New Age Islam
Thu Dec 12 2024, 11:15 PM

Urdu Section ( 16 March 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Meditating On Life and Death from an Islamic Perspective اسلام میں زندگی اور موت کا تصور

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

14 جنوری 2022

(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )

یہ تصور کہ زندگی اور موت آزمائشیں ہیں مومنوں کے لیے اپنے طرز عمل کو بہتر بنانے کا ایک موقع ہے۔

اہم نکات:

موت اور آخرت کے بارے میں مسلمانوں کا نقطہ نظر قرآن پاک پر مبنی ہے۔

اللہ تعالی نے زندگی اور موت کو یہ جانچنے کے لیے بنایا ہے کہ کس کے اعمال اچھے ہیں۔

اسلام اعمال کے معیار کو اعمال کی مقدار پر ترجیح دیتا ہے۔

یہ یاد رکھنے سے کہ ہم موت کے بعد اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہوں گے ہمارے اندر اچھے اعمال کرنے اور اچھی بات کہنے کی قابلیت پیدا ہوتی ہے۔

انسانی حقوق کی تکمیل کی بنیاد دھوکہ اور فریب کی بجائے ایمانداری اور مخلصانہ یقین پر ہونی چاہیے۔

 …

دین کے مطابق ایک مسلمان کی پوری زندگی ایک آزمائش اور امتحان ہے، جو اس کے آخری انجام کا تعین کرتا ہے۔ اس کے لیے موت روح کا اپنے خالق، خدا سے ملاقات کا بہانہ ہے۔ موت اور بعد کی زندگی کے بارے میں اس کے خیالات اس کے ذہن سے کبھی دور نہیں ہوتے۔ اس سے اسے اپنی زندگی اور اعمال کو توازن میں رکھنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ وہ اچھے اعمال کے نتیجے میں آنے والی چیزوں کی توقع میں جینے کی کوشش کرتا ہے۔ موت اور آخرت کے بارے میں مسلمانوں کا نقطہ نظر قرآن پاک پر مبنی ہے۔

موت و حیات کے معنی کی تلاش اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک کہ ہم قرآن کریم کا جائزہ نہ لیں۔ اللہ تعالی نے موت اور ساتھ ہی زندگی کو کیوں پیدا کیا؟ زندگی اتار چڑھاو سے بھری پڑی ہے، لوگ کبھی خوش اور کبھی دکھی ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ زندگی کو پسند کرتے ہیں، انہیں موت پر غور کرنا مشکل لگتا ہے۔ موت ایک ناگزیر حقیقت ہے؛ یہ سب کے لیے، بغیر کسی استثنا کے جو کہ غیر متوقع طریقے سے آ جاتی ہے۔ لیکن زندگی اور موت کا مقصد کیا ہے؟ کیا موت اور زندگی کی کوئی خاص وجہ ہے؟

قرآن پاک اس سوال کا واضح جواب دیتا ہے: "وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے اور وہی عزت والا بخشش والا ہے،" (67:2)

مذکورہ بالا آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت دونوں کو صرف اور صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ مومنوں کی آزمائش ہو کہ کس کے اخلاق اچھے ہیں۔ قرآن کے مطابق زندگی ایک امتحان ہے اور ہمیں اپنے اعمال کا نتیجہ موت کے بعد ملے گا۔ زندگی کے تجربات ہمیں سکھاتے ہیں کہ اس امتحان میں بے احتیاطی نہ برتی جائے۔ بغیر کسی مشکل کے آزمائش کا تصور کرنا ناممکن ہے۔ اچھے اخلاق کا حامل بننے کے لیے ہمیں غم، پریشانی، بھوک، تباہی، جبر، بدعنوانی اور جان و مال کے نقصان، وغیرہ جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وہ لوگ جو اپنی موت پر مسلسل غور کرتے ہیں ان کے اندر زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ بلا شبہ انسان کے وجود کا ہر قدم اسے اللہ کی مطلق طاقت کے مقابلے میں اس کی اپنی کمزوری اور بے بسی کی یاد دلاتا ہے اور اس کے اندر صالح زندگی گزارنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف موت کا خوف اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کا سب سے مؤثر طریقہ ہے، بشرطیکہ اسے یقین ہو کہ مجھے قیامت کے دن اپنے خدا کے سامنے جواب دینا ہے اور خدا کی ناراضگی کا مشاہدہ کرنا بہت بڑی بات ہے۔

موت اس کائنات کی ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ جب انسان موت کو یاد کرے تو اسے اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے جس کے لیے وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اگر اس کے اعمال برے ہیں تو آخرت میں خدا کے سامنے کھڑا ہونا اس کے لیے ذلت و رسوائی کا سبب بنے گا۔ اگر انسان کا ایمان سچا ہو اور اس کا عمل صالح ہو تو موت کا تصور بھی اسے پریشان نہیں کرتا۔ عظیم اور نیک کاموں پر بھی غرور سے بچنا ضروری ہے کیونکہ یہ اسلام میں حرام ہے کیونکہ اچھے کاموں کے لیے خدا کا اجر بنیادی طور پر خدا کی رحمت کی وجہ سے ہے۔ اور یہ کہ ہمیں دنیاوی زندگی میں نیک اعمال کرنے کا موقع ملا یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

ایک حدیث کے مطابق، "موت ایک مبلغ ہے، اور ضرورتوں سے پاک ہونے کے لیے یقین کافی ہے۔" [طبرانی]

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ موت کے لمحے دوستوں اور اہل خانہ کے پاس موجود ہونے میں کافی تعلیم ہے۔ اگر ہمیں اس سے فائدہ نہیں ہوا تو پھر کچھ بھی کار آمد نہیں ہوگا۔ موت کا مشاہدہ کرتے وقت اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک دن اس کی زندگی کے سفر میں سب کچھ گزر جائے گا اور اب اسی لمحے اسے نیک اعمال شروع کر دینا چاہیے تاکہ صرف خدا کے ساتھ محبت کا خالص رشتہ قائم ہو سکے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں یہ نہیں کہا کہ ’’تم میں سے کون زیادہ عمل کرتا ہے‘‘ بلکہ فرمایا کہ ’’تم میں سے کون اچھے اخلاق والا ہے‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں اعمال کا معیار قابل اعتبار ہے ۔ اس لیے قیامت کے دن انسان کے اعمال کو شمار کرنے کے بجائے تولا جائے گا۔ بعض صورتوں میں، ایک عمل کا وزن ہزاروں اعمال کے وزن سے زیادہ ہوتا ہے۔

اچھا عمل کیا ہے؟

حضرت عمر فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اس آیت کی تلاوت کی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم "بہترین اخلاق" تک پہنچے تو رک گئے اور واضح کیا کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں سے سب سے زیادہ پرہیز کرتا ہے اور اس کی اطاعت کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ [قرطبی]

اسلام ہم سے کن چیزوں سے اجتناب چاہتا ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی تفصیل میں ہم یہاں نہیں جائیں گے۔ مختصرا یہ ہہ ہم اسلام میں حقوق کی تقسیم کو خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق کے درمیان بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ہمیں حقوق العباد کو بھی پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، حقوق العباد کی تکمیل کی بنیاد دیانتداری اور خلوص پر ہونی چاہیے، نہ کہ اس چالاک اور بے ایمان رویے پر جو کہ اللہ کے بہت سے نام نہاد عقیدت مندوں کا شیوا ہے۔ انصاف، احسان، امن، مساوی سلوک اور دیگر تمام حقوق العباد کے نام نہاد حقوق کو اپنی اصل شکل اختیار کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو ایمان، محبت، امن، انسانی حقوق، یا کسی اور چیز میں منافقت کو چھپا کر انسانوں کو دھوکہ دینے سے منع کیا ہے۔ لہٰذا ہم ممنوع اعمال [حرم اور ناجائز] سے پرہیز کرکے اپنے امتحان اور آزمائش میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

قرآن بتاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالی ہمیں درج ذیل طریقے سے امتحان میں ڈالتا ہے:

’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو" (2:155)

خوشخبری صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو ہر قسم کے مسائل میں صبر سے کام لیتے ہیں، جیسا کہ اوپر آیت میں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی خود غرضی کی تسکین کے لیے ہر ممکن بداعمالی انجام دینے کے لیے تیار ہیں، مثلا بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا، بمباری کرنا، تباہی و بربادی کرنا، چوری کرنا، اور بے بس اور اقلیتوں پر ظلم کرنا، وغیرہ، امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

اس کے بعد آنے والے دو آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن ے لیے بشارتیں ہوتی ہیں وہ کس طرح صبر سے کام لیتے ہیں:

’’(وہ وہ لوگ ہیں) کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا‘‘ (2:156)

"یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی دروُ دیں ہیں اوررحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔" (2:157)

پچھلے پیراگراف کے مطابق وہ لوگ جو مصیبت کے وقت صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے اور برے کاموں میں مشغول رہتے ہیں وہ مرنے کے بعد اپنے رب کے فضل اور اس کی رحمت سے محروم رہیں گے۔ وہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے فضل سے گر چکے ہیں۔

اس کے دو قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کوئی آزمائشی میں کامیاب ہوتا ہے اور کوئی ناکام۔ دونوں قسم کے نتائج کا اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بخوبی تذکرہ کیا ہے: "بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا" (95:4) "پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا (95:5) "مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ انہیں بے حد ثواب ہے(95:6)۔

سب سے پہلے اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو بہترین صورت [احسن تقویم] میں پیدا کیا، پھر اس نے ان کے نفس (نفس) کو خیر و شر کے درمیان بصیرت عطا کی (91:8)۔ اس کے بعد جو شخص اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء، فرشتوں، رسولوں اور کتابوں پر ایمان رکھتا ہے اور قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتا ہے، وہ فطری اخلاق اور بہترین دستور کو برقرار رکھتا ہے اور اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کام کرے جو ان تمام باتوں کے خلاف ہو تو وہ اپنی فطری حیثیت کو گرا دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے گر جاتا ہے اور پھر احسن تقویم سے اسفل سافلین کی طرف چلا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ

"بیشک مراد کو پہنچایا جس نے اسے ستھرا کیا" (91:9) "اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا" (91:10)۔

اب یہ بات ثابت ہو چکی کہ اللہ تعالی نے انسان کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے زندگی اور موت کو پیدا کیا ہے۔ یہ پوری دنیا ایک امتحان ہے جس میں ہمیں اچھے اور برے دونوں کاموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو ہمارا رب خوش ہوتا ہے اور جب ہم برے کام کرتے ہیں تو ہمارا رب ناراض ہوتا ہے۔ آجکل بہت سے لوگ اپنے اندر کے شیطان کو قابو کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ خدا سے غافل ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اس کے سامنے جواب دینا ہے۔

مثال کے طور پر دنیا بھر میں بہت سے لوگ متعدد قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے خوف کھاتے ہیں کیونکہ وہ بین الاقوامی یا قومی قانون کو توڑنے سے ڈرتے ہیں۔ قانون نہ ہو تو جرائم بڑھ جائیں گے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ آخرت میں سزا کا قانون قائم نہ کرتا تو بہت سے لوگ اس دنیا میں برے اعمال کرنے سے باز نہ آتے۔ سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں، لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمیں بحیثیت مسلمان یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہوں گے، اس لیے ہمیں اپنے قول و عمل پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔

English Article: Meditating On Life and Death from an Islamic Perspective

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/meditating-life-death-islamic-perspective/d/126579

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..