New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:47 AM

Urdu Section ( 18 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Are The Followers Of 'Hindutva' Champions Of Justice? عدل کے علم بردار’ہندوتو‘ کے پیروکار؟

سراج نقوی

13دسمبر،2024

مودی حکومت میں عدلیہ کا معیار کہاں پہنچ گیا ہے، اس کااندازہ حالیہ چند واقعات سے لگایاجاسکتاہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھریادو نے وشوہندوپریشد کے ایک پروگرام میں مسلمانوں کے تعلق سے جو انتہائی ہتک آمیز تبصرہ کیا اسے دوہرانا صرف خود کو ذہنی اذیت دینے کے مترادف ہوگا۔سوشل میڈیا کے اس دور میں عوام تک یہ تبصرہ کئی روز پہلے ہی پہنچ گیا ہے۔لیکن یہ تبصرہ اس ملک کی عدلیہ میں بڑھتے ہوئے فرقہ پرست عناصر کا ثبو ت ہونے کے ساتھ ساتھ فاشزم کی طرف بڑھتے ہمارے جمہوری نظام کے قدم میں کچھ ججوں کی باقاعدہ شمولیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔اسلئے کہ جسٹس شیکھر جس تنظیم یعنی وشوہندوپریشد کے پروگرام میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اس میں ان کا حاضری ہی عدلیہ کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس پروگرام میں شرکت کے لیے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں او راگر ہوتی ہے تو یہ اجازت جسٹس یادو نے لی تھی یا نہیں، لیکن جسٹس شیکھر کے اس قدم کو ترغیب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سے ملی ہوگی، اس کامجھے بڑی حد تک یقین ہے۔

ظاہر ہے جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جیسے عدل و انصاف کے بلند ترین منصب پر فائز کوئی جج وزیراعظم کو اپنے گھر بلا کر پوجا پا ٹھ کرسکتاہے او را س کاویڈیو وائرل ہونے پر عدلیہ کے وقار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خاموشی اختیار کرسکتاہے تو پھر جسٹس شیکھر ہی ہندوتو وادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وشوہندوپریشد کے پروگرام میں جانے سے کیوں گریز کرتے اور مسلمانوں کے خلاف منافرت آمیز تبصرے میں حکمراں جماعت کے لیڈران سے پیچھے رہتے؟ جب سپریمکورٹ چیف جسٹس آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنے فیصلے ’بھگوان‘ سے پوچھ کر کرتاہے ہو تو جسٹس یادو وشوہندوپریشد کے پروگرام میں نہ جاکر بھگوان کو ناراض کیوں کرتے؟

جسٹس یادو ہوں یا پھر سابق چیف جسٹس چندر چوڑ، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے نزدیک آئین وقانون اورایک جمہوری نظام کے تحت ملک کے ہر شہری کو بلا تفریق مذہب وملت انصاف فراہم کرانے کی ذمہ داریاں اب ثانوی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔ یہ لوگ اس بات کا کسی مصلحت کے تحت بھلے ہی اعتراف نہ کریں کہ اب جمہوری کو ہندوتو کے رہین منّت رہنا ہوگالیکن ان کا عمل اس کا ثبوت پیش کرتاہے۔ جسٹس شیکھر نے وشوہندو پریشد کے مذکورہ پروگرام میں جس طرح صاف طور پر کہاکہ اب ملک کو اکثریت کی امنگوں یا خواہشات کے مطابق چلنا ہوگا، اسے جمہوریت کے قتل کی سمت ایک قدم نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ملک کی مختلف عدالتوں میں بیٹھے ہوئے جج جس طرح ہندوتو کے منافرتی، شجرکی اپنے فیصلوں سے آبیاری کررہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کیا جھجھکنا کہ جمہوریت کا سب سے مضبوط ستون یعنی عدلیہ کے بہت سے جج بھی اب ہندوتو کے کارندے بن کر انصاف کا خون کررہے ہیں۔ مساجد اور درگاہوں کے سروے کامطالبہ کرنے والی عرضیوں پر ججوں کے فیصلے اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ ا س کاقطعی یہ مطلب نہیں کہ پوری عدلیہ نے ہی حق وانصاف پر مبنی فیصلے دینے سے منھ موڑلیاہے، یہ بہر حال سچ ہے کہ عدلیہ کا بڑا حصہ اب ہندوتو کے رنگ میں رنگ چکاہے۔جہاں تک جسٹس یادو کے مذکورہ تبصرے کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ نے اس معاملے کااز خود نوٹس لے کر الہ آباد ہائی کورٹ سے تفصیلات طلب کی ہیں۔

دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ایوان میں اس معاملے پربحث کامطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں نے جسٹس یادو کے خلاف تحریک مواخذہ لانے کی کوشش بھی شروع کردی ہیں۔ کانگریس کی ایماء پر شروع کی گئی اس تحریک کے حق میں اب تک راجیہ سبھا کے تیس ممبر ان پارلیمنٹ دستخط کر چکے ہیں۔ حالانکہ جس طرح پارلیمنٹ میں اب تک اپو زیشن کی آواز کو دبا یا جاتا رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان تقریباً نہیں کے برابر ہے۔ لیکن جہاں تک حکمراں جماعت کا تعلق ہے تو اس کے لیڈروں کی زہر افشانی کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگلنے والے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کی رائے یا کوئی تبصرہ آنے سے قبل ہی جس طرح جسٹس یادو ے تبصرے کا دفاع کیاہے وہ شرمناک ہے۔ گری راج سنگھ کاکہنا ہے کہ ’جسٹس شیکھر یادو جی نے جو بیان دیا ہے وہ 200فیصد درست ہے۔ اس میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں (بیان) دے رہے تھے، کس اسٹیج پر تھے۔ وہ ایک صحیح اسٹیج تھا۔ عزت مآب جسٹس شیکھر نے کورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے“۔

گری راج سنگھ کی اس دلیل کو سوائے منھ زوری اور اقتدار کے زعم کے او رکیاکہا جاسکتا ہے؟ انہیں یا تو ملک کے آئین و قانون کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے یا پھر اس آئین اور قانون کا احترام ان کے دل میں نہیں ہے۔معاملہ یہی ہے کہ بی جے پی او رہندوتو وادی تنظیموں نے آئین اور قانون کو مذاق بنادیاہے۔ کیا یہ مانا جاسکتاہے کہ ایک جج عدالت سے باہر کسی مذہب یا فرقے کے تعلق سے جو رائے دے رہاہے اورجو موقف پیش کررہا ہے، اسے اپنے عدالتی فیصلو ں سے الگ رکھے گا؟اس معاملے میں کچھ ججوں کے فیصلے تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے آئین ا ورقا نون پر ہندوتو وادی نظریات کو ترجیح دی اور فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بڑھاکر ملک کے عدالتی نظام کو بھی شرمسار کیا۔سنبھل کی جامع مسجد اوراجمیر کی درگاہ پرعدالتوں کا رویہ کیا قانون کے مطابق ہے؟ کیا سابق چیف جسٹس چندرچوڑ کے ذریعہ گیان واپی مسجد کے سروے کی راہ ہموار کرنا قانون کے مطابق تھا؟ جب کہ عبادتگاہوں سے متعلق 1991 ء میں پاس قانون کیا اس کی اجازت نہیں دیتا اور اس قانون کے خلاف عرضیوں پر کوئی فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا۔ گری راج سنگھ کہتے ہیں کہ جسٹس یادو جس اسٹیج سے بیان دے رہے تھے وہ ایک صحیح اسٹیج تھا؟ لیکن ایک متنازعہ تنظیم کے اسٹیج کو درست کیسے کہا جاسکتاہے؟ ایسی کسی تنظیم کے پروگرام میں کسی ہائی کورٹ کے جج کی شرکت کو درست کس طرح ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ گری راج سنگھ کے ذریعہ جسٹس یادو کے تبصرے کا دفاع ہی اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ جسٹس یادو کا تبصرہ ہندوتو کے ایک کارندے کے تبصرے کے مترادف تھا، جب کہ ایک جج ہوتے ہوئے انہیں نہ تو وشوہندو پریشد کے پروگرام میں شرکت کرنی چاہئے تھی اور نہ ہی ایسا کوئی تبصرہ کرناچاہئے تھا کہ جو آئین وقانو ن سے متصادم ہو، لیکن جس ذہن میں ’ہندوراشٹر‘ کا تصویر انگڑائی لے رہاہو، اس کے لیے موجودہ آئین قابل احترا م کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے یہ بات غیر اہم ہے کہ وشوہندو پریشد کے اسٹیج پر ہے یا عدالت میں اس طرح کے موضوع پر کوئی فیصلہ سنارہا ہے۔

13 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/followers-hindutva-champions-justice/d/134058

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..