غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
19 جولائی 2021
قربانی دین اسلام کا ایک عظیم
الشان شعار ہے جس کی بہت ساری حکمتیں ہیں ان سب سے اہم تقوی اور اللہ رب العزت کا تقرب
حاصل کرنا ہے ۔قربانی اللہ تعالی کی بارگاہ
میں اپنی بندگی کے اظہار کا ایسا انوکھا طریقہ
ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے عزیز ترین مال کا نذرانہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کرکے
اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قربانی کرنے والوں کو اپنی نیت خالص اور
اس سے مقصود صرف اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا و خوشنودی ہونی چاہیے ۔اللہ تعالی کا
فرمان ہے :
لَنْ يَّنَالَ اللہ لُحُوْمُهَا
وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ(الحج :37)
ترجمہ: اللہ تک[ تمہاری] ان [قربانوقں] کا گوشت یا ان کا خون ہر گز نہںہ پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا
ہے۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے
کہ مکہ کے مشرکین جب کسی جانور کو ذبح کرتے تھے تو اس کا خون کعبہ کی دیواروں پر چھڑکتے
تھے ، ان کو دیکھ کر مسلمانوں نے بھی اس طرح کرنے کا ارادہ کیا تو اس موقع پر یہ آیت
کریمہ نازل ہوئی ۔مفسرین نے اس آیت یہ معنی بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کے پاس قربانی
کے جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچایا جاتا
بلکہ اس کے پاس صرف تقوی پہنچایا جاتا ہے اور جس عمل سے صرف اللہ کی رضا کا
ارادہ کیا جائے ۔اس آیت میں اشارہ ہے کہ اگر اللہ کا تقوی نہ ہو تو اللہ تعالی کسی
جانور کے خون اور گوشت کو قبول نہیں فرماتا اور اس میں تنبیہ ہے کہ جب کسی عمل کی نیت
صحیح نہ ہو تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ (زاد المیسر ، ج ۵، ص ۴۳۴، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ، ۱۴۰۷ ھ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : إنَّ اللَّهَ لا ينظرُ
إلى أجسادِكُم ، ولا إلى صورِكُم ، ولَكِن ينظرُ إلى قلوبِكُم(صحیح مسلم:2564)۔ ترجمہ:
بے شک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہںك دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا
ہے۔
قربانی تمام رسولوں اور نبیوں کی سنت ہے ۔قربانی کا حکم
پچھلی تمام انبیا و مرسلین کی امتوں کے لیے بھی تھا ۔ سورہ حج کی آیت ۳۴ میں
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ترجمہ ‘‘اور ہر
امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے ، تاکہ وہ اس بات پر (ذبح کے وقت ) اللہ کا نام یاد کریں کہ اس نے انہیں
بے زبان چوپایوں سے رزق دیا ، پس تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے حضور کے گردن
رکھو اور عاجزی کرنے والوں کے لیے خوشخبری سنا دو ۔وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا
ہے تو ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور انہیں جو مصیبت پہنچے اس پر صبر کرنے والے ہیں اور
نماز قائم رکھنے والے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں ’’۔(سورۃ الحج ۳۴،
۳۵)
قرآن مجید میں ایک مقام پر
ارشاد باری تعالی ہے : (فصل لربک وانحر )یعنی اے محبوب اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور
قربانی کیجیے ۔(سورہ کوثر )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا
یقربن مصلانا ، یعنی جس شخص میں (قربانی کرنے
کی) وسعت ہو اور پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہرگز ہماری مسجد کے پاس نہ
آئے ۔
(اس حدیث کو امام احمد ، اسحق بن راہویہ ، ابو بکر بن ابی شیبہ ، ابن
ماجہ ، ابو یعلی ، دار قطنی اور حاکم نے روایت کیا اور امام حاکم نے اس کو ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے صحیح قرار دیا ہے ، اس باب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے
روایت ہے ۔ فتاوی رضویہ ، رسالۃ ابانۃ المتواری فی مصالحۃ عبد الباری ، ص ۵۹۸)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ قربانیاں
کیا ہے ؟آپ نے فرمایا : کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ
نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے ؟ حضور نے فرمایا : ہر بال
کے مقابل نیکی ہے ، عرض کی اون کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا : اون کے ہر بال کے بدلے میں
نیکی ہے ۔ (ابن ماجہ)
قربانی کا وقت
: دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں
ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے ، یعنی تین دن اور دو راتیں ہیں جسے ایام نحر کہتے ہیں۔لیکن
دسویں تاریخ کی قربانی سب سے افضل ہے پھر گیارہویں پھر بارہویں ۔
قربانی کن پر واجب ہے؟
قربانی واجب ہونے کے چند شرائط
ہیں : (۱) اسلام
یعنی مسلمان ہونا ، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں
(۲) اقامت
، یعنی مقیم ہونا ، کیونکہ مسافر پر قربانی واجب نہیں (۳) آزاد ہونا ، یعنی غلام پر
قربانی واجب نہیں (۴) بالغ ہونا ، نابالغ پر قربانی
واجب نہیں (۵) عاقل
ہونا ، یعنی غیر عاقل اور مجنون پر قربانی واجب نہیں (۶) صاحب
نصاب ہونا ، یعنی فقیر و مسکین پر قربانی واجب نہیں ۔
جس شخص میں مذکورہ شرائط پائے
جائیں ان پر قربانی واجب ہے ، اس کے علاوہ
جس شخص پر قربانی واجب نہیں وہ اگر قربانی کرے تو اس کی قربانی واجب نہیں بلکہ نفل
ادا ہوگی ۔
قربانی کے لیے مالک نصاب یا
صاحب نصاب ہونے کا کیا مطلب ہے ؟
جس شخص کے پاس قربانی کے دنوں
میں ساڑھے ساتھ تولہ یعنی ۹۳
گرام ۳۱۲
ملی گرام سونا ہو
، وہ صاحب نصا ب ہے ۔(۲) یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ یعنی ۶۵۳ گرام
۱۸۴ ملی
گرام چاندی ہو ، وہ صاحب نصاب ہے ۔ (۳) یا
جس کے پاس آج کل 48662 روپیے ہوں یا 48662 کے برابر مال تجارت ہو ، یا 48662 کے برابر
بیل بھینس ، بکری وغیرہ ہو یا 48662 کے برابر کھیتی کا مالک ہو تو اس پر قربانی واجب
ہے ۔گھر میں جتنے لوگوں کے پاس یہ مالیت ہوگی ان سب کو اپنے اپنے نام سے جدا جدا قربانی
کرانا ضروری ہوگا ۔اگر کسی پر اتنا قرض ہو کہ جس کو ادا کرنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی ۔اگر
کوئی مالک نصاب نہ ہونے کے باوجود قربانی کرتا ہے تو وہ سنت و مستحب کا ثواب پائے گا
۔اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کے اوپر قربانی واجب ہے مگر اس کے پاس ایام النحر میں اتنا
نقد نہیں ہے کہ جانور خرید سکے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ چاہے قرض لے کر قربانی کرے
یا اپنا کچھ مال بیچ کر ۔ (فتاوی رضویہ ، ج ۸ ،
ص ۳۹۳
، ملخصا )
عموما ایسا ہوتا ہے کہ کسی
گھر میں بعض لوگ صرف ایک بکرا قربان کرتے ہیں
حالانکہ اس گھر کے کئی افراد صاحِبِ نصاب ہوتے
ہیں، مثلا گھر کی عورت جو اپنے زیورات کی مالکہ
ہوتی ہے اور زیورات اتنے کہ نصاب کی مقدار کو پہنچتے ہیں تو ایسی صورت میں اس عورت پر بھی الگ سے قربانی واجب ہوتی ہے ۔ اسی طرح گھر کے دیگر افراد جو صاحب
نصاب ہوں ان سب پر الگ الگ قربانی کرنا واجب ہے ۔
قربانی کے وَقْت میں قربانی
کرنا ہی لازِم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مَثَلاً بجائے قربانی
کے بکرا یااُس کی قیمت صَدَقہ(خیرات) کردی جائے یہ ناکافی ہے۔ (عالمگیری ج٥ص٢٩٣،بہارِ
شریعت ج٣ص٣٣٥
)
جس شخص پر قربانی واجب ہوتی
ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنا چاہیے۔اگر دوسرے کے نام سے کرے گا تو اس کے ذمے کا واجب ساقط نہ ہوگا ۔اگر کسی رشتہ دار کی طرف سے قربانی کرنا
چاہے تو اس کے لیے الگ سے قربانی کا انتظام کرے ۔ (فتاوی امجدیہ، ج ۳ ص
۳۱۵ )
قربانی کا گوشت خود بھی کھا
سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو بھی دے سکتا ہے ، بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا
قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے ۔بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں
، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے ، دوسرا حصہ دوست و احباب میں تقسیم کردے ، اور تیسرا
حصہ فقراء و مساکین کو صدقہ کردے ۔ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے ، اور پورے گوشت کو
صدقہ کردینا بھی جائز ہے اور پورا گھر میں رکھ لیے یہ بھی جائز ہے لیکن یہ اس صورت
میں جب کہ اہل و عیال کثیر تعداد میں ہو ۔ (عالمگیری )
نماز عید کا طریقہ : عید الاضحی
کی نماز کی نیت اس طرح کریں :
نیت کی میں نے دو رکعت نماز
عید الاضحی کی واجب چھ زائد تکبیروں کے ساتھ ، واسطے اللہ تعالی کے ، پیچھے اس امام
کے ، منہ میرا کعبہ شریف کی طرف ، اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔نیت باندھنے کے بعد ثنا سبحانک
اللہم ۔۔۔پورا پڑھیں ۔۔۔پھر تین تکبیریں زائد کہی جائیں ۔۔۔دو تکبیروں میں کانوں تک
ہاتھ اٹھا کر باندھ لیں ۔۔۔۔اس کےبعد امام قراءت کرے گا ایک رکعت پورے کرے گا ۔۔۔دوسرے
رکعت میں پہلے قراءت ہوگی پھر قراءت سے فارغ ہوکر تین تکبیریں کہی جائیں اور تینوں تکبیروں میں کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں
۔چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں ۔پھر حسب معمول اپنی نماز مکمل کریں ۔نماز پوری
کرنے کے بعد خطبہ سننا واجب ہے ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/religious-significance-qurbani/d/125097
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism