غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
7 مارچ 2022
اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان
مسلکی و مذہبی اختلافات کے باوجود پر امن راہ نکالنا یقینا ممکن ہے
اہم نکات
· اہل سنت کے مستند فقہا اور ائمہ ترجیح و فتوی کی تصریحات و تصحیحات
کے مطابق حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی امامت و خلافت کو درست
نہ ماننا یا ان میں کسی ایک بھی گستاخی کرنا کفر ہے۔
· اس سلسلے میں محتاط متکلمین کا قول ہے کہ وہ گمراہ اور جہنمی ہیں
کافر نہیں
· وہ شیعہ جو قرآن کریم میں تحریف و نقص اور مولی علی رضی اللہ عنہ
کو انبیا پر فضیلت دیتے ہیں ایسے تمام شیعہ تمام فقہا و متکلمین کے نزدیک کافر ہیں۔
· اہل تشیع میں ایک فرقہ وہ ہے جس نے صحابہ کرام کی تکفیر کی ، حضرت
عائشہ پر تہمت لگائی ، اور عام سنی مسلمانوں کی تکفیر کی ہے
· لیکن اہل تشیع اور اہل سنت دونوں ہی خود کش حملوں کے عدم جواز کے
قائل ہیں تو پھر ایسے حملوں اور قتل و غارت گری کے ماحول کو روکنے کے لیے علمائے کرام
سے اپیل ناگزیر
-----
اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان
مسلکی اختلاف اتنا گہرا ہے کہ ان میں اتحاد کسی انسانی کوشش سے ممکن نہیں البتہ اگر
اللہ تعالی چاہے تو ہدایت و اتفاق کی راہ یقینا ممکن ہے ۔
جو لوگ اسلامی عقائد و نظریات
سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ تکفیر کے اصول و احکام فقہاء و متکلمین کے درمیان مختلف
رہا ہے۔ کتب فقہ حنفی اور مستند ائمہ ترجیح و فتوی کی تصریحات و تصحیحات سے یہ بات
ثابت ہے کہ جو شخص حضرت ابوبکراور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی امامت و خلافت
کو بر حق نہیں مانتا وہ کافر ہے اور اسی طرح جو ان میں سے کسی ایک کی بھی کی شان میں
گستاخی کرے وہ بھی کافر ہے۔ سینکڑوں کتب میں فقہاء کے اقوال کی تفصیل موجود ہے جسےسنی
بریلوی، دیوبندی اور سلفی سبھی اپنی اپنی کتابوں اور تحریروں میں نقل کرتے ہیں۔
یہ ایک فقہی حکم کہ ہے جو
صرف ایک شیعہ فرقہ، تبرائی رافضیوں کے لیے ہے۔ فقہا کی تصانیف میں تبرائی رافضی جو
شیخین (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق) کی خلافت کو برحق نہیں مانتے یا ان کی توہین
کرتے ہیں، اگرچہ وہ دین کی دیگر ضروریات کا انکار نہیں کرتے، انہیں بھی کافر کہا گیا
ہے۔
دوسری طرف متکلمین نے اس سلسلے
میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا ہے، ان کا قول ہے کہ ایسے رافضی جو صرف تفضیلی اور
سب شتم تک محدود ہیں اور ضروریات دین کے منکر نہیں تو مبتدع ، گمراہ اور جہنمی کتے
ہیں، لیکن کافر نہیں۔ تاہم متکلمین و فقہا نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ غالی رافضی جو
نہ صرف خلافت شیخین کا انکار کرتے ہیں اور صحابہ کی تذلیل کرتے ہیں بلکہ دیگر ضروریات
دین کا بھی انکار کرتے ہیں۔ ان کی تصریحات کے مطابق رافضی شیعوں کے مشترکہ عقیدے میں
دو چیزیں ایسی عام ہیں جو انہیں کافر بنا دیتی ہیں: ان کا پہلا عقیدہ یہ کہ قرآن پاک
میں نقص ہے اور دوسرا یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام انبیاء سے افضل ہیں سوائے آخری
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ بقول فقہا و متکلمین تو یہی باتیں ان کی تکفیر کے
لیے کافی ہیں۔
اسی طرح کچھ زیدی شیعوں کو
چھوڑ کر، ہر فرقے کے شیعوں نے اپنی تحریروں میں صحابہ کرام اور بالخصوص حضرت ابوبکر،
حضرت عمر اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کی شان میں حملے کیے ہیں اور ان میں بڑے
پیمانے پر سنی مسلمانوں کی تکفیر کی ہے۔
جب آپ شیعہ سنی اختلافات کو
تفصیل سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کو متحد کرنے کا کوئی ممکن طریقہ ہی
موجود نہیں ہے۔ سیاسی اتحاد اب کچھ مقامات پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاہم، انہیں مسلکی
اتحاد کی بجائے صرف سیاسی اتحاد ہی کہا جا سکتا ہے۔
تکفیر دونوں فریقوں کا ایک
کافی گہرا مسئلہ ہے۔ لیکن میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس صدی میں اپنے اپنے
ملکی قوانین کے تحت اپنے اپنے اختلافات کے ساتھ رہنے کے لیے آزاد ہے، لہذا ان اختلافات
کی بنیاد پر قتل و غارت گری ، تشدد یا خودکش بم دھماکے کا ارتکاب بالکل بھی درست نہیں۔
دونوں اطراف کے علماء کو ایک مہم شروع کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیے تاکہ
عام شیعہ سنی مسلمانوں کو مسلکی تنازعات کی بنیاد پر قتل و غارت، خودکش بم دھماکوں
اور تشدد کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکے۔ میرے خیال میں یہ وہ پلیٹ فارم ہے جس پر شیعہ
اور سنی دونوں متفق ہو سکتے ہیں۔ تاہم، کچھ بھائیوں کا خیال ہے کہ وہ شیعہ اور سنی
کو مذہبی بنیادوں پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوں گے، جو کہ میرے خیال میں فریقین کے
اختلافات کی شدت کو دیکھتے ہوئے ناممکن ہوگا۔
خودکش دھماکوں اور تشدد کو
کم کرنے کے لیے جو اصول کارآمد ثابت ہوئے ہیں انہیں پر فوری عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
A
general view of the prayer hall after a bomb blast inside a mosque during
Friday prayers in Peshawar, Pakistan, (REUTERS)
-----
مزید برآں، بازار قصہ خانی،
پشاور، پاکستان میں ایک شیعہ مسجد (امام بارگاہ) میں نماز جمعہ کے دوران ایک واقعہ
پیش آیا، جس میں ایک خودکش بمبار نے 60 کے قریب افراد کو ہلاک اور سینکڑوں کو زخمی
کر دیا۔ داعش خراسان نے مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
آپ سب داعش کے نظریات سے واقف
ہیں۔ اس دہشت گرد تنظیم نے اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ صرف
شیعہ ہی نہیں بلکہ سنی مسلمان اور عام غیر مسلم بھی داعش کے دشمن ہیں۔ ان مسلمانوں
اور غیر مسلموں کے خلاف استعمال کیے جانے والے داعش کے سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیاروں
میں سے ایک ہتھیار خودکش حملہ ہے۔ شیعہ اور سنی علما کی اکثریت کا یہی ماننا ہے کہ
اسلام میں خودکش بمباری حرام ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے تو شیعہ اور سنی علما کو ایسی اسلامی
تعلیمات کو عام کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ واضح کرنا چاہیے کہ شیعہ اور سنی کے درمیان
ان کے مسلکی اختلافات اگرچہ گہرے ہیں لیکن فی زماننا ان اختلافات کی بنیاد پر وہ قتل
و غارت گری ، تشدد اور خودکش بمباری کا جواز ہرگز نہیں دے سکتے ۔
English Article: If Shias And Sunnis Cannot Be United On Theological
Grounds, What Is The Possible Approach To Prevent Bloodshed And Suicide
Bombings Against One Another?
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism