غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
ایک مغالطہ جس کی زد میں نامور شخصیات، مشہور و مؤثر سیاستدان بہت کثرت سے آ رہے ہیں اور عوام کے ذہن پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں وہ یہ کہ ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت جبر و اکراہ کے ذریعے ہوئی۔ اس مغالطہ کے حاملین کی لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے مگر یہاں یہ مقصود نہیں بلکہ اختصار کی بندشوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس مغالطہ کا ازالہ مطلوب ہے۔
پہلے تو مغالطہ کے مختلف معانی پر توجہ دیجیے وہ یہ ہیں دغا، مکر، فریب، جھانسا اور بھول چوک وغیرہ (فیروز اللغات)۔ اگر یہ واقعی بھول چوک یا جہل کا معاملہ ہے تو اس پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں بشرطیکہ حقیقت کا علم حاصل ہو جانے کے بعد اس بھول چوک سے فوری طور پر رجوع کر لیا جائے لیکن اگر اس مغالطہ سے مکرکرنا،فریب اور دھوکہ دینا مقصود ہے تو میں سمجھتا ہوں اس کا روحانی علاج کیا جائے اور یہ صرف خالق حقیقی کے ارشادات ہی سے ممکن ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : (وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا) یعنی ‘‘اور ان سے اگلے فریب کرچکے ہیں تو ساری خفیہ تدبیر کا مالک تو اللہ ہی ہے ’’ (سورہ الرعد ۱۳:۴۲)
ارشاد باری تعالی ہے: (وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ) ترجمہ : ‘‘اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کے سرغنہ کیے کہ اس میں داؤ (مکر) کھیلیں اور داؤں نہیں کھیلتے مگر اپنی جانوں پر اور انہیں شعورنہیں’’ (سورہ الانعام :۶:۱۲۳)
ارشاد باری تعالی ہے : (يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ) ترجمہ : ‘‘فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں’’ (سورہ البقرہ ۲:۹)
سوال یہ ہے کہ آخر مغالطہ پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ ہندوستانی عوام کو اس بات سے فریب دینے کا مقصد کیا ہے کہ اسلام جبرواکراہ کے ذریعے پھیلا یا مسلمانوں نے جبرواکراہ کے ذریعے اس ملک میں اسلام پھیلایا؟ کیا وہ اس کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان فسادی ہیں اور خود امن کے سفیر ؟ یاد رکھئیے کبھی کبھی امن کے پرچارک کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ خود فساد برپا کر رہے ہوتے ہیں۔قرآن مجید نے اس حققیت کو خوب واضح اندا زمیں بیان فرما دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ) ترجمہ : ‘‘اوران سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں، سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں’’ (۲:۱۱،۱۲)
جیساکہ اوپر گزرا کہ اس حقیر غلام کی نگارش کا بنیادی مقصد ایک مغالطہ کا ازالہ ہے لیکن اس کے ضمن میں چند نقاط بھی زیر تحریر لانا اپنے موضوع کے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ ان نقاط کا تعلق ان صاحبان فکر و قلم سے ہے جو جذبات کے تلاطم میں بہ کر ایک حقیقت کو دوسری حقیقت کے ساتھ بیان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مطالعہ کتب تاریخ کے بعد مجھے اس حقیقت میں کوئی التباس نہیں کہ ہندوستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام و مشائخ عظام کا کردار بہت اہم رہا ہے جو یقینا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
لیکن اس کے ساتھ دوسری حقیقت یبان کرنا از حد ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی شروع ہو چکا تھا ، پھر یہ سلسلہ دور صحابہ وتابعین میں برقرار رہا۔پھر اس کے بعد ایک دور وہ بھی رہا جب مسلم سلاطین وامرا کثرت سے ہندوستان میں آئے ، ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ان کی جنگیں ہوئیں ان جنگوں کے اسباب ومحرکات کی تاریخی تفصیلات میں بہت تضادات ہیں ، جو خود ایک مستقل موضوع کا محتاج ہے ۔قابل غور نقطہ یہ ہے کہ اسلام کی قبولیت کا دار ومدار دل سے ماننا اور زبان سے اقرار کرنا ہے ، تو جس نے کسی جبر وتشدد کے سامنے زبان سے اقرار تو کر لیا لیکن دل سے ایمان نہ لایا تو ایسے شخص کا ایمان اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول نہیں کیونکہ ایمان اقرار باللسان وتصدیق بالقلب کا نام ہے یعنی زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ دل سے ماننا بھی لازمی ہے ۔بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی مسلم بادشاہ نے کسی شخص پر اسلام قبول کروانے پر جبر کیا تو ایسی صورت میں اس کا قبول اسلام کرنا بارگاہ الہی میں مقبول نہ ہوگا کیونکہ دل سے ماننا بھی لازمی ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں ایمان واسلام کے احکام کا مسئلہ حل کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلاطین وامرا ۔خیال رکھئے کہ یہاں مسلم سلاطین وامرا کے اعمال سے بحث نہیں بلکہ شرعی مصادر کا تذکرہ ہے اور یہ بات ہم اجمالی طور پر جان چکے کہ شریعت نے دین میں جبر کرنے کی اجازت کسی کو نہ دی ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد
پروفیسر عبد اللہ ملک اپنی کتاب ‘‘تاریخ پاک وہند ’’ میں لکھتےہیں:
" اسلام مذہب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند پہنچا۔ مسلمان تاجر اور مبلغین ساتویں صدی عیسوی میں مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر علاقوں میں آنے جانے لگے۔ مسلمان چونکہ بہترین اخلاق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے۔ لہذا مالیبار کے راجاؤں، تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعی اراضی حاصل کرکے مسجدیں تعمیر کیں۔ اور اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے۔ ہر مسلمان اپنے اخلاق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ تھا نتیجہ عوام ان کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسلام کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا۔ جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں جنوبی ہند مذہبی کشمکش کا شکار تھا- ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید محالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے۔ ان حالات میں جب مبلغین اسلام نے توحید باری تعالی کا پرچار کیا اور ذات پات اور چھوت چھات کو لا یعنی اور خلاف انسانیت قرار دیا، تو عوام جو ہزاروں سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہورہے تھے، بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذہب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ لہذا ہزاروں غیر مسلم مسلمان ہوگئے۔ (تاریخ پاک وہند از پروفیسر عبد اللہ ملک ، ص ۳۹۰)
پروفیسر عبد اللہ ملک کے اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ۶۳۲ عیسوی میں پردہ فرمانے کے ستر اسی سالوں بعد یعنی ساتویں صدی میں شروع ہوئی ۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کے تعلقات ہندوستان کے راجاوں کے ساتھ عمدہ تھے ، ان کی رواداری ، حسن اخلاق، دیانتداری ، غیر امتیازی سلوک نے ہندوستان کےباشندوں کا دل جیتنے میں اہم رول ادا کیا ۔
بعض مورخین اور اصحاب قلم ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کو تین یا چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے انہیں تین ادوار میں بیان کرنا زیادہ درست ہے ۔وہ تین ادوار یہ ہیں (۱) دور رسالت (۲) دورصحابہ اورتابعین (۳) دور صوفیائے کرام ومشائخ عظام
دور رسالت اور ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد
کہا جاتا ہے کہ مالابار کے ساحلی علاقے پر بعثت اسلام سے قبل عرب تجار آیا کرتے تھے۔یہ سلسلہ عرب میں آمد اسلام کے بعد بھی چلتا رہا ۔ہندوستان میں آنے والے عرب تجار کے ذریعے راجہ چیرامن پیرومل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہوئی اور پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔مورخین کے مطابق ہند میں اسلام کی آمد کا یہ سب سے پہلا واقعہ ہے ۔
راجہ چیرامن پیرومل کا تعلق بر صغیر کی چیرا سلطنت (کیرالا) سے تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ تاج الدین نام سے مشہور ہوئے۔دربار رسالت میں جاکر قبول اسلام کرنے کے بعد جب راجہ چیرامن پیرومل تاج الدین ملک واپس ہوئے تو ان کے ساتھ چند صحابہ کرام بھی تشریف لائے ، لیکن دوران سفر تاج الدین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ۔وہ صحابہ جو راجہ چیرامن (تاج الدین) کے ہمراہ تھے جب ہند پہنچے تو تاج الدین کے ورثا ان کے ساتھ عزت واحترام اور حسن سلوک کا رویہ رکھتے ۔وہ صحابہ کرام کون تھے ، ان کے نام کیا ہیں ، اور آخر کیوں اس پر اب تک تحقیقی کام نہیں ہوا اور اگر ہوا تو کیوں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے ؟ اہل تحقیق وصاحبان علم وفضل کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دور صحابہ وتابعین اور ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد
راجہ چیرامن (تا ج الدین رضی اللہ عنہ) کے ورثا میں سے بھی ایک بادشاہ رسول اللہ علیہ وسلم سے اکتساب فیض کی غرض سے مدینہ تشریف لے گئے تھے ۔لیکن ان کے پہنچنے تک رسالت کا دور ختم ہو چکا تھا اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور چل رہا تھا۔ جب وہ بادشاہ لوٹے تو ان کے ساتھ چند صحابہ وتابعین کی ایک جماعت بھی ہندوستان کے علاقے مالابار تشریف لائی ۔ان میں سب سے مشہور نام جو تاریخی اوراق میں مذکور ہوئے وہ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس بات پر اصحاب تحقیق کا اختلاف ہے کہ وہ صحابی ہیں یا تابعی ، حالانکہ جمہور انہیں تابعی مانتے ہیں۔حضرت مالک بن دینار کا مزار شریف آج بھی ریاست کیرالہ میں کاسر گوڑ ضلع میں موجود ہے ۔اگر کوئی صاحب تحقیق وتاریخ حضرت مالک بن دینار اور ہندوستان آنے والے دیگر صحابہ کرام وتابعین عظام کے متعلق تلاش وتحقیق کرکے مزید تفصیلات پیش کرے تو یقینا یہ تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہوگا۔جب حضرت مالک بن دینار کے ساتھ دیگر صحابہ وتابعین ہند تشریف لائے تو راجہ چیرامن (تاج الدین رضی اللہ عنہ) کے ورثا نے ان اصحاب کی بہت خدمت کی ، ان کے ساتھ کافی عزت و احترام سے پیش آئے اور پھر ان وارثین نے اپنے والد کے نام سے ایک مسجد تعمیر کروائی جو آج بھی چیرامن پیرومل جمعہ مسجد کے نام سے ریاست کیرالہ میں واقع میتھالہ گاوںمیں موجود ہے ۔
اس کے علاوہ ایک اور واقعہ مشہور ہے کہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والے تین صحابی بھائی دوسرے صحابہ کی جماعت کے ساتھ ہندوستان کے شہر ممبئی کے قریب چیمبور یا سمبورنامی ایک ساحل کے قریب اترے۔ کچھ صحابہ نے اسی جگہ رہنے کا فیصلہ کر لیا دین کی تبلیغ واشاعت میں لگ گئے۔مگر جب بقیہ صحابہ کچھ دنوں بعد اپنے وطن لوٹے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو حضرت عمر نے ان صحابہ کرام کو بلا مشورہ اور بنا تیاری کے سفر پر جانے سے منع فرمایا ۔
صوفیائے کرام اور مشائخ عظام کا دور
پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ تمام صحابہ کرام صوفی تھے ، لیکن اس کے باوجود وہ صوفی سے مشہور نہیں ہوئے کیونکہ شرف صحابیت کا اعلی ترین منصب ملنے کے بعد انہیں صحابی کے علاوی کسی اور لفظ سے منسوب کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ جب ہم صحابی کہتے ہیں تو یہ بات ہمارے ذہن میں ہوتی ہے کہ وہ متقی وپرہیزگار بھی ہیں ، شریعت وطریقت اور حقیقت ومعرفت کی اچھی شناسی رکھتے ہیں، تو وہ صوفی بھی ہیں ، دیندار بھی ہیں، امانت دار بھی ہیں خدا ترس اور رضا جو بھی ہیں ۔لیکن وہ جو صحابی نہیں مگر متقی وپرہیزگار اولیائے کرام مانے جاتے ہیں ان کی طرف ہی اس تیسرے دور کی نسبت مقصود ہے ۔
جب ہندوستان میں مسلم سلاطین وحکام کے ورود کا نقطہ آغاز ہوا تو ان کے دوش بدوش صوفیائے کرام ومشائخ عظام بھی کثیر تعداد میں تشریف لائے ۔اولین صوفیائے ہند میں جنہوں نے اپنے حسن اخلاق ، رواداری ، نرم گوئی اور وسعت فکر ونظر سے اہل ہند کو متاثر کیا ان میں چند قابل ذکر مشہور نام یہ ہیں:فارسی زبان میں تصوف پر لکھی گئی گراں قدر کتاب کشف المحجوب کے مصنف حضرت داتا گنج بخش ہجویری ، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے شاگرد عزیز شیخ جلال الدین تبریزی ، حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری، سید جلال الدین بخاری ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، بابا فرید الدین گنج شکر ، حضرت نظام الدین اولیا، حضرت جلال الدین سرخ پوش اور بہاء الدین زکریا ملتانی وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔اس تاریخ کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان بزرگان دین سے قبل بر صغیر پاک وہند میں اسلام کی شمع روشن ہو چکی تھی۔
ان تینوں ادوار میں اسلام کی ترویج واشاعت ہوئی ۔ صحابہ کرام ہوں یا تابعین وتبع تابعین ، صوفیائے کرام ہوں یا مشائخ عظام سبھی اللہ والوں نے سیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن اخلاق ، اخلاص ونرمی اور نیک کردار وعمل کی خوبصورت تعلیمات حاصل کی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ ان تعلیمات پر عمل کرکے اہل ہند کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے دعوت وتبلیغ کے میدان میں کبھی بھی شریعت کی مخالفت نہیں کی کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ میں جبرواکراہ کی کوئی گنجائش نہیں تو آپ حضرات نے کبھی کسی پر جبر نہیں کیا ۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/removing-misconception-arrival-muslims-india/d/117288
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism