ادیس ددیریجا، نیو ایج
اسلام
31 اگست 2023
افغانستان میں کوئی دو سال
قبل طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار ہونے سے ملک میں خواتین کے حقوق کو ایک تباہ کن
دھچکا لگا ہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ
اور خواتین اور بچیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر ورکنگ گروپ کی سربراہ ڈوروتھی
ایسٹراڈا ٹینک کی مشترکہ رپورٹ سے صورتحال کی سنگینی اجاگر ہوتی ہے۔ ان کی رپورٹ
میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو شدید قسم کے
امتیازی سلوک کا سامنا ہے جو کہ صنفی ایذا رسانی کے مترادف ہے اور اسے صنفی امتیاز
کا راج قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں، میں افغان خواتین کو درپیش تلخ حقیقتوں
کو بیان کرنا چاہتا ہوں اور بین الاقوامی مداخلت کی فوری ضرورت پر زور دینا چاہتا
ہوں۔
Photo:
Renew Europe
-----
خواتین کے حقوق کا منظم
طریقے سے قتل
طالبان کے دور حکومت میں
خواتین کے حقوق کو منظم طریقے سے دبایا گیا ہے، جس سے ان کی زندگی کا ہر پہلو دم
توڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ طالبان کی جانب سے اسلامی قانون کی سخت تشریحات کی
وجہ سے خواتین کے اسکول جانے، این جی او وغیرہ میں کام کرنے اور سرکاری ملازمت اور
عدلیہ میں شامل ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مذکورہ مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے
کہ "افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو شدید امتیازی سلوک کا سامنا ہے جو کہ
صنفی ایذا رسانی کے مترادف ہو سکتا ہے، جو کہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے، اور اسے
صنفی امتیاز کا راج قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ موجودہ حکومت خواتین اور لڑکیوں
کو مکمل طور پر تابع کرنے کے ارادے سے منظم انداز میں امتیاز سلوک کے ساتھ حکومت
کرتی نظر آتی ہیں"۔ یہ پابندیاں نہ صرف خواتین کی ذاتی آزادیوں پر ضرب لگاتی
ہیں بلکہ مجموعی طور پر افغان معاشرے کی ترقی میں بھی رکاوٹ ہیں۔ تعلیم لوگوں کو
بااختیار بنانے اور سماجی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے، اور خواتین کو تعلیم سے محروم
کرکے، طالبان صنفی عدم مساوات کو فروغ دے رہے ہیں اور ملک کی ترقی کے امکانات کو
محدود کر رہے ہیں۔
طالبان کی جابرانہ
پالیسیاں معاشی شعبے تک بھی پھیلی ہوئی ہیں، جہاں خواتین کے کام کرنے اور اپنے
خاندانوں کی کفالت کرنے کی صلاحیت کو بری طرح دبایا گیا ہے۔ خواتین کو ملازمتوں سے
دور کر کے طالبان نہ صرف انہیں مالی طور پر خود کفیل ہونے سے محروم کر رہے ہیں
بلکہ افغانستان کی مجموعی اقتصادی ترقی اور استحکام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے
کی اہمیت کو تسلیم کرے اور ایسی جامع اقتصادی پالیسیوں کی وکالت کرے جو افغان
خواتین کو مکمل طور پر اس میں شامل ہونے اور اپنی ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا
کرنے کے قابل بنائیں۔
سزاؤں کا ظالمانہ انداز
میں نفاذ
طالبان کی جانب سے اسلامی
قانون کی سخت تعبیر و تشریح کے نتیجے میں خواتین پر وحشیانہ انداز میں سزائیں نافذ
کی جا رہی ہیں۔ سنگسار کرنا، کوڑے مارنا، اور کاٹنا خواتین کو خوفزدہ کرنے اور
انہیں قابو میں کرنے کا آلہ بن گیا ہے۔ یہ ظالمانہ طرز عمل نہ صرف جسمانی اذیت کا
باعث بنتے ہیں بلکہ خواتین میں خوف بھی پیدا کرتے ہیں، ان کی آواز کو کچل ڈالتے
ہیں اور جبر کا ایک ماحول قائم کرتے ہیں۔ عالمی برادری کو ایسی وحشیانہ کارروائیوں
کی مذمت کرنی چاہیے اور افغان خواتین کے بنیادی حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے
فیصلہ کن کارروائی کرنا چاہیے۔
طالبان کی طرف سے دی جانے
والی وحشیانہ سزائیں ان خواتین کے لیے عبرت کا کام کرتی ہیں جو موجودہ نظام کو
چیلنج کرنے کی ہمت دکھاتی ہیں۔ خواتین کو اس طرح کے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنا
کر، طالبان کا مقصد لوگوں کو تابعدار بنانا اور پدرسرانہ حکومتی ڈھانچے کو برقرار
رکھنا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات ناقابل
قبول ہیں اور یہ عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے اصولوں کی براہ راست خلاف
ورزی ہے۔ پابندیاں، سفارتی دباؤ اور محدود تعاون کا استعمال، طالبان کو ان سنگین
خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے اور افغانستان میں پھیلے خوف کے کلچر کو ختم
کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔
خواتین کے حقوق پر وسیع
پابندیاں
طالبان نے خواتین اور
لڑکیوں کے حقوق پر وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن میں ان کی زندگی کے
مختلف پہلو شامل ہیں۔ نقل و حرکت کی آزادی سے محروم ہونے اور لباس اور طرز عمل پر
پابندیوں کے نفاذ سے لے کر تعلیم، حفظان صحت اور انصاف تک رسائی سے محروم کیے جانے
تک، افغان خواتین خود کو جابرانہ اصول و قوانین کے جال میں گرفتار پاتی ہیں۔ اسے
صنفی امتیاز کا راج قرار دیا جانا چاہئے۔
نقل و حرکت کی آزادی ایک
بنیادی انسانی حق ہے جو انسان کو تعلیم، روزگار اور ذاتی ترقی کے مواقع حاصل کرنے
کے قابل بناتا ہے۔ خواتین کی نقل و حرکت پر پابندی لگا کر، طالبان مؤثر طریقے سے
انہیں گھروں میں محدود رکھتے ہیں اور ان سے ان کی خود مختاری چھین لیتے ہیں۔ اس سے
نہ صرف ضروری خدمات تک رسائی حاصل کرنے کی ان کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے بلکہ مرد
رشتہ داروں پر ان کا انحصار بھی برقرار رہتا ہے، جس سے صنفی عدم مساوات مزید بڑھ
جاتا ہے۔
طالبان کی جانب سے خواتین
کے لباس اور طرز عمل پر سخت ضابطوں کا نفاذ اس تصور کو مزید تقویت دیتا ہے کہ
خواتین کے جسموں اور ان کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کی
پابندیاں خواتین کے اظہار رائے اور انفرادیت کے حق کی خلاف ورزی ہیں، جو انہیں محض
سماجی اصولوں اور توقعات کے تابع ایک شئی ہونے تک محدود کر دیتی ہیں۔ بین الاقوامی
برادری کو ان کے حق میں آزادی اظہار رائے اور فیصلہ لینے کی آزادی کی وکالت کرنی
چاہیے، اور افغان خواتین کو اپنی شناخت دوبارہ حاصل کرنے اور خود پر مسلط جابرانہ
اصولوں کو چیلنج کرنے کی ترغیب دینا چاہیے۔
تعلیم، حفظان صحت اور
انصاف تک رسائی خواتین کی بہبود اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان
شعبوں میں طالبان کی پابندیاں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتی ہیں، جس
سے وہ کمزور اور پسماندہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ تعلیم نہ صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ
ہے بلکہ یہ بااختیار بننے اور سماج میں تبدیلی لانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ خواتین
کو تعلیم تک رسائی سے محروم کرکے، طالبان جہالت اور محتاجی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
اسی طرح، حفظان صحت اور حصول انصاف تک محدود رسائی خواتین کو ضروری خدمات سے محروم
کرتی ہے اور بدسلوکی یا امتیازی سلوک کی صورت میں ان کا سہارا لینے سے روکتی ہے۔
افغانستان میں خواتین کے
ساتھ طالبان کا سلوک صنفی امتیاز کے راج سے کم نہیں ہے، جیسا کہ اس شعبے کے ماہرین
کا کہنا ہے۔ افغان خواتین، جو گزشتہ دو دہائیوں میں بااختیار ہونے اور مساوات کی
جانب نمایاں پیش رفت کر رہی تھیں، اب ان کے سامنے ایک تاریک اور خطرناک مستقبل ہے۔
ایک ایسی حکومت جو فطری طور پر خواتین مخالف ہے ان کے حقوق اور آزادیوں کا گلا
گھونٹ رہی ہے اور ان کی آواز کو خاموش کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، تقریباً
80 فیصد لڑکیاں اور اسکول جانے کی عمر والی بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ خواتین کے
حقوق کا اس طرح سے منظم انداز میں دبایا جانا اور سزاؤں کا ظالمانہ انداز میں
نفاذ، اور ان کی آزادیوں پر لگائی گئی وسیع پیمانے پر پابندیاں عالمی برادری سے
فوری توجہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان کے حقوق کے تحفظ، ان کی امداد اور انہیں مدد
فراہم کرنے اور طالبان کو ان کی کارستانیوں کا جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کوششیں کی
جانی چاہئیں۔ صرف اجتماعی کارروائیوں کے ذریعے ہی ہم امید کر سکتے ہیں کہ
افغانستان کی خواتین کے لیے انصاف، وقار اور مساوات کو بحال کیا جا سکتا ہے اور
انسانی بحران کو مزید گہرا ہونے سے روکا جا سکے۔ اب عمل کا وقت ہے۔
English
Article: Gender Apartheid in Afghanistan under the Taliban
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism