غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
15 فروری 2017
داعش کی خود ساختہ 'خلافت' اسلام مخالف عناصرو نظریات اور تخریبی مقاصد پر مبنی ایک جدید خارجی تنظیم ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اورداعش کی غیر اسلامی اعمال و کردار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ داعش صرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور بالخصوص خلافت راشدہ کے پاکیزہ ادوار کی عزت و نامو س کو داغدار کرنے لئے ہی ظہور میں آئی ہے۔اس جدید خارجی تنظیم نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو حالات پیدا کئے ہیں اس کے جواب میں صرف یہ کہنا کہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور اپنا دامن جھاڑکر خاموش ہوجانا ہی کافی نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ داعش نے قرآن و سنت کی جن تعلیمات کا غلط مفہوم عوام اور غیر مسلموں کے سامنے پیش کیا ہے ان کی صحیح تفہیم و تعلیم دی جائے اور اسلام کے متعلق لوگوں کو مزید غلط فہمیوں کا شکار ہونے سے روکا جائے۔
در حالیکہ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ اسلام کے کھلے دشمن کا سامنا کرنا اس جدید خارجی وہابی تنظیم داعش سے کہیں زیادہ آسان ہے ، کیونکہ داعش بظاہر اسلام اور مسلمانوں کا دوست ہونے کا جھوٹا دعوی کرتی ہے مگر حقیقت میں یہ اسلام کے بنیادی عقائد اور اس کی اخوت و محبت پر مبنی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لئے ہر ممکن گھات میں لگی ہوئی ہے۔عوام کو یہ بات جان لینا از حد ضروری ہے کہ داعش مسلمانوں کی اکثریت کومشرک ومرتد قرار دیکر انہیں بے رحمی سے قتل کرنے کو ہی اپنا عقیدہ اور’جہاد‘ تصور کرتی ہے۔
جس طرح امام الوہابیہ ابن عبدالوہاب نے عرب و عجم کے صوفی سنی مسلمانوں پر شرک و بدعت کا الزام لگاکر لاکھوں مسلمانوں کا قتل کروایا اور عرب میں وہابی حکومت قائم کیا تھا ، ٹھیک اسی طرح داعش بھی اپنی نام نہاد خلافت کے تئیں ان مسلمانوں کو قتل کروانا چاہتی ہے جو ان کے وہابی عقائد و نظریات کو نہیں مانتے ، اور اس طرح وہ عراق و شام اوردنیا بھرمیں وہابی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔
کچھ ا یسے لوگوں سے میرا سامنا ہوا جو اپنے جہل اور کتب کے مطالعہ نہ کرنے کے سبب ابن عبد الوہاب کی اس مشہور حقیقت کوماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ ان کے عبد الوہاب نجدی نے سنی مسلمانوں کوقتل کرنے کا کوئی فتوی نہیں دیا۔توآئیے مختصر میں ہم جائزہ لیں کہ اس بارے میں ابن عبد الوہاب نجدی کا کیا موقف ہے۔
امام الوہابیہ محمد بن عبد الوہاب نجدی متوفی ۱۲۰۶ ھ سنی مسلمانوں کے متعلق لکھتے ہیں: "وعرفت أن اقرارھم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلھم فی الاسلام،وقصدھم الملائکۃ والأنبیاء یریدون شفاعتھم وتقرب الی اللہ بذالک،ھو الذی احل دماءھم وأموالھم" ترجمہ: ’’تم جان چکے ہو کہ ان لوگوں (سنی مسلمانوں) کا توحید ربوبیت کا اقرار کرنا ان کو اسلام میں داخل نہیں کرتا ، اور یہ جو ملائکہ اور انبیاء کا قصد کرتے ہیں اور ان کی شفاعت کا ارادہ کرتے ہیں اور اس سے اللہ کے تقرب کا ارادہ کرتے ہیں اس چیز نے ان کے قتل کرنے اور ان کے مال لوٹنے کو مباح کر دیا ہے‘‘۔ (کشف الشبہات : ص ۹ ، مکتبہ السلفیہ بالمدینہ المنورۃ ، ۱۳۸۹ھ)
اس عبارت میں ابن عبد الوہاب نجدی نے تصریح کردی ہے کہ جومسلمان ان کے عقیدہ کا مخالف ہے وہ جائز القتل ہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بھائی صحیح العقیدہ مسلمان تھے ، وہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی تکفیر کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں تمہارا موقف اس لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا اور نذر و نیاز قطعا کفر نہیں حتی کہ اس کے مرتکب مسلمان کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیاجائے،کیونکہ حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شبہات کی بنا پر حدود ساقط کردو‘‘۔(تاریخ بغداد ج ۹ ص ۳۰۳)۔ اور حاکم نے اپنی صحیح میں اور ابو عوانہ نے البزار میں سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کسی شخص کی سواری کسی بے آب و گیاہ صحراء میں گم ہو جائے تو وہ تین بار کہے: اے عباد اللہ ! مجھ کو اپنی حفاظت میں لے لو تو اللہ تعالی کے کچھ بندے ہیں جو اس کو اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں‘‘۔ (مسند البزار : ۳۱۲۸ ، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی : ۵۵۸) اور طبرانی کی روایت ہے کہ ’’اگر وہ شخص مدد چاہتا ہو تو یوں کہے کہ اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو‘‘۔ (المعجم الکبیر : ۱۰۵۱۸)۔ اس حدیث کو فقہائے اسلام نے کتب جلیلہ میں ذکر کیا ہے اور اس کی اشاعت کی ہے اور معتمد فقہائے کرام میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا ہے۔ چنانچہ امام نووی شافعی متوفی ۶۷۶ھ نے ’’کتاب الاذکار : ۸۰۷‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے، اور ابن القیم نے اپنی کتاب ’’الکلم الطیب ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن مفلح نے ’’کتاب الآداب‘‘ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’حضرت امام بن حنبل کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد (یعنی امام احمد بن حنبل المتوفی ۲۴۱ھ) سے سنا ، وہ فرماتے تھے : ’’میں نے پانچ بار حج کئے ہیں ، ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھول گیا ، میں نے کہا : اے عباد اللہ ! مجھے راستہ دکھاؤ ، میں یوں ہی کہتا رہا حتی کہ میں صحیح راستہ پر آلگا‘‘۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص کسی غائب یا فوت شدہ بزرگ کو پکارتا ہے اور تم اسے کافر کہتے ہو بلکہ تم محض اپنے قیاس فاسد سے یہ کہتے ہو کہ اس شخص کا شرک ان مشرکین کے شرک سے بھی بڑھ کر ہے جو بحر و بر میں عبادت کی غرض سے غیر اللہ کو پکارتے تھے، اور اس کے رسول کی برملا تکذیب کرتے تھے ، کیا تم اس حدیث یا اس کے مقتضاء پر علماء اور ائمہ کے عمل کو اس شخص کے لئے اصل نہیں قرار دیتے جو بزرگوں کو پکارتا ہے اور محض اپنے فاسد قیاس سے اس کو شرک قرار دیتے ہو۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جب کی شبہات سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں تو اس مضبوط اصل کی بنا پر ایسے شخص سے تکفیر کیونکر نہ ساقط ہو گی۔ نیز مختصر الروضہ میں کہا ہے : جو شخص توحید اور رسالت کی گواہی دیتا ہو اس کو کسی بدعت کی بنا پر کافر نہیں کہا جائے گا‘‘۔ (الصواعق الالہیہ : ص ۳۴ ، ۳۵ ، مکتبہ ایشیق ، استنبول)
اس بات کا اقرار دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین حسین احمد مدنی متوفی ۱۳۷۷ ھ نے بھی کیا ہے، وہ محمد بن عبد الوہاب متوفی ۱۲۰۶ ھ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’صاحبو! محمد بن عبد الوہاب نجدی تیرہویں صدی میں نجد عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اہل سنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا ، ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکذیب دیتا رہا ، ان کے اموال کوغنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ، ان کے قتل کو باعث ثواب اور رحمت شمار کرتا رہا ، اہل حرمین کو خصوصا اور اہل حجاز کو عموما تکلیف شاقہ پہنچائیں، سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کیے، بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کے فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم اور باغی ، خونخوار ، فاسق شخص تھا، اسی وجہ سے اہل عرب کو خصوصا اس کے اور اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے، اور اس قدر ہے کہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے اور نہ ہنود سے‘‘۔ (دیکھئے ’الشہاب الثاقب : ص ۴۲ ، میر محمد کتب خانہ ، کراچی‘)
علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز الدمشقی متوفی ۱۲۵۲ ھ لکھتے ہیں: ’’جس طرح ہمارے زمانے میں محمد بن عبد الوہاب کے متبعین ہیں ، جو نجد سے نکلے اور حرمین پر غالب ہو گئے اور وہ خود کو مذہب حنابلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن ان کا اعتقاد ہے کہ وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے اعتقاد میں مخالف ہو وہ مشرک ہے اور اس وجہ سے انہوں نے اہل سنت کے قتل کو اور علماء کے قتل کو جائز قرار دیا‘‘۔ (رد المحتار للشامی : ج ۶ ص۳۱۷ ، دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، ۱۴۱۹ھ)
محمد ابن عبد الوہاب نجدی کے متعلق مندرجہ بالامنقول تحریرکو پڑھنے کے بعد اب لوگوں کو اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رکھنا چاہئے کہ محمد ابن عبد الوہاب نجدی نے سنی مسلمانوں کے قتل پر اپنے معتقدین و پیروکار کو ابھارا تھا اور یہ وہابی نجدی عقیدہ ہی کا نتیجہ ہے کہ داعش عراق اور شام میں سنی مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے ۔اب رہی بات شناخت کی تو قابل غور بات یہاں یہ ہے کہ سنی ہونے کا دعوی وہابیہ بھی کرتے ہیں لیکن در حقیقت وہ اس بھیس میں رہ کرسنی مسلمانوں کے عقائدومعمولات مثلا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلی علم غیب کا عقیدہ،عدم امکان کذب باری تعالی کا عقیدہ،توسل ،فاتحہ، میلاد،انبیاء و اولیاء کے مزارات کی حاضری وغیرہ پر حملہ کر رہے ہیں۔اگر آپ ہندوپاک اور حتی کہ بیرون ملک میں سنی مسلمان کی صحیح پہچان اور اشارہ جاننا چاہیں تو میں جواب میں کہوں گا قرآن و سنت والے سنی مسلمان، صحابہ کرام والے سنی مسلمان، امام ماتریدی والے سنی مسلمان،ائمہ اربعہ والے سنی مسلمان،غوث اعظم والے سنی مسلمان ، خواجہ خواجگان والے سنی مسلمان اور امام احمد رضا بریلوی والے سنی مسلمان ہی صحیح معنوں میں سنی مسلمان ہیں ۔اگرچہ آج غیروں نے ان مسلمانوں کو بریلوی کہنا شروع کر دیا ہے لیکن یہی حضرات سنی مسلمان ہیں، اور یہی ہیں وہ جنہیں آپ اہل سنت و الجماعت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
یہاں اس تلخ حقیقت کوبھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر علم کے نام پر جہل، دجل اور دقیانوسیت کے ایسے اسباق پڑھتے پڑھاتے نظر آتے ہیں کہ روشنی کے اس دور میں انکے علم و ہنر پر کفِ ا فسوس ملنا پڑتا ہے۔اور کچھ ایسے بھی ہیں جو داعش اور اس جیسی دیگر تنظیموں کے قبیح اعمال کو بنیاد بنا کر مسلمانان عالم کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے ناپاک عزم کی طرف بڑھ رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے روایتی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔وہ داعش اور اس جیسی تنظیموں کو دلیل بنا کر کھلے عام اسلام اور خلفائے راشدین کا مذاق بنا رہے ہیں، عظیم اسلامی شخصیات کو بدنام کر رہے ہیں اور اپنے تمام تر اقدامات کے ذریعہ کمزور ایمان والے مسلمانوں کو بگاڑ نے میں کامیاب بھی ہو ر ہے ہیں۔ اس طرح، وہ اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف تعصب و عناد اور تشددکی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ فرقہ واریت کے احساسات و جذبات کو بڑھاوا دینا، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنا، نااہل افراد اور جماعتوں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دینا، رائی کو پہاڑ بنانا، دوسروں کے محاسن کو بالائے طاق رکھنا، ان پر دبیز پردے ڈالنے کی کوشش کرنا، اصولی مسائل کے بجائے جزئیات اور غیرضروری امور پر توجہ مرکوز کرانا، یہ سب ایسے مظاہر ہیں جو ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے شب وروز انجام دئے جارہے ہیں۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ یقیناً اس کے ذمہ دار داعش اور داعش جیسی خوارج تنظیمیں ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت کی طرح میں بھی داعش کواسلامی تنظیم نہیں مانتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے قرآن و حدیث میں کبھی کوئی حکم ایسا نہیں پایا جس سے داعش کے جرائم کی تائید و توثیق ہوتی ہو۔ اور اس وجہ سے بھی کہ میں نے اسے خلافت راشدہ کے نظام پر نہیں بلکہ مکمل طور پر سفاکانہ قتل کے خارجی نظام پر مبنی پایا۔ درج ذیل میں اس وجہ کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔
خلفائے راشدین کا انتخاب پوری آزادی اور مکمل امن وامان کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس میں کسی طرح کی دھمکی اور تلوار کے کسی بھی اثر و رسوخ کا کوئی دخل نہ تھا۔ جہاں تک داعش کی نام نہاد خلافت کا تعلق ہے، تو اسے جنگ و جدال، خوف و دہشت اور پرتشدد تسلط اور جبر و اکراہ کے ذریعہ مسلط کیا جا رہا ہے۔
خلافت راشدہ نے تمام مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حکومت کے تحت متحد کر لیا تھا۔ تمام مسلمان انصاف پر مبنی خلافت راشدہ کے اصولوں سے خوش اور مطمئن تھے۔ اور جہاں تک داعش کی خود ساختہ خلافت کا تعلق ہے تو ایک ہزار مسلمانوں میں سے ایک مسلمان بھی اس کے زیر تسلط نہیں آنا چاہتا۔ لہذا، کیا ایسا ہے کہ داعش کے زیر تسلط رہنے والا ہر شخص اس کی خود ساختہ 'خلافت' سے مطمئن ہے؟ یقینا، مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر اور کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہے۔
خلفائے راشدین کا انتخاب معاشرے کے سر کردہ لوگوں کے ساتھ مشاورت ، مردوں اور عورتوں سمیت بڑے پیمانے پر عام مسلمانوں کی شرکت اور رضامندی کے ساتھ ہوا تھا ،جیسا کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں کیا گیا تھا۔ اور ایسا اس لیے بھی ہوا تھا کیونکہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماچکے تھے ، ترجمہ:’’دیکھو خیال رکھو!کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے مشورہ اور اتفاق اورغلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے ‘‘ اور تاکید کرتے ہوئے اخیر میں پھر فرمایا’’دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے ،بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے ، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ و ہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے‘‘ (دیکھئے صحیح بخاری :کتاب الحدود، حدیث ۵۷)۔ جبکہ داعش کے رہنما البغدادی کے بارے میں ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ کس نے اس سے بیعت کا عہد کیا ہے اور کس نے اسے منتخب کیا ہے؟ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک خود ساختہ 'خلیفہ' ہے اور اس کی حمایت اور تائید و توثیق صرف اس کے اتحادیوں کا ایک گروپ ہی کرتا ہے ، جی ہاں ایک ایسا گروپ جو وہابی عقائد و نظریات کے فروغ و استحکام میں شب وروزمصروف ہے۔
خلفائے راشدین کا انتخاب اس زمانے کے تمام مسلمانوں کی رضامندی سے ہوا تھا۔ ان کا انتخاب ہر طرح کے جبر و اکراہ اور تشدد کے زہر سے پاک تھا۔ لیکن داعش کے خود ساختہ 'خلیفہ' کو اب تک مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی خلافت قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ اسلام میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث کے محقق اور قاضی امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ: (مجبوری اور زبردستی میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور اسی طرح مجبوری اور خوف کے عالم میں لی گئی بیعت بھی باطل ہے)۔
خلافت راشدہ کا نظام تمام افراد کے لئے اتحاد، رحمت، شفقت، ہمدردی اور عدل و انصاف جیسی خوبصورت اسلامی تعلیمات پر قائم تھا۔ اس نے مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی خانہ جنگی نہیں کی۔ لیکن داعش کی 'خلافت' خانہ جنگی، باہمی تنازعہ، تشدد اور دہشت گردی کی قیادت کر رہی ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے یکساں طور پر ان کے پاس کسی بھی ہمدردی، رحم اور انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ خلافت راشدہ کی روح کے بالکل متضاد ہے۔
خلافت راشدہ کے قیام کا بنیادی مقصد قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات پر عمل درآمد کرتے ہوئے جائز ، نیک مقاصد اور تقویٰ کا حصول اور ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کے لئے امن و سلامتی مہیا کرانا تھا۔ اس کے برعکس، داعش کی خود ساختہ خلافت محض نعروں،جھوٹے بیانات، وضع قطع اور القابات پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد اس کی نام نہاد 'خلافت' کی مخالفت کرنے والے تمام لوگوں کا قتل کرنا ہے۔ اگر ان سے قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف کوئی عمل سرزد ہوتا ہے تو اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر کوئی ان کے قبیح افعال کے خلاف کچھ کہنے کی جرات کرتا ہے تو انہیں اس پر نہ صرف اعتراض ہوتا ہے بلکہ وہ اس پر خود کش حملہ یا دیگر جا ن لیوا حملہ کا نشانہ سادھ لیتے ہیں۔ قرآن کریم کا فرمان کہ ایک شخص کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے، اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک حدیث: لا ضرر ولا ضرار في الإسلام (اسلام کے اندر نہ تو ضرر اور نہ ہی ضرار (متکافی ضرر) کی کوئی گنجائش ہے) اور ان جیسی دیگر بے شماراسلامی تعلیمات کو داعش کی نام نہاد خلافت میں سب سے زیادہ نظر انداز اور اس کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کی گئی ہے۔
لہذا، میں علیٰ الاعلان یہ کہتا ہوں کہ اگرداعش کی نام نہاد ’خلافت‘ یا اس کی ڈکشنری میں موجود ’ خلیفہ‘ جیسے اصطلاحات ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کی زندگی سے غائب ہو جائیں تب بھی مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ میں ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوگی۔ لیکن اگر حقوق انسانی یا حقوق العباد سمیت امن، رواداری، تحفظ، مساوات اور اسلام کے دیگر تمام نیک فرائض جیسے اللہ اور اس کے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام صرف ایک دن کے لئے مرتفع کر لیے جائیں تو وہ تاریخ انسانیت میں سب سے بڑی تباہی کا دن ہو گا۔ اسلام نے کبھی بھی ہم مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی کہ ہم داعش اور جیسی خود ساختہ خلافت یا اس کے نام نہاد’ خلیفہ‘ کے وہابی عقائد و نظریات کو قبول کریں۔ بلکہ اسلام نے ہم مسلمانوں پر ہر ممکن زاویہ سے ہر شہری کے لئے یکساں طور پر انصاف، امن، سلامتی اور خوشحالی کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔
جس طرح خلافت راشدہ کے دور میں سب سے بڑے دہشت گرد وہ خوارج تھے جنہوں نے اسلامی القابات اور وضع قطع کا استعمال کیا اور خلفاء راشدین اور مسلمانوں کو ہلاک کیا، اسی طرح داعش کے یہ جدید خوارج اسلامی القابات اور وضع قطع کا استعمال کر رہے ہیں اور پر امن ماحول میں زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کا نا حق قتل عام کر رہے ہیں۔ ان جدید خوارج نے اسلام کی حقیقی تصویر کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، اسلامی تعلیمات کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور خلافت راشدہ کی تاریخی حقیقت کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ان کی وجہ سے آج غیروں نے آپ کو دہشت گرد تصور کرنا شروع کر دیا ہے، لہذا، صرف چند نہیں بلکہ ہم تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہم اپنا قدم آگے بڑھائیں اور پوری بہادری کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ داعش کی خود ساختہ 'خلافت' ایک جدید خارجی تنظیم ہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ رہنا چاہیے کہ داعش کے وہابی عقائد و نظریات جو ظلم، جارحیت، بربریت ، دہشت گردی اور صوفی سنی مسلمانوں کے قتل کی تعلیمات دیتے ہیں ، اس پر مسلسل خاموش تماشائی بنے رہنا بھی ایک جرم ہے، جس کے لیے ہم لوگ خاص کراہل علم وفن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جوابدہ ہوں گے۔
ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ سمجھنا چاہیے۔جن غیر مسلموں میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں ان کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ہمیں ہمارے نوجوانوں اور خاص طور پر نو مسلم نوجوانوں کوداعشی وہابی نظریات والی ’جنت‘ کے جھوٹے خوابوں سے بچانا ہو گا، اور اس سے پہلے کہ زیادہ دیر ہو جائے ہمیں ان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو مسخ کر کے،صحابہ کرام کے طرز عمل کی خلاف ورزی کرکے، عوامی مقامات پر بمباری کر کے، معصوم لوگوں کا قتل کر کے، خودکش حملوں کا ارتکاب کر کے اور جدید خوارج کے نقش قدم پر چل کراللہ رب العزت کی پاک جنت کو حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ جنت تو صرف اور صرف عقائد طیبہ اور اعمال صالحہ کے ذریعہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو دہشت گردانہ نظریات اور جدید خوارج کے پیدا کردہ اوہام باطلہ سے محفوظ رکھے۔آمین
غلام غوث صدیقی دہلوی ، انگریزی،عربی ،اردو اور ہندی زبانوں کے مترجم اور کالم نگار ہیں۔ ای میل:ghlmghaus@gmail.com
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-attack-isis-dignity-rightly/d/110076
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism