غلام غوث ، نیو ایج اسلام
30 مارچ 2013
جہاد چھیڑنے کا مقصد اس دنیا سے ظلم و ستم ، شراور فساد انگیزی کو ختم کرنا ہے ، اللہ کے بے گناہ بندوں کی حفاظت کرنا اور انسانوں کو امن و سکون، آزادی ، مساوات اور انصاف فراہم کرنا ہے ۔
مختلف اسلامی علمائے کرام نے جہاد کا تعین انصاف کو فروغ دینے اور تشدد کو ختم کرنے کے لئے کیا ہے۔مختلف فرقوں کے اسلامی علماء نے جہاد کو امن و امان قائم کرنے اور لوگوں کے بنیادی حقوق و مراعات دستیاب کروانے کا ایک ذریعہ گردانا ہے ۔
ابن کمال کے مطابق جہاد مختلف اقسام پر منحصر ہے مثلا جسمانی جہاد ، مالی جہاد، مجرب مشاورت کے ذریعہ جہاد، جہاد بالسان ، قلمی جہاد ، اصل فوج کی قوت میں اضافے کے ذریعہ جہاد، اسلامی ملک کی سرحدوں پر گشت کے ذریعہ جہاد اور نظریاتی حدود کی حفاظت کے لئے جہاد: ان تمام تقسیمات کا مقصد امن و امان قائم رکھنا اور برائی کا خاتمہ کرنا ہے ۔
جہاد کی اصل معنویت اس کے بالکل خلاف ہے جس کی آج وہابی تشدد پسند اور مذہبی متعصب حضرات اشاعت کر رہے ہیں ۔ ایک وہابی عالم شیخ یوسف العبیری کا فتویٰ ‘‘نوائے افغان جہاد ’’ میں شائع کیا گیا تھا جس کی پر زور تردید محمد یونس ، سلطان شاہین اور سہیل ارشد جیسے ماہر اسلامی اسکالرز نے کی تھی جسے نیو ایج اسلام پر شائع کیا تھا ۔ اب میں مختلف ممالک میں جہاد کے نام پر جنگوں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے والی تنظیموں کے تعلق سے مختلف نامور اور مشہور و معروف علمائے کرام کے تردیدی بیانات کو پیش کروں گا ۔
ایک معروف صوفی اسلامی اسکالر مولانا یٰسین اختر مصباحی کا بیان یہ ہے : ‘‘ جس طرح کوئی بھی شخص مختلف ممالک میں سرگرم مسلم تنظیموں کو آنکھ بند کر کے تسلیم نہیں کر سکتا ہے ، بالکل اسی طرح مسلم تنظیموں کی تمام ترسرگرمیوں کو عام طور پر غیر قانونی قرار دینا صحیح نہیں ’’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘بے رحمانہ اور اندھا دھند قتل کو بنا سوچے سمجھے جہاد نہیں قرار دیا جا سکتا جس کا ذکر قرآن میں ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مسلم تنظیموں کے دشمنوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدام کو اور ان پران کے حملوں کو خود کا دفاع یا بدلہ قرار دینا مناسب ہو گا ، مگر انہیں جہاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔’’
مولانا وحید الدین خان کا کہنا ہے :‘‘ جہاد کے نام پر غیر حکومتی مسلم تنظیموں کے اقدام کے غیر اسلامی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے جو کہ قتال کے مساوی ہیں ۔ یہ جہاد کے نام پر فتنہ پر وری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ اعلان جہاد کرنا صرف حکومت یا ریاست کا کام ہے جس کا ذکر قرآن میں جہاد کے طور پر ہے ۔ غیر حکومتی تنظیمیں پرامن دعوت کے مقصد سے جد و جہد کر سکتی ہیں ۔ مسلح جہاد چھیڑنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے ’’۔
مولانا شفی مونس نے کہا : ‘‘ہم ان تنظیموں سے اتفاق رکھتے ہیں جو پیغام الٰہی کی اشاعت کے ذریعہ پرامن طریقے سے شر و فساد اور ظلم و ستم کو مٹانے کے لئے اللہ کی راہ میں جد و جہد کر رہے ہیں ۔ لیکن جہاں تک ان تنظیموں کا تعلق ہے جنہوں نے جہاد چھیڑنے کے لئے ہتھیار اٹھا لئے ہیں تو لوگوں کو ان کے طریقے اور مقاصد سے آگاہ رہنا چاہئے تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکیں کہ وہ جہاد کے تعلق سے قرآن و حدیث میں مذکورہ شرائط کو پوری کرتے ہیں یا نہیں ’’۔
مولانا عبدالوہاب خلجی نے کہا: ‘‘دنیا کے کسی بھی کونے میں ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز ہر مومن کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہے ۔ ہر انصاف پسند شخص کو قانون الٰہی قائم کرنے اور اسلام کی اشاعت کرنے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے عظیم جد و جہد کو قبول کرنا چاہئے ۔’’
ایک انتہائی مشہور و معروف صوفی اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ‘‘Fatwa on terrorism and suicide bombings’’ میں لکھتے ہیں : ‘‘اس بات کا فیصلہ کہ اسلام انسانی زندگی کے وقار اور اس کی تحریم و تقدیس پر زور دیتا ہے اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام ان مسلم فوجیوں کو بھی قتل عام کی اجازت نہیں دیتا ہے جو دشمن کی فوج کے ساتھ جنگ میں مشغول ہوں ۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مریضوں، مذہبی رہنماؤں اور تاجروں کو قتل کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ جنگ کی حالت میں انہیں بھی نہیں مارا جا سکتا جو ہتھیار ڈال دیں ، گھروںمیں چھپ جائیں یا کسی کی پناہ میں آجائیں۔ عوام کا قتل نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اسی طرح عبادت گاہوں ،عمارتوں ، کھیتیوں اور یہاں تک کہ درختوں کو بھی نہیں تباہ کیا جا سکتا۔
‘‘ایک طرف مصلحت ، ہوشمند ہی اور دور اندیشی پر مبنی اسلامی قوانین کا ایک واضح اور واشگاف مجموعہ موجود ہے تو دوسری طرف ہر جگہ لوگوں ، بچوں اور عورتوں کا کسی مذہب اور تشخص کا تمیز کئے بغیر بے دریغ قتل کرنے کے لئے اسلام کے نام کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بھی کچھ متشدد اور وحشی لوگ اپنی سرگرمیوں کو جہاد قرار دیتے ہیں ۔ تضاد اور تناقص کی اس سے بڑی بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی جو آج ہم اس روئے زمین پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے جارحانہ اقدام ، ظلم و نا انصافی سے بھری سرگرمیوں اور مداخلت کے بدلے میں غیر مسلم شہریوں اور غیر ملکی نمائندوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنا اور ان کا قتل کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص ایسا کرتا ہے اس کا اسلام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم )سے کوئی تعلق نہیں ہے ’’۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مزید کہا کہ : قرآن و حدیث کے گہرے مطالعہ کے بعد کوئی بھی اس بات کا فیصلہ بےباکی کے ساتھ کر سکتا ہے کہ اسلام جائز ذرائع کے ذریعہ ہی عظیم اور جائز مقاصد کی طرف پیش قدمی کرنے کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ برے راستے پر چل کر کسی بھی عظیم مقصد میں کامیابی نہیں حاصل کی جا سکتی ۔ مختصر یہ کہ برے ذرائع کا استعمال کر کے اچھے نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ انصاف انصاف ہے اور ظلم ظلم ہی ہے ۔ یہ تو شیطان کی بات ہے کہ ‘انصاف ظلم ہے اور ظلم انصاف ہے ۔’ یہ دین کی شان اور اس کا وقار ہی ہے جس نے منزل اور راستے دونوں کی اصلاح کی ہے ۔
‘‘جو لوگ اپنے سفاکانہ طریقوں اور غلط ذرائع کا جواز پیش کرنے کے لئے اس حدیث کو اپنی دلیل کی بنیاد بناتے ہیں کہ ‘عمل کا دار و مدار نیت پر ہے ’ وہ اس حدیث کا غلط مفہوم اخذ کرتے ہیں ۔اس سے صرف ان اعمال کی طرف اشارہ ملتا ہے جن کا نیک ، جائز اور قانونی ہونا ثابت ہو چکا ہے ۔ان کی قبولیت نیت کے خلوص پر مبنی ہے ۔اگر نیت نیک ہے تو وہ قابل قبول ہیں ورنہ مردود و مسترد ہیں ۔ اگر نیت اچھی نہیں ہے توعمل کو عبادت نہیں سمجھا جائے گا اور بظاہر ان کے نیک اقدار کے باوجود انہیں مسترد کر دیا جائے گا اور انہیں غیر معتبر سمجھا جائے گا ۔ لیکن جو اعمال ممنوع، غیر منصفانہ ، غیر قانونی اور توہین آمیز ہیں انہیں انتہائی نیک نیت کے باوجود کبھی بھی جائز ، قانونی ، منصفانہ اور قابل اعتماد نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا اسلامی اصول اور قانونی فارمولہ ہے جس سے نہ تو صحابہ ، سلف صالحین ، ائمہ اور محدثین اور نہ ہی کسی مفسر نے انحراف کیا ہے ۔ اعمال نیتوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ لہٰذا ایک دہشت گرد کا عمل اس کی نیت کی ترجمانی کرتا ہے ۔ اس کی قاتلانہ اور تخریب آمیز سرگرمیاں اس کی بری نیت اور قابل مذمت معتقدات و نظریات کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ اگر کسی دہشت گرد کی وجہ سے خون خرابہ ہوتا ہے تو اس سے صرف اس کے اندر چھپے ظالم و جابر حیوان کی طرف اشارہ ملتا ہے ، رحمت و ہمدردی سے بھری کسی روح کا نہیں ۔’’
علمائے کرام کی مذکورہ بالا تحریروں سے اب یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ تشدد پسند اور نام نہاد جہادی قرآن میں مذکور جہاد کے حقیقی مفہوم کے بالکل خلاف ہیں ۔
قرآن کی اس آیت میں ان تشدد پسندوں اور نفرت کے سوداگروں کا واضح طور پر ذکر ہے ۔
‘‘وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں’’
(القرآن 18:104)
اللہ کا فرمان ہے : ‘‘اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے’’(8 :60)
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-true-meaning-jihad-refutation/d/10955
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-true-meaning-jihad-refutation/d/34634