحت از علامہ صدیق ہزاروی )۔

حضرت ابو یعقوب نہر جوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو یعقوب سوسی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا ، کیا عارف ، اللہ تعالی کے علاوہ کسی چیز پر افسوس کرتا ہے؟ فرمایا: (ھل یری غیرہ، فیتاسف علیہ؟) ’’کیا اسے اللہ تعالی کے سوا کوئی چیز دکھائی دیتی ہے کہ وہ اس پر افسوس کرے؟‘‘ (فرماتے ہیں) میں نے پوچھا : (فبأی عین ینظر الی الاشیاء) ’’وہ کس آنکھ سے چیزوں کو دیکھتا ہے؟ انہوں نے فرمایا : (بعین الفناء والزوال) ’’فناء اور زوال کی آنکھ سے دیکھتا ہے‘‘۔

حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : عارف کی مثال اڑنے والے کی ہے اور ’’زاہد ‘‘ کی مثال پیدل چلنے والے کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عارف کی آنکھ روتی ہے اور اس کا دل ہنستا ہے ۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عارف اس وقت تک عارف نہیں ہوتا جب تک وہ زمین کی طرح نہ ہو جائے جسے نیک اور برے تمام روندتے ہیں۔اور جب تک وہ بادل کی طرح نہ ہو جائے جو ہر چیز کو سایہ مہیا کرتا ہے اور جب تک بارش کی طرح نہ ہو جائے جو ہر چیز کو سیراب کرتی ہے ، اسے پسند کرے یا پسند کرے۔

حضرت یحی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عارف دو باتوں سے اپنی آرزو پوری کیے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے: (۱) اپنے نفس پر رونا اور (۲) اپنے رب کی ثناء کرنا۔

حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صوفیائے کرام نے معرفت اس طرح حاصل کی کہ جو کچھ ان کے لیے ہے اس کو ضائع کر دیا اور جو کچھ اللہ تعالی کے لیے ہے اس کی حفاظت کی (یعنی خواہشات کو ترک کرکے اپنے رب تعالی کے احکام کی بجا آوری کرتے ہیں۔ وضاحت از علامہ صدیق ہزاروی)۔

حضرت یوسف بن علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عارف صحیح معنی میں اس وقت تک عارف نہیں ہو سکتا جب تک اس کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ اگر اس کو حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی بادشاہی دی جائے تو ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اسے اللہ تعالی سے غافل نہ کر سکے ۔

حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: معرفت کے تین ستون ہیں: (۱) ہیبت (۲) حیاء (۳) انس ۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو رب کی معرفت کیسے حاصل ہوئی؟ فرمایا : میں نے اپنے رب کو اپنے رب کے فضل کے ذریعے پہچانا ۔اور اگر میرا رب نہ ہوتا تو میں اپنے رب کو نہ پہچان سکتا ۔(مطلب یہ ہے کہ بندے کو اللہ تعالی کی معرفت کی طاقت نہیں ہوتی ۔اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اسے اپنی پہچان کراتا ہے ۔ علامہ صدیق ہزاروی)

کہا گیا ہے کہ : (العالم یقتدی بہ والعارف یھتدی بہ) ’’عالم کی پیروہ کی جاتی ہے اور عارف سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے‘‘۔

حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عارف غیر اللہ کی طرف نگاہ نہیں کرتا اور نہ اللہ تعالی کے سوا کسی کا کلام بولتا ہے۔نیز وہ اللہ تعالی کے سوا کسی کو اپنے نفس کا محافظ نہیں سمجھتا ۔

کہا گیا ہے کہ عارف اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ انس حاصل کر چکا ہوتا ہے جو اسے اس کی مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے وہ اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور ذلت اختیا ر کرتا ہے تو وہ اسے اپنی مخلوق میں عزت عطا کرتا ہے ۔

حضرت ابو طیب سامری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: معرفت یہ ہے کہ اللہ تعالی مسلسل انوار کے ساتھ بندے کے باطن پر مطلع ہو۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ : (العارف فوق ما یقول ، والعالم دون ما یقول) یعنی ’’عارف اپنی گفتگو سے بلند ہوتا ہے اور عالم اپنے قول سے نچلے درجے میں ہوتا ہے ‘‘۔

حضرت استاذ ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ سے عارف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: وہ نیند میں بھی صرف اللہ تعالی کو دیکھتا ہے، بیداری میں بھی غیر اللہ کو نہیں دیکھتا ۔غیر اللہ کے ساتھ موافقت نہیں کرتا اور نہ ہی اللہ تعالی کے غیر کا مطالعہ کرتا ہے۔

حضرت ابو عثمان مغربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: عارف کے لیے علم کے انوار روشن ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ غیب کی عجیب و غریب باتیں دیکھ لیتا ہے۔

استاذ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: عارف تحقیق کے سمندر میں مستغرق ہو جاتا ہے ۔جس طرح ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا کہ ’’معرفت ‘‘ غوطہ زن موجوں کا نام ہے جو کبھی اوپر اٹھاتی ہیں او رکبھی نیچے لے جاتی ہیں۔

حضرت یحی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ سے عارف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : وہ شخص مخلوق کے ساتھ ہوتے ہوئے ان سے جد اہوتا ہے ۔اور ایک بار فرمایا : عارف کبھی مخلوق کے ساتھ تھا ، پھر جدا ہو گیا۔

حضرت ذو النون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عارف کی تین نشانیاں ہیں:

(۱) اس کی معرفت کا نور اس کے ورع (پرہیزگاری) کے نور کو نہیں بجھاتا ۔

(۲) وہ باطنی طور پر اپنے علم کی وجہ سے ایسا عقیدہ نہیں رکھتا جس سے ظاہری طور پر کوئی حکم ٹوٹتا ہو۔

(۳) اس پر انعاما ت الہیہ کی کثرت اسے اللہ تعالی کے محارم کے پردے پھاڑنے پر نہیں اکساتی۔

حضرت محمد بن فضل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (المعرفۃ: حیاۃ القلب مع اللہ تعالی) یعنی ’’معرفت اللہ تعالی کے ساتھ قلبی حیات کا نام ہے۔‘‘

حضرت ابو سعید خراز رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا عارف کی کبھی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ اسے رونا نہ آتا ہو ؟ فرمایا : ہاں بے شک اس کو رونا اس وقت آتا ہے جب وہ اللہ تعالی کی طرف سیر کے مقام پر ہو۔جب وہ لوگ حقائق قرب کے پاس اترتے ہیں اور وہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وصل الہی کا ذائقہ چکھتے ہیں تو ان سے یہ حالت زائل ہو جاتی ہے۔

(مصدر الاستفادۃ:  رسالہ قشیریہ، حضرت ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ علیہ ، اردو ترجمہ ، علامہ صدیق ہزاروی،  متکبہ اعلی حضرت دربار مارکیٹ لاہور، سن اشاعت مئی ۲۰۰۹ بمطابق جمادی الاول ۱۴۳۰ ھ)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-divine-gnosis-words-great-concluding-part-/d/113322


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..