غلام غوث، نیو ایج اسلام
22 فروری 2014
21 فروری 2014 کو دی ٹائمز آف انڈیا کے ادارتی صفحہ پر یہ بیان شائع ہوا کہ ،‘‘سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ مسلم پرسنل لاء سیکولر جیونائل جسٹس ایکٹ (secular Juvenile Justice Act) کے تحت مسلمانوں کو اور دوسرے مذہبی اقلیتوں کے لیے بچوں کے گود لینے کو ممنوع نہیں قرار سکتا، ایک مثبت پیش قدمی ہے’’۔ بچوں کو گود لینا اور دینا اسلام میں جائز ہے۔ اس کا مقصد ان کی اچھی پرورش کرنا اور ان کا دھیان رکھنا جو بلا شبہ ایک کار عظیم ہے۔ اور جب یہ مسئلہ یتیم بچوں کے ساتھ در پیش ہو تو یہ عمل اور بھی زیادہ حوصلہ بخش ہے۔
بچوں کو گود لینے کے عمل کو ایک مہربانی اور شفقت کا عمل قرار دیتے ہوئے قرآن اس کا جواز پیش کرتا ہے:
‘‘اور (اے حبیب!) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر’’۔ (33:37)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو گود لیا تھا۔ اور قرآن کی اس آیت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو ‘نعمت’ قرار دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کے گود لینے کے اس عمل کو قرآن و سنت دونوں میں ہی سراہا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل اس حدیث میں یتیم بچوں کو گود لینے پر زور دیا گیا ہے:
‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ والی انگلی کو ایک ساتھ ملا کر فرمایا کہ ‘میں اور وہ شخص کو کسی یتیم کی ذمہ داری قبول کرتا ہےجنت میں اتنے ہی قریب ہوں گے’’۔ (صحیح البخاری [5304])
تاہم قرآن کے مطابق (متبنیٰ) گود لیا گیا بچہ گود لینے والے کی اپنی حقیقی اولاد نہیں بنتا، لہٰذا اسے اس کے نسبی باپ کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسلام خاندانی حسب و نسب کو برقرار رکھتے ہوئے انصاف کرنا چاہتا ہے۔
‘‘تم اُن (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے’’۔ (33:5)
اس آیت کے نزول کا مقصد زمانہ جاہلیت کے اس رسم کا خاتمہ کرنا ہے کہ جب لوگ اس بچے کو گود لینے والے کے نام سے ہی پکارا کرتے تھے۔ لہٰذا زید کو پھر سے زید ابن حارث کہہ کر پکارا جانے لگا نہ کہ زید ابن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ یہ بھی یاد رکھا جانا چاہیے کہ صرف نام کی اس تبدیلی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے منھ بولے بیٹے زید ابن حارثہ کے درمیان اتھاہ محبت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
اسلام میں کسی بچے کو گود لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام قوانین جو خونی رشتوں کے درمیان جاری ہوتے ہیں اب بھی وہ درست ہیں۔ اسلامی قانون کے مطابق کسی بھی گود لیے گئے بچے کی اس کے اصل بھائی بہن سے شادی نہیں ہو سکتی۔ گود لیے جانے کے بعد بھی وہ اپنے گود لینے والے والدین کے لیے غیر محرم ہی رہے گا۔
گود لینے کی ایک صورت حال ایسی بھی ہے کہ جب گود لیا گیا بچہ گود لینے والے خاندان کے لیے محرم بن جاتا ہے۔ اور وہ صورت حال یہ ہے کہ گود لیا گیا بچہ دو سال سے کم کا ہو اور اسے گود لینے والی ماں نے اپنا دودھ بھی پلایا ہو۔ اور اس رشتے کو رضاعی کا نام دیا جاتا ہے۔
اس بات کے علاوہ کہ گود لیا گیا بچہ اپنے حقیقی باپ سے ہی وراثت حاصل کرے گا نہ کہ گود لینے والے باپ سے۔ اس سلسلے میں رضاعی بچے کے مسئلہ میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ تاہم گود لینے والے والدین کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی اس رضاعی اولاد کے لیے اپنی پوری ملکیت کی ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہیں۔ قرآن کا فرمان ہے:
‘‘اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو’’۔ (4:8)
قرآن نے توازن کی ایک بے مثال نظیر پیش کی ہےاور وہ یتیموں اور مفلسوں کا دھیان رکھنا ہے جو کہ بچوں کو گود لینے کو بھی شامل ہے۔
تاہم گود لینے والے والدین اپنی حقیقی اولاد کو کسی بھی قیمت پر وراثت کے ان حقوق سے محروم نہیں کر سکتے جو اسلام نے ان کے لیے بیان کیا ہے؛ اور نہ ہی وہ اپنے گود لیے گئے بچے کو مفلوک الحال چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ ان کی وفات کے بعد بے یار و مددگا رہ جائیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے مسلمانوں کو سیکولر جیونائل جسٹس ایکٹ (secular Juvenile Justice Act) کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایکٹ کسی بھی طرح مسلمانوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ کسی بچے کو گود لیں بلکہ وہ مسلمانوں کو اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ وہ یا تو جمہوری راستہ اختیار کریں یا پرسنل لاء پر چلیں۔ کورٹ کا کہنا ہے کہ، ‘‘اس ایکٹ سے کسی بھی والدین کے ذریعہ کوئی اجباری عمل واجب نہیں ہوتا۔ اس میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ، ‘‘اس ایکٹ سے اس قسم کے لوگوں کو ایکٹ کی مراعات سے فائدہ اٹھانے کی آزادی میسر آئے گی، اگر ان کے اندر ایسی کوئی خواہش پیدا ہوتی ہے تو۔ اس قسم کے لوگ کسی کو بھی گود لینے کے لیے آزاد ہیں اور انہیں ایسا نہ کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے اور اس کے بجائے پرسنل لاء کا جو بھی حکم اسے اپنے لیے قابل انطباق لگے اسے اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے’’۔
مختصر یہ کہ یہ ایکٹ مفلوک الحاک زندگیوں کو پورے توازن کے ساتھ خوشیوں سے بھرنے کی جانب ایک انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ اس نے اپنے فیصلے کو مسلمانوں کے اوپر چھوڑ دیا ہے لہٰذا یہ بھی اسلامی شریعت کے ہی مشابہ ہے۔ پرسنل لاء کو بھی اس کا استقبال کرنا چاہیے اور بچوں کو گود لینے کے اس انسانیت نواز عمل کا خیر مقدم کرنا چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کے لیے اس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ جدت پسند مسلمان اور علماء بھی گود لینے کے تعلق سے ہمارے نظریات میں تبدیلی پر زور دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرا نعمانی نے چند دنوں پہلے اس موضوع پر اپنے ایک مضمون میں یہ لکھا کہ، ‘‘جیسا کہ عصر حاضر میں مسلم ممالک میں بے شمار سماجی مسائل پیدا ہو رے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی اعلیٰ درجے کی فہم و فراست، ہمدردی اور محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور بلا شبہ ہمارے انتہائی کمزور اور مجروح لوگوں کی مدد کرنے اور انہیں جنگجوؤں کی گرفت سے باہر نکال کر ‘‘خوبصورت گھر’’ دینے کی ضرورت ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
متعلقہ مضامین:
1. Anti-Adoption Traditions in the Muslim World Benefit Al Qaeda Recruiters by Asra Q. Nomani
2. Islam: Adoption myths by Masood Ashraf Raja
http://www.newageislam.com/the-war-within-islam/the-mullah-in-nation-building/d/4421
3. Adoption In Islam: Why It Is Illegitimate Maulana Nadeemul Wajidi, (Translated from Urdu by Raihan Nezami, New Age Islam)
http://www.newageislam.com/islamic-ideology/adoption-in-islam--why-it-is-illegitimate/d/2309
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام غوث تصوف اور روحانیت سے وابستہ ایک عالم اور فاضل ( کلاسیکل اسلامی اسکالر) ہیں ۔ انہوں نے دہلی میں واقع صوفی نظریات کے حامل اسلامی ادارہ جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء ذاکر نگر ، نئی دہلی سے تخصص فی التفسیر، حدیث، عربی اور اسلام کے کلاسیکی علوم کی تکمیل کی ہے ۔ انہوں نے عالمیت اور فضیلت بالترتیب جامعہ وارثیہ عربی کالج ، لکھنؤ اور جامعہ منظر اسلام ، بریلی ، یوپی سے مکمل کی ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے انہوں نے عربی میں گریجویشن کیا ہے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/the-indian-supreme-court-ruling/d/35890
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-indian-supreme-court-ruling/d/45960