غلام غوث صدیقی، نیو ایج
اسلام
20 ستمبر 2021
دولت اسلامیہ خراسان اور
القاعدہ کے سیاہ پرچم اور خراسان کے نظریہ کی تردید
اہم نکات:
1. پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں
'خراسان' اور سیاہ پرچم کے بارے میں احادیث نقل کرتی ہیں۔
2. اگرچہ محدثین نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں سیاہ پرچم والی
حدیث درج کی ہیں لیکن انہوں نے ان احادیث کو غیر مستند سند روایات کی وجہ سے غیر
معتبر اور ضعیف قرار دیا ہے۔
3. رشدین وہ راوی ہے جس کی وجہ سے خراسان کی حدیث ضعیف اور منکر
سمجھی جاتی ہے۔
4. احمد بن حنبل نے رشدین کو ضعیف قرار دیا ہے۔
5. یحییٰ ابن معین رشدین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "ان کی
حدیث لکھی جانے کے قابل نہیں ہے"۔
6. سیاہ پرچموں والی حدیث صحیح نہیں ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں
کیا جا سکتا۔
7. پرچم، پگڑی، رنگ یا لباس کے طریقوں سے نہ تو حقیقت کا تعین ہوتا
ہے اور نہ ہی اس کی ترجمانی ہوتی ہے۔
8. اسلام میں سچ بنیادی طور پر قرآن اور حدیث میں فراہم کردہ
ثبوتوں پر منحصر ہے جس کی تائید درست استدلال سے کی جا سکتی ہے۔
------
پاکستان، افغانستان اور
وسطی ایشیا میں سرگرم کئی شدت پسند تنظیمیں 'خراسان' کے بارے میں احادیث نقل کرتی
ہیں جس سے ان کی مراد قدیم خراسانی سلطنت ہوتی ہے۔ جب جہادیوں کے مختلف دھڑے
خراسان کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ ایران کے خطے میں واقع وہ خراسان مراد نہیں لیتے
ہیں جو موجودہ نقشے پر نظر آتا ہے۔ داعش اور طالبان کے لیے خراسان "اسلام کے
سنہرے دور" کی علامت ہے، وہ تاریخی خراسان جس میں ایران اور افغانستان کے
ساتھ ساتھ جدید دور کے وسطی ایشیائی ممالک بھی شامل تھے۔ اگرچہ بہت سے علماء و
محدثین خراسان کے بارے میں وارد احادیث کی صداقت کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے
ہیں ، لیکن جہادی عناصر اس بات کے قائل ہیں کہ یہ احادیث ضعیف نہیں ہیں۔
خراسان ایک طاقتور اسلامی
سلطنت تھی جو کئی صدیوں پہلے دور جدید کے پاکستان، افغانستان، ایران، وسطی ایشیا
اور مشرق وسطیٰ پر پھیلی ہوئی تھی۔ جو لوگ خراسان والی حدیث کو صحیح مانتے ہیں، ان
کے مطابق امام مہدی اسی خطے سے ظاہر ہوں گے لیکن ممکن ہے "سیاہ پگڑی اور سیاہ
پرچم" والوں نے پہلے ان کے لیے راستہ کھول دیا ہوگا۔ جو لوگ اس نظریے پر یقین
رکھتے ہیں ان کاماننا ہے کہ امام مہدی خراسان کے علاقے میں خلافت کا اعلان کریں گے
جو کہ آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل جائے گی اور اسلام کی بالا دستی قائم ہوگی۔
اگر اسلامی ریاست کی
بنیاد کی بات کی جائے تو سید احمد شہید اور مولانا ضیاء الرحمن لکھوی کا خلافت کے
متعلق تصور بھی اسی علاقے سے وابستہ ہے، تاہم یہ نظریات شاید مضبوط نہ ہوئے ہوں۔
پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں متعدد ایسی شدت پسند تنظیمیں اور کمانڈر
موجود ہیں جو خراسان کے استعارے پر یقین رکھتے ہیں۔
جماعت الاحرار کا مروجہ
تاثر یہ ہے کہ یہ خراسان کے افسانے اور فلسفے پر کاربند ہے اور اس کا لیڈر اور اس
کے بیشتر کمانڈر خراسان کا نام رکھتے ہیں۔ القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری
کے ویڈیو پیغام کے مطابق ایسے گروہوں کا ہدف مسلم جنوبی ایشیائی ممالک کی ان
سرحدوں کو توڑنا تھا جو برطانیہ نے بنائی تھیں۔ پاکستان اور افغانستان میں جہادی
تنظیمیں اور انتہا پسند کمانڈر اپنی تقریروں میں اکثر خراسان والی حدیث کو استعمال
کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو متاثر کیا جا سکے جو خاص طور پر اپنے ملکوں کے سیاسی
طریقوں سے مایوس ہیں۔
خراسان کے واقعات اور
ساتھ ہی ساتھ سیاہ پرچموں کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ہے جس کا پروپگنڈہ جہادی
تنظیمیں کرتی ہیں۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ سیاہ پرچم کا ذکر حدیث میں ہے لیکن یہ صرف
علامتی یا منکر روایات پر مبنی ہے۔ آئیے پہلے حدیث کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر یہ
نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اور کن باتوں سے بچنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے مروی ہے کہ "خراسان سے سیاہ پرچم ظاہر ہوں گے جنہیں کوئی طاقت نہیں
روک پائے گی یہاں تک کہ وہ ایلیا پہنچ جائیں گے۔"
اس حدیث کا تذکرہ مختلف
حدیث کی کتابوں میں ہے مثلا سنن ترمذی 2269، طبرانی 4/31، دلائل النبوہ 6/516 میں
بیہقی، تاریخ الدمشق 32/281 میں ابن عساکر، مسند احمد 14/383 میں اور کتاب الفتن
1/1313 میں نعیم بن حماد نے روایت کیا ہے۔
مذکورہ بالا احادیث کے
مجموعوں میں بیان کردہ سند کے مطابق رشدین ابن سعد نے یہ حدیث یونس سے انہوں نے
ابن شہاب الزھری سے انہوں نے قبیسہ ابن ضعیب اور انہوں نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے
اور انہوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ محدثین نے
اپنی کتابوں میں کالے پرچم والی حدیث کو شامل کیا ہے لیکن انہوں نے اس کی غیر
مستند روایت کی وجہ سے اسے ناقابل اعتماد اور نامناسب قرار دیا ہے۔
امام طبرانی نے کہا:
"یہ حدیث کسی نے زہری سے نہیں بلکہ یونس سے نقل کی ہے اور صرف رشدین نے اسے
روایت کیا ہے۔" امام بیہقی نے کہا کہ "اسے صرف رشدین بن سعد نے یونس بن
یزید سے رویت کیا ہے"۔
رشدین کی وجہ سے ہی اس
حدیث کو ضعیف اور منکر سمجھا جاتا ہے۔ احمد بن حنبل نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
یحییٰ ابن معین اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "اس کی حدیث لکھی نہیں جائے
گی"۔ ابو زرعہ نے کہا کہ اس کی حدیث ضعیف ہے۔ ابو حاتم کے مطابق "اس کی
حدیث منکر ہے، وہ لاپروا ہے، اس نے قابل اعتماد راوی سے عجیب کہانیاں روایت کی ہیں
اور اس کی حدیث ضعیف ہے۔" ابو حاتم نے کہا کہ "اس کی حدیث کو مسترد کیا
جانا چاہیے"۔ امام نسائی نے کہا "اس کی حدیث ضعیف ہے"۔ ابو داؤد نے
کہا "اس کی روایتیں عام طور پر غیر معمولی ہوتی ہیں،" ابن حبان نے لکھا۔
[ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب 3/278]
چونکہ رشدین بن سعد وہ
واحد راوی ہے جس نے اس حدیث کو بیان کیا ہے، اس کے بارے میں مشہور محدثین کی
مذکورہ بالا تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث نہایت ضعیف ہے اور صحیح
نہیں ہے، اس لیے علماء نے اسے مسترد کردیا ہے۔
امام ترمذی نے کہا:
"یہ حدیث غریب ہے"۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو ضعیف
سمجھا ہے۔ ابن کثیر نے ایسی متعدد احادیث ذکر کی ہیں جن میں سیاہ پرچموں کا ذکر ہے
لیکن انہوں نے مزید کہا ہے کہ "یہ سب ان احادیث کی صداقت پر شک پیدا کرتی ہیں
کیونکہ ان کی کوئی بھی سند خامیوں سے پاک نہیں ہے۔" [البدایہ والنہایہ 6/248]
ابن حجر عسقلانی نے اس
حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے [القول المسدد 42]۔ اس حدیث کو البانی نے ضعیف قرار دیا
ہے(السلسلہ الضعیفہ 4825)۔ مسند احمد 16/316 پر اپنے تبصرے میں شیخ احمد شاکر نے
اسے ضعیف قرار دیا۔
مسند احمد کے تجزیہ کاروں
کا کہنا ہے کہ "اس موضوع پر کوئی مستند روایت نہیں ہے اس پر صرف ضعیف اور
موقوف روایتیں ہیں(یعنی جن کی اسناد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی
ہیں)۔
اب تک فراہم کی گئی
معلومات کی بنیاد پر کئی قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ سب سے پہلی، حدیث کی صداقت
پر شبہ ہے یا عظیم محدثین نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ مسترد ہونے کی سب سے عام وجہ
ایک راوی کی غلطی یا من گھڑت کہانی ہے۔ چونکہ وہ قابل اعتماد یا جائز نہیں ہیں،
فقہ حنبلی کے بانی احمد بن حنبل نے کالے پرچم والی تمام روایات کو مسترد کر دیا
ہے۔ ام القرا یونیورسٹی میں علم حدیث کے شعبے کے ماہر شیخ الشریف حاتم بن عارف
العونی نے کہا کہ "کالے جھنڈے جیسی علامتیں جھوٹ بولنے والوں نے اپنے ذاتی
ایجنڈے کے لیے تیار کی ہیں"۔
آئی ایس جیسے جہادی
گروہوں نے کالے پرچم یا بینر کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے
لیے مسلم ریتی رواجوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، مسلمانوں کو یہ تسلیم
کر لینا چاہیے کہ کالے جھنڈوں کی حدیث مستند نہیں ہیں اور پرچم، پگڑی، رنگ یا لباس
کے طریقوں سے نہ تو حقیقت کا تعین ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اور
اسلام میں سچ بنیادی طور پر قرآن اور حدیث میں فراہم کردہ ثبوتوں پر منحصر ہے جس
کی تائید درست استدلال سے کی جا سکتی ہے۔ اس کا مظاہرہ مذہبی طور پر درست رویے سے
بھی ہونا چاہیے۔ لہٰذا دہشت گردی یا انتہا پسندی کی کارروائیوں کو درست ثابت کرنے
کے لیے کسی بھی علامت یا فقرہ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں کو کسی بھی ایسے
گروہ پر یقین نہیں کرنا چاہیے جو اپنے مقاصد کو جائز بنانے کے لیے سیاہ جھنڈے کو
علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ چونکہ جہادی سیاہ جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں لہٰذا
مسلمانوں کو انہیں حق کی نمائندگی کرنے والا ایک قابل اعتماد گروپ نہیں ماننا
چاہیے۔
) انگریزی سے ترجمہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔
English Article: Investigating and Refuting the Black Flag and
Khorasan Narrative Propagated by IS and Al-Qaeda Jihadists
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism