غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
پہلی قسط
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا قوت برداشت
سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ایک مسجد سے باہر نکلے تو ایک شخص نے آپ کو گالی دی ۔یہ سن کر آپ کے جان نثاروں اور غلاموں نے اس شخص کو گھیر لیا تاکہ اس کی سرزنش کریں ۔آپ نے منع فرمایا اور کہا: اسے میرے پاس لے آو۔جب وہ شخص حاضر ہوا آپ نے فرمایا : تو نے مجھے جتنے عیوب سنائے ہیں وہ بہ نسبت ان غلطیوں کے بہت کم ہیں جو میرے اللہ نے چھپائے ہیں ۔اگر تو چاہے تو میں تمہیں وہ بھی بتادوں تاکہ تو میرے مذمت اور زیادہ کر سکے ۔ وہ شخص ندامت کے مارے سر جھکائے کھڑاتھا ۔آپ نے اسے اپنا قیمتی کمبل عطا فرمایا اور ساٹھ ہزار درہم بھی عنایت فرمائے۔وہ شخص کہنے لگا : میں گواہی دیتا ہوں آپ یقینا اولاد رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔(تفسیر روح البیان : زیر سورہ حج ۲۲، آیت ۷۸)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی بردباری
کسی نے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ پر بہتان باندھا ۔آپ نے فرمایا جیسے تو کہتا ہے اگر میں ویسا ہوں تو میں اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہوں ۔اور اگر میں ویسا نہیں ہوں تو میں تیرے لیے استغفار کرتا ہوں ۔وہ شخص نادم ہوا اور اٹھ کر آپ کے سر مبارک کو چوما اور کہا : جیسے میں نے کہا آپ ویسے نہیں ، میرے لیے استغفار فرمائیں ۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا غصہ کی حالت میں ایک غلام کا آزاد کر دینا
روایت ہے کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے غلام نے (جو ان کی بکریاں چراتا تھا) ان کی ایک بکری کی ٹانگ توڑ دی ، جب بکریاں ابو ذر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے دریافت کیا کہ اس بکری کی ٹانگ کس نے توڑ دی غلام نے کہا ، میں نے توڑی ہے ! اس نے پھر کہا میں نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ آپ کو میرے اس عمل سے غصہ آئے اور آپ مجھے غصہ میں ماریں اور گنہگار ہوں۔حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، بے شک جب تو مجھے غصہ پر ابھارے گا تو میں ضرور غصہ کروں گا! جا تو آزاد ہے ۔(عوارف المعارف ، شیخ شہاب الدین سہروردی ، ص ۴۴۴)
مولائے روم کی مثنوی میں حسن ظن کی تعلیم
حضرت مولا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اپنی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں :
ظن نیکو بر برا خوان صفا
گرچہ آید ظاہر از ایشاں جفا
ترجمہ : نیک گمان رکھو ، حق تعالی کے خاص بندوں کے ساتھ اگرچہ بظاہر ان کی کوئی بات تمہارے فہم میں جفا معلوم ہو کیونکہ حسن ظن نصوص سے مامور بہ ہے اور بلا دلیل مقبول عمل ہے اور بد گمانی پر دلیل کا مواخذہ اور مطالبہ ہوگا ،پس کیوں محشر میں زحمت دلائل کا سامان کرو اور دلائل شرعیہ نہ پیش کر سکنے پر عذاب میں مبتلا ہو ۔
مشفقے گر کرد جو راز امتحان
عقل باید کو نباشد بد گماں
اگر کوئی مشفق مربی امتحان اخلاص و محبت کے لیے کچھ سختی کرے تو عاقل کو چاہئے کہ بد گمان نہ ہو کہ بڑے بد خلق یا تند خو ہیں۔
حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے ۔
میں ہوں نازک طبع اور وہ تند خو،،،، خیر یہ گزری محبت ہو گئی
لاکھ جھڑکو اب کہاں پھرتا ہے دل ،،،،،،،،ہوگئی اب تو محبت ہوگئی
ہیں زبد ناماں نباید ننگ واشت ،،،،،،،گوشت بر اسرار شاں باید گماشت
ترجمہ و تشریح : ہاں خبر دار گمناموں کو حقیر مت سمجھنا کہ انہیں بے نام و نشان بندوں میں صاحب اسرار بھی ہیں ، بس ان کے اسرار سے استفادہ میں عار نہ کرو اور ان کے ارشادات کو بغور سنو ، بشرطیکہ یہ شخص کسی بزرگ متبع سنت کا تربیت یافتہ ہو ۔
مولائے روم کی مثنوی میں کسی کافر کو ذلت و حقارت سے نہ دیکھنے کی تعلیم
حضرت مولائے روم جلال الدین رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ہیچ کافر رانجوری منگرید ،،،،،،،، کہ مسلماں رفتنش باشد امید
ترجمہ و تشریح : کسی کافر کو ذلت اور حقار ت کی نگاہ سے مت دیکھ کہ ممکن ہے کہ خاتمہ اس کا اسلام اور ایمان پر مقدر ہو چکا ہو ۔البتہ قلب میں اللہ تعالی کے لئے عداوت اور بغض مامور بہ ہے ۔الحب للہ والبغص للہ ۔پس اعمال اور افعال کفر سے نفرت ہونا تو مطلوب ہے مگر ذات کو حقیر نہ سمجھا جاوے جس طرح کوئی حسین چہرہ پر سیاہی مل لے تو سیاہی کو کالا کہیں گے حسین کو نہ کہیں گے کیونکہ وہ حسین اگر سیاہی دھو ڈالے چہرہ پھر چاند کی طرح روشن ہو جائے گا ۔اسی طرح ہر کافر و فاسق کے لیے امکان موجود ہے کہ وہ کفر و فسق کی سیاہی کو توبہ کے پانی سے دھو کر حق تعالی کا محبوب و مقبول بن جاوے ۔ (معارف مثنوی مولانا رومی ، مع شرح مثنوی شریف ، کتب خانہ مظہری ،۴۷۶ تا ۴۷۸)
حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور روحانی امراض کا علاج
حضور داتا گنج بخش علی ہجویری نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ارشاد فرمایا:
کوئی شخص جب تحقیق کر لے کہ اُس میں کون سی امراض پائی جاتی ہیں تو پھر اس کی توبہ کا طریقہ جدا جدا ہے۔ اگر کسی کے اندر ایسے گناہ اور امراض پائے جاتے ہیں جو نظر آتے ہیں، زنا، شراب نوشی، چوری اور ایسے وہ تمام گناہ جو اپنی ظاہری ہیت اور حالت رکھتے ہیں، ان کی توبہ اور ان گناہوں سے نجات اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رات کی گریہ و زاری، قیام اللیل، طویل سجدہ ریزیوں اور توبہ میں ہے۔ یعنی نظر آنے والے گناہوں کا علاج نظر آنے والے اعمال سے کیا جائے۔
اگر اپنے باطن میں نہ نظر آنے والے گناہوں کو پاؤ مثلاً حرص، لالچ، مکر، فریب، جھوٹ، تکبر، رعونت، بغض الغرض وہ تمام امراض جو دل سے متعلق ہیں اور نظر نہیں آتیں، اپنی ظاہری شکل و صورت بھی نہیں رکھتیں تو ان کا علاج ایسے اعمال سے کیا جائے جو دیکھنے والے کو عبادت نظر نہ آئیں۔ یعنی اب ان امراض کے علاج کے لئے اولیاء اللہ کی صحبتیں اختیار کیا کرو اور خدا کی مخلوق کی خدمت کرو۔ یعنی نہ نظر آنے والے گناہ خدمت و صحبت سے دور ہوں گے۔
اگر حسد، غصہ، کینہ، بغض اور اس طرح کی دیگر امراض موجود ہوں تو لاکھ سجدے بھی کرلئے جائیں مگر ان امراض کا علاج نصیب نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ ان امراض کا علاج ظاہری عبادت میں ہے ہی نہیں۔ لہذا جب تک خلقِ خدا کی خدمت پر کمربستہ نہ ہوا جائے اور جسمانی تکالیف و مشکلات برداشت نہ کی جائیں، اس وقت تک نہ ان امراض سے چھٹکارہ ملے گا اور نہ توبہ کا سفر طے ہوگا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism