غلام احمد پرویز
مذہب کے متعلق عام طور پر سمجھا جاتاہے کہ وہ ایک فرد کی ذاتی اصلاح کا ذریعہ ہے اس میں شبہ نہیں کہ افراد کی ذاتی اصلاح نہایت ضروری ہے لیکن یہ اصلاح اصل مقصد نہیں ۔ عمدہ گھڑی کے پر زدہ کے لئے مضبوط اور درست ہونا ضروری ہے، لیکن اگر یہ پرزے الگ تھلگ پڑے ہوں تو ان کی پائیداری اور مضبوطی کسی کام کی نہیں۔ یہی پرزے جب ایک نظام کے تحت، ایک خاص ترتیب سے ایک جگہ جمع کردیئے جائیں تو ان میں سے ہر پرزہ کی حرکت دوسرے پرزوں پر اثر انداز ہوگی اور اس طرح ان کی مجموعی حرکت کا جیتا جاگتا نتیجہ محسوس شکل میں گھڑی کے ڈائل پر نمودار ہوجائے گا۔ اسلام افراد کی اصلاح سے ایک ایسی جماعت پیدا کرنا چاہتاہے جو نظامِ انسانیت کو عدل پر چلا سکے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے ایک ایسا عملی پروگرام مرتب کردیا ہے جس میں ہر قدم اسی منزل کی طرف اٹھتا ہے ۔ نماز کے لئے پانچ وقت کا اجتماع ۔تقویٰ۔ضبطِ نفس ۔ غیر اللہ کی محکومی سے انکار ۔ اللہ کی حاکمیت کا اقرار۔ مرکزیت۔ اجتماعیت ، اطاعتِ امام کا عملی مظاہرہ ہے ۔ جمعہ کے اجتماع میں یہ دائرہ وسیع تر ہو جاتا ہے ۔ عید کی تقریب پر اس کی حدود اور زیادہ پھیل جاتی ہیں اور بالآخر حج کےمیدان میں اس کی وسعتیں ساری دنیا کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں ۔ رمضان مبارک کے پورے مہینے کی مشق و ریاضت کے بعد جب ذہنوں میں جلا۔ دلو ں میں تازگی ایمان، نگاہوں میں مومنانہ فراست اور خون میں مجاہدانہ حرارت پیدا ہوگئی تو عیدالفطر کے اجتماع میں ہر مقام سےملتِ اسلامیہ کی نمائندگی کے لئے بہترین افراد کا انتخاب ہوا۔ مسلم نمائندوں کے یہ قافلے دنیا کے دور دراز گوشوں سے جنگل ، بیابان کوہ اور دریا کے مرحلوں کو طے کرتے ہوئے ۔ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اپنی بین الملی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے چاروں طرف سے ایک مرکز کی طرف سمٹے چلے آرہے ہیں ۔ دنیا میں کوئی جماعت بلا مرکز قائم نہیں رہ سکتی ۔ مسلمانوں کے فکر و نظر کا مرکز قرآن۔ اطاعت کا مرکز امیر اور اجتماعیت کا مرکز وہ بیت الحرم ہے جو ایک خدا کے ماننے والوں کے مورثِ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سےوجود میں آیا اوردنیا کے بتکدوں میں خدا کا پہلا گھر کہلایا ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (3:96) بلاشبہ پہلا گھر جو تمام انسانوں کے لئے ( بطور مرکز بنایا گیا ہے وہ یہی ہے جو مکہ میں ہے۔ برکت والا اور تمام دنیا کے لئے ہدایت کا سر چشمہ وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِنًا جو کوئی اس کے حدود میں داخل ہوا وہ امن اور حفاظت میں آگیا ۔
اسلام دنیا میں جس نظام کو قائم کرنے کے لئے آیا ہے اس کی بنا اس اصول پر ہے کہ تمام انسان ایک برادری کے فرد ہیں وہ ان تمام غیر فطری حد بندیوں کو توڑنے کےلئے آیا ہے۔ جن سے انسانوں کی یہ برادری مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ نسل کا امتیاز ۔ رنگ او رزبان کا امتیاز ۔ جغرافیائی حدود کا امتیاز ا س کے نزدیک سب غیر فطری حد بندیاں ہیں ۔ اس لئے خدا کے اس گھر میں جب انسان جمع ہونگے تو باطل کے ان امتیازات میں سےکوئی امتیازباقی نہیں رہے گا۔ چینی، جاپانی، ہندی، افغانی، ایرانی، تورانی، حبشی ، افرنگی سب ایک ملت کی شکل میں اس عظیم الشان حقیقت کا اعلان کرنے کےلئے جمع ہوں گے کہ
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
یہی نہیں بلکہ مختلف قسم کے لباسوں سے جو اعلیٰ اور ادنیٰ کے امتیاز کی جھلک نمودار ہوسکتی ہے اسلام نے اسے بھی روانہیں رکھا او رحکم دے دیا کہ ارض حرم میں داخل ہونےسے پہلے سب ایک ایک بن سلی چادر میں لپٹے ہوے حاضر ہوں ۔ تاکسس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ۔ یہ ہے وہ وردی جو اس بین الملی کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے لئے تجویز کی گئی ہے۔ یوں باطل کے ہر امتیاز کو مٹاتے ، وحدت کے رنگ میں رنگے یہ قافلے چاروں طرف سے اپنے مرکز کی طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں ۔ سب ایک آقا کے غلام، ایک حاکم کے محکوم، ایک قانون کے تابع، ایک نظام کے پابند ، فقیرانہ لباس، ننگے سر، گدایا نہ وضع، قلندر انہ ادائیں، سکندرانہ جلال۔ دنیا بھر کے آستانوں سے بے نیاز ، مستانہ وار گذرتے ہوئے ایک کی چوکھٹ پر سرجھکانے کے لئے بے تاب ۔ دل و فور شوق سے بے قرار، آنکھیں مئے توحید سے نشہ بار لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے یوں رواں دواں، جانب مرکز کھینچے چلے آرہے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں رنگ و بو کی فضاؤں کے جو ہر اپنے سینوں میں بھر کر سینکڑوں میل کے مسافت طے کر کے شام کے وقت اپنے چھتے کی طرف پروانہ وار اڑتی چلی آرہی ہوں کہ اپنی محنتوں کا سرمایہ، تگ و دو کا ماحصل۔ مرکز میں لاکر اکھٹا کردیا جائے ۔
زمانہ ابراہیمی علیہ السلام میں رواج تھا کہ عہد و پیمان کی پختگی کے لئے پتھر پر ہاتھ مارتے تھے ۔ جب ان رہر وانِ منزل ِ شوق کے قافلے ۔ حریم کعبہ میں پہنچے تو اس عہد و پیمان کی تجدید کے لئے جو انہوں نے اپنے اللہ سے باندھ رکھا ہے ۔ حجر اسود کو چُھوا۔ بعض نے ہجوم کی فجہ سے دو رہی سے اشارہ کردیا۔ کسی نے پیمان کے تقدس کے رعایت سے ہاتھ کو چوم لیا اور یوں اس عہد کی تجدید ہوئی کہ اِنَّ صَلاَتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَا تِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ لَا شَرِیْکَ لَہ وَ بِذًلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الُمُسْلِمِیْنَ میری نماز۔ میرا حج۔ میرا جینا ۔ میرا مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام کائنات کا پروردگار ہے اس کاکوئی شریک نہیں۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں خدا کے فرما نبرداروں میں سب سے پہلا فرما نبردار ہوں۔
اس عہد و پیمان کی تجدید سے ، وجد و مسرت اور سرمستی و شیفتگی کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ والہانہ انداز میں خدا کے اس گھر کے گرد، پرواہ وار گھوم رہے ہیں۔ کوئی کعبہ کی چوکھٹ پر سر رکھے محوِ نیاز ہے، کوئی اس کا غلاف تھامے عالم وارفنگی میں جھولی پھیلائے کھڑا ہے۔ دل میں مقدس آرزوؤں کا ہجوم ۔ آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو۔ لب پر دعائیں محویت کا عالم، آسمان سےنور کی بارش، رحمتوں کا نزول ۔ غرضیکہ ایک نئی دنیا اور ایک عجیب سماں ہے۔
خمخانہ حجاز کے متوالوں کے یہ قافلے 8 تاریخ کو عرفات کےمیدان کی طرف روانہ ہوگئے ۔ پاک اور صاف ، سرے سے پاؤں تک للّٰہیت میں ڈوبے ہوئے۔ قدم وادیٔ مکہ میں ۔نگاہیں عرش معلیٰ پر ، کوئی تیز گام کوئی آہستہ خرام۔ کشاں کشاں، 9 تاریخ کو اس میدان میں آ جمع ہوئے ۔کیسا حسین نظارہ ہے ۔ سب ایک آقا کے غلام، ایک ملت کے فر د ایک ہی وضع، ایک ہی انداز، بھائی سے بھائی ملا۔ ایک کا دوسرے کا تعارف ہوا کہ اس مقام کا نام ہی عرفات کا میدان ہے، اجتماع کیا ہے؟ مساوات اور محبت کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ جس میں ہر قطرہ اپنے آپ کو خود سمندر محسوس کرتا ہے۔ یہ سب خدا کے حضور جمع ہوئے ۔ ان کا منتخب امام منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا ۔ اس نے ملت کی اجتماعی حالت پر تبصرہ کیا اورسال بھر کے لئے ایک مرتب شدہ پروگرام کا اعلان کردیا۔ جس کی تکمیل کے لئے دعائیں مانگی گئیں، التجا ئیں کی گئیں اور یوں یہ عظیم الشان اجتماع ۔ زندہ آرزوؤں کی ایک نئی دنیا اپنے جلو میں لئے ۔ دوسری صبح مِنیٰ کے میدان میں آگیا ۔ یہی وہ میدان ہے جہاں ملتِ حنفیہ کے پیشوائے اعظم ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کےلئے پیشانی کے بل لٹا دیا تھا اور یوں اپنے ایمان محکم کا عملی ثبوت دیا تھا کہ تیرا حکم ہو تو عزیز ترین متاع بھی بلاتامل نثار کردی جاسکتی ہے۔اس صحرائی قربانگاہ میں پہنچ کرملتِ اسلامیہ کے ان نمائندوں نے اس اقرار کو دہرایا کہ تیرا نام بلند کرنے کےلئے جو پروگرام مرتب ہوا ہے اس کی تکمیل میں جس قربانی کی ضرورت ہوگی۔ بلا دریغ کردی جائے گی۔ یہاں پہنچ کر مختلف ملکوں کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیمے لگائے۔ یہ سب اللہ کےمہمان ہیں اس لئے خود ہی مہمان اور خود ہی میزبان ہیں آج صبح ہندی مسلمانوں کے ہاں سب کے کھانے کا انتظام ہے شام کو ایرانیوں کااہتمام ہے۔ ان دعوتوں کے لئے قربانیاں کی جارہی ہیں۔ سامان تو کھانے پینے کا ہے لیکن چونکہ وہ مقصد عظیم جس کے لئے یہ اجتماع ہوا ہے خالصتاً اللہ کے لئے ہے اس لئے یہ دعوتیں بھی دنیا کی دعوتوں سے نرالی ہیں۔
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ( 22:37) اللہ تک ان قربانیوں کا گوشت او رخون نہیں پہنچتا ۔ بلکہ تمہارے دل کا تقویٰ ۔ پاکیزگی مقصد پہنچتی ہے۔ اس نے ان جانوروں کو اس طرح تمہارے لئے مسخر کردیا کہ تم اللہ کی راہنمائی پر اس کے نام کو بلند کرو۔ اور نیک کرداروں کے لئے بشارت ہے۔ دعوتیں اور ضیافتیں ہیں ۔ ایک ملک کے مسلمان دوسرے ملک والو ں کو اپنے مقامی حالات سے آگاہ کررہےہیں ، دماغی اور قلبی تعارف ہورہا ہے۔ ادھر ادھر مختلف ملکوں کی مصنوعات کی نمائش لگ رہی ہے۔ خرید و فروخت ہورہی ہے۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ (2:198) اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم ( حج میں) اپنے رب کا فضل ( یعنی معیشت ) کماؤ۔ ا س طرح یہ اجتماع ملت اسلامیہ کے لئے دینی اور دنیاوی ، سیاسی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی فوائد کاذریعہ بن رہا ہے کہ حج کا مقصد یہی ہے لِّیَشْھَدُ وْ ا مَنَا فِعَ لَھُمْ تاکہ لوگ اپنے فوائد کےلئے حاضر ہوں۔
تین دن تک یہ اجتماع رہا جس میں عالم اسلامی کے ہر گوشے او رملت اسلامیہ کے ہر شعبے کے متعلق باہمی تبادلہ خیالات ہوا۔ ادھر یہ ہورہاہے۔ ادھر تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ملت کے افراد۔ اپنے اپنے ہاں وادیٔ مکہ کے اجتماع سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے عید گاہوں میں جمع ہورہے ہیں۔ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے نیز اس پروگرام کو سننے کے لئے جس کا اعلان ایک دن پہلے میدان عرفات میں ہوا ہے۔ اس پروگرام کی اطلاعیں ریڈیو، ٹی وی اور تار برقی سے تمام عالم اسلامی تک پہنچ چکی ہیں۔ مقامی مسلمان عید گاہوں میں پہنچے ۔ اپنے اپنے خطیبوں سے اس پروگرام کو سن لیا اور سمجھ لیا جس پر اب سال بھر عمل کیا جائے گا ۔ وہ تھا حج یہ ہے عید۔ وہ فریضۂ مقدس جس میں نو عِ انسانی کے قیام و بقا ء کا راز ہے۔ تمام انسانوں کا اس لئے کہ مسلمان دنیا میں اپنے ہی لئے نہیں جیتا بلکہ اس کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اس نظام پرچلائے جس سے انسانیت بڑھے ۔ پھولے ، پھلے اور عروج وارتقا کی منزلیں طے کر کے اس منزل سے اگلی منزل میں جا پہنچے۔ حج اس نظام کی سب سے اہم کڑی اور کعبہ اس نظام کا مرکز ہے۔ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ ( 5:97) ۔ اللہ نے کعبہ کو جو حرمت کا گھر ہے تمام انسانوں کے لئے ( امن و عافیت کے) قیام کاذریعہ بنایا ہے۔ انسانوں نےمختلف خطوط پر مختلف قسم کی جمعیتیں بنا بنا اور بگاڑ بگاڑ کر مختلف تجربے حاصل کئے ہیں اور ہر تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ۔۔۔ تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ۔۔۔ یہ سب اس لئے کہ جن اصولوں پر یہ جمعیتیں بنائی گئیں وہ سب غیر فطری تھے ۔ فطرت کے مطابق تو ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کی تقسیم ملکوں اور قوموں کے رو سے نہ کی جائے بلکہ تمام انسانوں کو ایک عالمگیر برادری تصور کر کے انہیں ایک مرکز کے ماتحت خدا کے قانون کے تابع رکھا جائے ۔ یہی وہ عظیم الشان اصول ہے جس کی رو سے مکہ کو ‘‘ ھُدًی لِّلْعُلَمِیْنَ’’ تمام دنیا کے لئے ہدایت کا سرچشمہ اور کعبہ کو ‘‘ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ ’’ تمام نوع انسانی کے قیام کا ذریعہ قرار دیا گیا ۔ اس جمعیت آدم کافطری نتیجہ ہے دنیا کا امن و سکون ۔ وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِنًا جو اس میں داخل ہوا۔ امن و حفاظت میں آگیا حج اور عید اسی منزل کے نشانِ راہ ہیں۔
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ طلوع اسلام ، لاہور
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eid-ul-azha-/d/100169