گوخان باسک
8 نومبر، 2015
تقریبا ایک صدی پہلے، دور عثمانی کے مسلم اسکالر سعید نورسی نے کہا تھا کہ اسلام کا مستقبل مغرب پر منحصر ہے۔
نورسی کے مطابق مسلم دنیا خاتمے کے کاگار پر تھی۔ اسی طرح یہ ایک قسم کا تہذیبی خاتمہ بھی تھا جو بنیادی طور پر اخلاقی اور سائنسی پہلوؤں کو بھی شامل تھا۔ اس دور کے بہت سے دوسرے علماء کرام کی طرح نورسی بھی ایک اہم سوال کے جواب کی تلاش میں تھے کہ: مسلم دنیا کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے؟ نورسی اس دانشورانہ کوشش میں تن تنہا نہیں تھا۔ بلکہ محمد عبدہ اور جمال الدین افغانی جیسے بہت سے دوسرے لوگ بھی اس میں شریک تھے۔
بہت سے دوسرے لوگوں کے برعکس نورسی کی تجویز مختلف تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ مغرب ایک نئے اسلام کو جنم دے گا۔ اس کے باوجود، نورسی کے مطابق ایک نئے اسلام کی پیدائش مسلمانوں کے مسائل کو دور کر سکتی ہے۔ کئی سالوں تک نورسی کے مقالہ کا تجزیہ ایک الہامی دلیل کے طور پر کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ نورسی کا مقصد عیسائیوں کے درمیان اسلام کو عروج بخشنا تھا۔ اس سے نورسی کی مراد کیا تھی؟
حال ہی میں، میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے شکاگو گیا تھا۔ وہاں میں نے سرہان تنریوردی سے ملاقات کی، جو اسی شہر میں لویولا یونیورسٹی سے مذہبی علوم میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔ سرہان تنریوردی طارق رمضان کی ہی طرح ان مغربی علماء پر ایک مقالہ لکھ رہے ہیں جو اسلام کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ سرہان تنریوردی کا کہنا ہے کہ مسلم دنیا میں ذہنی جمود و تعطل کو ایک ایسی نئی تشریح کی ضرورت ہے جسے صرف مغرب میں رہائش پذیر مسلمان دانشوروں نے پیش کی ہو۔ اس سے خود بخود نورسی کے مقالہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اسلام انتہائی بحران کی حالت میں مبتلا ہے۔ اس کے باوجود، پوری ایک صدی تک اسلام کی اصلاح کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ 2015 تک پوری مسلم دنیا آمرانہ حکومتوں کے تسلط میں آ چکی ہے۔ اس کے باوجود، ٹیکنالوجی جیسے مختلف مسائل میں مسلمانوں کا تعاون بہت کم ہے۔ لہذا، مسلمانوں کے بارے میں کیا یہ امید رکھنا بے سود ہے کہ وہ اپنے مسائل پر قابو پا لیں گے؟
لہٰذا، ہمارے سامنے بھی وہی مسئلہ ہے کہ: مسلم دنیا کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم دنیا کی موجودہ حالت سے بھی مسلم اصول کی عکاسی ہوتی ہے۔ لہٰذا، ابھی جو ہمارے سامنے ہے وہ بھی ایک دانشورانہ ناکامی کا نتیجہ ہے۔ لیکن آج صورتحال زیادہ نازک ہے: ترکی، لیبیا یا ملیشیا میں سیاسی اور دیگر حالات کو دیکھتے ہوئے، کیا کوئی مسلمانوں کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ایک نئے نظریہ کی پیدائش کی امید کر سکتا ہے؟ اسلامی فکر کی تجدید کے لیے ایک جدید سماجی اور دانشورانہ سرمایہ کی ضرورت ہے۔ کیا آج مسلمانوں کے پاس ایسی صلاحیت ہے؟
میں ذاتی طور پر سعید نورسی کی طرح سوچنا شروع کر رہا ہوں۔ سچ کہوں تو آج مشرق وسطی میں رہنے والے روایتی مسلمان اسلام کی تعمیر نو نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں اسلام کی تعمیر نو کے لیے جس سماجی، اقتصادی، سیاسی اور دانشورانہ سرمایہ کی ضرورت ہے وہ مسلمانوں کی روایتی آبادی میں موجود نہیں ہے۔ لہذا، منطقی استدلال بالکل آسان ہے: مغرب میں رہنے والے اسلام کا ایک ایسا نیا نظریہ تیار کر سکتے ہیں جو اسلام کی روایتی آبادی میں رہنے والے دوسروں کے لیے بھی معاون ہو سکتا ہے۔
روایتی مسلم جغرافیہ کے بیشتر حصے بقا کے علاقے بن گئے ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ سیکورٹی، غذائیت اور صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ترکی میں بھی مسلمان ایک اخبار عیاشی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یمن اور لیبیا جیسے بہت سے دیگر مسلم معاشروں کو گہرے سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ ایسی سماجی صورت حال میں دانشورانہ سرمایہ کاری ایک گراں قدر کوشش ہے جس کی کوئی سماجی بنیاد نہیں ہے۔ اس کے باوجود، ایسا کرنے کی کوئی سماجی اور دیگر صلاحیت نہیں ہے۔ مختصر میں، اسلام کا تاریخی مرکز مختلف علمی منصوبوں کے لئے اپنے ذہن کو کھولنے کی اپنی صلاحیت کھو چکا ہے۔ سادہ الفاظ میں، آپ یہاں ایسا نہیں کر سکتے!
اس طرح کے ماحول میں، مغرب میں رہنے والے مسلم دانشوروں مسلم دنیا کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک متبادل کے طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ جیسا کہ 10ویں اور 11ہویں صدی میں ہوا، مغرب میں رہنے والے مسلم دانشوران اسلام اور مغربی علوم کے درمیان ایک نیا ربط ترتیب دے سکتے ہیں جو کہ اسلامی دنیا کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ایک لازمی امر ہے۔
ماخذ:
goo.gl/KjQazn
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/said-nursi-future-islam-depends/d/105209
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/said-nursi-future-islam-depends/d/105225