غوث سیوانی
ہماری زندگی کیا ہے محبت ہی محبت ہے
تمہارا بھی یہی دستور بن جائے تو اچھا ہو
”تصوف“ ایک خالص اسلامی نظریہ ہے جو اسلام کے جمالیاتی رخ کو پیش کرتا ہے۔اس میں وہ قوت ہے کہ کسی بھی سماج میں جذب ہوسکتا ہے اور وہ لچک ہے کہ کسی بھی طبقے کو اپنا بناسکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی غیر نہیں اور اسے کسی سے بیر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ دنیا کے جس خطے میں پہنچا وہاں کے معاشرے میں شیروشکر کی طرح گھل مل گیا اور وہاں کے لوگوں کو اپنا بنالیا۔ پہلی صدی ہجری کے اخیر میں جب تفسیر، حدیث، فقہ اور اسماء الرجال کے علوم کی الگ شناخت بن رہی تھی تب تصوف بھی علم الٰہیہ کے طور پر اپنی الگ پہچان بنارہا تھا۔ جب شریعت، انسان کے ظاہرکو قواعد وضوابط کی پابند بنارہی تھی،تب طریقت اس کے باطن کو”خدارخی“ بنانے میں لگی ہوئی تھی۔اسلام کی ظاہری شکل وصورت پر بعض اوقات حکمرانوں اور سیاسی مصالح کا اثر دیکھنے کو ملا مگر اسکے باطن پر کبھی وہ اپنا اثر نہ ڈال سکے اور یہی خالص اسلام ”تصوف“کہلایا۔ بارہویں صدی عیسوی تک، تصوف، مسلم سماجی زندگی کا ایک عالمگیر حصہ بن چکا تھا کیونکہ یہ پوری اسلامی کمیونٹی پر اثر انداز ہو چکا تھا۔اس بیچ یہ خطہئ عرب سے نکل کر عجم تک پہنچا اور سنٹرل ایشیا ہوتا ہوا سندوہند تک پہنچا۔ جس طرح تصوف نے وسط ایشیا میں اپنے اثرات چھوڑے اسی طرح ہندوستان کی سرزمین پر بھی اس نے وہ نقوش چھوڑ ے جن کے اثرات آج تک محسوس ہوتے ہیں اور اس قدر گہرے ہیں کہ صبح قیامت تک مٹ نہیں سکتے۔اصل میں بھارت کی سرزمین ابتدا سے ہی پیغام توحید کا مسکن رہی ہے اور یہاں کے بسنے والوں کا اپنے خالق ومالک کے تئیں خاص لگاؤ رہاہے۔ تاریخی اور مذہبی روایتیں گواہ ہیں کہ اس مقدس دھرتی کو سب سے پہلے خطاب الٰہی سے مخاطِب ہونے کا موقع ملا ہے۔ اسی سرزمین پر آدم علیہ السلام تشریف لائے اور سب سے پہلے اسی خطے میں ذکرِالٰہی کی زمزمہ سنجی ہوئی۔ وہ خطہ ئارض، جہاں مدت تک توحید کا پیغام گونجتا رہاتھا، جب وہاں صوفیہ نے قدم رکھا اور بندگان خدا کو اسی بھولے ہوئے پیغام کی یاد دلائی جس سے کبھی یہاں کی فضائیں مانوس تھیں تو جلد ہی لوگوں کی رغبت اس جانب ہونے لگی۔ عوام کا جوق درجوق اس طرف مائل ہونے لگے۔ انھوں نے جلد ہی محسوس کیا کہ جوصدا انھیں اپنی جانب بلا رہی ہے، وہ ان کے لئے اجنبی نہیں ہے۔ اصل میں صوفیہ کا پیغام، محبت کا پیغام تھا، انسانیت کا پیغام تھا، بھائی چارہ اور یکجہتی کا پیغام تھا۔ انسان ہمیشہ سے محبت کا پیاسا رہاہے، خوش اخلاقی کا بھوکا رہاہے۔ ہندوستانی سماج میں اونچ نیچ کی دیواریں بہت بلند تھیں جنھیں پھلانگنا آسان نہیں تھا مگر محبت واخلاق کے طوفان کو یہ سد سکندری بھی نہ روک سکی۔جب یہاں تصوف وعرفان کا سورج نکلا تو اس کی روشنی سے صرف یہاں کے بام ودر ہی نہیں جگمگائے بلکہ دلوں کی وہ کال کوٹھریاں بھی روشن ہوگئیں جن کے دروازوں کو بند کردیا گیا تھا۔ سندھ کے خطے میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کے ثبوت موجود ہیں جو تابعی اور ابتدائی دور کے صوفی ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے اصحاب رسول اور تابعین برصغیر میں وارد ہوچکے تھے جویقینا روحانیت وعرفان کے پیغام کے ساتھ آئے تھے اور ان کے بعد جن صوفیہ نے سرزمین سند وہند پر قدم رکھاان کی فہرست بھی طویل ہے۔ آنے والے اہل ِدل یہاں تنہا آئے تھے مگر جلد ہی لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
تصوف سے بھکتی تحریک تک
ہندوستان میں صوفیہ کے پیغام کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جنھوں نے اسے قبول کیا، انھوں نے اپنے ظاہر وباطن میں تبدیلی کا احساس کیا مگر جنھوں نے اسے سیدھے طور پر نہیں اپنایا،انھوں نے بھی اس کے اثرات ضرور قبول کئے۔اس کے زیر اثر ہی ”بھکتی تحریک“ کی ابتدا ہوئی۔یہی سبب ہے کہ تصوف وبھکتی تحریک کے اثرات یہاں کے سماج پر گہرے ہیں۔ قرون وسطی کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ میں ”بھکتی تحریک“کی خاص اہمیت ہے۔ہندو مذہبی اصلاح پسندوں کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک نے بر صغیر کے معاشرے پر خاصا اثر ڈالا۔یہ صوفیہ کی تحریک تصوف کے زیر اثر سامنے آئی اور اسی تحریک کے بطن سے سکھ ازم نے جنم لیا۔ اس کی بنیاد میں صوفیہ کی وہ تعلیمات تھیں جنھیں تصوف کی بنیاد کہا جاتا ہے جیسے توحید، توکل، تجرد،تقویٰ، مساوات انسانی اور خدمت خلق وغیرہ۔بعض رسموں میں مماثلت بھی نظر آتی ہے جیسے، مندروں میں کیرتن، خانقاہوں اوردرگاہوں میں قوالی اور گردواروں میں گربانی۔ اس قسم کی کئی باتیں قرون وسطی (800 - 1700)کی تاریخ وتہذیب میں یکساں دکھائی دیتی ہیں۔ ہندووں کی قدیم مذہبی کتابوں میں توحید کی تعلیم موجود ہے جسے امتداد زمانہ کے سبب لوگوں نے بھلادیا تھا مگر صوفیہ کی تعلیمات نے اسے ازسرنو زندہ کیا۔ ہندوستانی سماج میں کئی ایسے اہل علم اور مصلح پیداہوئے جنھوں نے ہندووں کے اندر بھی توحید پر زور دیا۔ اس انقلابی مہم کے لیڈر تھے شنکراچاریہ جو ایک عظیم مفکر اور جانے مانے فلسفی تھے۔اس مہم کو چیتنیہ مہاپربھو، نامدیو، تکارام، جے دیو نے آگے بڑھایا۔ان تمام مہموں کا مقصد بت پرستی کو ختم کرکے انسان کو توحید کے نکتے پر لانا تھا۔ بھکتی تحریک کے لیڈر رامانند نے رام چندرجی کو بھگوان کے طور پر لے کر اس کو مرکوز کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان کے بارے میں بہت کم معلومات ہے، لیکن ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ 15 ویں صدی کے اوائل میں رہے ہونگے۔ چیتنیہ سولہویں صدی کے دوران بنگال میں ہوئے۔ انھوں نے الگ الگ دیوتاؤں کے بجائے ایک کرشن کی بھکتی کی تعلیم دی۔شری رامانج نے ویشنو مت پر زور دیا جوکام انھوں نے جنوبی ہند میں کیا وہی کام رامانند نے شمالی ہندوستان میں کیا۔مذہب کو کسی ایک نکتے پر لانے کی کوشش اور ایک خدا کی عبادت ان سبھی بزرگوں کی تعلیم کا حصہ تھی جو انھوں نے تصوف کے زیراثر اپنائی تھی۔جس طرح صوفیہ نے انسان کو انسان بن کر رہنے کی تعلیم دی تھی،مساوات انسانی کا درس دیا تھا اور خلق خدا کو ”عیال اللہ“مانا تھا،اسے ان سبھی سنتوں نے بھی اپنایا تھا۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں صوفیہ کے آستانوں پر پیغام توحید کا نغمہ قوالی کی شکل میں گونجا کرتا تھا اور فارسی وہندوی شعراء کے کلام میں جو مواد پایا جاتا تھا وہی بھگت نامدیو،سنت کبیر داس، میرا اور سور داس کے کلام میں بھی دیکھنے کو ملا۔انھوں نے اپنی رچناؤں کے ذریعے خدا کی حمد اور اس کی بھکتی پر زور دیا۔پہلے سکھ گرو، اور سکھ مذہب کے بانی گرونانک دیو جی بھی بھکتی تحریک کے ہی کوکھ سے آئے تھے۔وہ سنت اور سماجی مصلح تھے۔ انہوں نے ہر قسم کے ذات پات کے بھید بھاؤ اور مذہبی تعصب کی مخالفت کی۔ انہوں نے خدا کوایک مانا اور ہندو و مسلم سماج میں موجود تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھائی۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صوفیہ کی تعلیمات نے ہندوستان کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے اور یہاں کے عوام وخواص کے ظاہر وباطن کو متاثر کیا۔ تصوف ایک ایسی قوت کے طور پر ابھرا جو سماج کو جوڑے رکھ سکتا تھا۔ ملک کے اب تک کے سیاسی حالات پر نظرڈالیں تو سیاسی افراد کی جانب سے عوام اور ملک کو بانٹنے کی کوششیں لگاتار ہوتی رہی ہیں مگر جس بات نے اس ملک کو جوڑے رکھا،وہ صوفیہ کی تعلیمات میں موجود محبت واخوت کا وہ درس ہے جسے ہندوستانیوں نے جانے انجانے میں اپنے باطن کا حصہ بنارکھا ہے۔وہ امن میں یقین رکھتے ہیں، وہ عدم تشدد سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور تشدد ونفرت کو ناپسند کرتے ہیں۔سیاست دانوں کی طرف سے عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اورسیاسی فائدے کے لئے بھائی چارہ کو توڑنے کی سازشیں بھی کی جاتی ہیں مگر ان کا اثر زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتا۔ یہاں وقتی جذبات کے تحت دنگے فساد بھی ہوجاتے ہیں مگر جلد ہی لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ دوبارہ امن وآشتی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ یہ سب صوفیہ کی تعلیم کا ہی اثر ہے جو اس خطے کو اکیسویں صدی میں بھی متحد رکھے ہوئے ہے۔
علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو،جانے کس کس سے
محبت کیوں نہیں کرتے، محبت کرکے دیکھونا
صوفیہ کا پیغام اتحاد ویکجہتی
اہل تصوف کے پیغام محبت میں جذب وکشش تھی، اسی لئے یہ پیغام کامیاب ہوا اور ہندوستان کی اتحادویکجہتی کی بنیاد بنا۔ یہ باتیں صرف کتابی اور رسمی نہیں ہیں بلکہ صوفیہ نے واقعتا انھیں اپنی زندگی میں اپنایا اور اپنے پیروکاروں کو اس کاسبق دیا۔حضرت شاہ ہمدان سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’ذخیرۃ الملوک‘میں امام تصوف حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ”اللہ پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے جواپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔“ یہ شاہ ہمدان وہی ہیں جنھوں نے وادی کشمیر کو وادیئ تصوف وعرفان بنانے کا کام کیا۔اس پیغام میں اگر جوڑنے کی قوت نہیں ہوتی تو وادی کشمیرکے باشندے اس صدا پر ”لبیک“نہیں کہتے۔ حالانکہ پیغام صرف شاہ ہمدان کا نہیں تھا بلکہ دوسرے صوفیہ کا بھی تھا۔ بہار کی سرزمین پردلوں کو جوڑنے کا کام کرنے والے شیخ شرف الدین یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ ”جانو،کہ دوسری مخلوقات کو محبت سے کوئی لگاؤ نہیں ہے،کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیں ہیں۔فرشتوں کا کام جو سیدھے طریقے سے چل رہاہے وہ اس لئے کہ ان تک محبت کا گزر نہیں ہوا ہے اور یہ اونچ نیچ جو انسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے،اس لئے ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے۔“وہ اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ ”جب حضرت آدم کی باری آئی تو جہان میں ایک ہلچل مچ گئی۔ فرشتوں نے فریاد کی۔ یہ کیسا حادثہ ہوا کہ ہماری ہزاروں برس کی تسبیح وتہلیل برباد ہوگئی اور ایک مٹی کے پتلے یعنی آدم کو سرفراز کیا اور ہمارے رہتے ہوئے ان کو چنا۔ ایک آواز آئی کہ تم مٹی کو نہ دیکھو اس پاک امانت کو دیکھو یحبہم ویحبونہٗ(اللہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں)اور محبت کی آگ ان کے دلوں میں سلگائی ہے۔“
صوفیہ کی تعلیمات میں موجود محبت وبھائی چارہ کا عنصر ہی تصوف کی بنیاد ہے۔ صوفیہ نے انسان کو خالق اور اس کی مخلوق سے محبت کا درس دیا اور یہ سبق اپنے اندر اس قدر کشش رکھتا تھا کہ کوئی بھی حساس دل اس سے پہلو تہی نہ کرسکا۔
عشق ہی عشق ہے،نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو، کہیں ہے کچھ
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufis-message-love-/d/121995
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism