غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
24 فروری 2018
آج اکیسویں صدی کی صورت حال اسلام کے ابتدائی ادوار سے واضح طور پر مختلف ہے۔ لیکن خالق کائنات نے اس دین اسلام کو ایسی وسعت سے نوازا ہے کہ اسلام کے اندر حالات زمانہ کے تغیر کے سبب پیدا ہونے والے نت نئے مسائل کو بحسن و خوبی سلجھانے کی صلاحیت موجود ہے ۔اہل وعلم و فقہ کی کتابوں میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر دور کے لوگوں کے لئے آسانی ،نرمی اور بھلائی کی عمارت تعمیر کی ہے ۔ اسلامی احکامات کی ایسی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اسلام کے ابتدائی ادوار میں تو قابل نفاذ تھے لیکن ہماری اس موجودہ صدی میں ان پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ہر اسلامی حکم کا نصب العین بعض مقاصد کی تکمیل ہوتا ہے۔ جب ان مقاصد کی تکمیل ہو جاتی ہے تو بسا اوقات وہ احکامات منسوخ ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے احکامات کو زیر اثر لایا جاتا ہے ، بعض احکام کا تعلق استطاعت سے ہوتا ہے ، بعض کا مکلف کی قدرت سے، اور بعض کا انسانی مفاد سے ۔ یہ بات اب عام قارئین بھی جاننے لگے ہیں کہ کچھ اسلامی احکام مشروط، مقید، مخصوص اور استثنائی بھی ہوتے ہیں۔ اور وہ مطالعہ سے جان لیتے ہیں کہ بعض اسلامی احکام عمومی، مطلق اور ہر دور کے لیے ہوتے ہیں جن میں کبھی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ۔ اس سلسلے میں تفصیلی معلومات کتب فقہ ، تفسیر اور حدیث سے بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔
لیکن کافی افسوس کا مقام ہے کہ ہم بعض لوگوں اور خاص طور پر دہشت گرد ذہنیت کے حامل لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ علم و آگہی رکھنے کے باوجود قرآن اور سنت کی تعبیر و تشریح کے لئے متفقہ اصول یا لازمی طریقہ کار کا اختیار نہیں کرتے ہیں۔ لہٰذا، وہ بہتر معانی اخذ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ جنگی امور سے متعلقہ آیات اور احادیث کے تناظر میں اس طرح کی ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں اسی لئے یہ ہمارے لئے تشویش کا باعث بن چکا ہے کیونکہ یہ دو طریقوں سے مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اس غلطی کے نتیجے میں سادہ لوح مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھولا جا رہا ہے کہ ‘‘اپنے دشمنوں’’ کے خلاف جنگ کرنا ان کا دینی فریضہ ہے۔ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اس رویہ سے غیر مسلموں کو اس بات کا یقین ہونے لگا ہے کہ جدید دہشت گرد جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اور ایک کافی حد تک یہ دونوں مسائل مل کر ایک تیسرے مسئلے کو جنم دے رہے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں سے کچھ اعتدال پسند لوگ الفاظ کی جنگ میں ملوث ہیں اور ایک دوسرے پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ مسئلہ کے ان تینوں پہلوؤں سے متاثر ہو کر ہمارے عام قارئین جو ایمانداری کے ساتھ اسلام کو جاننا چاہتے ہیں ، جنگی آیات سے متعلق اَوَامِر و نَوَاہی کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان تمام مسائل کے پیش نظر میرے ایک دوست نے مجھے اس بات پر راضی کیاکہ میں قرآن کریم کی جنگی امور سے متعلقہ آیات پر ایک چشم کشا تفسیر پیش کروں ، تاکہ جدید دہشت گرد جو ان آیات کا غلط استعمال کر رہے ہیں ان پر لگام لگایا جا سکے اور جو لوگ اس برین واشنگ کا شکار ہو چکے ہیں ان کی اصلاح کی جا سکے ۔
میری اس سلسلہ وار تحریر کا مقصد بنیادی طور پر دہشت گردی سے متاثر دوگروہوں کے اندر اصلاح پیدا کرنا ہے؛ ایک جو دہشت گرد جماعتوں میں شامل ہونا اور عالمی امن و سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرا جو دہشت گردانہ حملوں کے لئے اسلام کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔
جنگی امور سےمتعلقہ آیات ان آیات کی تفسیر شروع کرنے سے پہلے، مجھے تمام مطلوبہ علمی اور تحقیقی مراحل سے گزرنا پڑا۔ میں نے علم تفسیر ،علم تفسیر،علم حدیث ، اصول فقہ کے کلاسیکی طریقہ کار کو اپنا یا ہے جو کہ قرآن اور سنت سے ماخوذ کسی بھی اسلامی حکم کی جامع تفہیم حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ لیکن اس تفسیر میں، میں نے عام قارئین کی ذہنی سطح کا لحاظ کرتے ہوئے تفصیلی علمی مباحث پیش کرنے سے اعراض کیا ہے۔
اب ہم اس پہلے حصے کا آغاز اس آیت سے کرتے ہیں جو قرآن مجید میں جنگی امور سے متعلقہ سب سے پہلی آیت مانی جاتی ہے، جس میں اللہ نے فرمایا : "اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو"(2:190)۔
جنگ کی اجازت دینے میں اس آیت (2:190) کو ترتیب نزولی کے اعتبار سے سب سے پہلی آیت تصور کیا جاتا ہے۔ ابن جریر طبری الربیع کی سند سے اس کی مکمل سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ جنگ کی اجازت میں نازل ہونے والی یہ سب سے پہلی آیت ہے۔ کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف ہے اور وہ اس سلسلے میں 22:39 کو سب سے پہلی آیت قرار دیتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق سے مروی ہے کہ جنگ کے بارے نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت سورہ حج کی ہے (22:39)، جس کا ترجمہ یہ ہے، "پروانگی (اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے"(22:39)۔ علامہ قرطبی اپنی کتاب تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں کہ جنگ کی اجازت میں نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت اسے 22:39 بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس امر میں قول راجح یہ ہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلی آیت 2:190 ہے۔ دو متضاد بیانات کے درمیان تطبیق پیدا کرنے کے لئے چند ممکنہ وجوہات پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ آیت نمبر 2:190 پہلے حقیقۃً نازل ہوئی تھی جبکہ 22:39 آیت اولاً اضافی طور پر نازل ہوئی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت 22:39 کی شان نزول بیان کرنے والے راوی اولاً اضافی طور پر نازل ہونے والی آیت 2:190 کے نزول کے وقت ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود نہ رہے ہوں۔ اور اس کے مطابق انہوں نے جسے پہلے پایا اسے اپنے اپنے طور پر پہلے بیان کیا۔
تاہم، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ، 2:190 یا 22:39 کے نزول سے پہلے مکہ اور ابتدائی مدنی ادوار میں جنگ کی ممانعت تھی ۔ علامہ غلام رسول سعیدی کی کتاب "تبیان القرآن" کے مطابق قرآن مجید کی وہ آیات حسب ذیل ہیں جن میں ابتدائی طور پر دفاع میں لڑنے سے مسلمانوں کو روک دیا گیا تھا۔
"سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں"۔ (23:96)
"تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزرو بیشک احسان والے ا لله کو محبوب ہیں"۔ (5:13)
"اور کافروں کی باتوں پر صبر فرماؤ اور انہیں اچھی طرح چھوڑ دو"۔ (73:10)
"پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اے محبوب! تم پر نہیں مگر صاف پہنچا دینا"۔ (16:82)
" تو تم نصیحت سناؤ تم تو یہی نصیحت سنانے والے ہو، تم کچھ ان پر کڑ وڑا (ضامن) نہیں"۔ (22-88:21)
"تم ان پر جبر کرنے والے نہیں"۔ (50:45)
لیکن آیت 2:190 کی وحی کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑنے کی اجازت دی گئی تھی ، جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا تھا؛ "اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں" (2:190)۔
جنگ کے لئے سب سے پہلا حکم صلح حدیبیہ کے تناظر میں نازل ہوا تھا۔ مروی ہے کہ 6 ھ/ 628، میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ سے عمرہ ادا کے لئے مکہ کا سفر کیا۔ جب آپ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر خیمہ زن ہوئے تو کفار مکہ آئے اور آپ کو اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ تو مسلمانوں نے اس مقام پر ایک ماہ تک قیام کیا۔ پھر انہوں نے اس شرط کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ وہ آئندہ سال تین دن کے لئے واپس آئیں گے اور عمرہ ادا کریں گے اور ان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوگی۔ معاہدہ مکمل کرنے کے بعد وہ مدینہ واپس آ گئے۔ اس کے بعد جب اس کا وقت قریب آیا تو کفار مکہ کی جانب سے انہیں عہد شکنی کا اور اشہُر حُرُم میں حَرم کے اندر انہیں جنگ کی دعوت دئے جانے کا اندیشہ ہوا۔ تو اس کے بعد جنگ کے اصول و قواعد مقرر کرنے کے لئے آیت 2:190 نازل ہوئی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اگر کفار مکہ ان کے ساتھ جنگ کا آغاز کرتے ہیں تو مسلمانوں کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جیسا کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ابتدائی ادوار میں مسلمانوں پر وحشتناک مظالم ڈھائے گئے تھے، انہیں قتل کیا گیا تھا اور انہیں اپنے گھروں سے باہر نکال دیا گیا تھا، لیکن ان سب کے باوجود ، جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات سے اس حقیقت کی توثیق ہوتی ہے ، انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ صبر کریں اور اپنے دشمنوں کو معاف کر دیں۔ لیکن اب چونکہ انہوں نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا تھا اور انہیں کفار مکہ کی جانب سے عہد شکنی کا اندیشہ بھی ہو چکا تھا، اسی لئے مسلمانوں کو اپنے دفاع میں ان سے لڑنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
اس آیت 2:190کےبارے میں دو روایات ہیں؛ علماء کے ایک طبقے کا کہنا ہے کہ یہ آیت 9:5 سے منسوخ کردی گئی ہے، جبکہ ابن زیاد اور الربیع کا کہنا ہے کہ اس آیت کو آیت 9:36 نے منسوخ کر دیا ہے، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز اور مجاہد سمیت دوسرے طبقے کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت محکم ہے جس کا فیصلہ ہر زمانے کے لئے قابل عمل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ: "ان کے ساتھ جنگ کرو جو تمہارے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور خواتین، بچوں اور راہبوں وغیرہ کو قتل کر کے سرکشی نہ کرو"۔
تفسیر قرطبی میں مروی ہے کہ النحاس کے مطابق اس آیت کا محکم ہونا سنت اور منطق دونوں لحاظ سے مناسب ہے۔ جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو ابن عمر سے ایک حدیث مروی ہے کہ اپنے غزوات میں سے ایک کے دوران اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیکھا کہ ایک عورت کو ہلاک کر دیا گیا ہے، آپ ﷺ نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ اور منطقی طور پر اس کا اطلاق بچوں اور ان جیسے دیگر افراد پر بھی ہوتا ہے؛ مثلاً راہب، دائمی طور پر بیمار، بوڑھے مرد اور کسانوں کو کو قتل نہیں کیا جانا چاہئے۔ ( قرطبی )
ابن عباس نے کہا کہ "۔۔۔ حد سے تجاوز نہ کرو" (2:190) کا مطلب ہے کہ "خواتین، بچوں اور بوڑھے مردوں یا جو امن کی پیشکش کریں اور اپنے ہاتھ کو روک دیں انہیں قتل نہ کرو۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ ان کے خلاف حد سے تجاوز کرنے والے ہوں گے "(تفسیر طبری)۔
اپنے ایک خط میں اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز آیت 2:190 پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "ان لوگوں سے نہ لڑو جو تم سے نہیں لڑتے" (طبری)۔
مروی ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ، "جنگ کا آغاز اس وقت تک نہ کرو جب تک وہ تم سے نہیں لڑتے ، اس لئے کہ تم حق کے پیروکار ہو۔" ( نہج البلاغ صفحہ۔453)
ایک مشہور ہندوستانی صوفی عالم اور محقق مدنی میاں تفسیر کی اپنی کتاب میں آیت 2:190 کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، حالت جنگ کے دوران انصاف کا نفاذ ضروری ہے۔ پرامن شہریوں کو قتل نہ کیا جائے، آبادی والے علاقوں، ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو تباہ نہ کیا جائے، اور مثلہ نہ کیا جائے۔ (تفسیر اشرفی)
جو علماء اور محققین اس آیت 2:190 کو محکم مانتے ہیں انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی ان مندرجہ ذیل ہدایات کی تائید کے ساتھ جنگ کے اصول و قوانین مقرر کئے ہیں جو جنگ کی حالت میں آپ ﷺ نے اپنے فوجیوں کو عطا کئے تھے:
(1) "کسی بھی بچے، کسی عورت، یا کسی بزرگ یا بیمار شخص کو قتل نہ کرو۔" ( سنن ابو داؤد )
(2) "عہد شکنی یا مثلہ مت کرو۔ ( مؤطا امام مالک )
(3) "گاؤں اور شہروں کو تباہ نہ کرو، کھیتوں اور باغوں کو ویران مت کرو اور مویشیوں کو ہلاک نہ کرو۔" ( صحیح بخاری ؛ سنن ابو داؤد )
(4) "گرجاگھروں میں راہبوں کو نہ مارو، اور عبادت گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو قتل نہ کرو۔ (مسند احمد بن حنبل)
(5) "نخلوں کو مت جلاؤ یا پھلدار درختوں کو مت کاٹو۔ (المؤطا)
(6) "دشمن کے ساتھ مقابلے کی خواہش مت کر؛ اللہ سے اپنی سلامتی کی دعا کرو؛ لیکن جب تمہارا ن سے سامنا ہو ہی جائے تو صبر سے کام لو۔ "(صحیح مسلم)
(7) "آگ میں جلا کر سزا دینے کا حق اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔" (سنن ابی داؤد)۔
برین واشڈ نوجوانوں کی اصلاح کے لئے ایک مختصر تلخیص
آیت 2:190 سے حاصل شدہ نکات کی تلخیص اس طرح کی جا سکتی ہے کہ یہ آیت سب سے پہلی بار جنگ کی اجازت میں نازل ہوئی ہے۔ محکم آیت ہونے کی وجہ سے یہ دفاعی جنگ کے لئے اصول و ہدایات کا تعین کرتی ہے اور ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے روکتی ہے۔ 21 ویں صدی میں لوگوں نے پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے اور امن معاہدوں کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ خاص قوانین وضع کر رکھے ہیں، لہٰذا، کسی بھی امن پسند کے خلاف جنگ شروع نہیں کی جانی چاہیے۔ جدید دہشت گرد اللہ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر رہے ہیں جن کی تفصیل نبی ﷺ نے پیش کی ہے ، جن کا ذکر مندرجہ بالا آیت 2:190 اور کئی احادیث کے ضمن میں ہو چکا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں وہ ، بچوں، خواتین، دائمی طور پر بیمار، بزرگ مرد اور پرامن شہریوں کے خلاف جنگ شروع کر کے ، آبادی والے علاقوں پر بمباری کر کے اور معصوم شہریوں کو آگ سے سزا دے کر، اللہ کے حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ یہ وہ جرائم ہیں جن کا ارتکاب وہ حرام کاموں کو حلال قرار دیکر کر رہے ہیں، اور اس طرح وہ اللہ پر کذب باندھ رہے ہیں۔ کیا وہ ایسا کرتے وقت اس قرآنی انتباہ کو بھول جاتے ہیں کہ"اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا"(16:116)؟! دہشت گردی کا ارتکاب کرتے وقت کیا وہ اس قرآنی آیت کو نظر انداز کرتے ہیں جس میں مسلمانوں کو وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ‘‘اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے’’ (17:34) ؟! بے دریغ قتل کا ارتکاب کرتے وقت یہ گم گشتہ راہ نوجوان کیوں یہ قرآنی آیت بھول جاتے ہیں جس میں اللہ کا حکم ہے کہ، "اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بیشک وہی ہے سنتا جانتا ۔۔۔" (8:61) ؟! اپنے اراکین اور نوجوانوں کے ذہنوں میں دہشت گردی کا زہر گھولتے وقت دہشت گردی کے یہ سر غنے کیوں جان بوجھ کر قرآن مجید کے اس حکم کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ‘‘اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو، اور جو ناحق نہ مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد ہونی ہے’’(17:33) ؟! مندرجہ بالا قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ خواتین، بچوں، بزرگ مرد اور راہبوں سمیت پرامن شہریوں کو مارنا اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنا ممنوع ہے، تو پھر دہشت گرد اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں ؟! دہشت گردی کرتے وقت وہ اپنے فیصلے کو اللہ کے فیصلے پر ترجیح کیوں دیتے ہیں جبکہ قرآن کریم کا کہنا ہے کہ "حکم نہیں مگر اللہ کا وہ حق فرماتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا۔"(6:57) ؟! اس طرح کے تمام سوالات کے جوابات ہمارے دماغ میں یہی آتے ہیں کہ دہشت گردوں کی ذہن سازی ان کے سرغناؤں نے کی ہے اسی لئے وہ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں جو قرآن اور سنت میں سختی کے ساتھ حرام ہیں۔ لیکن ان حقائق کو جاننے کے بعد اگر وہ خلوص دل کے ساتھ توبہ کر لیں اور اس طرح کے حرام اعمال کا ارتکاب کرنے سے خود کو روک لیں تو وہ معاف کردیئے جائیں گے کیونکہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
)انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدی نیو ایج اسلام(
(جاری)
متعلقہ مضامین:
اقلیت میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق - حصہ 1 - مذہبی آزادی
غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق - حصہ 2 - ان کی جان کا تحفظ
(جاری)
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/an-enlightening-commentary-war-related/d/114400
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism