New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 10:26 AM

Urdu Section ( 27 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Custodian Of Harmain Sharifain Creating Problems For the Believers پاسبان حرم اسلام پسندوں کے لئے مصیبتیں پیدا کررہے ہیں

 

غفران ساجد قاسمی

26 اگست ، 2013

مصر میں فرعونیت کاننگا ناچ جوں جوں بڑھتا جارہاہے ، دنیا کے مسلمانوں میں اسی قدر بے چینی بڑھتی جارہی ہے ،ایسے  میں پوری دنیا کی نگاہ پاسبان حرم پر ٹکی ہوئی تھی کہ شاید وہ اس  کاکوئی  پر امن حل نکالیں گے،لیکن افسوس صد افسوس کہ پاسبان حرم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو زخم دیا ہے وہ شاید کبھی نہ بھر پائے ۔

خادم الحرمین نے جہاں ایک طرف مصر کے فرعونوں کو ریال سےمالا مال کر کے نہتے  اخوانیوں پر ظلم کرنے کا ہتھیار فراہم کیا وہیں مزید  یہ کہہ کر کہ مصر کو دہشت گردی سے نجات دلانے میں سعودی حکومت مصر کے ساتھ ہے، فرماں روائے سعودی نے مغربی دنیا اور اسلام مخالف طاقتوں کو یہ جواز فراہم کردیا کہ مصر کے اخوان دہشت گرد ہیں اس لیے کہ وہ  اسلام پسند ہیں، لہٰذا دنیا کے کسی حصہ میں جو کوئی بھی اسلام کی سر بلند ی کی بات کرے گا وہ دہشت گرد ہوگا، اور دہشت گرد ی سےنمٹنے  کے لیے ہمارے خزانے کھلے ہوئے ہیں۔ پاسبان حرم کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے زبان پر بر ملا یہ شعر آجاتا ہے کہ : چوں کفراز کعبہ می خیزد۔ کجا ماند مسلمانی۔

مصر کے حوالے سےجہاں ایک طرف عالمی  قیادت کی مجرمانہ خاموشی مسلمانوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہے وہیں خادم الحرمین کے معزر لقب سے ملقب شاہ عبداللہ کی مصری فرعونی حکومت کے مظالم کی تائید نے دنیابھر کے اسلام پسندوں کے لئے نئی مصیبت کھڑی کردی  ہے۔ شاہ عبداللہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب کہ دنیا بھر کے مسلمانوں  کی نگاہیں عالم اسلام کے قائد ہونے  کی حیثیت  سے خادم الحرمین کی جانب  ٹکی  ہوئی تھیں ، مسلمان یہ امید کررہے تھے  کہ مصری اسلام پسندوں کی مصیبت کی اس گھڑی میں شاید پاسبان حرم اسلام کی عظمت کا پاس رکھتےہوئے اور اسلامی اخوت و بھائی چارگی  کا مظاہرہ  کرتے ہوئےمصر کی فرعونی حکومت  کی امداد  روکتے ہوئے انہیں اپنے ہی بھائیوں  کے قتل ناحق سے باز رکھیں گے، دنیا  کے مسلمان یہ  امید لگائے بیٹھے تھےکہ ایسےنازک وقت میں  جب کہ مسلمان ہر چہارجانب ظلم و جور کا شکار ہے، مسلمانوں کا قبلۂ اوّل  بیت المقدس پر ناپاک یہودیوں  کا قبضہ ہے، خادم الحرمین اپنی حکمت عملی  اور ایمانی فراست  کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصر کی اسلام پسند حکومت کو دوبارہ بحال کرنے  میں اپنا تعاون  کریں گے تاکہ  عالم اسلام کے لئے ناسور کی حیثیت  رکھنے والے اسرائیل کو مصر کی اسلام پسند حکومت اس کی اوقات بتائے اور قبلہ اوّل  بیت المقدس کی باز یابی کےلئے ہر ممکن کوشش کرے۔

 لیکن مسلمانوں کی اس امید پر پاسبان حرم  نے ایک لخت پانی پھیر دیا اور انہوں نے وہی کیا جو ان  کے آقا امریکہ  بہادر  اور اسرائیل نے چاہا،  اور وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے  ہیں کیونکہ  انہیں حرم کی پاسبانی سے زیادہ اپنی بادشاہت اور عیش و آرام کی فکر ہے، انہیں اس بات کا خوب احساس ہےکہ اگر مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت مضبوط ہوجاتی ہے تو پھر دنیا کےمسلمانوں کامرکز نگاہ مصر ہوجائے گا اور اسے دنیا کے مسلمانوں  کے قائد ہونے کا شرف حاصل ہوجائے گا جو کہ فرماں  روائے سعودی کو ہر گز پسند نہیں ، فرماں روائے سعودی کو اس سے کوئی سروکارنہیں کہ اسلام اور عالم اسلام کی مضبوطی  اور سربلندی کس میں ہے انہیں مطلب ہے تو صرف اور صرف اپنے عیش و آرام اور بادشاہت  سے، اگر وہ یہ سمجھتے  ہیں کہ خادم الحرمین  ہیں اور حرم کے پاسبان ہیں لہٰذا وہ جو بھی کریں سب درست اور برحق ہے تو یادرکھیں کہ آپ سے بہت پہلے، اسلام سے بہت کفار مکہ حرم کے پاسبان ہوا کرتے تھے۔

 حرم کی حفاظت کے لیے اپنے عزیزوں کی قربانیاں دینا ان کے لئے کوئی بڑی بات نہ تھی، حاجیوں  کی خدمت  کو اپنا شعار سمجھتے تھے، اور انہیں بھی اس پر بڑا فخر و ناز تھاکہ ہم خادم حرم اورپاسبان حرم  ہیں، لہٰذا ہمارا درجہ  دیگر لوگوں  سےبہت  بڑھا ہوا ہے ، ایسا  ہی ایک واقعہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے ز مانے  میں پیش آیا، ایک مرتبہ  حضرت عباس رضی اللہ عنہ  نے بھی حضرت علی اکرم اللہ وجہہ  سے اسی بات کی بحث  کی  تھی، بلکہ صحیح  مسلم ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ چند مسلمان آپس  میں جھگڑ رہے تھے ۔کوئی کہتا تھاکہ میرے نزدیک اسلام لانے کے بعد حاجیوں  کو پانی  پلانے سے زیادہ کوئی عبادت نہیں ۔

 دوسرے نے کہا میرے  خیال میں اسلام کے بعد بہترین عمل مسجدحرام کی خدمت  ہے۔ تیسرا بولا کہ  جہا د فی سبیل اللہ  تمام عبادات  و اعمال  سے افضل  و اشرف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا  کہ تم جمعہ کے وقت منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھ کر اس طرح بحثیں کررہے ہو۔ ذرا صبر کرو۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جمعہ سے فارغ  ہوجائیں گے آپ سے یہ چیز  دریافت  کرلی جائے گی۔ چنانچہ  جمعہ کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی : أَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃ الْحَاجِّ وَعِمَارَة الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (التوبہ :19) ترجمہ: ‘‘ کیا تم نے کردیا حاجیوں  کا پانی پلانا اور مسجد الحرام کا بسانا برابر ا س کے جو یقین  لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور لڑا اللہ کی  راہ میں ، یہ برابر  نہیں ہیں اللہ کے نزدیک اور اللہ رستہ نہیں دیتا ظالم لوگوں کو’’ ( التوبہ :19)

مفسرین  نے اس آیت کے ضمن  میں لکھا ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل مقبول  عبادت اللہ اور آخرت پر ایمان لانا اور اللہ کی راہ  میں جہاد کرنا ہے،  حاجیوں  کی خدمت  اور حرم کی پاسبانی کا درجہ اس کے بعد آتا ہے ، یعنی  پہلے اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت میں سر خم  کرنا اور اسلام کی سربلندی کے لیے اللہ  کی راہ میں جہاد کرنا یا ان لوگوں کی اعانت کرنا جو اللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں ان سب کے بعد حرم کی خدمت کا درجہ  آتا ہے۔ مذکورہ آیت کو پڑھیں ،بار بار  پڑھیں اور اس کے معنی اورمطلب پر غور کریں اور پھر پاسبان حرم  کے کردار کا جائزہ لیں، آیا ان کافر عونی حکومت  کی اعانت کا کردار درست ہے؟  پاسبان  حرم اپنے  اس کردار سے کس کی مدد کررہے ہیں ؟

کیا وہ اسلام کو سر بلند کرنے والوں  کی اعانت کررہے ہیں یاان لوگوں کی حمایت او رمدد کررہے ہیں جن کا مقصد ہی روئے زمین  سے اسلام کو ختم کرنا ہے؟ جس دن سےمصر میں فرعون کی واپسی  ہوئی ہے اس دن سےلے کر آج تک کوئی وقت کوئی لمحۂ ایسا نہیں گذرا ہے جب کہ نہتے اسلام پسند  مسلمانوں پر گولیوں کی برسات نہیں کی گئی ہو، 27 جولائی کو فرعونی حکومت  کی جانب سے کیے گئے  کریک ڈاؤن  جس میں ہزاروں  کی تعداد  میں اسلام پسند شہید ہوئے ، اس میں بچے ، بوڑھے ، جوان مرد و عورت سبھی شامل تھے ، ایسا  نہیں ہے کہ اس کریک ڈاؤن  میں صرف عام عوام اخوانی شہید  ہوئے بلکہ  اخوان کے اہم رہنماؤں کے اپنے  بھی شہید ہوئے، اسی  کریک ڈاؤن میں اخوان کے ایک بڑے رکن محمد  البلتا جی کی جواں سال بیٹی  بھی شہیدہوئی ۔

دنیا میں اس طرح کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ جولوگ حکومت  حاصل کرنے کے لیے اپنا ذاتی مفاد خود محفوظ  مقام پر رہتے ہیں اور عام لوگوں کو گولیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے کردیتے ہیں ، لیکن اپنے عزیزوں  کواور خود کو گولیوں اور ٹینکوں  کا مقابلہ کرنے کےلیے آگے رکھنے والی مثال صرف اخوان المسلمون کے یہاں ملتی ہے۔ کیا اس کریک ڈاؤن  میں ہونے والی شہادت  کا سہرا شاہ عبداللہ کے سر نہیں بندھے گا؟  نہتے معصوم  او ربے قصور مسلمانوں  کے خون سے  ہولی کھیلنے والوں  کےمعاون ومددگار  کے طور پر شاہ عبداللہ اور ان کے رفقاء عنداللہ ماخوذ نہیں ہوں گے؟ ضرور ہوں گے۔ انشا ء اللہ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ‘‘ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کا بھائی ہے جونہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہےاور نہ ہی اسے ظالموں کے حوالہ کرتا ہے ’’ المسلم اخوا المسلم  لا یظلمہ ولا اسلمہ،۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ جو کسی مومن  کے قتل  میں مدد کرے خواہ ایک بول  کے ذریعہ کیوں نہ ہو وہ اس حال میں اللہ سےملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان لکھاہو گا ‘ اللہ کی رحمت سے  نا امید ’’ ( ابن ماجہ : حدیث نمبر :2620)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس حدیث  کو پڑھیں اور غور کریں  کہ فرماں روائے  سعودی کا عمل اس حدیث کے مطابق  کیسا ہے؟ فرماں روائے سعودی  صرف بول سے ہی نہیں  بلکہ اپنے  عمل اور اپنے مال  کے ذریعہ  بھی مسلمانوں  پر براہ راست ظلم کا سبب بنے ہیں، اور انہوں نے اسلام پسندوں پر دہشت گردی کا لیبل  لگا کر پوری  اسلام مخالف دنیا کے لیے یہ جواز پیدا کردیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں کوئی اسلام کی بات کرے اسے دہشت گرد قرار دے کر یا تو اسے موت کی نیند سلا دی جائے  یا پھر  جیل کی سلاخوں کے پیچھے  ڈھکیل  دیا جائے  جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی  قید و بند کی صعوبت  جھیلتے ہوئے گذارے۔

مصر کے پس منظر  میں ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کا کردار بڑی ہی جرأت مندانہ رہا ہے، ترکی جو کہ خود اسلام مخالف طاقتوں کا شکار ہوچکا ہے ، لیکن  ترکی کے اس مرد بیمار نے اپنی ایمانی فراست سےبہت حد تک ترکی کو سنبھالا دیا ہے اور ایک ایسے وقت میں جب کہ  دنیا  بھر کے مسلمانوں  کی نگاہیں عالم عرب بالخصوص  سعودی عرب کی جانب  ٹکی ہوئی ہوئی تھیں ، ترکی کے اس مرد مجاہد نے اخوان کے تئیں اپنے بے باکانہ بیان  کی  وجہ سے دنیا کے مسلمانوں کی نگاہوں کو اپنی جانب پھیر لیا ہے۔ اس وقت ضرورت  اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان بالخصوص ہندوستانی مسلمان زور دار اور پر امن تحریک چلا کر حکومت  ہند کے توسط سعودی حکومت تک اپنا احتجاج  درج کرائیں وہیں  دوسری جانب جب تک جمہوری طور پر منتخب صدر مرسی کی  حکومت  کی بحالی نہیں  ہوجاتی اس وقت تک حکومت  ہند مصر سے سارے تعلقات کو احتجا جا ختم کرے، کیونکہ یہ جمہوری اصولوں  کے خلاف ہے کہ دنیا کی بڑی سےبڑی جمہوری طاقت  ایک غاصب  اور فرعونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات بنائے رکھے ، اس طرح  کم از کم ہم اپنے مصری اسلام پسند بھائیوں  کے زخموں پر مرہم تو رکھ سکیں گے  ، او رہمارا یہ عمل  اسلام کی راہ میں شہید ہونے والوں کے لیے خراج  عقیدت ثابت ہوگا ۔

26 اگست ، 2013   بشکریہ : روز نامہ قومی سلامتی ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/the-custodian-harmain-sharifain-creating/d/13227

 

Loading..

Loading..