New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 02:48 PM

Urdu Section ( 14 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ghazwa-E-Hind and the Mischief of Evil Elements غزوہ ہند اور شرپسند عناصر کی فتنہ گری

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

8 مارچ،2024

دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر موجود ایک فتوے سے اٹھنے والے تنازعہ پر تفصیلی بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ امن وصلح،محبت و نفرت، جنگ وجدل، ظلم وعدل، استحصال و نصاف،عروج وزوال کسی بھی معاشرے کے وہ زمینی مسائل او رحقائق ہیں جن کے ادراک کے بغیر نہ انسانی نفسیات کو سمجھا جاسکتاہے، نہ اس کے معاشرتی خد وخال کو،نہ اس کی فکری وتدبیر ی جہتوں کاجائزہ لیا جاسکتاہے او رنہ ہی مہذب دنیا پر پڑنے والے انکے مثبت ومنفی اثرات کو! معاملہ یہ ہے کہ ہر صورتحال فطرت انسانی، اس کی پرورش او رسے نمودار ہونے والے رجحانات انفرادی زندگی سے اجتماعی و ادارہ جاتی زندگی تک ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ اس سے کہیں زیادہ سیاست،سفارتکاری، تنازعات کے حل، ان میں پیداہونے والی پیچیدگیاں او رمجموعی تناظر میں ثقافت، سماجیات، نفسیات انسانی گویا کوئی بھی شعبہ حیات ان عوامل کے اثرات یادخل سے باہر رہی ہی نہیں پاتا!

آج جہاں مختلف معتوب، ملعون حلقوں کی جانب سے اسلام، مسلمان او رناموس رسالت مآب پر مذموم ونازیبا الزام تراشی، ضرب کاری، بیجا وتنقیص کا چوطرفہ قابل مذمت سلسلہ جاری ہے وہیں اس سب کے باوجود اسلام کی تبلیغ ودعوت اس کی قبولت ومقبولیت کا سلسلہ بھی اس کے مد مقابل عالمگیر سطح پر پوری آن بان اور شان کے ساتھ الحمداللہ جاری ہے۔ اسلام نہ صرف ترقی یافتہ دنیا میں بلکہ تمام براعظموں میں سب سے زیادہ اور سب سے تیزی سے پھیلنے والامذہب ہے۔ یہ اغیار کی تحقیق وتائید ہے میری نہیں! ایسے میں ہمارے قومی تناظر میں فی الوقت جو مو ضوع ہندو مسلم تعلقات میں کدورت،بغض، منافرت او رآپسی خلیج میں اضافے کا سبب عام بن رہاہے او را س ضمن میں پھیلی بدگمانیاں اس کو ہوا دینے کا کام کر رہی ہیں وہ غزوہ ہند کا موضوع ہے۔

جیسا کہ اولین میں عرض کیا گیا فی الوقت یہ تنازعہ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر غزوہ ہند کے حوالے سے دیئے گئے ایک فتوے کے تفصیل کے تعلق سے ہے۔ اس میں محض  اس موضوع سے متعلق چند احادیث کو سوال کے جواب میں بطور ریفرینس پیش کردیا گیاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں مزید وضاحت درکار ہے! یہ 2008 میں دئے گئے ایک فتوے سے متعلق ہے مگر تنازعہ 2024 میں کھڑا کیاگیاہے۔ پس منظر کو سمجھنا کسی دانا کے لئے مشکل نہیں! دراصل سوال کے جواب میں محض احادیث کا نقل کیا جانافتنہ کی جڑکو نہ کاٹ سکا۔ اس نے اس فتنے کو ہوا دینے کا کام کیا۔ اتنا کہہ دینا کہ یہ احادیث ضعیف ہیں، ان کی سند مستحکم نہیں، اشاریے کی حد تک تو درست ہے مگر شرپسندوں کے فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ اوّل: غزہ اس جنگ کو کہا جاتاہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دورحیات میں ہواہو، جس میں آپ نے بہ نفس نفیس شرکت کی ہو او رآپ کی سپہ سالاری میں اس کو لڑا گیا ہو۔ قارئین ان نکات کو ذہن میں محفوظ کرلیں۔ دوئم: آپ کے وصال کے بعد اس اصطلاح کا استعمال ترک کردیا گیا! جنگیں ہوئیں، معرکے ہوئے، مسلح مقابلے ہوئے جن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ میدان کربلا میں اہل بیت کے ساتھ جو ظلم، جبر اور حیوانیت کی انتہا ہوئی، شہادتیں ہوئیں جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے، اس کو معرکہ کربلا کے نام سے جانا جاتا ہے غزوہ کے نام سے نہیں! سوئم: دور خلافت میں چاروں خلفائے کرام کے زمانہ اقتدار میں جو معرکے ہوئے وہاں غزوہ کی اصطلاح کے استعمال کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔چہارم: خلافت کا خاتمہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ عملاً ختم ہوگیا۔ ملوکیت، شہنشاہیت اور آمریت نے اس کی جگہ لے لی۔ کئی سو برس سلطنت عثمانیہ جو کرہ ارض کے دوتہائی خطے پر اپنا قتدار او رحاکمیت رکھتی تھی اس کو خلافت کا نام دیا گیا مگر! ہندوستان میں محمد بن قاسم 711 میں حملہ آور ہوا اور 713 تک اس کا اقتدار رہا جس کو خلافت کا نام نہ دیا گیا۔ پنچم: ہندوستان میں 711سے 1857 تک مسلم اقتدار رہا۔عرب، افغان، ترک، مغل اور ایرانی مسلمان حکمراں ہوئے۔ البتہ خلافت قائم کرنا یا تبلیغ ودعوت دین، اسلامی ریاست کا قیام کسی کا بھی ہدف نہ رہااس دوران ہونے والی تمام لڑائیوں کو بھی جنگیں کہا گیا غزوہ نہیں۔

غزہ ہند کے تناظر میں ضعیف حدیث کے مفہوم اور اس کے اطلاق کو سمجھنا لازم ہے۔ خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے ایک لاکھ ایسی احادیث کو نذر آتش کیا جن سے امت میں اختلاف یا فتنے پیدا ہونے کاامکان ہوسکتا تھا یا ان میں سے کسی کی بیجا تاویلات امت واحدہ میں تقسیم و تفرقہ پھیلانے کاموجب بن سکتی تھیں۔ باوجود اس احتیاطی تدبیر کے فرقوں او رمتضاد تاویلوں کی آج بھی کمی نہیں۔ وہ احادیث جن کے راوی یا راویوں کے حوالے سے اسماء الرجال میں شمولیت، قبولیت، مقبولیت کے جو مقرر معیار ہیں ان میں استحکام و سند کے اعتبار سے قطعیت کا فقدان ہے۔ ایسی احادیث کو یا تو فقہاء نے ترک کیا یاپھر بطور ضعیف حدیث انہیں محفوظ کرلیا گیا۔غزوہ ہند سے متعلق تمام احادیث اسی زمرے میں شامل ہیں۔البتہ احادیث جن پر فقہاء میں اجماع واتفاق رائے عام ہے ان پر عمل آوری ضروری ہے نہ کہ ضعیف روایتوں پر۔ اس حوالے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بڑے صحابی اور جیدراوی ہیں انہو ں نے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا کہ جب غزوہ ہند برپا ہوگا تو میرا شمار بھی شہداء میں ہوجاتا۔اس تناظر میں آپ کا دوران عمر، اللہ کے رسول کی حیات مبارکہ اور وصال کا وقفہ دونوں عوامل کو ملحوظ رکھیں گے تو غزوہ ہند کا دور یوں بھی واضح ہوجاتا ہے جو گزرچکا ہے۔لہٰذا غزوہ ہند کاکوئی تصور اب موجود ہی نہیں! ذہن میں رکھیں کہ آقانے فرمایا کہ ہند سے مجھے بھینی بھینی ہوائیں آتی ہیں جس کی تاویل اس خطے میں ستر کرو ڑ کی کثیر مسلم آبادی سے میری نظر میں اصطلاحاً یہ کسی غزوہ سے کم نہیں!

دوسراپہلو اس حوالے سے علمائے دیوبند کی تاویل (مفروضہ) ہے جس کے تحت 71 میں محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ غزوہ ہند تھا، سوو ہ بھی گزرچکا۔تاہم متعدد مستند حلقے جن کا تعلق مختلف مکتبہ ہائے فکر سے ہے دارالعلوم کے موقف پرتحفظات رکھتے ہیں۔ مفروضے کے طور پر اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی یہ غزوہ ہوچکا۔ فتاوی دینے کے معاملے میں دارالعلوم دیوبند اور اس کا دارالافتاء اپنے فتاویٰ میں تشریح و تفصیل کا خاص لحاظ رکھتاہے۔ اس معاملے کی حساسیت کا تقاضہ کچھ اضافی وضاحت کا طالب تھا۔ لہٰذا اکابرین دیوبند سے مودبانہ گزارش ہے کہ اسلام،اسلامیات، مسلمان، او رمسلم معاشرے کو اس حوالے سے جو مذموم عناصر کے ذریعے ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔ملک میں ہندو مسلم منافرت کو ہوادی جارہی ہے بچے بچے میں ہمارے حوالے سے منافرت انتہائی کیفیات کے ساتھ اکثریتی نفسیات میں سیرایت کررہی ہے اس کے لئے رسمی طور پر اپنے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے وضاحتی نوٹ 2008 کے فتویٰ میں شامل کردیں تاکہ اس فتنے کی جڑ کٹ جائے۔ چند گزارشات ان کا اکابرین سے کررہا ہوں جن کا تعلق دین متین اسلام، قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم و تدریس سے براہ راست ہے۔ دینی قیادت کو اب ایک اشتراک عمل کی طرف بڑھنا چاہئے۔ تمام ضعیف احادیث اور قرآن کریم میں موجود جنگ کی آیات کااحاطہ کرتے ہوئے آج کے اعتراضات کو سا منے رکھ کر ایک ایسی تفسیر، تفصیل اور تشریح کی جائے جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ساتھ ہی اہل وطن او ربرادران وطن کی اکثریت ایسے امور کے حوالہ سے خاموش بدگمان ہے لیکن یہ خاموش بدگمانی اندر ہی اندر ایک ایسے ملغوبہ کی شکل لے رہی ہے جو لاوابن کر ایک دن پھٹ سکتاہے۔ میرے منہ میں خاک! اللہ کرے کبھی بھی ایسا نہ ہومگر امکان اپنی جگہ! میں ڈرا نہیں رہا ہوں صرف متنبہ کررہا ہوں۔ ہم سب مسلمانان عالم خدائے وحدہ لاشریک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجوابدہ ہیں! لازم ہے کہ سب مل کر مجموعی تصویر پرآنے والی گدلاہٹ کو صاف کرنے کے لئے فرض کفایہ ادا کرنے کے حوالے سے آگے آئیں۔

8 مارچ، 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/ghazwa-e-hind-mischief-evil-elements/d/131916

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..