غوث سیوانی
6 اپریل، 2015
عنقریب دنیا کی بیشتر آبادی مسلمان ہوگی اور سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بھارت ہوگا ۔ یوروپ میں عیسائی اقلیت میں ہونگے اور مسلمانوں کی آبادی مزید بڑھ چکی ہوگی ۔ دنیا کےسبھی ممالک کلمہ توحید پڑھنے والوں سے معمور ہونگے اورمسلمان فخر سے یہ کہہ سکیں گے کہ :
چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
مگر سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں مسلمان آبادی میں نمبر ایک ہونگے تب کیا وہ تعلیم میں بھی پہلے نمبر پر ہونگے؟ سائنس اور ٹکنالوجی میں بھی وہ سب سے آگے ہونگے؟ فوجی طاقت ان کے پاس سب سے زیادہ ہوگی؟ ۔ سیاسی سوجھ بوجھ اوردینی و اخلاقی شعور میں بھی ساری دنیا کے پیشر و ہونگے یا تب بھی کسی امریکہ ہی کی حکمرانی ہوگی اور مٹھی بھر یہودی دنیا پر راج کررہے ہونگے؟ جس طرح عرب ممالک کے وسائل پر آج امریکہ و یوروپ کا قبضہ ہے اسی طرح مسلم ملکوں کے وسائل پر مغربی طاقتیں قابض رہیں گی؟ بھارت میں وہ دلتوں سے بد تر زندگی گزار رہےہیں اور ان کا معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے ، اسی طرح مزید گرے گا اور عہد وسطیٰ کے دلتوں کے مقام پر پہنچ چکے ہونگے؟ جس طرح پانچ ہزار سال تک دس فیصد برہمنوں نے نوے فیصد آبادی پر راج کیا اسی طرح مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہونگے او رمسلمان غلاموں کی سی زندگی گزاررہے ہونگے؟ پیوریسرچ سنٹر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی قیاس آرائی تو کی ہے مگر ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے جنہیں ہم اٹھارہے ہیں ۔ اس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ جس طرح سے عرب ملکوں میں مسلمان ہی مسلک کے نام پر مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں ، اس وقت بھی کاٹتے رہیں گے؟ جس طرح عراق اور شام میں ‘ داعش’ خون خرابہ کررہا ہے کرتا رہے گا؟ جس طرح مصر میں اسلام دشمنوں کے اشارےپر جمہوریت کی جڑیں کھودی جارہی ہیں ، کھودی جاتی رہیں گی؟ جس طرح سعودی عرب میں اسلام کے نام پر شہریوں کا ناطقہ بند کیا جارہا ہے اور خواتین کی زندگی دو بھر کی جارہی، اس کا سلسلہ جاری رہے گا؟ جس طرح پاکستان کی مسجدوں میں بم پھٹ رہے ہیں پھٹتےرہیں گے ؟ جس طرح افغانستان سے افریقہ تک اسلام کے نام پر تنگ نظری کا دور دورہ ہے، جاری رہے گا؟
پیوریسرچ کا کہنا ہے : بھارت سال 2050 تک دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والاملک ہوجائے گا اور اس معاملے میں وہ ابھی سب سے بڑی مسلم آبادی والے انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ دے گا جب کہ اس وقت تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندوؤں کی ہوجائے گی ۔پیوریسرچ سنٹر کی طرف سے جمعرات کو جاری مذہب سے متعلق اندازوں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کا اندازہ ہے اور ہندو و عیسائی آبادی عالمی آبادی میں اضافہ کی رفتار کے مطابق رہے گی ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان ہندو اکثریت والا ملک بنا رہے گا لیکن وہ انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں سب سےبڑی مسلم آبادی والا ملک بھی بن جائے گا ۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 717 کروڑ مسلم آبادی کے مقابلے میں ابھی انڈونیشیا میں قریب 520 کروڑ آبادی ہے۔ اس کے مطابق اگلی چار دہائیوں میں عیسائی سب سے بڑا مذہبی گروپ بنارہے گا لیکن اسلام کسی دوسرے بڑے مذہب کے مقابلے میں تیز رفتار سےبڑھے گا۔
برابر ہوجائےگی مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی : پیو ریسرچ کی رپورٹ میں پیشن گوئی کی گئی کہ سال 2050 تک تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں ( 2.8 ارب یا آبادی کا 30 فیصد ) کی تعداد اور عیسائیوں کی تعداد (2.9 ارب یا آبادی کا 31 فیصد) تقریباً اسی طرح کی ہوگی۔ اس میں کہا گیا ہے،مسلمانوں کی آبادی دنیابھر میں عیسائیوں کے قریب ہوگی اور اگر یہ رحجان جاری رہتا ہے تو 2070 کے بعد اسلام سب سے زیادہ مقبول مذہب ہوگا ۔ سال 2050 تک مسلم یوروپ کی آبادی کے قریب 10 فیصد ہونگے جو 2010 کے 5.9 فیصد سے زیادہ ہوگا ۔ پیوریسرچ رپورٹ کے مطابق ہندوؤں کی آبادی دنیا بھر میں 34 فیصد بڑھنے کا اندازہ ہے جو ایک ارب سے کچھ زیادہ بڑھ کر 2050 تک تقریباً 1.4 ارب ہو جائے گی ۔ اس میں کہا گیا کہ سال 2050 تک دنیا کی کل آبادی میں تیسرے مقام پر ہندوؤں کی آبادی ہوگی ۔ وہ دنیا کی کل آبادی کا 14.9 فیصد ہوں گے ۔ اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ ان لوگوں کی تعداد 13.2 فیصد ہوگی۔ فی الحال کسی بھی مذہب میں ایمان نہ رکھنے والے لوگ دنیا کی کل آبادی میں تیسرے مقام پر ہیں ۔ اس مدت تک یورپ میں ہندوؤں کی آبادی قریب دو گنی ہونے کی امید ہے۔ یہ بنیادی طور پر امیگریشن کے چلتے قریب 28 لاکھ 40 فیصد ) ہوجائے گی۔
برطانیہ میں عیسائی اقلیت مذہب بنے گا: شمالی امریکہ کی آبادی میں ہندوؤں کی تعداد اگلی دہائیوں میں تقریباً دو گنی ہونے کی امید ہے،بدھ مت واحد ایسا مذہب ہے جس کی پیروکاروں کے بڑھنے کا امکان نہیں ہے ۔ ایسااس مذہب کے پیروکاروں کی زیادہ عمر ہونے اور بودھ ممالک ( چین، جاپان اور تھائی لینڈ) میں مستحکم تولیدی شرح کی وجہ سے ہوگا۔ مطالعہ سے یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ 2050 تک ہر نو برطانوی میں ایک مسلمان ہوگا۔ وہاں عیسائی اقلیتی مذہب بننے والا ہے ۔ تخمینوں کے مطابق عیسائی کے طور پر شناخت رکھنے والی برطانیہ کی آبادی 2050 تک تقریباً ایک تہائی رہ جائے گی اور یہ محض 45.4 فیصد ہوگی۔
ایشیا میں ہے دنیا کی 62 فیصد مسلم آبادی :پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری عرب کی سرزمین پر ہوئی ۔ اس لحاظ سے یہ دھرتی مسلمانوں کے لئے ہمیشہ قابل احترام رہی ۔ یہیں قرآن کا نزول ہوا اور یہیں سے اسلام کا پیغام ساری دنیا میں پھیلا ۔ اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ، مگر موجودہ دنیا کو دیکھا جائے ، تو مسلمانوں کی اکثریت غیر عرب ہے ۔ مسلمان یوں تو ساری دنیا میں بستے ہیں ۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ، جو بادہ توحید کے متوالوں کا مسکن نہ ہو ۔ افریقہ کے تپتے ریگستانوں سے لے کر یوروپ کی برف پوش وادیوں تک، ہر جگہ مسلمان پھیلے ہوئے ہیں، مگر ان کی اکثریت ایشیا میں رہتی ہے اور وہ بھی عرب کے باہر رہتی ہے ۔ تمام عرب ملکوں کی آبادی کو یکجا کردیا جائے’ تو بھی وہ کل ملا کر انڈونیشیا کی آبادی کے برابر نہ پہنچیں ۔ اسی طرح عوام پر اثرات ڈالنے والی شخصیات میں بیشتر کا تعلق بھی غیر عرب خطوں سے ہی ہے ۔ بیشتر مسلمان ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، ملیشیا ، افغانستان اور سابق سوویت یونین کے خطوں میں رہتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو تمام مسلمانوں میں تقریباً 80 فیصد کاتعلق انہیں ملکوں سے ہے ۔ اس طرح یہ ایک طاقتور ترین مسلم خطہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نےکبھی طاقت کااحساس نہیں کیا اور ہر معاملے میں ان کی نظر عرب ملکوں کی طرف اٹھتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا قائد عرب کاعلماء ہی کریں ۔ حالانکہ جس طرح سے غیر عرب علاقے مسلمانوں کی اکثریت کے مسکن ہیں اس طرح بڑے بڑے قائدین، اہل علم او رعظیم ادارے بھی غیر عرب ایشیائی ملکوں میں ہی ہوئے ۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی، مولانا محمد علی جوہر ، علامہ اقبال، مولانا ابوالا علی مودودی ، محمد علی جناح، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا احمد نورانی، سر سید احمد خاں، سید امیر علی ، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں، قاضی نذرالاسلام وغیرہ وہ شخصیات ہیں’ جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالم گیر اور دیر پا اثرات چھوڑے ۔ یہ سبھی غیر عرب ہیں اور جنوب ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔
جنوبی ایشیا کے تعلیمی ادارے : پاکستان، بنگلہ دیش او ر دیگر ملکوں میں کئی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور مدارس اسلامیہ ہیں ۔ہندوستان جہاں عام طور پر مسلمانوں کی حکومت سے شکایتیں رہتی ہیں’ یہاں بھی کئی بڑے بڑے ادارے ہیں’ جو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہر ین پیدا کررہے ہیں اور یہاں عرب کے طلباء بھی استفادے کے لئے قدم رکھ رہے ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ او رہمدرد یونیورسٹی ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم تعلیمی ادارے ہیں، جہاں عصری اور جدید تکنیکی تعلیم دی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں دینی تعلیم کےلئے یہاں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند ہے، جہاں افریقہ و یوروپ سے بھی طلباء آتے ہیں ۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، ندوۃ العلماء لکھنؤ، الثقافتہ السنیہ کالی کٹ، الجامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ ، الجامع الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ، مظاہر علوم سہارنپور اور جامعہ سلفیہ بنارس ایسے دینی تعلیمی ادارے ہیں، جن کے نام جامعہ ازہر ( مصر) کے بعد لئے جاتےہیں ، جو اسلامی موضوعات پر کام کرتےہوئے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں ۔ اس قسم کے مدرسے جنوب ایشیا میں بڑے پیمانے پر ہیں، جہاں اہل عرب بھی علم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں ۔
غیر عرب مسلمان تعلیم میں آگے : خاص بات یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کے مقابلے غیر عرب مسلمانوں میں خواندگی کی شرح زیادہ ہے، اسی لئے ان کے اندر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے ۔ عرب ملکوں میں دولت کی بہتات ہے، کیونکہ وہاں کی زمین ‘‘سیال سونا’’ اگلتی ہے ۔ جہاں کے لوگوں کے پاس عیش و عشرت کے سامان موجود ہیں ۔ اگر وہ اپنی دولت کا مثبت استعمال کرتے، تو وہ علم و ہنر اور سائنس و ٹکنالوجی میں یوروپ سے بہت آگے ہوتے، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایشیا کے غیر عرب ملکوں میں رہنےوالے مسلمانوں کی مالی حالت خواہ بہت اچھی نہ ہو’ مگر وہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں عربوں سےبہت آگے ہیں۔ آج جس قدر اہل علم وہنر دوسرے خطوں کے مسلمانوں میں پیدا ہورہے ہیں’ عرب میں نہیں ہوتے ۔ سعودی عرب میں شرح خواندگی 77 فیصد ہے، جب کہ عراق میں 74 فیصد ہے۔ یہ دونوں کثیر آبادی والے عرب ممالک ہیں ۔ ان کے مقابلے انڈونیشیا او رملیشیا میں شرح خواندگی 100 فیصد کے آس پاس ہے ’ کچھ ایسی ہی صورت حال سوویت یونین سے آزاد ہونے والے مسلم ملکوں کا ہے ۔ ظاہر ہے کمیونسٹ تسلط نے انہیں اسلام سے دور کردیا ہے ’ مگر بہت تیزی کے ساتھ ان ملکوں میں بیداری کی لہر آرہی ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان میں شرح خواندگی کم ہے ۔
کثیر مسلم آبادی والا خطہ :پیو فورم کی 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا خطہ ہے۔ یہاں دنیا کی 62 فیصد مسلم آبادی رہتی ہے ۔ یہاں کی کل آبادی کا 24.8 فیصد حصہ مسلمان ہے، یعنی یہاں کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ پیوفورم کی یہ رپورٹ 2010 میں منظر عام پر آئی تھی اور امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ یہاں جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ، مستقبل میں ان کی آبادی کا تناسب بڑھ سکتا ہے ۔ واضح ہو کہ ایشیا میں بیشتر مسلم آبادی والے ممالک آتےہیں جن میں انڈونیشیا، ملیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان ، ازبکستان ، ایران ، ترکی اور چین شامل ہیں ۔ یوں تو سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا ہے ، مگر جنوبی ایشیا کی 90 فیصد مسلم آبادی ہندوستان ’ پاکستان اور بنگلہ دیش میں رہتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملکوں میں چین اور ہندوستان شامل ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑی آبادی کے باوجود یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ جہاں مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے ’ وہاں کچھ مسائل ضرور ہیں ۔ مگر شناخت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ البتہ ہندوستان اور چین جیسے ملکوں میں اگرچہ کروڑوں مسلمان ہیں، مگر یہاں ان کے ساتھ شناخت کا مسئلہ بھی ہے اور وہ اپنے وجود کو دوسروں سےالگ شناخت کے ساتھ باقی رکھنے کی جد وجہد کررہے ہیں ۔اس میں ان کی معاونت کرتےہیں وہ اسلامی تعلیمی ادارے، جن کا قیام ہی اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے ہوتا ہے ۔
مسلمان ساری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ خاص طور پر وہ ایشیا میں زیادہ گھنی آبادی رکھتے ہیں، مگر موجودہ دور میں ان کی نہ تو کوئی عالمی لیڈر شب بن پائی ہے اور نہ ہی علاقائی لیڈر شپ ۔ وہ جہاں کہیں بھی بغیر کسی لیڈر کے زندگی گذار رہے ہیں، مسلم اکثریتی ملکوں میں تو وہ خانوں میں بٹےہوئے ہیں ۔ اسی طرح ان ممالک میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں، لیڈر شب کی کمی کے سبب گوناگوں مسائل سے دو چار ہیں ۔ حالانکہ ان کے بہت سے افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اثر انداز ہوتے ہیں، مگر تمام مسلمان انہیں اپنا رہنما تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔
مقبول ترین شخصیات : ایک عالمی ادارہ The Royal Islamic Stratagic Studieso Center کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 500 اثر انداز ہونے والی مسلم شخصیات میں سے بہت سے افراد ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حالانکہ اس لسٹ میں بیشتر مسلم سربراہان مملکت ہیں،مگر بعض غیر سیاسی شخصیات بھی ہیں ۔ ایسی شخصیات میں پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ، انڈونیشیا کی مسلم تنظیم نہضۃ العلماء کے چئیر مین ڈاکٹر کے ایچ سید عقیل سرادی، ہندوستان کے اہلسنت کے پیشوا مفتی اختر رضا خاں ازہری ، مار ہرہ کی خانقاہ برکاتیہ کے سجادہ نشین مولانا سید محمد امین ، پاکستان کے اسلامی محقق مولانا محمد تقی عثمانی، جمعیۃ علما ء ہند کے لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی، بوہرہ طبقہ کے مذہبی پیشوا سیدنا برہان الدین ( اب وہ دنیا میں نہیں رہے) شامل ہیں ۔ ظاہر ہے یہ تمام افراد ایک خاص طبقے یا کسی خاص مکتبہ فکر کے لیے ہی قابل قبول ہیں ۔ دوسرا طبقہ انہیں قبول نہیں کرتا ۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے باوجود یہاں وہ منتشر ہیں اور ان کے بیشتر مسائل کا سبب ان کایہی انتشار ہے۔ ظاہر ہے سیدنا برہان الدین کا حلقہ اثر بوہرہ فرقے تک محدود ہے۔ اس طرح حاجی محمد عبدالوہاب کے اثرات تبلیغی جماعت کے افراد تک ہی ہیں ۔ مولانا سید محمد امین میاں اور مفتی اختر رضا خاں ازہری اپنے مریدین میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتےہیں، تو مولانا محمود مدنی کی مقبولیت جمعیۃ علماء ہند تک محدود ہے۔ ان حضرات کو دوسرے مسلکی گروپ کے لوگ قبول نہیں کرتے،بلکہ انہیں حضرات کے اپنے مکتبہ فکر میں ہی کئی گروپ ہیں، جو ان کی مخالفت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔ ایک چھوٹے سے طبقے میں مقبولیت کے باوجود یہ حضرات مقبول ترین لیڈر ہیں، مگر افسوس کہ مسلمانوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ، جو ہر طبقے کے افراد کے لئے قابل قبول ہو۔
یہ مسلمان ہیں ؟: اس وقت اہم سوال یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا میں کم ہوگی یا زیادہ؟ اہم سوال تو یہ ہے کہ وہ دنیا پر کس قدر اثر انداز ہونے کی صلاحیت والے ہونگے؟ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لئے علم اور سائنس و ٹکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے او رہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان ان شعبوں میں ساری دنیا سے پیچھے ہیں ۔ بھارت، پاکستان ، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے مسلمان غریب ہیں اور ان کے پاس تعلیمی اداروں کی کمی ہے نیز مالی و سائل بھی نہیں ہیں پھر بھی وہ اوقات بھر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں مگر عرب مسلمانوں کے پاس دولت کی افراط ہے۔ وہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں او رسائنسی تحقیقات میں سرمایہ لگا سکتے ہیں مگر جو صورتحال سامنے ہے، وہ زیادہ خوش کرنے والی نہیں ہے ۔
6 اپریل 2015 بشکریہ : روز نامہ سنگم ، پٹنہ
URL: https://newageislam.com/urdu-section/with-more-than-half-world/d/102305