غلام غوث صدیقی، نیو ایج
اسلام
17 ستمبر 2021
اسلام میں انسانیت کی
خدمت کی اہمیت
اہم نکات:
1. تمام انسان ایک 'خاندان' کا حصہ [یعنی اللہ کی عیال] ہیں
2. اسلام اپنے پیروکاروں کو مذہب، ذات پات، ثقافتی، یا نسلی امتیاز
سے اوپر اٹھ کر تمام انسانوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتا ہے
3. اللہ ان لوگوں پر رحم نہیں کرتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتے
4. ہم تبھی اپنے معاشرے سے نفرت کا بازار ختم کرنے میں کامیاب ہو
سکتے ہیں جب ہم خدمت خلق کی صوفی تعلیمات پر عمل کریں
....
اسلام اپنے ماننے والوں
کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور پیار و محبت سے
پیش آئیں، نیز جب بھی انہیں کوئی ضرورت پیش آئے ان کی خدمت کریں۔ تمام مخلوقات
اسلام کی نظر میں اللہ کی "عیال" ہیں [یہاں، "عیال" سے مراد
اللہ کے بندے ہیں]۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کی خدمت اللہ کی اطاعت کے درجے میں ہے۔
صوفیاء کرام نے زندگی بھر اسلام کے اس تصور کو اپنایا اور اسی پر اپنی زندگی گزاری۔
عقیدے، خیالات اور مذہب کے اختلافات خدمت خلق کے راستے میں کبھی نہیں آنا چاہیے۔
لہٰذا، مذہب، عقیدے، ذات پات یا تہذیب و ثقافت سے قطع نظر ضرورت مندوں کی مدد کرنا
ایک مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ
لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت تبھی کی جانی چاہئے جب وہ ایمان لے آئیں۔
یہ نقطہ نظر غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کا معاملہ اللہ تعالی کی قدرت اور
مرضی پر ہے۔ اللہ رب العزت جس کے اندر خلوص اور حقیقی طلب دیکھتا ہے اسے ایمان کی
دولت سے نواز دیتا ہے۔ لہٰذا، لوگوں کی خدمت کے لیے ہمہ دم تیار رہیں خواہ وہ کسی
بھی عقیدے یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں، اور لوگوں کی خدمت صرف اللہ کی رضا کے لیے
کریں۔
سیرت النبی کے مطالعہ سے
ہمیں خدمت خلق سیکھنا چاہیے۔ حضرت انس اور عبداللہ ابن مسعود کے مطابق ،
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"تمام خلق اللہ کی "عیال"
ہے اور وہی اللہ کا سب سے زیادہ محبوب ہے جو اپنے عیال کو سب سے زیادہ فائدہ
پہنچانے والا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح/التیسیر بشرح الجامع الصغیر، خلق خدا پر رحمت
اور شفقت کا باب)
حضرت جریر بن عبداللہ کے
بقول، رسول اللہ نے فرمایا کہ "اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر
رحم نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم و صحیح بخاری)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا کہ اللہ کے رسول نے مجھ سے فرمایا: 'جہاں کہیں بھی ہو اللہ کا تقویٰ
اختیار کرو اور کسی برے عمل کا بدلہ نیکی کے ساتھ دو اور لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک
کرو۔' 'جامع ترمذی: حدیث 93، کتاب 27۔
حضرت ابو درداء کے مطابق،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن ایک مومن کے میزان
عمل پر اس کے [تمام انسانوں کے ساتھ] حسن اخلاق سے زیادہ کوئی بھی چیز بھاری نہیں
ہوگی ..." [جامع ترمذی، حدیث 108، کتاب 27 ]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ
عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رحم کرنے والے
پر رحم کرنے والا (اللہ) رحم کرے گا۔ تم اہل زمین پر رحم کرو اور اللہ تعالی تم پر
رحم کرے گا۔ [جامع ترمذی، کتاب 27، حدیث 30]
عبداللہ ابن مسعود بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہو
سکتے جب تک کہ تم دوسروں پر رحم نہ کرو۔ راوی نے کہا، اے اللہ کے رسول! ہم میں سے
ہر ایک دوسرے پر رحم کرتا ہے، تو آپ نے جواب دیا، "یہاں وہ مہربانی اور
ہمدردی مراد نہیں جو تم میں سے کوئی اپنے قریبی شخص کے لیے ظاہر کرتا ہے، بلکہ اس
سے مشترکہ رحمت و ہمدردی ہے جو تمام انسانوں کے لیے ہونی چاہیے"۔ طبرانی]
صوفیاء کرام حضور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں کو جیتنے میں
کامیاب رہے۔ بہت سے مذاہب اور قوموں کے لوگ ان کے پاس آتے اور ان کے اچھ اخلاق کے
نتیجے میں ان کے گرویدہ ہو جاتے۔ آج بھی ہم تھی اپنے معاشرے سے نفرت کا بازار ختم
کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہم خدمت خلق کی صوفی تعلیمات پر عمل کریں۔ ذیل میں
کچھ واقعات درج کئے جا رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں!
حضرت ثابت کے مطابق حضرت
سلمان فارسی مدائن کے حاکم اور گورنر تھے۔ شام [سیریا] سے ایک آدمی کچھ سامان لے
کر مدائن آیا اور دیکھا کہ حضرت سلمان نے ایک چادر اور کمبل زیب تن کئے ہوئے ہیں
اور ہاتھ میں موٹی رسی پکڑے ہوئے ہیں۔ اس نے حضرت سلمان کو ایک عام مزدور سمجھا
اور قن سے کہا کہ تم میرا سامان پکڑو۔ حضرت سلمان فارسی اس کا سامان اٹھا کر چلنے
لگے۔ جب لوگوں نے آپ کو اس آدمی کے ساتھ چلتے ہوئے اور اس کا سامان اٹھاتے دیکھا
تو انہوں نے کہا، "ارے! یہ اس شہر کا گورنر ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے حضرت
سلمان سے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ "معاف کیجئے، میں آپ کو نہیں جانتا
تھا" تو حضرت سلمان نے کہا، "میں آپ کا سامان سڑک کے بیچ میں نہیں چھوڑ
سکتا جب تک میں اسے منزل تک نہ پہنچا دوں۔ پھر حضرت سلمان اسکا سامان منزل تک
پہنچانے کے بعد واپس آئے۔ [ابن الجوزی ، صفوات الصفوہ 1/247]
حضرت شیخ خواجہ عثمان
ہارونی فرماتے ہیں: "جب کوئی شخص پیاسے کو پانی دیتا ہے تو اس کے تمام گناہ
معاف کر دیے جاتے ہیں اور وہ ایسا ہو جاتا ہے گویا وہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ سے
پیدا ہوا ہے۔ اگر وہ مر جاتا ہے تو اس کا شمار شہیدوں میں ہوگا ہے۔ پھر انھوں
نےکہا، "جو بھوکے کو کھانا کھلائے گا اللہ اس کی ہزار ضرورتیں پوری کرے گا
اور اسے جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا اور اس کے لیے جنت میں ایک جگہ مخصوص کرے
گا۔" [انیس الارواح، ملفوظات 10]
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ
منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، "[مخلوق] کی خدمت کرنے کے بہت زیادہ فوائد
ہیں اور اس میں کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو کسی دوسری عبادت میں نہیں پائی جاتیں۔ اس
کا ایک فائدہ یہ ہے کہ سرکش نفس مر جاتا ہے اور تکبر و غرور دل سے نکل جاتا ہے،
عاجزی اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے، اچھے اخلاق، تہذیب اور آداب و اطوار شخصیت کا
حصہ بن جاتے ہیں، سنت اور طریقت کی تعلیم حاصل ہوتی ہے، نفس اور روح میں مزید
لطافت پیدا ہوتی ہے، انسان کا ظاہر و باطن واضح اور روشن و منور ہو جاتا ہے۔ یہ
تمام فوائد صرف عوام کی خدمت کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
جب ایک بزرگ سے سوال کیا
گیا کہ، "خدا تک پہنچنے کے کتنے راستے ہیں؟" حضرت یحییٰ منیری رحمۃ اللہ
علیہ نے جواب دیا کہ کائنات کا ہر ذرہ خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ لیکن خدا کے
قریب ہونے کا اس سے بڑا اور کوئی راستہ نہیں کہ خلق خدا کی حاجت روائی کی جائے۔ ہم
اسی راستے پر چلتے ہوئے اس مقام تک پہنچے ہیں، جسے اب ہم اپنے شاگردوں تک پہنچا
رہے ہیں .... اور یہ کہ خدمت خلق سے بہتر خدا کی اطاعت کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔
[مکتوبات صدی، مکتوب 71]
حضرت خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری فرماتے ہیں کہ درویشی [یعنی تصوف اور طریقت کا اصول ہے کہ اگر کوئی
بھوکا شخص آپ کے پاس آئے تو اسے کھانا کھلایا جائے۔ اگر اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں
تو اسے اچھے کپڑے مہیا کیے جائیں۔ اور اسے کسی بھی طرح خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے۔
بلکہ اسکی صحت کے بارے میں پوچھ کر اسے تسلی دی جائے۔ [دلائل العارفین]
یہ صرف چند نمونے ہیں۔ اس
کے علاوہ بھی سیکڑوں ایسی ہدایات ہیں جو ہمیں خدمت خلق اور اچھے آداب اخلاق کی
تعلیم دیتی ہیں۔ تاہم، ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ خدمت خلق کا جذبہ
اور اچھے عادات و اطوار ہمارے درمیان سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ آج کل مذہبی
اختلافات کی بنیاد پر دوسروں کی خدمت کرنا غیر اخلاقی بات سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ
وہ اپنے دینی بھائی کی بھی خدمت نہیں کرتے۔ صوفیاء کرام جو شریعت اور طریقت کے
سنگم تھے انہوں نے بنی نوع انسان کی خدمت کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا ہے جو بلا شبہ
ہمارے لیے مینارہ نور اور مردہ دل و روح کے لیے بہار حیات ہے۔ اللہ ہمیں دوسروں کی
اچھی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے!
English
Article: Islamic Teachings on Serving and Treating Human
Beings Well [Khidmat-e-Khalq]
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism