غوث سیوانی
23جون،2019
کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیر خسرو ،اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شرینی آجائے جو بے مثال ہو ۔ مرشد نے اپنے فرمانبردار مرید کی عرض داشت سنی اور ارشاد ہوا کہکھا ٹ کے نیچے شکر رکھی ہوئی ہے نکالو ۔ اسے خود کھاوَ اور حاضرین میں تقسیم کردو ۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا او رپھر ان کی زبان میں وہ شیرینی آگئی کہ آج سات سو سال سے زیادہ کی مدت گزرنے کے بعد بھی اس کی مٹھاس میں کمی نہیں آئی ۔ خسرو کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ ملک الشعرائی ‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگر وہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ہوئے جس کی سلطنت کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا ۔ غالباً یہ اسی کی برکت تھی جو خسرو کو بارگاہ نظامی سے عطا ہوئی تھی ۔ وہ با الاجماع بر صغیر کی تمام زبانوں کے سب سے بڑے شاعر تھے اور آج تک ہیں ۔ ان کی برابری کا کوئی سخنور اس ملک نے پیدا نہیں کیا ۔ ان کی عظمت کودنیا نے تسلیم کیا ۔ وہ شاعری ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی یکتا تھے اور کچھ نئی ایجادات واختراعات کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے ۔ خسرو نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جسے کثرت میں وحدت کی مثال کہا جاسکتا ہے اور اسی کی تقلید بعد کے فنکاروں نے کی ۔
ولادت اور بچپن
امیر خسرو کی ولادت اتر پردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی، جو کہ متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے ۔ 651ھ بمطابق 1252ء کو یہاں کے ایک امیر کبیر گھرانے میں انہوں نے جنم لیا ۔ یہ سلطان ناصر الدین محمود کا دور سلطنت تھا ۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کا نام دولت ناز تھا ۔ والد مہاجر ترک تھے تو والد ہ ایک نو مسلم ، سیاہ فارم ہندوستانی سیاستداں کی بیٹی تھیں ۔ وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے ۔ خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انہیں ان کے تخلص سے ملی ۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا ۔
نا نی ہال کا اثر
خسرو نے اپنے آس پاس ماں ، نانا اور ماموں کو دیکھا، جو ہند و پس منظر رکھتے تھے اور انہیں نے ان کی تعلیم و تربیت بھی کی ۔ ظاہر ہے یہ خاندان ایک ہندوستانی خاندان تھا اور وہ بھی متھرا کے قریب رہنے والا خاندان تھاکو کہ ہندووں کا ایک مقدس شہر ہے اور اس علاقے کی آب و ہوا میں بھی کرشن بھکتی کی خوشبو رچی بسی ہے ۔ یہاں کی مقامی ’ برج بھاشا‘ کے لوک گیت اور بھجن ضرور ان کے کان میں پڑتے ہونگے ۔ ایک طرف جہاں انہیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم دی جارہی تھی، وہیں دوسری طرف وہ جس ماحول میں پرورش پارہے تھے اس کے اثرات ان پر پڑنے لازم تھے ۔ اس ماحول میں خسرو کی پرورش ہی انہیں ایک سچا ہندوستانی بنا دیا تھا جو یہاں کی مخلوط تہذیب میں یقین رکھتا تھا ۔
شاعری کی ابتدا
خسرو نے شاعری کی ابتدا کم سنی ہی سے کردی تھی ۔ ان کے دور میں زبان و ادب کی تعلیم نصاب کا بنیادی حصہ ہوا کرتی تھی ۔ آس پاس کا علمی ماحول بھی شعر و سخن سے رچا بسا تھا ۔ چنانچہ اس کا اثر ان پر بھی ہوا اور مکتب میں ہی شعر سنانے لگے ۔ خوش کلامی انہیں قدرت نے جی کھول کر عطا کی تھی جس کا اظہار ابتدا سے ہی ہونے لگا تھا ۔ وہ بھری محفل میں شعر سناتے ہوئے کبھی نہیں ہچکچا تے تھے ۔ حالانکہ ان کی ابتدئی شاعری خواجہ علاء الدین کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں وجود میں آئی جو کہ ان کے استاد تھے ۔ خسرو بیس سال کی عمر تک ایک دیوان مرتب کر چکے تھے ۔
درباروں سے وابستگی
مسلم عہد سلطنت میں شعراء کوملازم رکھنے کا عام رواج تھا جو کہ وسط ایشیا اور ایران یہاں پہنچا تھا ۔ بادشاہوں کے علاوہ امرایَ ، شہزادے اور جاگیردار تک انہیں اپنے ہاں ملازم رکھا کرتے تھے ۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا دور تھا جب خسرو آزادانہ طور پر تلاش معاش کے لئے نکلے اور اگر کوئی شاعری کا قدرداں مل جائے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ انہیں بھی بادشاہ کا ایک شاہخرچ بھتیجا مل گیا جو علاء الدین کشلی خان یا ملک چھجو کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے ۔ اس نے اپنے یہاں ملازمت پر رکھ لیا اور اس کی نوازشات فیضیاب ہونے لگے ۔ یہ ملازمت صرف دو سال تک ہی رہی ۔ امیر خسرو نے دوسری ملازمت سلطان بلبن کے بیٹے بغرا خان کے یہاں کی ۔ 1279ء میں وہ بغرا خاں کے ساتھ بنگال گئے ۔ وہ 1280ء میں بادشاہ کے بڑے بیٹے اور ولی عہد سلطان محمد قا آن کے ملازم ہوئے ۔ ساتھ میں ان کے دوست امیر حسن سنجری ( صاحب فوائد الفواد ) بھی ملازم ہوگئے اور دونوں ملتا ن کے لئے روانہ ہوگئے ۔ یہاں خسرو کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا مو قع ملا ۔ یہیں انہوں نے اپنا دوسرا دیوان ’’وسط الحیوٰۃ‘‘ ترتیب دیا ۔ یہاں وسط ایشیا اور پنجاب کی موسیقی کو ملا کر انہوں نے قوالی کی ایجاد کی ۔ یہیں انہوں نے فقہ کے علم کی تکمیل کی ۔ ملتان میں رہتے ہوئے انہوں نے سلطان محمد قا آن کی مدح میں 23قصیدے لکھے ۔ اس کے بعد انہوں نے اودھ کے گورنر حاتم خان کے ہاں ملازمت کی ۔
قرآن السعدین کی تصنیف
دہلی پہنچے ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ سلطان نے بلا بھیجا او رکچھ لکھنے کی فرمائش کی ۔ اس کے بدلے میں اس نے بہت کچھ دینے کا وعدہ بھی کیا ۔ اب وہ ساری دنیا سے کنارہ کش ہوکر خلوت میں بیٹھ گئے اور چند مہینے بعد جب باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں ’’ قرآن السعدین‘‘ تھی ۔ اس مثنوی میں 13944اشعار ہیں ، جن میں شاعر کے فن کا جادو نظر آتا ہے ۔ سلطان کے آباد کردہ شہر کی پوری تفصیلات ، فنکاری اور صنعت و حرفت کا ایسا مرصع نقشہ ہے جسے سن کر پورا دربار دم بخود رہ گیا ۔ سلطان کے قباد نے انہیں ڈھیروں انعام و اکرام سے نواز نے کے ساتھ ساتھ ’’ ملک الشعرایَ ‘‘ کے خطاب سے بھی نواز ا مگر اس کی سلطنت زیادہ دن قائم نہ رہی ، جو انعمری میں مرا اور اس کی جگہ پر جلال الدین فیروز خلجی تخت نشیں ہوا ۔
دہلی میں قیام
امیر خسرو نے پتہ نہیں کب ، کہاں اور کس سے شادی کی تھی مگر 689ھ بمطابق 1290ء کو ان کے بیٹے مسعود کی پیدائش ہوئی ۔ اس بیچ سیاسی ہلچل بھی رہی ۔ ان کے دو سابق ممدروح کشقی خان ( ملک چھجو) اور حاتم خان باغی ہوکر بدایوں تک چلے آئے ۔ سلطان کو خوش کرنے کے لئے انہیں اپنے ممدروحوں کے خلاف لکھنا پڑا ۔ اب وہ سلطان کے ملازم تھے اور اس کے ساتھ کڑہ اور رنتھمبور کی مہموں پر بھی گئے ، جس کی یادگار مختصر مثنوی ’’ مفتاح الفتوح‘‘ ہے ۔
نظام الدین اولیاء کی بارگاہ میں
جلال الدین خلجی کے عہد میں دو سال تک امیر خسرو دہلی میں رہے اور اسی دوران ان کا خانقاہ نظام الدین اولیاء سے زیادہ گہرا ربط ہوا ۔ یوں تو یہاں ان کا آنا جانا زمانے سے تھے اور مرید بھی بہت پہلے ہوچکے تھے مگر مرشد کی خدمت میں وقت بتانے اور روحانی فیوض و برکات کے حصول کا بہتر موقع اب میسر آیا تھا ۔ انہیں احساس ہونے لگا تھا کہ اب تک جو انہوں نے وقت گذارا وہ بیکار گزارا اور اپنی قیمتی عمر کا ایک بڑا حصہ جھوٹے شعبدوں کے رتجگے ، ناچ و رنگ سب بیکار لگنے لگے اور دل کے سکون کا احساس مرشد کی خدمت میں آکر ہونے لگا ۔
سجد ہَ عشق کو آستاں مل گیا
سرز میں کو مری آسماں مل گیا
(جاری)
23جون،2019 بشکریہ: روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-best-hindi-urdu-poet/d/118965
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism