غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
3 اگست 2016
انصاف اسلام کے بنیادی اقدار میں سے ایک ہے۔ جو نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے وہ اسلام کے لیے بھی نا قابل قبول ہے۔ اور مذہب، ذات، ثقافت، ملک اور نسل سے قطع نظر پوری انسانیت پر یکساں طور پر اس کا نفاذ ہوتا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں پر تمام حالات میں دوٹوک اور آفاقی انداز میں انصاف کی ذمہ داری عائد کی ہے۔
عربی زبان میں انصاف کے مساوی الفاظ ’عدل اور قسط‘ ہیں جو زیادہ جامع اور اللہ کے ننانوے اسماء حسنہ میں سے دو اسم ہیں جن کا ذکر قرآن مقدس میں جا بجا موجود ہے۔ لفظ ’عدل اور قسط‘ کا استعمال ان کے مشتقات کے ساتھ قرآن مجید میں تقریبا ستائس مرتبہ ہوا ہے۔
اسی طرح ’عدل یا قسط‘ کے مادہ میں انصاف، غیر امتیازی سلوک، مساوات، چیزوں کو ان کے صحیح مقام پر رکھنا، دوسروں کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کا معاملہ کرنا، لوگوں کے لیے حقیقی احترام کا جذبہ رکھنا اور انسانی شخصیت کے اخلاقی فضائل و کمالات کے جامع ہونے کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔ اور لفظ ’عدل‘تمام تر اسلامی قوانین اور تعلیمات کا جامع ہے۔
اللہ عزو جل نے مسلمانوں کو تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کر نے حکم دیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
ترجمہ:"بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو"۔ (16:90)
ایک اور آیت میں اللہ کا فرمان ہے،
ترجمہ:"اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ ......." (5:8)
مذکورہ بالا قرآنی آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انصاف ایک اسلامی فریضہ ہے اور ظلم اسلام میں حرام ہے۔
اس دنیا مٰیں انبیاء کو مبعوث کرنے کے پیچھے اللہ رب العزت کا واحد مقصد دنیا میں انصاف قائم کرنا اور ظلم و جبر کو ختم کرنا تھا۔ اللہ کا فرمان ہے:
ترجمہ: "بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔" (57:25)۔
انصاف میں غیر امتیازی سلوک
عام حالات میں لوگ اپنے دوستوں، قوموں اور ملک کے ساتھ منصف ہو سکتے ہیں۔ لیکن انصاف کا اسلامی معیار نسل، رنگ، قوم، مذہب، عقیدہ، رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں کے تحفظات سے بالا تر ہے۔ اسلام مسلمانوں کو یکساں طور پر دوستوں اور دشمنوں کے تئیں انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے، ترجمہ:"اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے۔"(4:135)
قرآن مجید کی یہ آیت ذاتی مفاد اور انصاف کے درمیان کشمکش کا سامنا کرنے والے مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط قرارداد پیش کرتی ہے۔ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں کو ہر حال میں انصاف کرنے کا حکم دیتی ہے خواہ وہ ان کے اپنے حقیر ذاتی مفاد کے خلاف یا خود اپنے رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ کچھ لوگ دوسروں پر ظلم کر کے اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن اسلام اس طرح کے نام نہاد ذاتی مفادات سے روکتا ہے، اس لیے کہ یہ آیتیں تنگ نظری کو دور کرتی ہیں اور ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کے مفادات کا حقیقی محافظ صرف اللہ عز و جل ہے اور جب ہم انصاف کے اس کے حکم کو پورا کریں گے تو وہ ہمارے مفادات کی حفاظت کرے گا۔
اسلام میں دشمنوں کے حق میں بھی انصاف لازمی ہے
مذکورہ آیتوں سے یہ واضح ہے کہ اسلام رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں کے درمیان انصاف کرتے وقت جانب داری کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ قرآن کی ایک دیگر آیت کے مطابق مسلمانوں کا سابقہ جب ان کے دشمنوں کے ساتھ ہو تب بھی انہیں ظلم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ناخواندہ اور غیر مہذب لوگ عام طور پر دشمنوں کے ساتھ ناانصافی کا رویہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ رجحان اسلام سے پہلے ایام جاہلیت میں اتنا ہی سچ تھا جتنا یہ آج ہے۔ لیکن اسلام دوٹوک انداز میں اس رجحان پر پابندی لگاتا ہے اور انصاف کے باب میں تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک بے نظیر مثال قائم کرتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے، اﷲ نے ایسے لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وعدہ فرمایا ہے (کہ) ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر ہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخ (میں جلنے) والے ہیں‘‘۔ (5:8-10)
اللہ کا یہ کلام ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا مطلب اللہ کے احکام کی اتباع و پیروی کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ کسی کی دشمنی تمہیں اس کے ساتھ انصاف کرنے سے نہ روکنے پائے۔
امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"وَدَلَّتِ الْآيَةُ أَيْضًا عَلَى أَنَّ كُفْرَ الْكَافِرِ لَا يَمْنَعُ مِنَ الْعَدْلِ عَلَيْهِ"۔
ترجمہ:"اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر کا کفر بھی کسی مومن کو اس کے ساتھ انصاف کرنے سے نہ روکے۔"(تفسیر امام قرطبی 5:8)
امام قرطبی مزید لکھتے ہیں کہ،" یہ جملہ "لا یجرمنکم [تمہیں نہ روکنے پائے] " کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے تمہاری عداوت تمہارے لیے حق تجاوز کرنے کی وجہ نہ بنے اور تمہیں غلط کاموں میں مشغول نہ کرے یا تمہیں انصاف کے راستے سے ظلم و جبر کی طرف منحرف نہ کرے۔" (جامع الاحکام فی القرآن –القرطبی)
اللہ کے کسی بھی حکم پر سر تسلیم خم نہ کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے جو اس کے مرتکب کو ہمیشہ کے لیے جہنم کا مستحق بنا دے گا۔ لہذا، دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنا اللہ کا حکم ہے، اگر چہ وہ دشمن غیر مسلم یا کافر ہی کیوں نہ ہو۔ جو لوگ انصاف کے اس حکم سے رو گردانی کرتے ہیں انہیں جہنم میں سخت عذاب کا مزہ چکھایا جائے گا۔ قرآن مجید میں انصاف کا حکم دوٹوک انداز میں تمام حالات کے لئے بیان کیا گیا ہے؛ جس کا اطلاق اور جس کا معنیٰ کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
قرآن میں اللہ کا فرمان ہے، "اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے"۔
اس آیتِ قرآنی کی روشنی میں تمام علماء و مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کا یہ قانون تمام اقوام، تمام مذاہب کے پیروکاروں اور کل انسانیت پر نافظ ہوتاہے۔
انصاف کا نظام قائم کرنا ایک لازمی ذمہ داری۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا:
".....اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)...."(5:42)۔
"اے رسولِ گرامی!) بیشک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے، اور آپ (کبھی) بددیانت لوگوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں"۔ (4: 105)
"پس آپ اسی (دین) کے لئے دعوت دیتے رہیں اور جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے (اسی پر) قائم رہئے اور اُن کی خواہشات پر کان نہ دھریئے، اور (یہ) فرما دیجئے: جو کتاب بھی اللہ نے اتاری ہے میں اُس پر ایمان رکھتا ہوں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ اللہ ہمارا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث و تکرار نہیں، اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا اور اسی کی طرف (سب کا) پلٹنا ہے"۔ (42:15)
قرآن مجید خود کو ایمان اور انصاف کے اصول قائم کرنے والی ایک آسمانی کتاب قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق، انصاف مذہب، ملک، ذات اور قوم سے قطع نظرتمام لوگوں کے ساتھ کیا جانا چاہئے، اور یہ شریعت اسلامیہ میں ایک ایسا حق ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
اللہ کا فرمان ہے: "اور آپ کے رب کی بات سچائی اور عدل کی رُو سے پوری ہو چکی، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے"۔ (6:115)
نیز اللہ کا یہ بھی فرمان ہے:
"بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے"۔(4:58)
" ..... اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو........ "( 6:152)
احادیث میں انصاف کی تعلیمات
بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں دشمنی کی حالت میں بھی انصاف، رحم و کرم اور معافی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو یہاں اس امید کے ساتھ نقل کر رہا ہوں کہ قارئین اس سے متاثر ہوں گے۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا"۔
ترجمہ:" بے شک، انصاف کرنے والے لوگ اللہ کی بارگاہ میں اس کی داہنی جانب روشنی کےمنبروں پر ہوں گے، اور اس کے دونوں اطراف (شرف و اعزاز میں برابر ہونے) میں حق ہیں، اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے فیصلوں میں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ اور اپنے تمام کاموں میں انصاف کو اپنائے رکھا"۔ (صحیح مسلم 4493، حدیثِ صحیح)
حضرت جابر ابن عبد اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاتَّقُوا الشُّحَّ فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ"۔
ترجمہ:" ظلم و جبر کے ارتکاب سے خود کی حفاظت کرو اس لئے کہ جبر و ظلم قیامت میں تاریکی کا باعث ہو گا۔ لالچ سے خود کو بچاؤ کیونکہ لالچ نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کر دیا۔ اور اسی کی وجہ سے لوگوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا اور حرام کو حلال جانا۔ (صحیح مسلم 2578، حدیثِ صحیح)
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اتَّقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ وَإِنْ كَانَ كَافِرًا فَإِنَّهُ لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ" ۔
"مظلوم کی آہ سے بچو اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی تیسرا نہیں ہے ، اگر چہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو"۔ (مسند احمد 12140، حدیثِ صحیح)
واثلۃ بن الأسقع سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، "اے اللہ کے رسول عصبیت کیا ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:
"أَنْ تُعِينَ قَوْمَكَ عَلَى الظُّلْمِ"
ترجمہ:" عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم و جبر میں اپنے لوگوں کی مدد کرو۔ "(سنن ابوداؤد 5100، حدیثِ حسن)
اسلام نے ہر قسم کی عصبیت کو سختی کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے اور اسے قبل از اسلام کی جاہلیت کے مساوی قرار دیا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے۔
عبد الله بن البجلی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ نے فرمایا:
"مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ"۔
ترجمہ: "جو شخص اندھی تقلید، عصبیت کی دعوت یا عصبیت کی حمایت کرنےمیں مارا گیا وہ جاہلیت پر مارا گیا، (صحیح مسلم 1850، حدیثِ صحیح)۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا"۔
ترجمہ: " یہ کہنے والے اندھے پیروکار نہ بنوں کے اگر لوگوں اچھے ہیں تو ہمارا بھی رویہ ان کے ساتھ اچھا ہے اور اگر وہ ظالم ہیں تو پھر ہمارا رویہ بھی ظلم و جبر والا ہوگا۔ بلکہ خود اپنے اندر قوت فکر پیدا کرو۔ اگر لوگ اچھے ہیں تو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ لیکن اگر وہ برے ہیں تب بھی ان کے ساتھ ظلم نہ کرو"۔ (سنن ترمذی 2007، حدیثِ حسن)
اسلام نے انصاف پر کافی زور دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر مسلمانوکے خلاف نا انصافی اور ظلم و جبر کا ارتکاب کیا جائے تب بھی انہیں لوگوں کے ساتھ بخشش اور مہربانی کا معاملہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، اسلام قتل کے معاملے میں مقتول کے خاندان کو قانونی طور پر انتقام لینے کا حق دیتا ہے۔ تاہم،اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اگر مقتول کے وارثین اپنے اس حق کو رحمت اور صدقہ کے طور پر چھوڑ دیں تو اور بھی زیادہ بہتر ہے۔
قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:
"وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ"۔
ترجمہ: " اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں"۔ (5:45)
احادیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ جب بھی قانونی طور پر انتقامی کارروائی کا کوئی بھی مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں لایا جاتا تو آپ ﷺ ہمیشہ اپنی امت کو صبر سے کام لینے اور مجرم کو معاف کر دینے کی ترغیب دیتے تھے۔
انس بن مالک سے مروی ہے کہ:
"مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُفِعَ إِلَيْهِ شَيْءٌ فِيهِ قِصَاصٌ إِلَّا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ"۔
ترجمہ:" میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ قانونی انتقامی کارروائی کا کوئی معاملہ اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں لایا گیا اور آپ نے اس معاملے میں مجرم کو معاف کرنے کی ترغیب نہ دی ہو۔ (سنن ابوداؤد 4497، حدیثِ صحیح)
اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسان گناہوں کا ارتکاب کرنے کے عادی ہیں، اور تمام انسانوں کو اللہ کی رحمت کی سخت ضرورت ہے۔ اگر اللہ ہمارے تمام غلط کاموں اور گناہوں پر مکمل انصاف کرنے کا ارادہ کرے تو ہم سب سخت عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ لیکن اللہ کے قہر و غضب پر اللہ کی رحمت کا غلبہ ہے۔
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي"۔
ترجمہ: "جب اللہ تمام کائنات کی تخلیق مکمل کر چکا تو اس نے ایک تحریر لکھ کر عرش پر اپنے ساتھ رکھ لیا جس میں یہ لکھا ہوا ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے "۔ (صحیح بخاری 3022، حدیثِ صحیح)
قرآن کریم کی آیتوں اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد اب ہم مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ہم مسلم اور غیر مسلم سمیت تمام لوگوں کے حق میں انصاف کی آواز بلند کریں۔ علاوہ ازیں، اگر ہمارے ساتھ کسی بھی طرح کی ناانصافی کی جاتی ہے اور ہمارے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تب بھی ہم مسلمانوں کو بردباری، رحمت اور معافی کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
(و الله و رسولہ أعلم بالصواب)
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/justice-islam—a-compulsory-obligation-universally/d/108167
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/justice-islam-/d/110213
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism