غفران ساجد قاسمی
11 جون، 2013
تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کا اہم اور بنیادی ذر یعہ ہوتا ہے، جو قومیں علم حاصل کرتی ہیں اور اس کی روشنی سے بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں وہی قومیں سائنس او رٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر کے دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھتی ہیں اور باقی دنیاکو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن جو قومیں حصول علم میں کوتاہی بر تتی ہیں، اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتی ہیں اسے ترقی یافتہ قوموں کی غلامی کاطوق اپنے گردن میں ڈالنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ تعلیم او رمسلمان کا چولی دا من کا رشتہ رہاہے، مسلمانوں کے نزدیک تعلیم کی اہمیت اس لیے بھی مسلّم ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز ہی لفظ ‘‘اقراء’’ کے ذریعہ ہوا جس کے معنی ہی ہیں ‘‘ پڑھو’’ ۔اتنا ہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے اور عالم و جاہل کے فرق کو بینا اور نا بینا کے فرق سے سمجھا یا گیا ہے، حدیث میں روز مرہ کی ضروریات کے بقدر علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض قرار دیا گیا ہے ، کہیں حصول علم کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ علم حاصل کرو ماں کے گود سے قبر میں جانے تک اور کہیں یہ فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے اس کےلیے تمہیں چین کا سفر کرنا پڑ ے ، قطع نظر ا حادیث کے صحیح اور ضعیف کے ، اتنی بات تو طے ہے کہ بہر حال علم کی حیثیت اور اس کی اہمیت مسلّم ہے ،اور اس کی اہمیت سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا ۔
ایک طرف تو وہ قوم او رامت کہ اللہ نے جس کے پیغمبر کو سب سے پہلے وحی ‘‘ پڑھنے ’’ کے حکم کی شکل میں بھیجی ، قرآن کریم میں جگہ جگہ علم کی اہمیت کو بیان کیا اس نبی کی امت پر نا خواندگی کا لیبل لگے، افسوس صد افسوس ! جی ہاں 2004 میں کانگریس جب ایک لمبے عرصہ کے بعد اقتدار میں واپس آئی تو اسے یہ خیال ہوا کہ جس قوم کے بل بوتے اس نے یہ اقتدار حاصل کیا ہے، ہندوستان میں اس قوم کی تعلیمی ، معاشی، اور سماجی صورت حال کیا ہے؟ ذرا اس کا جائزہ لیا جائے، اس نیک مقصد کے لیے منموہن حکومت نے جسٹس راجندر سچر کی سر براہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کا بنیادی مقصد تھا کہ پورے ملک کا تحقیقی سروے کر کے یہ اعداد و شمار حاصل کیے جائیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی حیثیت کیا ہے؟ جسٹس راجندر سچر نے بڑی ایمانداری اور جا نفشانی سے پورے ہندوستان کا جائزہ لیا ، انہوں نے اس جائزہ کے دوران مرکزی حکومت، ریاستی حکومت ، اسی طرح مرکز اور ریاست سب کے ماتحت آنے والے تمام محکمے ، سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نیز مدارس کا جائزہ لیا اور یہ ان جگہوں پر مسلمانوں کی تعداد کیا ہے اس کے اعداد وشمار حاصل کیے؟ ویسے تو یہ جائزہ مسلمانوں کی زندگی کے تمام شعبہ ہائے سے متعلق تھا، لیکن اس وقت مجھے صرف مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر گفتگو کرنی ہے، کیونکہ ہر طرح کی ترقی کا راز تعلیم میں ہی پنہا ں ہے۔ جسٹس راجندر سچر نے اپنی یہ رپورٹ نومبر 2006 میں حکومت ہند کو پیش کردی، جس کو تقریباً 7 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ جسٹس راجندر سچر نے اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ میں بحیثیت مجموعی مسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں ، نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں ، اور نہ ہی سماجی طو رپر دیگر قوموں کے مقابلہ میں اچھی پوزیشن میں ہیں، رہا مسئلہ تعلیم کا تو تعلیم کے علمبر دار ہونے کے باوجود اس میدان میں بھی پسماندہ ہیں ۔ مسلمانوں کے تئیں عوام کا ایک عام رجحان یہ ہے کہ وہ بنیاد پرست ہیں اور قدامت پرست ہیں، اسی لیے یہ اپنے بچوں کو صرف اور صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں لیکن سچر رپورٹ نے اس سوچ کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ مسلمانوں کے صرف 4 فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ، یہ اعداد و شمار صرف عام لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے کسی لمحۂ فکر یہ سے کم نہیں ہے کہ صرف 7 فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جب کہ یہ اعداد وشمار تو کم و بیش 50 فیصد ہونے چاہئیں لیکن مسلمان اس , میں بھی پیچھے ہیں ،بقیہ 66 فیصد سرکاری اسکولوں میں جب کہ 30 فیصد پرائیویٹ اسکولوں میں ہیں، جناب سچر کی رپورٹ کے حوالہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسکولوں ، کالجوں او ریونیور سیٹیوں میں بھی ہماری تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے۔ جہاں ہندوستان کی مجموعی شرح خواندگی 2001 کی مردم شماری کے مطابق 65 فیصد ہے وہیں مسلمانوں میں یہ شرح 59 فیصد ہی ہے، جبکہ ہندو 65 فیصد، عیسائی 80 فیصد ، سکھ 69 فیصد ، بدھ 72 فیصد اور 94 فیصد کے ساتھ جین مذہب سب سے اوپر ہے ۔مسلمانوں میں مرد کی شرح خواندگی 67 فیصد اور عورت 50 فیصد ہے ، جو کہ اوپر شمار کرائے گئے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سب سے کم ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ جس مذہب کی بنیاد ہی تعلیم و تعلم پر ہے۔ جس کے پیشوا کی سینکڑوں احادیث اور قرآن کی بے شمار آیات حصول علم کی تلقین پرُ ہے، آخر اس قوم کے متبعین میں شرح خواندگی کی یہ افسوسناک شرح کیوں ہے؟ کیا اس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ہم اپنے مذہب اور مذہبی تعلیمات سےکتنے دور ہوچکے ہیں ؟ ذرا یاد کریں وہ وقت جب پوری دنیا پر ہمارے علم و تحقیق کا ڈنکا بجتا تھا، دنیائے سائنس او رطب کی بڑی بڑی ایجادات کا سہرا ہمارے محققین کے سر جاتا ہے ، لیکن ہماری کوتاہی او رہماری علم سے دوری نے ان ایجادات کا کریڈٹ ہم سے بڑے شاطرانہ انداز سے چھین کر اپنے سر لے لیا اور ہم کچھ نہ کر سکے ۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ ہمارے لیے سامان عبرت ہے ،اسے صرف سیاسی ہتھکنڈہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس کاذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف حکومت پر اس کی ذمہ داری ڈال دینا کافی ہوگا یا ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ ہم اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے کتنے کار آمد ہیں؟ اگر ہمیں اللہ نےاتنی سہولت د ی ہے کہ ہم اپنے پڑوس کے پانچ بچوں کی تعلیم کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیاہم نے ایسا کیا؟ ذرا غور کریں کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کےمطابق مسلمانوں کے 6۔14 سال کےعمر کے تقریباً 25 فیصدی بچے ایسے ہیں جو یا تو کبھی اسکول گئے ہی نہیں یا گئے تو انہوں نے بیچ میں ہی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ، ہے کوئی صاحب استطاعت مسلمان جس نے کبھی اپنے محلّہ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ اس کےمحلّہ میں کتنے بچے ہیں جو کبھی اسکول نہیں گئے یا جنہوں نے بیچ میں ہی اسکول چھوڑ دیا ہو؟ شاید ہی ہندوستان کا کوئی ایسا گاؤں ہو جہاں اس طرح کے صاحب استطاعت لوگوں کی کمی ہو؟ ممکن ہے کچھ ایسے بھی مخّیر حضرات ہوں؟ یا کیا کبھی کسی غیر سرکاری تنظیم جو مسلمانوں کے لیے کام کرتی ہے اس نے کوئی انتظام کیا؟ اس سوال کا جواب سب جانتے ہیں۔
حکومت نے جسٹس راجندر سچر کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ، معاشی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لیں، انہوں نے نومبر 2006 میں اپنی یہ رپورٹ یا یوں کہہ لیں کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا قرطاس ابیض حکومت کے سپرد کر دیا، جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اور خبر وں کی دنیا سے با خبر رہنے والا ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد مسلمانوں کا ہمدرد کہلانے والی بڑی بڑی تنظیموں نے بڑے بڑے اجلاس کیے ، حکومت سےمطالبہ کیا کہ جسٹس سچر نےرپورٹ کےتناظر میں جو سفارشات پیش کی ہیں اس کی جلد از جلد نا فذ کیا جائے، اس طرح مطالبے ہوتے رہے اور حکومت نے اپنی مدت پوری کرلی، پھر حکومت اسی رپورٹ کو ساتھ لے کر دوبارہ انتخاب کےمیدان میں اتری اور مسلمانوں کے سامنے یہ دہائی دی کے دیکھئے آپ کی زبوں حالی اور بدحالی کاپلندہ ہمارے سامنے ہے ہماری ‘‘ مخلصانہ اور ایماندارانہ ’’ کوشش ہے کہ ہم اسے نافذ کریں گے لیکن ا س کے لیے آپ کو ہمیں ایک اور موقع دینا ہوگا ، اگر ہمیں آپ نے موقع نہیں دیا تو یاد رکھیں پورا ملک گجرات بن جائے گا، بھلا مسلمان کیسے نہ اعتبار کرتا اور انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دوبارہ اقتدار سو نے کی تھالی میں سجا کر کانگریس کو پیش کردیا، اب دوسری مدت بھی ختم ہونے والی ہے ، لیکن مسلمانوں کا کتنا بھلا ہوا یہ سب کو معلوم ہے، 2014 کا لوک سبھا الیکشن بس آیا ہی چاہتا ہے کہ اچانک سچر کمیٹی رپورٹ یعنی مسلمانوں کی بدحالی کا قرطاس ابیض کوردّی کی ٹوکری سے پھر نکالا گیا اور ایک ایسے وقت میں جب کہ حکومت کو اور حکومت کے وزیر با تدبیر کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اب کچھ نہیں کرسکتے انہوں نے ایک بار پھر بد حال مسلمانوں کی قسمت کو جادو ئی چھڑی سے سدھارنے کا اعلان داغ دیا، ہونا کیا تھا ایک بار پھر سے میڈیا کے ساتھ ساتھ مسلم تنظیموں کو بھی موقع مل گیا، اور حکومت بھی خوش ہوگئی کہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مسلمان ہمارے دام میں پھنس چکا ہے۔ اور اسی دوران اقلیتی امور کے وزیر با تدبیر جناب کے ۔ رحمان خان صاحب نے مسلمانوں کے لیے ایک خوش نما اعلان کیا کہ حکومت ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے پانچ یونیورسیٹیاں قائم کرے گی، اب ان سے کون پوچھے کہ پہلے سے جو ارادہ اقلیتوں کا ہے وزیر صاحب!پہلے اس کا تو اقلیتی کردار بحال کردیں، پھر آپ یہ پانچ یونیورسیٹیاں قائم کریں، ایک سوال کے جواب میں وزیر موصوف نے کہا کہ کیا اگر الیکشن آنے والے ہیں تو ہم کوئی کام ہی نہ کریں، تو ان کا جواب یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کی حالت زار کا علم ہوئے تقریباً سات سال کا عرصہ گذر چکا ہے، ان سات سالوں میں آپ نے اعلانات کے سوا کچھ کیا بھی ہے؟ جب کہ ان کا دعویٰ ہے کہ سچر کمیٹی کی 73 سفارشات میں سے تقریباً 60 سے زیادہ سفارشات کا نفاذ ہوچکا ہے ، تو اب یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ان سفارشات کا نفاذ کب اور کیسے ہوا؟ جس طرح حکومت اپنے چار سالہ کا رکردگی رپورٹ کارڈ جاری کرتی ہے تو وزارت اقلیتی امور کو بھی چاہیے کہ وہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات پر علاحدہ رپورٹ کا رڈ جاری کریں تاکہ مسلمانوں کو بھی پتہ چلے کہ حکومت نے ان کے لیے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور انہیں ان کا فائدہ کیسے ملے گا؟
جہاں تک جناب کے ۔ رحمان خان صاحب کے ذریعے اقلیتوں کے لیے 5 یونیورسیٹیوں کے قیام کا اعلان ہے ، تو اگر واقعی حکومت اس میں مخلص ہے تو صحیح معنوں میں یہ بڑا خوش آئند قدم ہوگا لیکن ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ دستور میں اس طرح کی یونیو سیٹیوں کے قیام کی اجازت نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاکر اٹک جائے گا جو کہ کانگریس کے لیے سود مند ہی ثابت ہوگا کیونکہ اس صورت میں ایک بار پھر وہ انہی زیر التوا معاملوں کی بنیاد پر اقلیتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بہر کیف ! اگر یونیورسیٹیاں قائم ہوتی ہیں اور وہ خاص مسلمانوں کے لیے ہوتی ہیں تو اس سے فائدہ ہوگا کیونکہ اس وقت مسلم گریجویٹ کا تناسب قومی سطح پر صرف 6.3 فیصد ہے اور تکنیکی گریجویٹ کا تناسب تو بالکل ہی کم ہے یعنی اعشاریہ 4 فیصد ہے ، اسی طرح منیجمنٹ کے اعلیٰ اداروں میں یہ تناسب صرف اور صرف 13 فیصد ہے ۔ تو اگر قومی سطح پر پانچ یونیورسیٹیاں قائم ہوتی ہیں تو مسلمانوں کو اپنی شرح خواندگی بڑھانے میں یقیناً کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا ۔
جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ کو محض ایک رپورٹ سمجھنا ہماری کوتا ہ علمی ہوگی بلکہ اسے سامان عبرت سمجھنا ہوگا اور اس کے تناظر میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، میں ان حضرات سے معذرت کے ساتھ کہ جو صرف اور صرف اپنی زبوں حالی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں ،میں اس کے لیے صرف اور صرف اپنی قوم اور اپنی ق قوم کے رہبر کو ذمہ دار سمجھتا ہوں ، ہندوستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی جین مذہب میں پائی جاتی ہے ، 94 فیصد ان کی شرح خواندگی ہے تو کیا یہ حکومت کی دین ہے نہیں؟ ہر گز نہیں ! بلکہ یہ ان کی بیداری ہے ، اسی طرح ہندوستان کے بعض صوبوں میں شرح خواندگی قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے تو کیا ان سب کے پیچھے حکومت کی کرم فرمائی ہے؟ اگر ہے تو ا س کی وجہ کیا ہے؟ اسے جاننے کی کبھی کوشش کی ہے ہمارے رہنماؤں نے ؟ نہیں ! صرف اجلاس طلب کر لینے ، میمورنڈم پیش کردینے اور اخباری بیان بازی سے اس قوم کی حالت سدھرنے والی نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے اپنےا ندر بیداری لانی ہوگی، بہار کے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کیا حکومت کے تعاون سے رحمانی ۔30 کی بنیاد ڈالی ہے؟ ذرا غور کریں کہ رحمانی ۔30کے طلبہ آج کس مقام پر ہیں ، آج ضرورت ہے کہ ہر صوبے نہیں بلکہ ہر ضلع میں ایک ولی رحمانی پیدا ہو جو قوم کے مستقبل کو اونچی تعلیم اور بلند فکر دے سکے ، حکومت کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے ایک بچہ کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہے وہ اپنے پڑوس کے ایک بچہ کابھی تعلیمی خرچ برداشت کرے، اسی طرح جس شخص کو اللہ نے استطاعت دی ہے وہ ہر محلّہ اور گاؤں میں ایسے مکاتب اور اسکول کے قیام کی کوشش کرے کہ جہاں قوم و ملت کے مستقبل کو سنوار ا جاسکے ، ضروری نہیں کہ تنہا اس کام کو انجام دے بلکہ اپنی زیادہ سے زیادہ شراکت ادا کرکے قوم کے دیگر مخلص او رکار آمد لوگوں کو بھی ساتھ لے اور اجتماعی طور پر یہ کام کرے، اگر ہر شخص اپنے پڑوس ، محلّہ اور گاؤں کی فکر کرلے تو انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں کہ اس ملک کا ہر مسلمان تعلیم یافتہ ہوگا، ہر گھر سے علم کی روشنی پھوٹے گی جو اپنے ساتھ بہت سارے گھروں کو منور کردے گی۔ انشاء اللہ ، بس ضرورت ہے عزم و حوصلہ کی اور اخلاص و للّٰہیت کی۔
11 جون، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-need-introspect-more-than/d/12567