غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
28 دسمبر 2017
غیر مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے انتہا پسند خارجی عناصر کے جارحانہ رویوں سے متاثر ہو کر میں نے اسلامی ممالک کے اندر اقلیت میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق پر قسط وار مضامین قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرا مقصد صرف داعش، طالبان اور ان جیسے دیگر انتہا پسند جماعتوں کے پیروکاروں اور اراکین کے ظالمانہ اور انتہا پسندانہ رویہ کی اصلاح کرنا ہے ۔ اس سلسلے میں میری کوشش صرف ان تنظیموں اور ان سے متاثر ہونے والے افراد تک اسلام کا پیغام پہونچانا ہے، رہی بات ہدایت کی اور صراط مستقیم کی تو یہ صرف اللہ تعالی کی جانب سے صرف ان لوگوں کے لئے ایک نعمت ہے جو خلوص کے ساتھ سچائی کی راہ کی تلاش و جستجو میں لگے ہیں۔
پہلی قسط میں بالخصوص اس مذہبی آزادی کو بیان کیا جائے گا جو اسلام نے غیر مسلموں کو عطا کیا ہے۔ اس ضمن میں غیر مسلموں کے لئے مذہبی آزادی کے بارے میں سب سے زیادہ نقل کی جانے والی آیت کا حوالہ پیش کرتا ہوں جس میں اللہ تعالی کا فرمان ہے، " کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں، اور اللہ سنتا جانتا ہے (کنز الایمان) "(2: 256)
یہ وہ بنیادی اسلامی اصول ہے جس پر عدم جبر و اکراہ کا تصور قائم ہے، جس میں عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں، بدھ مت کے پیروکاروں اور جینوں سمیت تمام غیر مسلموں کے لئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
آیت 2:256 کا شان نزول
اس آیت کی وحی کے تین مواقع بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن نحاس نے کہا ہے : " اس آیت (2:256) کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول صحت اسناد کی وجہ سے تمام اقوال سے اولی اور ارجح ہے اور یہ کہ اس کی مثل قول فقط رائے سے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ ابو داؤد کی روایت کے مطابق ابن عباس کے اس موقف کے مطابق یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ ایک عورت مقلات (وہ عورت جس کا بچہ زندہ نہ رہے ) ہوتی تھی، پس وہ اپنے اوپر یہ لازم کر لیتی تھی کہ اگر اس کا بچہ زندہ رہا تھا تو وہ اسے یہودی بنائے گی۔ پس جب یہودی قبیلہ بنو نضیر کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں شہر مدینہ سے جلا وطن کیا گیا تو اس میں انصار کے بہت سے بچے بھی تھے ۔ انصار میں سے ان مسلم والدین نے سوال کیا کہ آیا انہیں اپنے بچوں کو مسلم برادری میں شامل ہونے کیلئے مجبور کیا جانا چاہئے یا نہیں۔ تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، "کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے(کنز الایمان) ۔"(ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی ج ۲ اور تفسیر قرآن العظیم)۔
بعض علماء یہ کہتے ہیں اس آیت 2:256 کو ان آیات نے منسوخ کر دیا تھا جن میں مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے (9:5 اور 9:73 وغیرہ)۔ تاہم یہ تشریح اس آیت کے کسی بھی شان نزول کے ساتھ تاریخی طور پر ہم آہنگ نہیں ہے۔ خاص طور پر مذہب میں جبر اللہ تعالی کی بارگاہ میں جوابدہی (تکفیل) کے نظریہ سے متصادم ہے، جس کے مطابق ہر شخص دنیا اور آخرت میں اپنے اعمال کا جوابدہ ہے۔(امام رازی "تفسیر کبیر")۔
کلاسیکی مسلم علماء یعنی علمائے جمہور کی غالب اکثریت کے مطابق آیت (2:256) غیر منسوخ ہے اور یہ مدنی دور میں نازل ہوئی ہے کہ جب مسلمانوں کو سیاسی عروج حاصل ہو چکا تھا اور وہ طاقتور ہو چکے تھے اور ان کے اندر کوئی کمزوری نہ تھی۔ سر تھامس واکر آرنولڈ (1913) اور مستشرقین سمیت بہت سے جدید علمائے اسلام بھی اسی نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں (ملاحظہ ہو " Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith ، صفحہ 6)۔ اس آیت میں ایک الہی پیغام ہے کہ مسلمان کسی دوسرے کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اس آیت (2:256)کو غیر منسوخ ماننے والے مختلف مکاتب فکر کے علماء میں امام جلال الدین سیوطی ( الاتقان فی علوم القرآن، جلد 2)، النحاس (الناسخ و المنسوخ فی القرآن الکریم)، الجصاص (احکام القرآن)، ابن عاشور (التحریر و التنویر )، الطبری ( جامع البیان عن تاویل القرآن)، ابی عبید(کتاب الناسخ و المنسوخ)، مکی بن ابی طالب (الایضاح لناسخ القرآن ومنسوخہ)، ابن تیمیہ ( قاعدۃ مختصرۃ فی قتال الکفار)، ابن قیم (احکام الذمۃ) اور دیگر بے شمار علماء کے نام قابل ذکر ہیں۔
خاص طور پر حنبلی مکتبہ فکر کے ایک مشہور کلاسیکی فقیہ ابن قدامہ المقدسی لکھتے ہیں (عربی سے ترجمہ) " اسلام قبول کرنے کے لئے کسی غیر مسلم کو مجبور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح کے کسی بھی فرد کو مسلمان نہیں سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ اس بات کی دل سے تصدیق نہ کر لے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے مذہب اسلام قبول کیا ہے۔ "وہ مزید کہتے ہیں کہ،"کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے"( ملاحظہ ہو المغنی)۔
شافعی مکتبہ فکر کے ایک با اثر عالم دین اسماعیل ابن کثیر آیت 2:256 کی تفسیر میں لکھا ہے،
يقول تعالى : ( لا إكراه في الدين ) أي : لا تكرهوا أحدا على الدخول في دين الإسلام فإنه بين واضح جلي دلائله وبراهينه لا يحتاج إلى أن يكره أحد على الدخول فيه ، بل من هداه الله للإسلام وشرح صدره ونور بصيرته دخل فيه على بينة ، ومن أعمى الله قلبه وختم على سمعه وبصره فإنه لا يفيده الدخول في الدين مكرها مقسورا . وقد ذكروا أن سبب نزول هذه الآية في قوم من الأنصار ، وإن كان حكمها عاما۔
اردو ترجمہ: "کسی کو مسلمان بننےپر مجبور نہ کرو، کیونکہ اسلام واضح اور شفاف ہے، اور اس کے شواہد واضح اور عیاں ہیں۔ لہذا، کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ جسے اللہ تعالی اسلام کی ہدایت دیتا ہے جس کے دل کے دریچے کو اس کے لئے کشادہ کرتا ہے اور جس کے دماغ کو روشن کرتا ہے وہ یقیناً اسلام کو قبول کرلے گا۔ اور اللہ جس شخص کے دل کو اندھا کر دیتا ہے اور جس کی سماعت اور بصارت پر مہر ثبت کر دیتا ہے تو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے سے بھی اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ "(اسماعیل ابن کثیر’’ تفسیر قرآن العظیم " ، 2:256)۔
مروی ہے کہ اگرچہ باعتبار نزول اس آیت 2:256 کا مصداق انصار ہیں لیکن معنوی طور پر اس کے پیغام کا اطلاق و اجراء عمومی ہے (تفسیر ابن کثیر)۔ مشہور مقولہ "العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب"، معنی "معتبر زبان کی عمومیت ہے وحی کے سبب کی خصوصیت نہیں"، کے پیش نظر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت (2:256) معنی کے اعتبار سے عام ہے اور اس کا اطلاق تمام غیر مسلموں پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس عمومیت کے پیچھے استدلال اس طرح بیان کی گئی ہے کہ چونکہ وحی نے گمراہی کی راہ سے ہدایت کے راستے کو ممیز و ممتاز کر دیا ہے، اور اب ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا لوگوں کی اپنی مرضی پر منحصر ہے لہٰذا جبر و اکراہ کی وجہ سے اسلام کو قبول کرنا کسی کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا۔
خاص طور پر مروی ہے کہ جب حضرت حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے ایک بوڑھی عیسائی عورت کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے جواب میں کہا: "میں موت کے قریب ایک بوڑھی عورت ہوں۔" یہ سن کر حضرت عمر نے اسے مجبور نہیں کیا کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائے۔ اور انہوں نے آیت مذکورہ کی تلاوت فرمائی ‘‘کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے’’ 256 (النحاس ‘‘الناسخ و المنسوخ’’)
بلاشبہ اسلام قبول کرنے کے لئے جبر و اکراہ کا نظریہ بالکل ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اسلام ظاہری جسمانی ردعمل سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دل سے ہے۔ (ملاحظہ کریں تفسیر قرطبی)
مذہب کے معاملے میں جبر و اکراہ کے خلاف ایسا ہی ایک پیغام مندرجہ ذیل قرآن مجید کی آیات سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے،
"اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کرو گے یہاں تک کہ مسلمان ہوجائیں ۔اور کسی جان کی قدرت نہیں کہ ایمان لے آئے مگر اللہ کے حکم سے اور عذاب ان پر ڈالنا ہے جنہیں عقل نہیں(کنز الایمان) "(100-10:99)
مندرجہ بالا آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ایک عظیم حنفی عالم دین امام نسفی کہتے ہیں کہ ، "لو خلق ( اللہ تعالى ) فيهم الإیمان جبرا لآمنوا لكن قد شاء ان یؤمنوا اختیارا" ، اور اسی طرح بہت سے مسلم علماء کا کہنا ہے کہ (ترجمہ)" اگر اللہ تمام لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنا چاہتا تھا، تو وہ ایسا ہی کرتا اور تمام لوگ اس پر ایمان لے آتے۔ لیکن اس کی خواہش یہ ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی کی بنیاد پر اس پر ایمان لائیں۔ " (عبداللہ ابن احمد النسفی، "مدارک التنزیل و حقائق التاویل (تفسیر کی عربی کتاب)
مذہب کے معاملے میں جبر و اکراہ کے خلاف یہی پیغام مندرجہ ذیل دونوں آیتوں میں بھی ہے (73:19 -76:29) جس میں اللہ کا فرمان ہے کہ ‘‘بیشک یہ نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ لے(کنز الایمان)’’۔
جبر و اکراہ پر مبنی ایمان خالص ایمان نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ہی مندرجہ بالا میں دیکھا ہے کہ مذہب اسلام ظاہری جسمانی ردعمل سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ دل سے متعلق ہے۔ یہی ایک وجہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے، "رسول پر نہیں مگر حکم پہنچانا اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو(کنز الایمان)۔" (5:99)۔ ایک اور مقام پراللہ فرماتا ہے ‘‘اور اگر ہم چاہتے ہر جان کو اس کی ہدایت فرماتے مگر میری بات قرار پاچکی کہ ضرور جہنم کو بھردوں گا ان جِنوں اور آدمیوں سب سے(کنز الایمان)’’ (32:13)۔ چونکہ قرآن نے حق کو باطل سے ممتاز کر دیا ، جیسا کہ آیت 2:256 میں بیان کیا گیا ہے، اب یہ لوگوں کی مرضی پر ہے کہ وہ چاہے ایمان لائیں یا یا چاہیں تو کفر کریں۔
مندرجہ بالا مختصر روایتوں سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام اقلیت میں رہنے والے غیر مسلموں کو مذہبی آزادی کا حق عطا کرتا ہے۔ لہذا انہیں اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جانا چاہئے اس لیے کہ جبر و اکراہ پر مبنی ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ایمان لانے کے لئے جبر و اکراہ کا مظاہرہ کرنا غیر مسلموں کو دی جانے والی مذہبی آزادی کے اسلامی حق کو مسترد کرنے کے مساوی ہوگا۔ اس کے ساتھ میں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرتا کہ ایک نیک با عمل داعی کو تبلیغ اسلام کا حق دیا گیا ہے۔ تاہم غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتے وقت قرآن مجید کی ہدایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ، مثلاً اللہ تعالی کا فرمان ہے، "اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو(کنز الایمان) ۔۔۔ "(16:125)۔ اس میں مبلغین کو متشدد یا جسمانی طور پر جارحیت کے بجائے حسن تدبیر اور اچھی نصیحت کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الہی پیغام کو پہنچانے کے بعد مبلغین کو جبر و اکراہ سے کام لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ہدایت صرف اللہ کی طرف سے ہے، جیسا کہ قرآن کریم کا فرمان ہے، (تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے تو وہ چاہتا تو سب کی ہدایت فرماتا(کنز الایمان) ، (6:149)۔ اس پہلے حصے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام اقلیت میں رہنے والے غیر مسلموں کو مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ:مصباح الہدی، نیو ایج اسلام)
(جاری)
URL for English article: https://newageislam.com/islam-sectarianism/rights-non-muslims-living-minority-part-1/d/113727
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism