جی ایم بٹ
چراغ راہ
زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے جس سے انسان ہمیشہ خو ف زدہ رہاہے ۔ یہ خوف آج تک قائم ہے ۔ انسان کے اس خوف کا اللہ نے بھی ذکر کیا ہے اور قیامت کی ہولناکی کو زلزلے سے جوڑدیا ہے ۔ قرآن میں صراحت کی گئی ہے کہ اس روز زمین ہلادی جائے گی ۔ زمین کے اس ہلانے سے سب کچھ تہس نہس ہوجائے گا ۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ، زمین پر جو کچھ بھی ہے سب ملیا میٹ کردیا جائے گا ،سمندروں میں آگ لگ جائے گی یہاں تک کہ آسمان بھی پھٹ جائیں گے ۔ یہ وہ منظر ہے جو قیامت کے روز بپا ہوجائے گا ۔ بلکہ قرآن نے اس دن کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اس سے بھی ہیبت ناک ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ انسانی دل و دماغ کو مائوف کرنے والا واقعہ ہے ۔ اس سے انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور بہت ہی خوفزدہ ہوجاتا ہے ۔ یہ وہ آفت ہے جس کے سامنے انسان بے بس ہوکر رہ جاتا ہے ۔
سائنس کے مطابق زلزلہ زمین کے اندر کچھ تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔ یہ تبدیلیاں کیونکر آتی ہیں ؟ اس سلسلے میں بعض تبدیلیوں کی وجوہات معلوم کی گئی ہیں جبکہ بعض تبدیلیاں تاحال انسان کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اس کے برعکس مذہب کے اندر زلزلے کی اپنی توجہات ہیں ۔ سائنسی وجوہات اپنی جگہ ، مذہب زلزلے اور دیگر قدرتی آفات کو انسان کی نافرمانیوں پر اللہ کی تنبیہ قراردیتا ہے ۔نیک لوگوں کے لئے یہ آزمائش ہے اور بدکاروں کے لئے اللہ کا غضب۔ زمین پر جب گناہ بڑھ جاتے ہیں تو اللہ انسان کو ان گناہوں پر ہوشیار کرنے یا کبھی سزا دینے کے لئے مصیبت نازل کرتا ہے ۔ اسی طرح کی ایک مصیبت زلزلہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علما ایسے مراحل پر لوگوں کو اللہ کے احکامات یاد دلاتے ہیں اور گناہوں سے توبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علماء اسلام زلزلے کو اللہ کے غضب اور انسانوں کی نافرمانی سے جوڑتے ہیں ۔ اگرچہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اللہ بعض قوموں کو ان کے گناہوں پر مصیبت میں گرفتار کیوں نہیں کرتا ہے اور بعض پر کیوں عذاب نازل کرتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی قومیں کھلے عام گناہ کرتے ہیں ۔ وہاں نیکیوں اور عبادات الٰہی کا کوئی اہتمام نہیں ہے ۔ لیکن انہیں اللہ نے کھلی ڈھیل دے رکھی ہے ۔ اس کے بجائے کئی جگہوں پر مقابلتاََ اسلام کا بول بالا ہے لیکن اللہ کی مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں ۔ پاکستان ، افغانستان ، ایران اور کشمیر میں پچھلے دس سالوں کے دوران سخت ترین سیلاب اور زلزلے آئے ، ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ۔
حالانکہ ان علاقوں میں بہ ظاہر عبادت کرنے والے زیادہ تعداد میں موجود ہیں ۔ اس کے بجائے جو قومیں اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں ، رسول ﷺ کی توہین کرتی ہیں اور دوسری بدیوں کا کھلے عام ارتکاب کرتے وہاں بہت خوشحالی ہے اور اللہ کے مصائب ان کو چھو کر بھی نہیں گزرتے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ فرق کیوں ہے ؟ پرانی نسل کے لوگ بہت سی چیزوں پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتے تھے ۔ انہیں کہا جاتا تھا کہ زمین بیل کے دو سینگوں پر کھڑی ہے اور بیل کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں ۔ وہ یہ بھی مان جاتے تھے ۔ اسی طرح کی اناپ شناپ باتیں کہی جاتی تھیں اور وہ مان جاتے تھے ۔ آج بھی کچھ مذاہب اسی طرح کی واہیات باتیں بتاتے ہیں ۔ ایسے مذاہب کے پیرو کار یہی خیال کرتے ہیں کہ زمین کسی کے کندھے ، سینگ یا ہاتھ پر رکھی ہوئی ہے ۔ اس کو تھامنے والا کبھی تھک جاتا ہے اور ادھرادھر ہلتا ہے جس سے بھونچال آتا ہے ۔ آج کی نسل یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ خاص کر اسلام میں ایسی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اسلام نے ایسے توہمات کی نفی کی ہے اور ٹھوس نظریات پیش کئے ہیں ۔ واقعی اسلام میں کئی ایسی باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے جن تک ہمارا علم پہنچا ہے نہ پہنچنے کا اندازہ ہے ۔ غیب کی ان باتوں پر ایمان لانا اسلام کی بنیادوں میں شامل ہے ۔سائنس اور اسلام کا نظام قدرت کے حوالے سے کوئی تضاد نہیں ہے ۔ اسلام کے بعض نظریات ابھی سائنسی تحقیقات کی پہنچ سے دور ہیں ۔ ایسے خیالات اپنے اندر غور و فکر اور تحقیق و تفتیش کا کافی سامان رکھتے ہیں ۔
لیکن مسلمانوں نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور یہ کام مغرب اور مغرب زدہ طالب علموں کے لئے رکھا ہے ۔ وہ لوگ اپنی ضرورت اور اپنے نظریے کے مطابق اپنی تحقیق کو ڈھالتے ہیں ۔ اس وجہ سے یہ علوم اسلام سے الگ ہوکررہ گئے ہیں ۔ مسلمانوں کے اندر چند گنے چنے علماایسے ہیں جو سائنسی تحقیق کواسلام کا حصہ قراردیتے ہیں ۔ لیکن علما کا بڑا طبقہ خاص کر مدرسوں کی اسناد رکھنے والے اساتذہ اس کو گناہ کبیرہ اور کفر کا حصہ قراردیتے ہیں ۔ یہ لوگ سائنسی تحقیق کی حمایت کرنے والوں کوعالم اور صحیح راستے پر ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ ان علما نے قدرتی آفات خاص کر سیلاب اور زلزلے کو بھی اسی زمرے میں لایا ہے ۔ یہ ان آفات کو لوگوں کی بداعمالی کا نتیجہ قراردیتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ سب سے زیادہ غضبناک اس وقت ہو تا ہے جب مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ آج کے زمانے میں مسلمانوں میں سب سے زیادہ تفرقہ بازی علما کے درمیان پائی جاتی ہے ۔مسلمانوں کے اندر شر انگیزیوںکو یہی لوگ ہوا دیتے ہیں۔ ہر ایسے عالم نے اپنا الگ حلقہ بنایا ہے اور دوسرے کی تکفیر کرتا ہے ۔ اگر سیلاب یا زلزلہ گناہوں کا شاخسانہ ہے تو اس سے بچنے کے لئے عام لوگوں کو نہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والے علما کو توبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہترین توبہ یہ ہے کہ علما باہم اتفاق و اتحاد کریں ۔ جب تک ایسا نہ ہوگا مسلمانوں پر قدرتی آفات کا نزول ہوتا رہے گا ۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/earthquake-lightening-again-fell-poor/d/105115