مشتاق الحق
احمد سکندر، نیو ایج اسلام
22 جولائی 2022
اسلام کی
ہمہ گیریت اور تکثیریت کو اس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام نے مقامی زبانوں کو
اپنایا، اس نے عربی زبان کو مختلف ممالک کے عام لوگوں پر مسلط نہیں کیا۔
اہم نکات:
1. جمعہ کے خطبے اور اذانیں
مقامی زبان میں دی جا سکتی ہے۔
2. نجات حاصل کرنے کے لیے عربی سیکھنے پر زور دینا
مسلمانوں کی ایک غلط ترجیح ہے۔
3. اقبال نے اجتہاد کی کوشش
کے طور پر مصطفی کمال اتاترک کے زمانے میں ترکی کے منصوبے کی حمایت کی۔
----
اسلام کی آفاقیت اور تکثیریت کا
اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے مقامی زبانوں کو اپنایا۔ اس نے عربی
زبان کو مختلف خطوں کے عام لوگوں پر مسلط نہیں کیا۔ چنانچہ مسلم دنیا میں بہت سی زبانوں
کو محفوظ کیا گیا، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ترقی دی گئی۔ درحقیقت فارسی، بطور
ایک زبان کے نئے مفتوحہ علاقوں اور جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے خطے میں
عربی سے زیادہ پھلی پھولی۔ عربی زبان کبھی بھی زبان نہیں بن سکتی، سوائے ان جگہوں کے
جہاں یہ بولی جاتی تھی۔ مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں یہ اشرافیہ اور علماء کی زبان
رہی ہے۔ درحقیقت ان میں سے اکثر علماء نے عربی کے بجائے اپنی مقامی زبانوں میں دین
لکھنا، اس کی تعبیر کی اور لوگوں تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کا ترجمہ دنیا
کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں ہوا۔ اس کے علاوہ دنیا کی مقامی، علاقائی، قومی اور
بین الاقوامی زبانوں میں اسلامی لٹریچر فروغ پاتا رہا۔
بہت سے مسلم معاشروں میں عربی سیکھنے
اور سکھانے کے لیے ایک تحریک چلی کیونکہ اسلام کے بنیادی مآخذ و مراجع عربی میں ہیں
اور انہیں سمجھنے کے لیے ان کی اصل زبان کو سیکھنا ضروری تھا۔ ان تحریکوں کے مرکزی
کرداروں کا یہ ماننا تھا کہ کہ عربی سیکھے بغیر اسلام کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ انہوں
نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ سخت کوششوں کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کے لیے عربی
سیکھنا ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ اسلام کا اصل مقصد آخرت میں لوگوں کو اور خاص طور پر
مسلمانوں کی نجات سے ہم کنار کروانا ہے۔ پس یہ اکثریت کی نجات سے مانع ہے جو انہیں
کفر اور مایوسی کی طرف واپس لے جاتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ عربی نہیں سمجھ سکتے تو یقیناً
وہ نجات کا راستہ نہیں جان سکتے، اور جہنم میں جانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ تحریکیں اور مہمات اس حقیقت
کو سمجھنے میں بھی ناکام رہیں کہ زیادہ تر مقامی زبانوں میں اسلامی مراجع و ماخذ کے
بڑے پیمانے تراجم نے لوگوں کو عربی زبان کو سمجھنے کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا ہے۔
اب علاقائی زبانوں میں یعنی اردو میں بھی اسلامی لٹریچر کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے
کہ عربی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو مسلمان اصل ذرائع سے اسلام کے بارے میں جاننے میں
دلچسپی رکھتے ہیں وہ روایتی کتابوں کے ساتھ ساتھ عصری اسلامی مصنفین کی کتب سے بھی
رجوع کر سکتے ہیں جو کہ مختلف اسلامی موضوعات پر بڑی تیزی کے ساتھ کتابیں منظر عام
پر لا رہے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اسلام کو جاننا چاہتے ہیں اور اپنی نجات کی راہ ہموار
کرنا چاہتے ہیں وہ یقیناً اسلام کے بارے میں اردو ادب پر انحصار کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں، ایک عالم نے مشورہ
دیا کہ اذان مقامی زبان (ہندی) میں دی جانی چاہیے، تاکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر
مسلم بھی اسے سمجھ سکیں۔ یہ ایک درست تجویز تھی کیونکہ نہ صرف غیر مسلم بلکہ زیادہ
تر مسلمان بھی اذان کے معنی کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہندوستان میں بہت سے لوگوں کے لئے،
یہ خدا کے بجائے اکبر اعظم، مغل شہنشاہ کی تعریف ہے۔
اس اقدام کی بہت سے علماء نے اس
حقیقت کو سمجھے بغیر مخالفت کی کہ اسلام کا مقصد نجات کا حصول ہے اور نماز کے معنی
کو سمجھ کر ہی اسلام کی اصل روح کو سمجھا جا سکتا ہے جو بالآخر نجات کی راہ ہموار کرے
گی۔ لہٰذا عربی میں اذان، مقامی زبان میں اس کے معنی کے ساتھ بھی دی جا سکتی ہے جس
سے یقیناً اسلام کا پیغام زیادہ اثر انگیز اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ یہ یقینی طور پر ہندوستان
میں بین المذاہب تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔
مقامی زبان میں اذان کی یہ بات
کوئی نئی نہیں ہے کیونکہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترک قوم پرستی کے منصوبے کے
طور پر مصطفی کمال اتاترک نے عربی کے بجائے ترکی میں اذان رائج کرنے کی کوشش کی۔ اتاترک
کے پاس ایسے اقدامات کرنے کا سیاسی منصوبہ تھا جو عربوں کے لیے نفرت سے بھرے ہوئے تھے،
اس لیے اس کا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ لیکن ڈاکٹر محمد اقبال، جو شروع میں
اس ترک منصوبے سے بہت متاثر ہوئے تھے، انہوں نے اس کی حمایت کی (The
Reconstruction of Religious Thought in Islam, The Principle of Movement in the
Structure of Islam، کتاب بھون، نئی دہلی، 2003، P-160-161)۔ مسلمانوں کی نمازیں
یقینی طور پر عربی کے بغیر مکمل ادا نہیں کی جا سکتی ہیں لیکن ترجمہ، معنی کو سمجھنے
میں یقیناً مدد کر سکتا ہے۔
جمعہ کے خطبات کا بھی یہی حال ہے۔
انہیں مقامی زبانوں میں دیا جا سکتا ہے کیونکہ بہت سے علماء مثلاً امام اعظم ابو حنیفہ
اور ان کے دو شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد دونوں کہتے ہیں کہ امام جمعہ کا خطبہ
مقامی زبانوں میں دے سکتا ہے، اگر وہ عربی میں ماہر نہ ہو۔ لہٰذا عربی کے علاوہ دوسری
زبانیں بھی استعمال کی جاتی ہیں اور ان میں عوام الناس کو اسلام کے حقیقی مفہوم اور
روح کو سمجھایا جا سکتا ہے، کیونکہ اسے صرف مقامی زبان میں ہی بہتر طور پر پہنچایا
جا سکتا ہے، عربی میں نہیں جسے مسلمانوں کی اکثریت سمجھ نہیں سکتی۔
English
Article: Friday Sermons and Call for Prayers in Local Language
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism