جی ایم پرویز
مرسلہ: ڈاکٹر شکیل احمد خان
میری ڈیوٹی ایسی تھی کہ گھر دیر سے پہنچتا تھا گھر والے آرام کررہے ہوتے ۔ پھر صبح بیگم زور زور سے تلاوت کرتیں جس کی وجہ سے میر ی نیند پوری نہیں ہوتی تھی ۔ دل چاہتا تھا کہ میں انہیں تلاوت کا مطلب سمجھاؤں مگر یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں یہ بددل ہوکر قرآن کو ہاتھ لگانا ہی نہ چھوڑ دیں۔ بالآخر ایک بار میں نے ہمت سے کام لیا اور ان کے پاس جا بیٹھا ۔ میں نے کہا بیگم آج تو اس کا ترجمہ سنائیے جو پڑھا ہے۔ انہوں نے کہا یہ تو بغیر ترجمے کے ہے۔ شادی کے وقت آپ کے گھر سے یہی دیا گیا تھا ۔
تو اس سے آپ کیا فائدہ اٹھاتی ہیں میں نے پوچھا؟ ۔ اور پھر زور زور سے کس لئے پڑھتی ہیں؟ ۔ کہا اس لئے کہ سننے والےبھی اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ دیکھئے بیگم جسے پڑھ کر آپ کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتیں ( ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے ) اس سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے ۔ کیا ہماری اولاد مکے مدینے سے آئی ہے؟ عربی جانتی ہے؟۔
بیگم اگر میں آپ سے کہو ں Please bring one cup of tea. اگر آپ یہ زبان نہیں جانتیں تو آپ کیسے میرا حکم مانیں گی؟۔ یہی حال احکام الہٰی کا ہے اگر آپ اس عبادت کو سمجھیں گی نہیں تو آپ کو کیا پتہ چلے گا کہ اللہ آپ کو کیا حکم دے رہا ہے اور آپ سے کیا چاہتا ہے؟۔
تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم عربی نہیں جانتے لہٰذا ہم قرآن نہ پڑھیں؟۔
یہ میں نے کب کہا، قرآن ضرور پڑھیں سمجھنے کے لئے اور سمجھیں عمل کرنے کے لئے ۔ اگر یہ مقصد نہ ہو تو بے شک آپ قرآن کو ہاتھ نہ لگائیے کیونکہ یہ قرآن پڑھنا نہیں ہے اس کی توہین ہے۔ اگر آپ کسی کتاب کے مصنف سے کہیں کہ آپ کی تازہ کتاب ‘‘ زندگی کا راز’’ بڑی اچھی کتاب ہے ہمیشہ میرے پلنگ کے ساتھ ٹیبل پر رکھی رہتی ہے البتہ میں نےپڑھی نہیں ہے یا میں کتاب کی زبان سے ناواقف ہوں ۔ تو وہ بھی آپ سے ناراض ہوجائے گا۔ کیا رب اس طرز عمل کو پسند کرے گا۔ جب کہ یہ کتاب اللہ کی انسان کے ساتھ ہم کلامی کی آخری کتاب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ قرآن پڑھنے کےبارےمیں پرویز صاحب کا ایک مضمون سنئے جو انہوں نے قرآن کریم کی خواندگی کےبارے میں لکھا ہے ۔ ہر اتوار صبح جو میں جاتا ہوں انہی کا درس سننے جاتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ غلام احمد پرویز صاحب سے کسی نے ایسا ہی سوال کیا تھا ۔ پرویز صاحب نے جو جواب دیا تھا وہ سنئے امید ہے بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔
سوال:۔ گذشتہ چند سالوں سے یہ معمول ہے کہ مختلف اسلامی ممالک سے قاریوں کے گروہ آتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں ان کی قرآت کی محفلیں جمتی ہیں۔ وہ گاگا کر قرآن سناتے ہیں اور سامعین مرحبا اور سبحان اللہ کے نعروں سے داد دیتے ہیں ۔ چلے جاتے ہیں تو ان کے ریکارڈ ،ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے رہتے ہیں ۔ کیا آپ بتائیں گے کہ اسلام میں اس کی حیثیت کیا ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے؟۔
جواب :۔اس سوال کے جواب تک آنے سے پہلے تمہید اً کچھ عرض کرنا ضروری ہے ، قرآن کریم پر غور و فکر کرکے، اس پر عمل کرنے والی جماعتِ مومنین نے دنیا میں جو محیر العقول انقلاب برپا کیا ۔ اور اس سے مفاد پرست گروہوں ۔ ملوکیت ،مذہبی پیشوائیت اور سرمایہ داری پر جوزد پڑی، وہ تاریخ انسانیت کا ایک عدیم النظیر باب ہے۔ ان گروہوں نے محسوس کر لیا کہ عربوں جیسی قوم میں جن کے متعلق ان کی ہمسایہ قومیں یہ کہہ کر اپنی نفرت کا اظہار کیا کرتی تھیں کہ ‘‘ زشیرِ شتر خور دن و سوسمار ’’ اونٹنی کا دودھ پینے والے اور گوہ ( ایک خاکی رنگ کا صحرائی جانور جو زمین میں بٹ بناکر رہتا ہے) کھانے والوں میں اس قسم کی حیرت انگیز تبدیلی پیدا کرنے کی موجب یہ کتاب ہے ۔ جب تک اس قوم کو اس کتاب سے بیگانہ نہ کردیا جائے گا۔ ان کی مفاد پرستیاں محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔ چنانچہ مسلمانوں کو اس کتاب عظیم ۔ زندگی کے اس ضابطہ خداوندی سے بیگانہ بنانے کے لئے انہوں نے قسم قسم کی چالیں چلیں اور طرح طرح کےسازشیں کیں۔ کہیں اس کی محفوظیت کے متعلق دلوں میں شکوک پیدا کرنے کے لئے یہ قصہ وضع کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ایک مرتب کتاب کی شکل میں دے کر گئے ہی نہیں تھے ۔ یہ ہڈیوں ، ٹھیکریوں اور کھجور کے پتوں وغیرہ پر لکھا ہوا منتشر پڑا تھا ۔ اسے بعد میں مل جل کر کتابی شکل دی گئی اور وہ بھی اس طرح جس میں شکو ک و شبہات کے سینکڑوں قرائن موجود ہیں۔
کہیں کہا گیا کہ شروع میں اس کے حروف پر نقطے ہی نہیں تھے ۔ بعد میں لوگوں نے اپنے اپنے قیاس سے ان پر نقطے ( اور اعراب) لگائے۔ (نقاط اور اعراب کے فرق سے معانی جیں جس قدر فرق پڑ جاتا ہے ۔ عربی دان حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں) کہیں اس کی معنوی حیثیت کے متعلق کہا گیا کہ یہ بڑی مجمل کتا ب ہے ۔ جس سے کوئی بات متعین طور پر سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ اس کا مفہوم سمجھنے کے لئے بیسیوں قسم کے خارجی سہاروں کی ضرورت ہے۔
کہیں کہا گیا کہ اس میں سینکڑوں آیات ایسی ہیں جنہیں پڑھاتو جاتا ہے لیکن ان کا حکم منسوخ ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف بعض آیات ایسی بھی ہیں جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں لیکن ان کا حکم باقی ہے۔
کہیں یہ عقیدہ وضع کیا گیا کہ قرآن کے معانی سمجھنے کی ضرورت نہیں ، اس کے الفاظ دُہرا لینے سے ثواب مل جاتا ہے ۔ اگر کسی کو اس کے الفاظ بھی پڑھنے نہ آتے ہوں تو اس اس کی سطروں پر انگلی پھیر لیا کرے۔ اس بھی تلاوت کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے ۔ بغیر سمجھے نماز میں، قرآنی سورتوں کا پڑھ لینا ۔ تراویح میں قرآن شریف ختم کرنا ۔ جب کہ نہ پڑھنے والا اس کا مطلب سمجھے، نہ سننے والے۔ مُردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے قرآن خوانی ۔ سب اسی عقیدہ کے برگ و بار ہیں۔
اس سے آگے بڑھے تو اربابِ طریقت نے یہ نظریہ قائم کیا کہ قرآن کا حقیقی مطلب ، اس کے الفاظ کے لسانی مفہوم سے سامنے نہیں آسکتا ۔ اس کے باطنی معانی ہیں جو ارباب طریقت کے ہاں سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں ۔ قرآن کا مفہوم ان باطنی معانی کی رُو سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ ان باطنی معانی کی ایک جھلک سامنے آجائے تو انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوجائے کہ وہ کس طلسم ہوش ربا کی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔
اس سے یہ عقیدہ وضع ہوا کہ قرآنی حروف و الفاظ کے ورد، وظیفہ، نقش، تعویذ سے وہ کام لئے جاسکتے ہیں جن کا حصول دنیاوی اسباب و ذرائع سے ممکن نہیں ۔ اور طرفہ تماشہ یہ کہ ان کا نام ‘‘ اعمال قرآنی’’ رکھ دیا گیا ۔ اور ایسا کرنے والے عامل کہلانے لگے ۔ اور اگر کسی کے دل میں اس کے الفاظ کے معانی کو پیش نظر رکھ کر پڑھنے کا خیال پیدا ہوا۔ تو اس سے یہ کہہ دیا گیا کہ قرآن میں غور و فکر کی کوئی گنجائش نہیں اس کا جو مطلب سمجھا جاسکتا تھا ، وہ سمجھا جا چکا ہے۔ تم اسلاف کے بتائے ہوئے مفہوم سے ذرا بھی اختلاف نہیں کرسکتے ۔
یہ ( اور اس قسم کے دیگر کئی ایک ) حربے تھے جو مسلمانوں جیسی انقلاب آفریں جماعت قرآن سے دور اور بیگانہ رکھنے کے لئے وضع اور استعمال کئے گئے ۔ نتیجہ اس کا ہمارے سامنے ہے، وہی قوم جس نے اسی کتاب کی بدولت ، ہر باطل نظام کا تختہ الٹ کر رکھ دیا تھا ۔ آج انہی نظاموں کے علمبرداروں کے دروازوں پر بھیگ مانگتی دکھائی دے رہی ہے ۔ انہی سازشوں میں ایک سازش یہ بھی تھی کہ قرآن گاگا کر پڑھایا جائے ، گانے کا تعلق انسانی جذبات سے ہے۔ آپ کسی اعلیٰ موسیقی کو سنئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس دوران میں نہ گانے والا، عقل و فکر کی رو سے کسی بات کی طرف دھیان دے سکنے کے قابل ہوگا ۔ نہ سننے والے۔ اگر گانے والے کا دھیان ذرا بھی کسی اور طرف چلاجائے تو اس کاراگ بگڑ جاتا ہے ۔ اور اگر سننے والے کچھ اور سوچنے لگ جائیں تو موسیقی کی لذت سے بے کیف ہوجاتے ہیں، موسیقی میں سب جذبات میں گم ہوتے ہیں۔ اور اس دوران میں ان کی عقل و فکر کے (Switch Off) ہوتے ہیں ۔ موسیقی کا مقصد ہی یہ ہے کہ جب انسانی ذہن مسلسل سوچ بچار سے تھک جائے ، تو اسے کچھ وقت کے لئے سکون مل جائے۔ لہٰذا کسی چیز کو گا کر پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے متعلق غور و تدبر سے کام نہیں لے سکتا ۔ آپ اس کا خود تجربہ کرکے دیکھ لیں ۔ آپ کسی عبارت کو جھوم جھوم کر ، گا گا کر پڑھیں ، آپ دیکھیں گے کہ آپ جذبات سے لذت اندوز تو ہوں گے، لیکن ( اس دوران میں) اس کے مطالب و معانی پر غور و فکر نہیں کرسکیں گے ۔ اس کے برعکس ، آپ اسے نثر کی طرح پڑھیں ( یا کسی کو پڑھتے ہوئے سنیں ، خواہ آواز سے اور خواہ آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموشی سے۔ آپ اس کے مطالب کی گہرائیوں تک پہنچ سکیں گے۔
دین جب مذہب میں تبدیل ہوجاتا ہے تو اس کی کتاب سے ( جیسی کچھ بھی وہ رہ جاتی ہے) اس کے معتقدین کا تعلق جذباتی رہ جاتا ہے ۔ وہ ان کے لئے عملی زندگی کاضابطہ نہیں رہتی ، یہی وجہ ہے کہ ‘‘مذہبی کتابوں’’ کو عام طور پر گا کر پڑھا جاتا ہے ۔مندروں میں ویدوں کے منتر، گُرودواروں میں گُروبانی کے شبد ۔ گرجاؤں میں ‘‘خداوندی گیت’’ صومعو ں میں غزل الغزلات وغیرہ، گا کر پڑھی جاتی ہیں اور اس طرح عقیدت مندوں کے ‘‘جذبات کی تسکین ’’ کاسامان بہم پہنچا دیا جاتا ہے ۔ اسی جذباتی تسکین کا نام روحانی اطمینان یا ایشور پر ماتما سے لَو لگنا رکھ دیا جاتا ہے ۔ جب اس کی شدت سے جذبات بے قابو ہوجاتے ہیں تو اس کا مظاہرہ قوالی کی محفل ( سماع) میں ، وجد اور رقص کی شکل میں ہوتا ہے۔
اس سے یہ حقیقت سامنے آگئی ہوگی کہ مسلمانوں کو قرآن سے بیگانہ بنانے ( اور اس طرح دین کو مذہب کی سطح پر لے آنے) کے لئے جو سازشیں ہوئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ قرآن کو گا گا کر پڑھا جائے ۔ پھر جس طرح اس قسم کی ہر سازش کو تقدّس کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ۔فن قرآت پر بھی تقدس کی چادر چڑھادی گئی ۔
آپ نے اس پر غور کیا ہوگا کہ قرآن کریم نے ( فاتحہ الکتاب کے بعد) سب سے پہلی سورت کے ابتدائی الفاظ میں اپنا تعارف ذٰلِکَ الکِتابُ کہہ کر کرایا ہے ۔ اس نے کہا یہ ہے کہ یہ ایک کتاب ( ایک ضابطہ زندگی) ہے۔ اسے کتاب ہی کی حیثیت دینا ۔ اس سے الگ کچھ اور نہ بنا دینا ، اس کے بعد اس میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔ کہ یہ واضح عربی زبان کی ایک کتاب ہے جس میں جو کچھ کہا گیا ہے نہایت نکھرے او رابھرے ہوئے انداز میں کہا گیا ہے ۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ۔ التباس نہیں ۔ کوئی مشکوک بات نہیں، کوئی دعویٰ ظن و قیاس پر مبنی نہیں ۔ پھر ، اس میں بیان کردہ حقائق پر غور و فکر کی بار بار تاکید کی گئی ہے ۔ کیا ایک اچھی کتاب کی ایسی ہی خصوصیات نہیں ہوتیں؟ ( اور قرآن تو صرف ایک اچھی کتاب ہی نہیں، بے مثل کتا ب ہے) ۔ اس کے بعد یہ دیکھئے کہ کیا ہم نے اسے کتاب ہی سمجھا ہوا ہے یا کچھ اور بنا رکھا ہے؟ آپ سوچئے کہ :۔
(1) کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی کتاب کا ایک لفظ بھی آپ کی سمجھ میں نہ آیاہو ، اور اس کےباوجود آپ اُسے پرھتے یا سنتے رہیں؟ آپ کبھی ایسا نہیں کرتے۔
(2)کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی کتاب کے الفاظ ( یا جس فن سے وہ متعلق ہے اس کی اصطلاحات) کی رُو سے اس کے جو مطالب سامنے آتے ہوں، آپ انہیں مسترد کردیں اور یہ کہیں کہ ان الفاظ کے کچھ باطنی معانی ہیں اور انہی سے اس کا صحیح مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے؟
(3) کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی ڈاکٹری کی کتاب میں مندرج نسخوں کو کاغذ پر لکھ کر ، اور اسے گھول گھول کر مریضوں کو پلائیں ۔ یا انجنیئر نگ سے متعلق کتاب کے فارمولوں کو ٹھیکری پر لکھ کر ، گرتے ہوئے پُلوں کے نیچے دبادیں کہ اس سے وہ پُل مضبوط ہوجائیں گے؟
(4) کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ ضابطہ فوجداری کی شقوں کو گا گا کر پڑھیں ، اور کمرہ عدالت میں جج کے سامنے ، بھیرویں میں الاپیں کہ ۔ زانی مرد ہو یا عورت، انہیں سو سو کوڑوں کی سزا ملنی چاہئے ۔ ( 24:2)
جب آپ کسی او رکتاب کے ساتھ یہ کچھ نہیں کرتے، تو قرآن کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ اس نے خود اپنا تعارف یہ کہہ کر کرایا ہے کہ ۔ یہ ایک کتاب ہے۔ اس تعارف سےاس کا مقاصد یہ کہنا تھا کہ یہ تمہارے لئے زندگی کی رہنمائی کےلئے کتاب ہے۔ اسے کتاب کی طرح سمجھو ۔ اس پر غور و فکر کرو اور پھر اس کےمطابق زندگی بسر کرو۔
آپ سوچئے کہ کیا ہم نے اسے یہی حیثیت دے رکھی ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی سو چئے کہ:۔
(1) جس کثرت ، التزام اور اہتمام سے اس کتاب کو پڑھا جاتا ہے،
(2) جس قدر روپیہ اس کے الفاظ دہرانے پر صرف کیا جاتاہے،
(3) جس قدر دولت ، وقت ، توانائی ، اس کی آرائش و زیبائش کے لئے وقف کی جاتی ہے ۔ کیا دنیا کی کسی اور کتاب کے متعلق بھی ایسا کیا جاتا ہے؟ اور اس کے بعد اس حقیقت کو بھی سامنے لائیے کہ اس کتاب کےمفہوم و مقصود سے جس قدر ہم محروم ہیں، کیا اس کی مثال کہیں اور بھی مل سکتی ہے؟۔ اور پھر سوچئے کہ جن لوگوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ (أُولَٰئِكَ ) حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (18:105)۔ یہ وہ ہیں ۔ لیکن وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ( 18:104) ۔ وہ بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا ثواب کا کام کررہے ہیں ۔کیاہمارا شمار انہی میں نہیں ہوتا؟ (دسمبر 1968ء)
میں اللہ کا مشکور او رممنون ہوں کہ میری نصیحت کام کر گئی اب نتیجہ یہ نکلا کہ وہ باترجمہ قرآن لے آئیں اور اب زور زور سےنہیں پڑھتیں او رہم گھر والوں کو بھی بعض آیات کا ترجمہ سناتی ہیں ۔ میری آپ سب سے یہ التجاء ہے کہ آپ بھی اپنے گھر میں یہ کوشش کر دیکھیں انشاء اللہ اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔ جن کےاعمال اس قدر بے نتیجہ رہتے ہیں کہ ان کا وزن کرنے کے لئے قیامت میں میزان تک کھڑی کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
ستمبر 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/reciting-holy-qur’an-singing-manner/d/99144