غلام غوث صدیقی
5 اگست،2024
صوفیائے کرام کے بارے میں
ایک بات بہت غلط مشہور کی جاتی ہے کہ وہ شریعت کو نظر انداز کرتے ہیں اور صرف
طریقت کی راہ کو اپناتے ہیں ۔ صوفیائے کرام بھی خود کو اہل سنت و جماعت یعنی سنی
کہا کرتے تھے اور آج لوگ خود کو سنی کہتے ہیں مگر جب عقیدہ کی بنیاد پر شناخت کی
بات کی جائے تو مختلف ناموں سے پہچانے جاتے ہیں مثلا دیوبندی بھی خود کو سنی کہتے
ہیں اور سلفی یا وہابی بھی خود کو سنی کہتے ہیں اور اسی طرح بریلوی بھی خود کو
اصلی حقیقی سنی کہتے ہیں مگر بریلوی سنی بھی کئی جماعتوں اور گروہوں میں بٹنے کے
آثار ظاہر کر رہے ہیں ۔ یہ سبھی بریلوی عقائد میں متحد ہیں مگر اب اسلام کے فروعی
مسائل میں الجھتے اور بٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، مثلا مختلف خانقاہوں اور مزارات
صوفیا سے منسلک حضرات کے بنیادی عقائد تو تقریبا ایک جیسے ہیں مگر فروعی مسائل میں
اختلاف نے کافی طول پکڑ لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ان میں کچھ حضرات خود کو
بریلوی کہلانا پسند نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ صوفی ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا پھر
سنی ہونے کا یا پھر کچھ اور ۔ پچھلے کچھ چند برسوں میں کچھ اختلافات تو فروعی سے
دو قدم آگے بڑھ کر اصولی ہو گئے ۔
جتنے بریلوی مسلمان یا
صوفیائے کرام کے عقائد سے منسلک ہونے کا دعوی کرنے والے مسلمان دنیا بھر میں سنی
کہلانا پسند کرتے ہیں ان کی حقیقی صورتحال کا اگر عالمی جائزہ لیا جائے تو معلوم
ہوگا کہ اثر و رسوخ اور دنیاوی ترقی کے اعتبار سے تمام دوسری جماعتوں میں سب سے
پیچھے بریلوی مسلمان ہیں ۔ میں خود بریلوی سنی صوفی حنفی ماتریدی عقائد سے پختہ
طور پر منسلک ہوں لیکن اس بات کی مذمت کرنے سے نہیں ہچکچاتا کہ اس جماعت نے دنیاوی
فلاحی کاموں میں بہت کم حصہ لیا اور
آج نتائج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں کہ ہمارے پاس مزارات ماشاء اللہ
بہت ہیں مگر کالجیز، بہترین اسکولز ،
یونیورسٹیز نہ کے برابر ہیں ۔ وسائل کا مالک اللہ تعالی ہے مسلمانوں سے چندہ لیکر
بھی علاقوں میں عصری علوم کے لیے اسکول ، کالجیز ، یونیورسٹیاں قائم کرکے اور
ہندوستان کے تمام باشندوں اور انسانوں کو بلا تفریق مذہب و ملت عمدہ ، مہذب ، اعلی
اخلاقی تعلیمات کے مواقع مہیا کرکے ایک عظیم انسانی حقوق کا کردار پیش کرتے جو نہ
صرف دنیا میں شرف و عزت کی بات ہوتی بلکہ اللہ کی رضا بھی حاصل کر لیتے کیونکہ رب
کی سنت یہی ہے کہ وہ بلا تفریق مذہب و ملت اپنے تمام بندوں کو روزی ، دھوپ ، ہوا ،
دن کی روشنی اور رات کی تاریکی پہنچاتا ہے ۔ وہ اپنی رزاقیت میں کسی طرح کا بھید
بھاو نہیں کرتا بلکہ اپنے ان بندوں کو جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں کے لیے ایک
عظیم عدل و انصاف پر مبنی ماڈل پیش کرتا ہے ۔
اس عظیم ربانی و رحمانی
عدل و انصاف کے ماڈل کو یاد رکھنا اور اسے عملی جامہ پہنانا آج کے موجودہ دور
پوری دنیا میں بھی پہلے کی طرح ضروری ہے ۔ آج اگر دنیا کے کسی خطے میں بھی عدل و
انصاف اور سزا و جزا کی بنیاد تفریق مذہب ، تفریق حسب و نسب ، تفریق ذات پات ہو تو
سمجھ لیجیے کہ وہ عدل و انصاف کے رحمانی ماڈل کی نمائندہ نہیں ہے ۔ بلکہ ہر اس شخص
میں جو عدل و انصاف کو بلا تفریق مذہب و ملت پسند نہیں کرتا اس میں یقینا کرپشن،
جھوٹ ، دغا ، بے ایمانی ، مکر و فریب ، دولت کی حرص و ہوس وغیرہ جیسے غیر انسانی
کارناموں اور عالمی سیاسی میدانوں میں عام شہریوں کے ساتھ مکر و فریب اور ظلم کرنے
کی مہارت ہوگی ۔
خیر ہم نے گفتگو اس بات
سے شروع کی تھی کہ صوفیائے کرام کے بارے میں ایک بات بہت غلط مشہور کی جاتی ہے کہ
وہ شریعت کو نظر انداز کرتے ہیں اور صرف طریقت کی راہ کو اپناتے ہیں ۔ یہ بات اگر
یقینی علمی اور حقیقی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بالکل غلط اور جھوٹ ہے ۔ تمام
صوفیائے کرام نے خود کو سنی کہا ہے اور اگر کسی نے اپنی کتاب میں نہیں لکھا تھا
تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے سنی عقائد پر ایمان نہ رکھا ۔ ان سب نے
یقینا سنی عقائد پر ایمان رکھا ۔ لیکن بات یہ ہے کہ آخر سنی عقائد ہیں کیا ؟ سنی
عقائد وہ ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب یعنی تمام صحابہ
کرام ، اہل بیت اطہار، ائمہ اربعہ ، اور سلف صالحین تھے ۔ سنیوں کا اختلاف بنیادی
طور پر اہل تشیع، جبریہ ، قدریہ ، رفضیہ ، خارجیہ ، مشبہ اور معطلہ وغیرہا سے رہا
ہے ۔
سینکڑوں صوفیائےکرام نے
تو اپنی کتابوں ، ملفوظات اور تحریروں میں اس بات کو خوب وضاحت کے ساتھ سمجھایا کہ
شریعت اور طریقت کی راہیں کبھی بھی جدا نہیں ہوئیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کے جو
احکام ہیں، دوسرے لفظوں میں ، قرآن و سنت کی جو تعلیمات ہیں، جنہیں ہم شریعت کی
تعلیمات سے بھی تعیبر کہتے ہیں ، ان سب احکام کو روحانی نگاہوں سے سمجھ کر صوفیائے
کرام نے ہمیشہ شریعت کی تعلیمات تھام کر،
طریقت کی راہ اپنانے کی تعلیم دی ہے تاکہ سالکین کے دلوں میں حقیقی محبت الہی کی شمع جلے ۔
یہ کہنا یقینا غلط ہوگا
کہ اہل تصوف کے نزدیک شریعت اور طریقت کی راہیں جدا ہیں ۔ صوفیائے کرام نے شریعت و
طریقت دونوں کے نقوش راہ کو اپنایا مگر عام علمائے کرام سے اس قدر فرق رکھتے تھے
کہ عام علمائے کرام فقہی مسائل پر ظاہری نظر رکھتے تھے اور صوفیائے کرام ان مسائل
کی روحانی باریکیوں کو سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا علیہ الرحمہ ایک
مقام پر صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پیروں کے پیر ، بڑے بڑے ولیوں اور صوفیوں
کے سردار ، حضور غوث اعظم محی الدین جیلانی رضی اللہ عنہ شریعت اور طریقت کے
اماموں میں سے ہیں ، جن کی ولایت کی سرداری اور خوبیوں کو حضور خواجہ غریب نواز،
حضور قطب الدین بختیار کاکی ، حضرت نظام الدین محبوب الہی ، بادشاہ کلیر ، شاہ
سمنانی ، وغیرہم رحمھم اللہ تعالی اجمعین جیسے صوفیائے کرام نے بھی مانا اور جانا ہے ۔
اب تک کی بات سے یہ ظاہر
ہوا کہ صوفیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق شریعت اور طریقت کی راہیں جدا نہیں ہے
بلکہ دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے ۔
۔۔۔شریعت ، طریقت اور حقیقت کے باہمی ربط کو سمجھنے کے بعد میں آپ
کو یہ مشورہ دوں گا کہ حضور غوث اعظم کی کتاب فتوح الغیب کا بار بار مطالعہ کریں
اور ان کی تعلیمات پر غور کریں جن میں انہوں نے تمام سالکین سے فرمایا ہے کہ اپنے
نفس کے خلاف جہاد کرو ، اپنی روحانی اور
باطنی برائیوں کو ختم کر دو ، اپنی دنیا
کی ہرس و حوص کو ختم کردو ، عزت نفس کی
چاہت و آرزو کو ختم کرکے رب تعالی کی رضا
سے راضی ہو جاو، دوسرے لفظوں میں ، نفس کی غلامی سے آزاد ہو کر رب کی سچی اور
حقیقی بندگی اختیار کرو ، تاکہ تمہیں حقیقی آزادی ملے ، تاکہ تمہیں حقیقی کامیابی
ملے ، تاکہ تم دنیا و آخرت دونوں میں عزت و شرف سے نوازے
جاو۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات کے لیے ان
کی اپنی کتابوں کو صدق دل سے پڑھا اور سمجھا جائے ۔ پورا پڑھنے سے
پوری حقیقت کھلے گی ، یہ ضروری نہیں کہ کسی اور نے اپنی کتاب میں صوفیائے کرام کے
بارے میں کچھ بھی لکھ دیا ہو وہی پوری حقیقت ہو!
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism