New Age Islam
Sun Apr 02 2023, 11:17 AM

Urdu Section ( 28 March 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Refutation of Objection Made to the Interrelationship between Shariat, Tariqat And Haqiqat شریعت ،طریقت اور حقیقت کے باہمی تعلق پرمخالفین کے اعتراض کا جواب


غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام

شریعت اساس و بنیاد ہے اور طریقت اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ اور حقیقت ان پر مرتب ہونے والا ثمرہ ہے۔ ان تینوں چیزوں کا آپس میں بہت گہرا ربط و تعلق ہے ۔ جس نے شریعت کو مضبوطی سے تھام لیا وہ راہ طریقت پر چلتا ہوا حقیقت تک پہنچ جائے گا ۔ ان میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی کوئی تناقض ۔ شریعت اور حقیقت کے درمیان اسی طرح گہرا تعلق ہے جس طرح جسم اور روح کے درمیان ۔ کامل مومن وہی ہے جو شریعت اور حقیقت کا جامع ہو۔یہی وہ تعلیم ہے جس کی طرف صوفیائے کرام اور اولیائے عظام راہنمائی فرماتے ہیں۔وہ قرآن وسنت کے مطابق عمل کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر گامزن رہتے ہیں۔  کامل مومن ہونے اور اس کے اعلی مقام کو حاصل کرنے کے لئے راہ طریقت کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ یعنی کسی مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر مجاہدۂ نفس کرنا اور ناقص صفات کو صفات کاملہ کے ساتھ تبدیل کرتے ہوئے معرفت الہی کی منزل تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ گویا طریقت وہ پل ہے جو سالک کو شریعت سے حقیقت تک پہنچا دیتا ہے۔

لیکن صوفیائے کرام کے  کچھ مخالفین شریعت ،طریقت اور حقیقت کےاس  باہمی تعلق پر اعتراض کرتے  ہیں۔در اصل   وہ روح اسلام کو اس کے جسم  سے جدا کرنا چاہتے ہیں اور حدیث جبریل میں بیان کردہ دین کے تین ارکان ،اسلام،ایمان اور احسان میں سے ایک بینادی رکن کو سقط کردینا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل فقہائے کرام اور علمائے اسلام کے عمل کے مخالف   بھی ہے۔     

ابن عابدین اپنے مشہور حاشیہ رد المحتار میں رقمطراز ہیں: (الطريقة: هي السيرة المختصة بالسالكين من قطع المنازل، والترقي في المقامات)  ترجمہ: طریقت سے مراد وہ مخصوص طرز عمل ہے جس کو سالکین معرفت الٰہی کی منازل طے کرنے اور اعلی مقامات کے حصول کے لئے اختیار کرتے ہیں۔

دوسرے صفحہ پر علامہ ابن عابدین مزید فرماتے ہیں: (فالحقيقة: هي مشاهدة الربوبية بالقلب، ويقال: هي سر معنوي لا حدَّ له ولا جهة. وهي والطريقة والشريعة متلازمة، لأن الطريق إِلى الله تعالى لها ظاهر وباطن، فظاهرها الشريعة والطريقة، وباطنها الحقيقة. فبطون الحقيقة في الشريعة والطريقة، كبطون الزبْد في لبنه، لا يُظفر من اللبن بزبده بدون مخضّه، والمراد من الثلاثة [الشريعة، والطريقة، والحقيقة] إِقامة العبودية على الوجه المراد من العبد)

ترجمہ:  حقیقت دل کے ساتھ ربوبیت کے مشاہدہ کا نام ہے اور یہ و ہ روحانی سر ہے جس کی کوئی حد نہیں۔حقیقت اور شریعت آپس میں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اللہ تعالی تک پہنچنے کے لئے راستہ کی دو جہتیں ہیں: (1) باطن اور (2)ظاہر

ظاہری راستہ کو شریعت اور طریقت کہتے ہیں اور باطنی کو حقیقت شریعت ۔اور طریقت کی اصل حقیقت ہے جس طرح مکھن کی اصل دودھ ہے ۔ دودھ سے مکھن بلونے کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اور ان تینوں کا مطلوب و مقصود یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرے جس طرح اس کے کرنے کا حق ہے ۔ (دیکھئے ، حاشیہ ابن عابدین ،ج ۳ ، ص ۳۰۳)

شیخ عبد اللہ یافعی اپنی کتاب ’’نشر المحاسن الغا لیۃ فی فضل المشایخ الصوفیۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں: (إِن الحقيقة هي مشاهدة أسرار الربوبية. ولها طريقة هي عزائم الشريعة، فمن سلك الطريقة وصل إِلى الحقيقة. فالحقيقة نهاية عزائم الشريعة. ونهاية الشيء غير مخالفة له، فالحقيقة غير مخالفة لعزائم الشريعة)

 ترجمہ: حقیقت اسرار ربانی کے مشاہدہ کا نام ہے ۔ اورشریعت پر استقامت کا نام طریقت ہے۔طریقت کو اختیار کرنے والا حقیقت تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ حقیقت شریعت پر استقامت کی انتہاء ہے۔ اور کسی چیز کی انتہاء اس سے علیحدہ نہیں ہوتی ۔ اس سے نتیجہ نکلا کہ حقیقت شریعت کے مخالف نہیں۔ (دیکھئے : ۔ نشر المحاسن الغا لیۃ فی فضل المشایخ الصوفیۃ ، شیخ عبد اللہ یافعی ، ج ۱ ، ص ۴۵۱)

حاجی خلیفہ اپنی کتاب ’’کشف الظنون ‘‘ میں رقمطراز ہیں: (ويقال: علم التصوف علم الحقيقة أيضاً، وهو علم الطريقة، أي تزكية النفس عن الأخلاق الردية، وتصفية القلب عن الأغراض الدَّنية. وعلم الشريعة بلا علم الحقيقة عاطل، وعلم الحقيقة بلا علم الشريعة باطل. علم الشريعة وما يتعلق بإِصلاح الظاهر بمنزلة العلم بلوازم الحج. وعلم الطريقة وما يتعلق بإِصلاح الباطن بمنزلة العلم بالمنازل، وعقبات الطريق. فكما أن مجرد علم اللوازم، ومجرد علم المنازل لا يكفيان في الحج الصوري بدون إِعداد اللوازم وسلوك المنازل، كذلك مجرد العلم بأحكام الشريعة وآداب الطريقة لا يكفيان في الحج المعنوي، بدون العمل بموجبيهما)

 ترجمہ:  علم تصوف علم حقیقت کا ہی دوسرا نام ہے۔ اس کو علم طریقت بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد نفس کو برے اخلاق سے پاک کرنا اور دل کو گھٹیا اغراض سے صاف کرنا ہے، علم شریعت ، علم حقیقت کے بغیر بیکار ہے ۔ اور علم حقیقت علم شریعت کے بغیر باطل ہے ۔ علم شریعت جس کا تعلق ظاہری اصلاح سے ہے یہ حج کی بنیادی ضروریات کے مترادف ہے ۔ اور علم طریقت جس کا تعلق اصلاح باطن سے ہے ، یہ حج کی منازل اور اس کے راستہ کی پیچ و خم کو جاننے کے قائم مقام ہے۔ جس طرح صرف بینادی ضروریات اور راستہ کی منازل کو جان لینا ظاہری حج کے لئے کافی نہیں ، جب تک کہ انسان بینادی ضروریات کی تیاری کے بعد راستہ پر نہ چل نکلے ۔ اسی طرح احکام شریعت اور آداب طریقت کے جان لینا حج معنوی کے لئے کافی نہیں جب تک آدمی ان پر عمل پیرانہ ہو۔(دیکھئے : کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون ، حاجی خلیفہ، ج ۱ ، ص۳۱۴ )

صوفیائے کرام پر اعتراض کرنے والے بعض لوگ شریعت ، طریقت اور حقیقت کی اس تقسیم اور ناموں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ صوفیائے کرام کے قلبی احوال ان کے وجدانی ذوق اور ان کے علوم لدنیہ کو نہیں مانتے ۔ان معترضین کو جان لینا چاہئے کہ یہ وہ امور ہیں جن کو اللہ تعالی اپنے مخلص بندوں اور سچے محبین کو عطا فرماکر ان کی عزت افزائی فرماتا ہے۔اللہ عزوجل کی قدرت پر کوئی پابندی نہیں۔

صوفیائے کرام کو اللہ رب العزت نے علوم و معارف اور فیوض الٰہیہ کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔حدیث پاک میں ہے کہ  آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (العلم علمان : علم فی القلب ، وفی روایۃ : علم ثابت فی القلب ، فذالک العلم النافع ، وعلم علی اللسان ، فذالک حجۃ اللہ علی خلقہ) ترجمہ : ’علم کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ علم جو دل میں ہوتا ہے ۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں وہ علم جو دل میں ثابت ہوتا ہے اور یہی علم نافع ہے ۔دوسرا علم وہ ہے جو زبان پر جاری رہتا ہے اور یہ علم مخلوق پر اللہ کی حجت ہے‘‘۔ (دیکھئے :الترغیب والترھیب ج ۱، ص ۷۶)

اسی مفہوم کی تائید حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ابو نعیم نے ’’حلیۃ الاولیا‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے :

(عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن معاذ بن جبل دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "كيف أصبحتَ يا معاذ ؟".قال: أصبحتُ مؤمناً بالله تعالى. قال: "إِن لكل قول مصداقاً، ولكل حق حقيقة، فما مصداق ما تقول ؟". قال: يا نبي الله! ما أصبحت صباحاً قط إِلا ظننت أني لا أمسي، وما أمسيت مساء قط إِلا ظننت أني لا أصبح، ولا خطوت خطوة إِلا ظننت أني لا أتبعها أخرى، وكأني أنظر إِلى كل أمة جاثية تدعى إِلى كتابها، معها نبيها وأوثانها التي كانت تعبد من دون الله وكأني أنظر إِلى عقوبة أهل النار، وثواب أهل الجنة. قال: "عرفت فالزم" )

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے  معاذ ! تو نے صبح کیسے کی۔ انہوں نے عرض کی : ’’میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے والا ہوں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ہر قول کا کوئی مصداق ، اور ہر چیز کی کوئی حقیقت ہوتی ہے ۔ تمہارے اس قول کی کیا حقیقت ہے ؟ ‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’اے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے جب بھی صبح کی تو میں یہ گمان کرتا ہوں کہ شاید مجھ پر شام آئے یا نہ آئے اور جب شام کرتا ہوں تو صبح کرنے کا کوئی یقین نہیں ہوتا۔ اور جب بھی کوئی قدم اٹھاتا ہوں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ میں دوسرا قدم نہیں اٹھا سکوں گا۔گویا کہ میں دیکھ رہا  ہوں کہ ہر امت گھٹنوں کے بل بیٹھی ہے، ان کو ان کی کتاب کی طرف بلایا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ ان کا نبی بھی موجود ہے، یا وہ بت ان کے ساتھ ہیں جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے۔ گویا کہ میں اہل جہنم کی سزا اور اور اہل جنت کے ثواب دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ یہ بات سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے معاذ! تو نے حق کو پہچان لیا۔ اس کو لازم پکڑو‘‘۔(دیکھئے : حلیۃ الاولیا، ابو نعیم ، ج ۱ ، ص۲۴۲)  

صوفیائے کرام ان علوم و معارف کو حاصل کرنے میں اس لئے کامیاب ہوئے کیونکہ انہوں نے قرآن کریم اور سنت نبویہ کو مضبوطی سے تھام لیا۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنھم اجمعین کی پیروی کی ۔صوفیائے کرام نے روزوں اور قیام اللیل  کے ذریعہ مجاہدہ نفس کیا اور اس فانی دنیا سے زہد اختیار کیا۔ جس طرح اللہ رب العزت نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یہ کشف عطا فرمایا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے معاذ! تونے حق کو پہچان لیا۔پس تو اسے لازم پکڑ‘‘۔

صوفیائے کرام جن پر اللہ رب العزت نے انعام و اکرام کیا اور جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنھم اجمعین کے نہج پر قائم رہے ، ان کے متعلق حضرت امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(اعلم يا أخي أن علم التصوف عبارة عن علم انقدح في قلوب الأولياء حين استنارت بالعمل بالكتاب والسنة، فكل من عمل بهما انقدح له من ذلك علوم وآداب وأسرار وحقائق، تعجز الألسنة عنها، نظير ما انقدح لعلماء الشريعة من أحكام، حين عملوا بما علموه من أحكامها)

ترجمہ: میرے بھائیو! جان لو کہ علم تصوف وہ علم ہے جو اولیائے کرام کے دلوں میں پروان چڑھتا ہے۔(یہ اس وقت ہوتا ہے جب) ان کے دل کتاب و سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے روشن ہوتے ہیں۔ جو بھی کتاب و سنت کے احکام کو بجا لاتا ہے اس کے دل میں علوم و معارف اور اسرار و حقائق کے وہ سوتے پھوٹتے ہیں جن کو زبان بیان کرنے سے عاجز ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح علمائے شریعت پر شرعی احکام کے اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں جب وہ اپنے علم کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوں۔ (دیکھئے : حلیۃ الاولیا، ابو نعیم ، ج ۱ ، ص۲۴۲)

ہمارے صوفیائے کرام اخلاص کے ساتھ اپنے علم پر عمل بھی کرتے تھے ۔اس طرح ان کے دل روشن اور منور ہو گئے ، اور ان کے اعمال بشری کمزوریوں سے پاک ہوگئے ۔جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو ان کے بعد کچھ ایسے لوگ آئے جنہوں نے اپنے علم و عمل میں اخلاص کی طرف توجہ نہ دی تو ان کے دل تاریک ہوگئے اور صوفیائے کرام پر وارد ہونے والے انوار و تجلیات سے محروم ہو گئے ۔افسوس کا مقام ہے کہ جب وہ ان سے محروم ہوئے تو   انوار و تجلیات کا ہی انکار کرنے لگے۔

بعض معترضین اور خود غرض لوگ  ابن تیمیہ وغیرہ کے کلام سے استدلال کرکے  صوفیائے کرام پر یہ جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ وہ شریعت کو بالائے طاق رکھ کر حقیقت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اپنے کشف اور مفاہیم پر اعتماد کرتے ہیں اگر چہ یہ ظاہر شریعت کے مخالف ہوں ۔ان لوگوں کا یہ اعتراض بالکل غلط، محض افترا  اور علمی خیانت کا نتیجہ ہے، کیونکہ ان کے اس نظریہ کے بطلان پر خود ابن تیمیہ کا کلام شاہد ہے۔

ابن تیمیہ اپنے  فتوی میں لکھتے ہیں:

(والشيخ عبد القادر [الجيلاني رحمه الله تعالى] ونحوه من أعظم مشائخ زمانهم أمراً بالتزام الشرع والأمر والنهي وتقديمه على الذوق والقدر، ومن أعظم المشائخ أمراً بترك الهوى والإِرادة النفسية، فإِن الخطأ في الإِرادة من حيث هي إِرادة إِنما تقع من هذه الجهة، فهو يأمر السالك أن لا تكون له إِرادة من جهته هو أصلاً ؛ بل يريد ما يريد الربُّ عز وجل ؛ إِما إِرادة شرعية إِن تبين له ذلك، وإِلا جرى مع الإِرادة القدرية، فهو إِما مع أمر الرب وإِما مع خلقه. وهو سبحانه له الخلق والأمر. وهذه طريقة شرعية صحيحة)[مجموع فتاوى أحمد بن تيمية ج10. ص488ـ489]

ترجمہ: شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے تمام مشائخ سے زیادہ شریعت اور اس کے اوامر و نواہی پر کاربند تھے اور شریعت کو ہمیشہ ذوق پر مقدم رکھتے تھے۔ اسی طرح آپ خواہشات اور ارادہ نفس کو ترک کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ کیونکہ ارادہ نفس کی وجہ سے سالک  خطا کا شکار ہو جاتا ہے ۔اس لئے آپ سالک کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ اسے اپنے ذاتی ارادہ کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کا وہی ارادہ ہونا چاہئے جو اللہ تعالی کا ارادہ ہو ۔

ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں: (فأما المستقيمون من السالكين كجمهور مشائخ السلف مثل الفضيل بن عياض، وإِبراهيم بن أدهم، وأبي سليمان الداراني، ومعروف الكرخي، والسري السقطي، والجنيد بن محمد، وغيرهم من المتقدمين، ومثل الشيخ عبد القادر [الجيلاني]، والشيخ حماد، والشيخ أبي البيان، وغيرهم من المتأخرين، فهم لا يسوِّغون للسالك ولو طار في الهواء، أو مشى على الماء، أن يخرج عن الأمر والنهي الشرعيين، بل عليه أن يفعل المأمور، ويدع المحظور إِلى أن يموت. وهذا هو الحق الذي دل عليه الكتاب والسنة وإِجماع السلف وهذا كثير في كلامهم) ["مجموع فتاوى أحمد بن تيمية" ج10. ص516ـ517]

ترجمہ: جمہور سلف صالحین جو کہ صاحب استقامت تھے۔جیسے فضیل ابن عیاض، ابراہیم ابن ادہم، ابو سلیمان درانی، معروف کرخی ، سری سقطی، جنید بن محمد وغیرہ متقدمین میں اور متاخرین میں شیخ عبد القادر جیلانی ، شیخ احمد اور شیخ ابو بیان رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ بزرگ ہیں، جو سالک کو ایک لمحہ کے لئے بھی شریعت کے اوامر و نواہی سے خارج ہونے کی اجازت نہیں دیتے ، اگرچہ وہ ہوا میں اڑنے اور پانی پر چلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بلکہ اس کے لئے ضرورری ہے کہ وہ آخر دم تک اوامر الٰہیہ بجا لئے اور نواہی سے اجنتاب کرے ۔اور یہی وہ صحیح راستہ جس پر کتاب وسنت اور سلف صالحین کا اجماع دلالت کرتا ہے۔اس قسم کی اکثر چیزیں ان کی گفتگو میں موجود ہیں۔ (دیکھئے : مجموع فتاوی ، احمد بن تیمیہ ، ج ۱۰، ص۵۱۶، ۵۱۷)

اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شریعت اساس و بنیاد ہے اور طریقت اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ اور حقیقت ان پر مرتب ہونے والا ثمرہ ہے۔ ان تینوں چیزوں کا آپس میں بہت گہرا ربط و تعلق ہے ۔ جس نے شریعت کو مضبوطی سے تھام لیا وہ راہ طریقت پر چلتا ہوا حقیقت تک پہنچ جائے گا ۔ ان میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی کوئی تناقض ۔

مصادر و مراجع

۱۔ القران الکریم

۲۔صحیح مسلم، کتاب الایمان

۳۔ مسند امام احمد، باب الایمان و الاسلام وا لاحسان، ج ۱ ص۶۴

۴۔تعریفات  سیدشریف جرجانی، ص ۹۴

۵۔قواعد التصوف  للشیخ   احمد زروق

۶۔شرح عين العلم وزين الحلم  للإِمام ملا علي القاری

۷۔ حقائق عن التصوف  ،شیخ عبد القادر عیسی الشاذلی ، اردو ترجمہ تصوف کے روشن حقائق، الاستاذ اکرم الازھری

۸۔ حاشیہ ابن عابدین،رد المحتار

۹۔نشر المحاسن الغا لیۃ فی فضل المشایخ الصوفیۃ ، شیخ عبد اللہ یافعی

۱۰۔ کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون ، حاجی خلیفہ

۱۱۔الترغیب والترھیب

۱۲۔ حلیۃ الاولیا، ابو نعیم

۱۳۔ مجموع فتاوى احمد بن تیمیہ

غلام غوث صدیقی دہلوی  عالم و فاضل  ،  ایم اے (عربک) انگریزی،عربی ،اردو زبانوں کے مترجم اور نیو ایج اسلام کے ریگولر کالم نگار ہیں۔ ای میل:ghlmghaus@gmail.com

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/refutation-objection-made-interrelationship-between/d/110568


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..