غلام غوث صدیقی، نیو ایج
اسلام
10 نومبر 2021
حصہ 1
کیا داعش کی طرف سے خلافت
کا اعلان جائز ہے؟
اہم نکات:
1. داعش نے دعویٰ کیا
ہے کہ ہم نے "پیغمبر کے طریقہ کار پر" خلافت قائم کی ہے۔
2. خلافت ایک مذہبی
ضرورت ہے یا محض ایک سیاسی فیصلہ اس امر پر علماء اسلام اور فقہاء کے درمیان ہمیشہ
اختلاف رہا ہے
3. سنی خلافت اور شیعہ
امامت پر کتابیں مذہبی فرقوں کے درمیان سیاسی تنازعہ کے تناظر میں لکھی گئی تھیں
4. خلافت دوسرے تمام
سیاسی نظاموں کی طرح، انسانی کوششوں کا نتیجہ ہے اور علاقائی اور حالات کی
تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق کے بھی تابع ہے۔
5. اگر مسلمانوں کی
روزمرہ زندگی سے "خلافت" اور "خلیفہ" کو ختم کر دیا جائے تب
بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا
6. اسلام کے مطابق
زندگی گزارنے کے لیے ہمیں قرون وسطیٰ کے اقدار زندہ کرنے یا اپنی موجودہ شناخت کو
ترک کرنے کی ضرورت نہیں ہے
7. پچھلی دو صدیوں کے
درمیان رونما ہونے والی تبدیلیوں نے معاملات کے طریق کار پر نظرثانی کو ضروری کر
دیا ہے۔ لہٰذا، اس تبدیلی کو ظاہر کرنے کے لیے اسلامی قانون کے اطلاق و انطباق کے
طریق کار میں تبدیلی کرنا ہوگی۔
......
(Representational
Photo/ISIS)
وقتاً فوقتاً نمودار ہونے
والی انتہا پسندی کی لہریں آج اسلامی معاشروں کے لیے ایک سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسلام کو کبھی اتنی
شدید داخلی تنازعات کا سامنا نہیں رہا جتنا کہ آج ہے۔ انتہا پسندی اور خونریزی کی
اس نہ ختم ہونے والی لہر کے نتیجے میں اب زیادہ تر مسلم ممالک سیاسی، معاشی اور
سماجی بحرانوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہزاروں گھر، مساجد، اسلامی اسکول اور صوفیاء
کرام کے مزارات مسمار کر دئے گئے، لاکھوں مسلمان بچے یتیم اور لاکھوں خواتین بیوہ
ہو گئیں۔ جیسا کہ پوری دنیا واقف ہے، دور جدید میں انتہا پسندی اور نام نہاد
‘‘جہاد اور خلافت’’ کی تحریکوں نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
ان انتہا پسند گروہوں میں
سب سے زیادہ مشہور و معروف تنظیم داعش نے مسلم دنیا میں اس قدر تباہی مچائی ہے کہ
لوٹ مار اور خونریزی اب معمول بن چکی ہے۔ داعش کا تخریبی نظریہ غلط فہمیوں کے ایک
پیچیدہ نظام پر قائم ہے جو مقدس صحیفوں کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرتا
ہے اور اسلامی قانون کا استعمال اپنے حقیر مفادات کے مطابق کرتا ہے۔ لہٰذا علماء
اسلام کو اس منحرف ذہنیت کا رد فکری سطح پر کرتے رہنا چاہیے۔
ہم اس سلسلے میں داعش کے
بیانیے کو رد کرنے اور ان کی شریعت (اسلامی قانون) کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے
کے لیے بہت سے حقائق پیش کریں گے، ایسے ایسے روشن ثبوت سامنے لائیں گے جو عام طور
پر عام مسلم قارئین کی رسائی سے بالا تر ہیں۔ یہ سلسلہ تحریر کئی ایسے دلائل کے
ساتھ آگے بڑھے گا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نام نہاد "اسلامک اسٹیٹ" نہ
تو اسلامی ہے اور نہ ہی ایک ریاست، بلکہ غصے، نفرت اور طاقت کی خواہش میں مبتلا
مجرموں کا ایک منحرف گروہ ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک چال کے طور پر
اسلام کو استعمال کرتا ہے۔ اس حصے میں خاص طور پر یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ خلافت
کے بارے میں داعش کے دعوے ناجائز ہیں اور ان کی مذمت کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا
علماء اسلام کا ایک فرض منصبی ہے تاکہ ان کے مجرمانہ ارادے مسمار ہو سکیں۔
کیا داعش کی طرف سے خلافت
کا اعلان جائز ہے؟
اپنے ظالمانہ جرائم کو
اسلامی جواز فراہم کرتے ہوئے، داعش اپنے طرز عمل کی پرواہ کیے بغیر اکثر قرآن اور
حدیث کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اپنی نام نہاد خلافت اور خود ساختہ خلیفہ کے لیے جائز
اسلامی بنیاد کی عدم موجودگی میں داعش کا اعتبار ہی کیا ہے؟ ان کی کارروائیاں صرف
ایک فرقہ پرست، سفاک اور نفرت انگیز دہشت گرد تنظیم کی عکاسی کرتی ہیں جس کا نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک کردار اور طرز زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ
اسلامی بیانیے کا استعمال دنیاوی جاہ و منصب کے حصول اور علاقوں پر غلبہ حاصل کرنے
کے ایک ذریعہ کے طور پر کرتے ہیں۔
شیخ محمد الیعقوبی بجا
طور پر کہتے ہیں:
‘‘جون 2015 کو خود ساختہ خلافت کا اعلان، داعش کے پیچھے طاقت کی
جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اعلان 10 جون کو عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر
قبضے کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے، جب وہ شام میں الرقہ اور عراق میں الانبار پر
قبضہ کر چکے تھے، اور حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے ایسا 15 اکتوبر 2006 کو عراق میں
اپنی دولت اسلامیہ قائم کرنے کے تقریباً آٹھ سال بعد کیا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ
داعش نے خلافت کے اعلان میں آٹھ سال کی تاخیر کیوں کی؟ اس تفاوت کی وضاحت داعش اور
القاعدہ کے درمیان تنازعہ میں مضمر ہے۔ شام میں القاعدہ کے نمائندے جبہۃ النصرہ کو
2012 سے داعش کی حمایت حاصل تھی، اور جب داعش نے 8 اپریل 2013 کو اسلامک اسٹیٹ آف
عراق اینڈ الشام (ISIS) کا اعلان کیا، اور القاعدہ-جبہۃ النصرہ کو اپنی ریاست میں شامل
کیا، داعش القاعدہ-جبہۃ النصرہ کے درمیان ایک خونریز تنازعہ کھڑا ہوا۔ القاعدہ کے
رہنما ایمن الظواہری نے داعش کے خلاف القاعدہ-جبہۃ النصرہ کی حمایت کی۔ فطری طور
پر القاعدہ اس وقت داعش سے زیادہ مشہور تھا۔ اس کے مطابق، 29 جون 2014 کو خلافت کا
اعلان کرنا ہی واحد راستہ تھا جس کے سبب داعش القاعدہ سب سے بڑی جہادی تنظیم کے
طور پر ابھر سکتی تھی اور اسامہ بن لادن کی میراث کو آگے بڑھا سکتی تھی- اور وہ اس
مذہبی جواز اور ساکھ کو اسلام کی آڑ لئے بغیر اور خلافت کا اعلان کیے بغیر نہیں کر
سکتے تھے۔" (شیخ محمد الیعقوبی، داعش کی تردید، اس کی مذہبی اور نظریاتی
بنیادوں کی تردید، صفحہ 23، شائع کردہ، سکریڈنال)
نام نہاد خلافت کے اعلان
کے بعد، ان کے خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی نے دعویٰ کیا کہ ہم نے
"پیغمبر کے طریقہ کار پر" خلافت قائم کی ہے۔ اس کے بعد، انہوں نے اپنے
انگریزی جریدے دابق اور رومیہ میں باقاعدہ مضامین شائع کیے جن میں لوگوں کو اپنی
نام نہاد خلافت سے بیعت کرنے کی ترغیب دی۔
آئیے اب یہ ثات کرنے کے
لیے داعش کے اقتباسات نقل کرتے ہیں کہ داعش اس نبوی طریقہ کار کے خلاف ہے جس کی
نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ داعش نے خلافت کے اعلان اور اس کے طریقہ کار کے
بارے میں درج ذیل باتیں کہیں:
"پہلی رمضان 1435 ہجری کو خلافت کے احیاء کا اعلان دولت
اسلامیہ کے ترجمان شیخ ابو محمد العدنانی الشامی نے کیا۔"... عدنانی نے کہا،
"یقین رکھو، دولت اسلامیہ کے سپاہیوں کیونکہ ہم - اللہ کے حکم سے - استحاضین
کے امام شیخ اسامہ، ابو مصعب الزرقاوی، ریاست کے بانی، ابو عمر البغدادی، اور اس
کے جنگی وزیر ابو حمزہ المہاجر کے منہج (طریقہ کار) پر اپنا سفر جاری رکھیں گے۔
اور ہم اس وقت تک نہ بدلیں گے اور نہ ہی اپنا راستہ تبدیل کریں گے جب تک کہ ہم ان
چیزوں کا مزہ نہ چکھ لیں جن کا انہوں نے چکھا ہے۔ اور جب امیر المومنین عمر
البغدادی نے ابو حمزہ المہاجر کے ساتھ شہادت حاصل کی تو اس وقت اسلامی اسٹیٹ نہیں
ڈگمگائی، بلکہ اس کی قیادت نے متفقہ طور پر امیر المومنین ابوبکر البغدادی کی بیعت
کی..." (دابق، پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا شمارہ، شیخ محمد الیعقوبی کی
داعش کی تردید میں بھی صفحہ 24 پر منقول)
مذکورہ بالا اقتباس سے
ظاہر ہے کہ آئی ایس آئی ایس کا طریقہ کار اسامہ بن لادن، ابو مصعب الزرقاوی، ابو
عمر البغدادی، ابو حمزہ المہاجر اور ابو بکر البغدادی سے متاثر ہے، جن کا نام اوپر
لیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا فرقہ پرست رہنمائوں کے طرز عمل کا موازنہ پیغمبر اسلام کی
زندگی سے کرنا ہمارے رسول کی شان میں گستاخی ہے اور کوئی بھی عقلمند یہ دعویٰ نہیں
کرسکتا کہ یہ پانچوں افراد پیغمبرانہ طریقہ کار پر عمل پیرا تھے جیسا کہ شیخ
یعقوبی نے شاندار انداز میں کہا ہے کہ "اس بات کا ذکر ہی کافی ہے کہ
پیغمبرانہ طریقہ کار عام شہریوں کے قتل کو ممنوع قرار دیتا ہے، جس کی پیروی کرنے
کا مذکورہ بالا میں سے کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ میں اس بات پر بھی زور دینا
چاہوں گا کہ داعش نے اسامہ بن لادن کو اپنا لیڈر بنا کر خود کو کمزور کیا ہے
کیونکہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ 2013 سے داعش کے خلاف لڑ رہی ہے۔ جب اس کے
پیروکار داعش کے پیروکاروں کو مار رہے ہیں تو داعش بن لادن کی پیروی کیسے کر سکتا
ہے؟ یہ داعش کی کشمکش کا شکار ذہنیت کی بہترین مثال ہے۔ (داعش کی تردید از شیخ
محمد الیعقوبی، صفحہ 25)
داعش نے پوری مسلم دنیا
سے عسکریت پسندوں اور مہاجرین کو بھرتی کرنے کے لیے خلافت کو زندہ کرنے کے بیانیے
کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اسے مسلمانوں کے لیے ایک مثالی گھر کے طور پر پیش کیا گیا جس
میں شرعی قوانین اور اصول 'محفوظ' ہیں، اور ان کے حقوق اور وقار کو 'بحال' کیا گیا
ہے۔ داعش کا دعویٰ ہے کہ اس کی "خلافت" واحد مستند "اسلامی
ریاست" اور نظام حکومت ہے۔ کمیونزم، سیکولرازم، قوم پرستی اور لبرل ازم پر
مبنی تمام جماعتیں؛ جمہوریت کے داعی اور جمہوری عمل میں حصہ لینے والے کافر ہیں۔
(ھذہ عقیدتنا و ھذا منھاجنا کے عنوان سے شائع داعش کے ایک کتابچہ سےمنقول، جس کا
ترجمہ "یہ ہمارا عقیدہ اور ہمارا راستہ ہے")۔لہٰذا، تمام مسلمانوں سے
اپیل کی جاتی ہے کہ وہ داعش کے زیر تسلط علاقے میں منتقل ہو جائیں، "کیونکہ
اسلام کی سرزمین کی طرف ہجرت واجب ہے۔" (دابق، شمارہ 1، خلافت کی واپسی،
جولائی 2014)
داعش کے دعوے قابل بحث
ہیں کیونکہ اسلام کسی مخصوص طرز حکومت کا حکم نہیں دیتا۔ "خلافتی" حکومت
کے قیام کو قرآن میں واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ جن قرآنی آیات میں خلیفہ
(خلیفہ) کا ذکر ہے وہ درج ذیل ہیں:
’’اور یاد کرو جب تمہارے
رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو
نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے
ہوئے، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے۔ (2:30)
"اے داؤد بیشک ہم نے
تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ
تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی، بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے
سخت عذاب ہے اس پر کہ وہ حساب کے دن کو بھول بیٹھے۔ (38:26)
خلیفہ کا ترجمہ نائب ہے،
جس کا مطلب "جانشین" یا "قائم مقام" بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا اس
کا مطلب خلیفہ رسول اللہ، یا "خدا کے رسول کا جانشین/قائم مقام" ہوتا
ہے۔ کچھ آیات میں خلیفہ ایک عالمگیر انسانی وراثت اور ذمہ داری کے معنی میں بھی
وارد ہوا ہے مثلا 6:165 اور 38:26، کیونکہ تمام انسان اپنی باطنی حقیقت میں خدا کے
خلیفہ ہیں۔ دوسری آیتوں میں بھی "جانشین" کا تصور ملتا ہے (مثال کے طور
پر آیت 7:69، جو نوح کی قوم کے بعد نائبین کی طرف اشارہ کرتی ہے)۔ آیات 7:74،
10:14، 10:73، 27:62، اور 35:39 بھی ایسی ہی ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ کی
اصطلاح عربی لفظ خلفۃ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے "بعد میں آنا"، اس کا
مطلب یہ ہے کہ انسان تمام جانداروں کے بعد آتے ہیں اور یہ کہ وجود کے تمام مراحل
انسانی حالت میں جمع ہوتے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کو
زمین پر خدا کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا۔ قرآن کی ایک سنی شافعی تفسیر، تفسیر الجلالین کے مطابق آیت
2:30 کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو اپنے خالق کی تعریف و توصیف اور اس کی
تقدیس و تحمید بیان کر کے اور ایک لائق انسان بن کر اللہ کی نمائندگی کرنا چاہیے۔
اللہ نے آیت 38:26 میں حضرت داؤد کو سچائی اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنے اور فیصلہ
کرتے وقت اپنی خواہشات کے بہکاوے میں نہ آنے کا حکم دیا ہے۔
آیا خلافت ایک مذہبی
ضرورت ہے یا محض ایک سیاسی فیصلہ، یہ مسئلہ علمائے اسلام اور فقہاء کرام کے درمیان
ایک طویل عرصے سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ انہوں نے بعض فقہی مکاتب فکر [فقہی مذاہب]
کے ذریعے پیش کردہ نصوص قرآنی کے مخصوص معانی سے بھی اختلاف کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی وفات (623ء) کے بعد سقیفہ بنو سعدہ میں کچھ لوگ جمع ہوئے اور دو فریقوں
یعنی مہاجرین اور انصار کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
جانشین نامزد ہونے کا حق کس کو ہے؟ جیسا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ
وسلم کی سیاسی طاقت، یا "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت" کی جانشینی
پر تبادلہ خیال کیا، اس میٹنگ میں موجود دونوں جماعتیں خلافت کی اصطلاحی تعریف سے
واقف تھیں۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل میں جانشینی کی بحث کا
سیاسی پہلو واضح ہے۔ مہاجرین کے حق جانشینی کے دفاع میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی
عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم عرب قبیلہ قریش کے کسی فرد کے علاوہ اور کسی سردار پر
متفق نہیں ہوں گے۔ انصار کے ایک رکن سعد بن بشیر نے اس سے اتفاق کیا۔
لہٰذا، نہ تو مسلم فقہاء
نے اور نہ ہی سیاسی مصنفین نے خلافت کا تصور مذہبی کتابوں سے اخذ کیا ہے اور نہ ہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ بلکہ، اسلامی فقہ میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے دور کے تجربات، اور خاص طور پر خلفائے
راشدین کے زمانے کے تجربات کو مرتب اور منظم کرنے کی قابلیت تھی، لہٰذا خلافت کے
نظریہ کو اس وقت کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظر نامے میں "سیاسی نظام کی
عملی شکل کے طور پر دیکھا گیا،" جو کہ ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزارا گیا۔
خلافت کا نظریہ حکومت کی ہر تبدیلی کے ساتھ تیار ہوتا چلا گیا۔
مصر کی اسلامی مشاورتی
تنظیم اور الازہر سے منسلک ادارہ دارالافتاء المصریہ کی ویب سائٹ پر
ہے۔ "مذہبی ذمہ داریوں کے بجائے سیاسی ضروریات سب سے نمایاں عوامل تھے
جن کی وجہ سے خلافت کے ادارے کی بنیاد پڑی اور اسے رواج حاصل ہوا"، دار
الافتاء ان نکات کو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے:
انہوں نے محسوس کیا کہ
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوئی رہنما نہ ہونے سے اسلام بکھر جائے
گا اور مسلمانوں کے معاملات نا اہل افراد کے ہاتھ میں آ جائیں گے۔ مزید برآں،
مذہبی روشن خیالی اور مسلم سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک رہنما کا ہونا ضروری تھا،
جس سے اسلام کی ترویج و اشاعت ہوئی۔ کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جو اس بات کی مضبوط
شہادت پیش کرتی ہیں کہ سنی خلافت اور شیعہ امامت پر کتابیں مذہبی فرقوں کے درمیان
سیاسی تصادم کے تناظر میں اور ان تنازعات کی روشنی میں لکھی گئی ہیں جو مسلم
حکمرانی میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ خاندانی جانشینی متعارف کروانے کے
بعد شروع ہوئی تھی۔
اس بحث میں یہ ثابت کرنے
کی کوشش کی گئی ہے کہ خلافت، دوسرے تمام سیاسی نظاموں کی طرح، انسانی کوششوں کا
نتیجہ ہے اور علاقائی اور حالات کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق کے بھی
تابع ہے۔ لہٰذا، کسی بھی سیاسی نظام کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ اس کے معاشرے
کے قوانین کو اپنانے، جواز فراہم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت سے لگایا
جاتا ہے، جو کہ ایسا موضوع جسے مروجہ مذہبی متون کے ذریعے لازم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بلکہ اس کا ثبوت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اصول سے ملتا ہے: ’’تم اپنی
دنیاوی زندگی کے معاملات کو خوب جانتے ہو۔‘‘
رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی وفات کے بعد جانشین کی ضرورت کی واحد وجہ یہ تھی کہ قانون کو نافذ کرنے والی
ایک اتھارٹی کے بغیر اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت خلافت کا نظام ہی واحد
جائز اتھارٹی اور سیاسی متبادل کی صورت میں دستیاب تھا۔ "اس نظام حکمرانی میں
صرف خلیفہ کو ہی قانون سازی کا اختیار تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا
سیاسی نظام ہوتا تو وہ ان پر ضرور غور کرتے۔
اس بات کو ذہن میں رکھتے
ہوئے، کیا نام نہاد "اسلامی ریاست" کے قیام کا موجودہ مطالبہ تجویز کرتا
ہے کہ ہمیں خلافت کے پرانے سیاسی نظام کو دوبارہ نافذ کرنے کے حق میں جدید قومی
ریاستی سیاسی نظام کو ترک کر دینا چاہیے؟ کیا داعش کے مطالبات قابل اعتبار ہیں؟
ان مسائل پر غور کرنے سے
پہلے، مرکزی دھارے کے مسلم اسکالرز کی اس تفہیم پر زور دینا بہت ضروری ہے کہ اسلام
ایک سخت، آمرانہ نظام نہیں ہے جس میں کوئی لچک ہی نہ ہو۔ اسلام کے مطابق زندگی
گزارنے کے لیے ہمیں قرون وسطیٰ میں واپس جانے یا اپنی موجودہ شناخت ترک کرنے کی
ضرورت نہیں ہے۔ اسلام نے کبھی بھی اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ
اپنی روایات کو ترک کریں اور سخت قوانین پر عمل کریں۔
یہ لچک صرف مسلمانوں کی
ثقافتی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ اسلامی قانونی روایت کا ایک اہم پہلو بھی
ہے۔ درحقیقت یہ اسلامی قانون کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ اسلامی قانون ایک
طریقہ کار کے علاوہ گزشتہ 1,400 سالوں میں مسلم فقہا کے نقطہ نظر کا مجموعہ بھی
ہے۔ ان صدیوں کے دوران قانونی فکر کے 90 سے کم مکاتب فکر موجود نہیں تھے، اور
اکیسویں صدی میں یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس روایت پر دوبارہ نظر ڈالنے کے
قابل ہیں تاکہ یہ متعین کیا جا سکے کہ اب ہمارے لیے کام کی چیزیں کیا ہیں۔
یہ فتویٰ کے عمل کے پہلے
مراحل میں سے ایک ہے۔ فتوے قانونی روایت اور اس معاصر دنیا کے درمیان ایک ربط کا
کام کرتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ ماضی اور حال، مطلق اور مقید، نظریات و
اعمال کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔
لہٰذا، فتویٰ جاری کرنے کے لیے صرف اسلامی قانون کا علم کافی نہیں ہے۔ مفتیوں کو
اس دنیا کے بارے میں بھی مکمل آگاہی ہونی چاہیے جس میں وہ رہتے ہیں اور ان مسائل
سے بھی اچھی واقفیت ہونی چاہیے جو مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ آج ہم جس شدت پسندی کا
مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ان لوگوں کا نتیجہ ہے جو فتوے جاری کرنے کی صلاحیتوں سے
محروم ہیں۔ ہمیں موجودہ مسائل کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے۔ جب ہر کسی کی نا اہل
رائے کو فتویٰ سمجھ لیا جاتا ہے تو ہم ایک ایسے ہتھیار سے محروم ہو جاتے ہیں جو
انتہا پسندی کو روکنے اور اسلامی قانون کی لچک اور توازن کو برقرار رکھنے کے لیے
ضروری ہے۔
پچھلی دو صدیوں میں دنیا
بڑی حد تک بدل چکی ہے۔ تبدیلی کی اس لہر میں نئی ٹیکنالوجیوں اور سیاسی نظریات کا
بھی جنم ہوا ہے۔ نئی ٹیکنالوجیوں کا ایجاد بھی ہوا جن سے ہمیں فوری طور پر دنیا کے
تقریباً ہر حصے کی خبریں مل جاتی ہیں، جب
کہ ماضی میں انتہائی ضروری خبروں کو بھی ہم تک پہنچنے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔
تبدیلی کی اس لہر نے
ہمارے وجود کے ہر عنصر کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اس جدید رجحان سے نمٹنا مسلم
فقہاء اور مفتیان کرام کے لیے سب سے مشکل کام ہے۔ ماضی میں چیزوں کے چلنے اور آگے
بڑھنے کے طریقے میں بہت کم تبدیلی آئی تھی۔ یہاں تک کہ تبدیلی ہوئی بھی تو وہ
بتدریج اور چند شعبوں تک ہی محدود تھی۔ تاہم، پچھلی دو صدیوں کی تبدیلیوں نے اس
بات کی ازسرنو جانکاری کو ضروری بنا دیا ہے کہ معاملات کیسے طے ہوتے ہیں اور چیزیں
کیسے چلتی ہیں۔ لہٰذا، اسلامی قانون کا اطلاق و انطباق کے طریق کار کو بھی بدلنا
ہوگا تاکہ یہ تبدیلی ظاہر ہو۔
دارالافتاء مزید کہتا ہے،
"اسلامی قانون کی لچک اور تبدیلی کو قبول کرنے کی اس کی صلاحیت شاید اس کا سب
سے بڑا اثاثہ ہے۔ اپنے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے لوگوں کو عملی اور متعلقہ
رہنمائی فراہم کرنے کے ساتھ، اسلام مذہب کی حکمت اور اخلاقی طاقت کو جدید دور میں
لاگو کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ شریعت کے تئیں اس رویہ کو اپنا کر ہی ایک مستند،
معاصر، اعتدال پسند اور روادار اسلام آج مسلم دنیا کو درپیش مسائل کا حل فراہم کر
سکتا ہے۔ (http://www.dar-alifta.org/Foreign/ViewArticle.aspx?ID=574&CategoryID=5)
یہاں تک کہ اگر خلافت
قائم کرنی ہی ہے، جیسا کہ کچھ مسلم علماء کا خیال ہے، تو ایسا "مسلم ممالک،
اسلامی علماء کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتفاق رائے سے ہونا
چاہیے۔"
(ملاحظہ ہو: البغدادی کے نام کھلا خط، پوائنٹ 22)
مشاورت اسلامی انتظامیہ کا
ایک اہم حصہ ہے، اس کے باوجود اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے کہ داعش اپنے
درمیان کے علاوہ بڑی پیمانے پر امت مسلمہ کے ساتھ کوئی مشاورت کرتی ہے۔ علمائے
اسلام کا ایک طویل عرصے سے اس بات پر اتفاق ہے کہ امت سے متعلق موضوعات پر دوسروں
سے مشورہ لینا واجب بھی ہے اور قابل تعریف بھی، کیونکہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ
وسلم سنت کی پیروی ہے۔ کھلے خط میں علمائے اسلام البغدادی سے پوچھتے ہیں،
"تمہیں امت پر کس نے اختیار دیا؟" اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہ ’’اتفاق کے
بغیر خلافت کا اعلان کرنا فتنہ ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو: البغدادی کے نام کھلا خط،
پوائنٹ22، https://www.academia.edu/35104314/De_legitimising_Al_Baghdadis_Caliphate
داعش کی نام نہاد خلافت
کو خلافت راشدہ کے نام پر بھی درج ذیل بنیادوں پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا:
خلفاء راشدین کا انتخاب
آزادی اور سلامتی کے ماحول میں ہوا۔ دھمکیوں اور تلواروں کا اس معاملے سے کوئی دخل
نہیں تھا۔ داعش کی نام نہاد خلافت، لڑائی اور خونریزی کے درمیان، خوف اور دہشت کے
ماحول میں، پرتشدد حکمرانی اور جبر کے مقصد سے قائم کی گئی تھی۔
خلافت راشدہ نے اکثریت یا
اقلیت سے قطع نظر تمام مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حاکمیت کے تحت متحد کر دیا
اور تمام مسلمان اس کے عدل پر مبنی اصولوں پر خوشی کے ساتھ مطمئن تھے۔ داعش کے
معاملے میں، مرکزی دھارے کے مسلمانوں کی اکثریت اس کے مقاصد کے خلاف ہے۔
خلفاء راشدین کا انتخاب
اس وقت کے تمام مسلمانوں کی رضا اور طاقت و خونریزی سے آزاد ماحول میں کیا گیا
تھا۔ تاہم، داعش کے خود ساختہ 'خلیفہ' کو مسلمانوں کو مجبور کرنا پڑا کہ وہ اسے
اپنا "خلیفہ" تسلیم کریں۔ پوری دنیا کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ اسلام میں
جبر یا جبر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ
"زبردستی کی طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا مجبور اور خوفزدہ کی بیعت بھی باطل
ہے۔"
تمام لوگوں کے لیے خلافت
کا نظام اتحاد، مہربانی، نرمی، ہمدردی، فضل اور عدل پر مشتمل تھا۔ مسلمانوں میں
کبھی خانہ جنگی نہیں ہوئی۔ جبکہ داعش کی طرف سے اعلان کردہ "خلافت" خانہ
جنگی، بین المذاہب تنازعات، بربریت، دہشت گردی، اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے
لیے ہمدردی، رحم اور انصاف کے فقدان کا باعث بن رہی ہے۔ لہٰذا یہ خلافت راشدہ کی
روح کے بالکل خلاف ہے۔
خلافت راشدہ بنیادی طور
پر صالح مقاصد کے حصول، تقویٰ اور قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کے نفاذ کے ساتھ
ساتھ ریاست کے تمام شہریوں کے لیے امن و سلامتی کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ دوسری
طرف داعش کی خود ساختہ خلافت صرف نعروں، اعلانات، نمود و نمائش اور نمود پر قائم
ہے۔ اس کا مقصد ہر اس شخص کو قتل کرنا ہے جو اس کی نام نہاد "خلافت" کی
مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں کوئی
اعتراض نہیں، لیکن اگر کوئی ان کے اسلام کے خلاف ان کے اعمال پر تنقید کرتا ہے تو
انہیں اعتراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے
قتل کے مترادف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’اسلام میں نہ تو
نقصان پہنچانا ہے اور نہ ہی بدلہ لینا ہے‘‘، داعش کی نام نہاد خلافت اسلام کی سب
سے زیادہ نظر انداز کی گئی اسلامی تعلیمات ہیں۔
لہٰذا، اگر مسلمانوں کی
روزمرہ زندگی سے "خلافت" اور "خلیفہ" کی اصطلاحات حذف بھی کر
دی جائیں تب بھی ان کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن یہ بہت بڑا المیہ ہو
گا اگر صرف ایک دن کے لیے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی انسانی حقوق بشمول انصاف، امن، رواداری، سلامتی، مساوات اور دیگر
پاکیزہ اسلامی تقاضوں کی تعلیمات کی خلاف
ورزی کی جائیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو تمام
شہریوں کے لیے ہر قسم کے انصاف، امن، سلامتی اور خوشحالی کے تحفظ کا فریضہ سونپا
ہے۔ اسلام نے کبھی بھی لوگوں کو داعش کی خود ساختہ "خلافت" یا
"خلیفہ" کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام)
English Article: Refuting ISIS Concept of Caliph and Caliphate
[Khalifa and Khilafah] – Part 1
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism