New Age Islam
Thu May 15 2025, 07:29 PM

Urdu Section ( 7 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Future of Emotional Politics جذباتی سیاست کا مستقبل ؟

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

7 مئی 2025

جذباتیت جب انسانی عقل و شعور اور فکر و آگہی پر غالب آجاتی ہے تو پھر اس کے نتائج مایوس کن بر آمد ہوتے ہیں اور ایسا شخص یا گروہ کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے خواہ اس کا علاقہ کسی بھی مذہب و دھرم یا کسی بھی نظریہ سے ہو تو اس کی جنونیت اور جذباتیت اس عمل کو یقینی طور پر متاثر کرتی ہے ۔ عالمی سطح پر اگر ہم تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ کتنے ایسے منفی عوامل اور کارنامے انجام دیئے گئے اور بارہا ایسے کتنے فیصلے ہیں جو جذبات میں آکر لیے گئے ہیں ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ جذباتیت کے منفی اثرات ہر شعبہ حیات اور ہر عمل کو بری طرح متاثر کرتے ہیں ۔ عام طور پر لوگ مذہب کے نام پر یا پھر اپنے مفادات کے لیے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں ۔ مذہب کے نام پر جو جذباتیت پروان چڑھتی ہے وہ بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ بھارت جیسے ملک میں تو مذہب کے نام پر جذباتیت کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ یقینی طور پر بھارت کے ثقافتی تنوع اور رنگارنگی کو مجروح کررہا ہے ۔ لہٰذا جذباتی موقف کسی بھی معاملہ میں اختیار کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ جذباتیت کے عکس آج ہم کو مسلکی پہلوانوں میں بھی خوب دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ جو افراد مسلک کے نام پر سماج میں انتشار برپا کرتے ہیں وہ دراصل جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ خود ساختہ مصلحتوں اور محدود مفادات کے اسیر ہوتے ہیں ۔ مسلک کےنام پر جذباتیت اور جنونیت کا عالم یہ ہے کہ نام نہاد مسلکی ٹھیکیداروں نے کتنی کتابیں صرف اسی لیے ترتیب و تدوین کی ہیں کہ ہارا موقف صحیح ہے بقیہ جتنے بھی مسالک اس روئے زمین پر موجود ہیں وہ سب باطل اور قابل مواخذہ ہیں ۔ مسلکی جنونیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے دن اس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ دو مسلکی گروہوں میں باہم تصادم ہوا جس کے نتیجہ میں ضلع انتظامیہ کو دخل اندازی کرنی پڑی اور پھر مسجد میں تالا لگ گیا ۔ تصور کیجیے کہ دین کے لیے مسلک کے نام پر اس قدر جذباتی ہونے کا کیا مطلب ہے کہ مسجد ہی میں خود مسلمان تالا لگوا دیں ۔ بات در اصل یہ ہے کہ مسلک کے نام پر جو انتشار مسلم کمیونٹی میں نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب یہ طریقہ پوری طرح معاش سے وابستہ ہے اور ہر گروہ کے پاس اپنے اپنے مریدین اور معتقدین ہیں جس سے بڑے ٹھاٹھ سے ان مسلکی ٹھیکیداروں کی روزی روٹی چلتی ہے ۔ اس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب مسلک کے نام پر تنازع پیدا کرنے والے اور مسلم کمیونٹی میں تفریق ڈالنے والوں کو دین سے کوئی محبت نہیں ہے بلکہ انہیں فکر ہے تو اپنی روزی روٹی کی جو وہ مسلک کے نام پر حاصل کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ مسلک کے نام پر معاشرے میں جب بھی جنونیت اور جذباتیت کو فروغ دیا گیا ہے تو اس نے معاشرے میں بد امنی اور بد عنوانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی اقدار اور اسلام کی پاکیزہ و شفاف تعلیمات کو بھی متاثر کیا ہے ۔ مسلک کے نام پر تنازع میں ایک بنیادی خامی یہ ہے کہ ہر گروہ اپنے آپ کو معیار حق سمجھتا ہے اس لیے جب وہ کسی دوسرے مسلک سے اختلاف کرتاہے  تو وہ اس کو گناہ نہیں تصور کرتا ہے بلکہ وہ دین کا کام اور ثواب سمجھ کر انجام دیتا ہے ۔ بھلا بتائیے! تنازع اور تفریق کب سے دین اور کار ثواب ہوگیا اس بابت ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

ان بے جا اور غیر ضروری اختلافات  کی ایک تاریخ ہے جو سیاہ کارناموں اور غیر شعوری رویہ کے لیے جانی جاتی ہے ۔  مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ جنونیت اور جذباتیت کی جو بھی آج شکلیں پائی جارہی ہیں ان میں مسلک اور مذہب کے نام پر جنونیت بڑی نمایاں اور بھیانک ہے ۔ لہٰذا اس کے منفی اثرات سے پورے سماج اور خصوصاً نوجوانوں کو بچانا نہایت ضروری ہے ۔

جذباتیت اور جنونیت اب سیاست و حکومت کے نام پر بھی کی جارہی ہے ۔ جس طرح مذہب کے نام پر جذباتیت ، مسلک کے نام پر جذباتیت سماج کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح سیاست کے نام پر جذباتیت بھی بڑی مایوس کن ہوتی ہے ۔ آج جو لوگ بھارت جیسے تکثیری سماج میں جذباتی سیاست کررہے ہیں یا عوام کو سیاست کے نام پر جذباتیت کا شکار بنا رہے ہیں دونوں ہی سماج اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں  سد باب ہیں ۔ عوام جب جذباتیت کا شکار ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ارباب اقتدار کے کارناموں کے متعلق کوئی سوال نہیں کرتے ہیں ۔ کوئی سوال کرتا ہے تو ایسے لوگ ان کو بھی اچھا محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ موجودہ سیاسی صورتحال اسی کی غماز ہے ۔ حتیٰ کہ جذباتی سیاست کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی سؤال کرنے کی جرات کرتاہے تو اس کی حب الوطنی اور وطن دوستی کو مشکوک بنا دیا جاتا ہے۔  اس کردار کے ادا کرنے میں ذرائع ابلاغ یعنی  الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بڑا کردار ہے ۔ ارباب اقتدار پر تنقید کرنے اور ان کا مواخذہ کرنے سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوتا ہے بلکہ جمہوری اور آئینی ادارے بھی مستحکم ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہر ذمہ دار شخص سے سوال کرنا ضروری ہے تاکہ اس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور جس مقصد کے لیے وہ وہاں براجمان ہوا ہے اس کو پورے طریقہ سے انجام دے ۔ المیہ یہ ہے کہ اب تک عوام  کو مذہب و مسلک اور دین و دھرم کے نام پر استعمال کیا گیا اور اانہیں جذباتی بنایا گیا لیکن اب سماج کے ایک بنیادی اور اہم شعبہ سیاست کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور فلاحی اسکیموں کی بنیاد پر سیاست کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا ہے بلکہ زیادہ فائدہ ان سیاست دانوں کو مل رہا ہے جو سیاست کے نام پر عوام کو جذباتی بنا رہے ہیں یہ صورت حال صرف ہندو کمیونٹی کی نہیں ہے بلکہ مسلم کمیونٹی بھی اس سے کم نہیں ہے  یہاں بھی سیاست اور انتخابی ریلیوں میں ان نیتاوں کی تقریروں پر خوب تالیاں بجائی جاتی ہیں جو لچھے دار تقریر کرتے نظر آتے ہیں ۔

یہ ایسی صورتحال ہے جو کہیں نہ کہیں معاشرے اور اس کی روح کو کمزور کررہی ہے اس صورتحال سے فوری طور باہر آنے کی ضرورت ہے ۔ اس نظریہ کی سیاست نے انسانی حقوق تک کو بڑے پیمانے پر پامال کیا ہے اور کررہا ہے ۔

ہر شخص کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں وہ دور تعقل و تفکر اور تدبر پر مبنی ہے ۔ اب نظریاتی اور فکری طور پر انجام دیئے گئے اقدامات کا تو روشن اور تابناک مستقبل ہے یا ایسے کارناموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے جن میں انسانی حقوق اور سماجی فلاح و بہبود پر عمل درآمد کیا گیا ہو ۔ البتہ جو امور جذباتی اور جنونیت کے نام پر کائنات میں کہیں بھی اور کسی بھی کمیونٹی میں انجام دیئے جا رہے ہیں ان کا نہ کوئی مستقبل ہے اور نہ ان سے نوع انسانی کو فائدہ پہنچتا ہے، اسی وجہ سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج جس طرح کی سیاست کی جارہی ہے اس میں جذباتیت کا عنصر غالب ہے ۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس کا وقتی طور پر کچھ فائدہ ہوجائے مگر استمراری طور پر وہی نظریہ اور فکر فلاح پاتی ہے جس میں منطقی اور معقول انداز میں  مسائل پر غور کیا جائے اور ان کے حل کی متوازن سبیل نکالی جائے ۔ ایک ایسا ملک جو اپنے آپ میں متعدد تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے ۔ اس کا حسن اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ تنوع اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہے ۔ سیاست بھی اصولوں کے مطابق کی جائے ایسا نہ ہو کہ محدود مفادات کے لیے ہم سیاست کی تعبیر و تشریح اور اس کا مفہوم ہی بدل ڈالیں اور اس شعبہ حیات کو جذبات سے وابستہ کردیں ۔ اگر ارباب سیاست ایسا کرتے ہیں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جذباتی سیاست کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ہے ۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/future-emotional-politics/d/135457

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..