غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
فتوی نویسی کے طلبہ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مسائل شرعیہ اور کتب فقہ میں اس کا مطالعہ وسیع ہو، اصول فقہ اور قواعد فقہیہ سے واقف ہو، اس کے ساتھ ساتھ قرآنی احکام ، اصول تفسیر و احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب اچھی دسترس ہو۔نیز استدلال اور روایت و درایت سے بھی اچھی واقفیت ہو، کیونکہ بغیر علم شریعت فتوی لکھنا سراسر جہالت ہے۔فتوی نویسی کے لیے جن علوم و معارف کا سیکھنا ضروری ہے اس پر دسترس حاصل کئے بغیر شرعی حکم لگانے کا رواج آج کل بہت عروج پاتا جا رہا ہے ۔اور اس کے نتیجے میں بہت سارے مسائل سے امت مسلمین کو دو چار ہونا پڑ رہا ہے ۔بعض سیکولر لوگوں کو بھی شرعی کلام کرنے کا بہت شوق ہے، لیکن اس حقیقت سے منھ موڑ کر کہ اس راہ میں جن علوم کا سیکھنا ضروری ہے ان کے حصول کے بغیر ہی تکمیل شوق کا تصور علم و دیانت داری اور انصاف کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہے ۔عوام کی بات تو دور کی ہے یہاں تک کہ خواص کے لیے بھی یہ بات قابل غور ہے کہ محض عالم و فاضل کا کورس کر لینا یا ڈگری حاصل کر لینا ہی فتوی نویسی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ ایک ماہر تجربہ کار فقیہ و مفتی کے زیر سایہ آداب الافتا اور فتوی نویسی کی مشق و ممارست سیکھنا از حد ضروری ہے ، ورنہ اس کے نتیجے میں وہ ان مشکلات میں پھنس جاتا ہے جن کا تصور بھی اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔
فتوی نویسی کے تعلق سے حضرت مولانا نفیس احمد مصباحی رقمطراز ہیں: یہ بات حقائق مسلمہ میں سے ہے کہ فتوی نویسی کے لیے صرف علوم اسلامیہ اور فنون دینیہ میں مہارت کافی نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ کسی ماہر تجربہ کا ر فقیہ و مفتی کی بارگاہ میں زانوے تلمذ تہ کرنا اور اپنے تحریر کردہ فتاوی سنا کر اصلاح لینا ضروری ہے۔اس طرح اس کو بڑی حد تک علم طب سے مشابہت ہے ، جو صرف پڑھ لینے اور مطالعہ کر لینے سے حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ کسی طبیب حاذق کے مطب میں باضابطہ مشق و ممارست ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔
اس لیے کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم و فاضل ہو، دقیق النظر اور وسیع المطالعہ ہو مگر فقہائے کرام اسے فتوی نویسی کی اجازت اس وقت تک نہیں دیتے جب تک کہ وہ کسی ماہر ، تجربہ کار مفتی کی خدمت میں رہ کر مشق افتا نہ کرے۔اسے یوں سمجھئے کہ ایک ڈاکٹر کئی اہم ڈگری حاصل کر چکا ہے ، لیکن اسے آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ملتی، جب تک کہ وہ کسی ماہر سرجن کے ساتھ رہ کر سرجری کی مشق کرکے کامل نہ بن جائے ۔بلکہ ڈاکٹر صرف تعلیم سے فراغت کے بعد مطب کرنے کی بھی اجازت نہیں ملتی جب تک وہ ‘‘ہاوس جاب’’ نہ کر لے، یعنی کسی اسپتال میں جاکر کہنہ مشق ڈاکٹروں کی نگرانی میں وہ ایک مدت تک امراض کی تشخیص اور نسخہ کی تجویز کی مشق نہ کر لے ۔یہی حال فتوی نویسی کا ہے۔ (شارح بخاری : حیات اور کارنامے)
مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں:
‘‘رد وہابیہ اور افتا یہ دونوں ایسے فن ہیں کہ طب کی طرح یہ بھی صرف پڑھنے سے نہیں آتے، ان میں بھی طبیب حاذق کے مطب میں بیٹھنے کی ضرورت ہے، میں بھی ایک حاذق ڈاکٹر کے مطب میں سات برس بیٹھا، مجھے وہ وقت ، وہ دن ، وہ جگہ ، وہ مسائل ، او رجہاں سے وہ آئے تھے اچھی طرح یاد ہیں۔میں نے ایک بار ایک نہایت پیچیدہ حکم بڑی کوشش و جاں فشانی سے نکالا ، اور اس کی تائید ات مع تنقیح آٹھ ورق میں جمع کیں ، مگر جب حضرت والد ماجد قدس سرہ کے حضور میں پیش کیا تو انہوں نے ایک جملہ ایسا فرمایا کہ اس سے یہ سب رد ہو گئے’’ (الملفوظ : ج ۱ ص ۸۴)
محقق مسائل جدیدہ علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی فتاوی کے خصائص و محاسن کا اجمالی خاکہ پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
ایک ماہر مفتی کے فتاوی میں یہ تمام خوبیاں ہونی چاہئیں، مثلا
‘‘(۱)۔کتاب اللہ سے استدلال ، (۲) حدیث رسول اللہ سے استدلال ، (۳) اجماع امت سے استدلال، (۴) فتاوی کے ثبوت میں کتاب و سنت کے عموم و اطلاقات سے استدلالات ، (۵) فقہی جزئیات سے استدلال، (۶) متعارض دلائل میں تبطیق (۷) ناسخ، منسوخ ، مطلق ، مقید کی تعین و تشریح (۸) فتاوی میں تحقیق و تنقیح مناط کا لحاظ (۹) سائل کی الجھن کا ازالہ (۱۰) حالات زمانہ کی رعایت (۱۱) مسائل شرعیہ کے اسرار و حکم کی وضاحت (۱۲) بد مذہبوں دلائل کا جواب اور ان کی گرفت (۱۳) نوپید مسائل کے احکام کی تخریج (۱۴) اختلافی مسائل میں اعتدال کی روش (۱۵) رسم المفتی پر نظر (۱۶) عناد پر مبنی مسائل کا مسکت و الزامی جواب (۱۷) تحقیق بدلنے کی صورت میں حکم سابق سے رجوع (۱۸) جو مسئلہ منقح نہ ہو سکے اس میں توقف ، یا ‘‘لا ادری’’ کا اظہار (۱۹) مستفتی کی زبان کی رعایت (۲۰) جواب میں اختصار و جامعیت’’ ۔ (معارف شارح بخاری، ص:۸۲۶،۸۲۷ ، مطبوعہ رضا اکیڈمی)
طلبہ فتوی نویسی کی مشق کیسے کریں ، اور اس پر پیچ اور خار دار وادی کو کیسے سر کریں ، اس سلسلے میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
‘‘مشق کے لیے پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ طالب علم بہار شریعت کا بالترتیب و بالاستیعاب مطالعہ کرے، بہار شریعت میں جس کتاب کا حوالہ ہو اس کو بھی دیکھے، پھر جو کتب فقہ میسر ہوں ، خصوصا رد المحتار ، فتاوی عالمگیری، البحر الرائق ، غنیہ ، بدائع الصنائع ان میں اس مسئلے کو دیکھ لے ۔
اگر مختلف اقوال ہوں تو وہ خود سوچ کر ، کوشش کرے وجہ ترجیح معلوم کرے ، ورنہ اپنے شیخ کی طرف رجوع کرے ، اس کو ٹالے نہیں، یہ فتوی نویسی کی خشت اول ہے۔
اسی کے ساتھ فتاوی رضویہ میں بھی تلاش کرے کہ وہ مسئلہ ہے یا نہیں۔ اور اس کو بغور پڑھے، بلکہ بہار شریعت کے بعد سب سے پہلے فتاوی رضویہ ہی کو دیکھے، یا مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ کے وہ رسائل جن میں یہ مسئلہ مذکور ہو ان کو دیکھے’’
فتاوی لکھنے میں کن امور کا لحاظ ضروری ہے؟ شارح بخاری فرماتے ہیں:
‘‘فتوی نویسی کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ سوال کو بغور پڑھے ، سائل کے لہجے سے یہ پہچاننے کی کوشش کرے کہ یہ حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے پوچھ رہا ہے ، یا آزمانے کے لیے پوچھ رہا ہے ، یا سوال مناظرانہ ہے ؟ یہ کام بہت مشکل ہے لیکن کوشش کرنے سے اس میں مہارت ہو جاتی ہے ۔پھر سائل جس قسم کا ہو اسی اعتبار سے اس کو جواب دینا چاہئے ۔سائل اگر مقلد او رمخلص ہے ، حکم شرعی معلوم کرنا چاہتا ہے تو بہت عمدگی کے ساتھ تحقیقی جواب دیا جائے ، اور اگر وہ سوال کسی اشکال کے سلسلے میں ہے تو اس اشکال کو ضرور حل کیا جائے’’۔
فتوی نویسی کے دوران اصلاح لینے میں کن امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ؟ اس سلسلے میں وہ مزید فرماتے ہیں:
‘‘جب استاذ کے یہاں جواب سنائے ، اور وہ کوئی اصلاح فرمائیں تو اس کو بغور سنے اور تسلی نہ ہو تو ان سے دوبارہ سوال کرے ، اور اگر کسی وجہ سے جلال آجائے تو حسن تدبیر سے ان کے جلال کو جمال سے بدلنے کی کوشش کرے ، یا کسی اور مناسب وقت کے لیے یوں ہی چھوڑ دے ، مگر مناسب وقت آجانے پر وجہ ضرور معلوم کر لے، اصلاح کے وقت وہ جو کچھ فرمائیں اس کو خوب غور سے سنے’’۔
کم از کم پوری شامی ، عالم گیری ، غنیہ ، البحر الرائق اور فتح القدیر کا مطالعہ ضرور کرے۔اور مطالعہ کرتے وقت ایک سادہ کاپی رکھ لے ، جس میں اہم مسائل کو مع صفحہ نوٹ کرے ، کاپی اگر ابواب کی ترتیب سے رکھے تو اس میں آسانی ہوگی ۔
مطالعہ کرتے وقت اہم مسائل و مباحث کو آنکھ بند کرکے پانچ چھ مرتبہ ذہن میں بٹھالے ۔کتب فقہ کے علاوہ کنز الایمان مع خزائن العرفان روزانہ کم از کم نصف پارہ کا مطالعہ کر لیا کرے۔آیات کے کلمات کریمہ کے جو ترجمہ کنز الایمان میں ہیں ، ان کو ذہن میں بٹھائے ، اور حضرت صدر الافاضل علامہ نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر خزائن العرفان میں اس کے تحت جو افادہ فرمایا ہے اس پر غور کرے کہ افادہ کی ضرورت کیا ہے ۔
مزید بر آں تفسیرات احمدیہ ، مدارک التنزیل ، تفسیر صاوی، تفسیر خازن کا بھی مطالعہ کرے۔شروح حدیث میں اشعۃ اللمعات ، مرقات ، فتح الباری ، عمد ۃ القاری (عینی) کی ان احادیث کا ضرور مطالعہ کرے جن کا تعلق عقائد و اعمال سے ہو، اگر پوری مطالعہ کر لے تو کیا کہنا۔عقائد میں شرح عقائد ، المعتمد المستند ، اور اعلی حضرت کے تمام رسائل کا مطالعہ کرے’’ (معارف شارح بخاری : ص ۸۷۱ ، ۸۷۲)
(ماخوذ از مقالات شارح بخاری )
ماہر اور تجربہ کار فقیہ و مفتی سے فتوی نویسی کی مشق وممارست کرنے سے اہل افتا تیار ہوتے ہیں ، فتوی نویسی کرنے والے کو چاہیے کہ قرآن وسنت کا گہرا ادراک رکھتا ہو اور خوف خدا رکھتا ہو ، غیر جانبداری کے ساتھ مسائل کا حل پیش کرتا ہو ، عادل ہونے کے ساتھ ساتھ زہد وتقوی ، فرائض و سنن کا پابنداور نوافل کی بھی کثرت کرتا ہو، قرآن وسنت کے مطابق معاشرے کے شرعی مسائل حل کرتا ہو ۔جس طرح شرعی مسائل کے صحیح حل اور درست جوابات پر مفتی کو اس کا ثواب ملتا ہے، اسی طرح ذاتی مفاد یا کسی لالچ میں کوئی فیصلہ یا حل غلط یا شریعت کے مطابق نہیں دیتا تو اس کا وبال بھی مفتی کی گردن پر ہوگا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism