Maulana Abul Kalam Azad was one of India’s greatest leaders of the twentieth century. He was the pioneer of Urdu journalism with his newspapers Al Hilal and Al Balaagh, was known for his great oratoratorial skills, was a writer with a distinct style and a farsighted statesman who did not subscribe to the idea of Pakistan. Maulana Azad's association with Bengal particularly Calcutta is of great importance. He was born in Makkah and shifted to Calcutta with his parents when he was 11. Maulana Azad's father Maulana Khairuddin originally belonged to Calcutta but had migrated to Saudi Arabia during the tumultuous period of 1857 Revolt.
Among the leaders of the freedom movement and post Independence India, Maulana Azad had carved out a niche for himself. He was the first Education Minister of Indepent India. He made his political and journalistic debut from Bengal. He was among the leaders who together prevented the division of Bengal. He worked with the stalwarts of Bengla like Surendrananth Banerjee, Prafulla Chandra Roy, Bipin Chandra Pal, Arobindo Ghosh and others. During the Swadeshi Movement, he even delivered lectures from the Town Hall. In his article written in Urdu Mr Firoz Bakht Ahmad takes a detailed look at Maualan Azad's life and political career in Bengal.
URL: https://newageislam.com/urdu-section/abul-kalam-struggle-independence-calcutta/d/2913
فیروز بخت احمد
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ اس صدی کی ان عظیم ترین شخصیتوں میں ایک تھے جن کے نام سے یہ صدی پہچانی جائے گی۔ اس دور کی کوئی ادبی ،علمی، صحافتی اور سیاسی تاریخ ایسی نہیں لکھی جاسکتی جس کے اوراق مولانا آزادؒ کےگوناگوں کارناموں کے ذکر سے خالی رکھے جاسکیں۔مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کا ایک اٹوٹ ناطہ رہا ہے صوبہ مغربی بنگال اورخاص طور پر کلکتہ سے ۔ مولانا کی پیدائش 11نومبر 1888میں مکہ میں ہوئی تھی ۔ جب مولانا گیارہ سال کے تھے تو وہ اپنے والد مولانا خیرالدین کے ساتھ سعودی عرب سے ہندوستان آئے اور کلکتہ میں بس گئے۔ یوں تو مولانا کے والد مولانا خیر الدین کا قیام کلکتہ میں ہی تھا مگر 1857کے دوران کشمکش میں سعودی عرب چلے آئے۔
ہندوستان کی قومی زندگی اور تحریک آزادی کے رہنماؤں میں مولانا آزادؒ ایک اعلیٰ اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں ۔ مجاہد آزادی مولانا آزاد ؒکی ایک صاحب تراش ادیب، بے باک مفکر اور قومی رہنما ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بھی رہے ہیں۔ آپ کی تاریخ ساز اور تابناک زندگی میں علم کا پہلو سب سے نمایا ہے۔ مولانا آزادؒ نے اپنی زندگی کی سیاسی وعلمی شروعات مغربی بنگال سے ہی کی۔
مولانا آزادؒ کے ساتھ ان کے ایک بڑے بھائی اور تین بڑی بہنیں بھی ہندوستان تشریف لے آئے ۔کلکتہ آکر مولانا آزادؒ نے کئی جگہ سکونٹ اختیار کی۔ یوں تو مولانا کی صحافتی زندگی کا آغاز کلکتہ میں ‘‘الہلال ’’، ‘‘ البلاغ’’ ،‘‘آزاد ہند’’ وغیرہ روزناموں سے قبل دیگر اخبارات ورسائل میں ہوچکا تھا مگر ان کا جادو صحیح معنوں میں ‘‘الہلال ’’، ‘‘البلاغ ’’ میں ہی سر چڑھ کر بولا ۔ جہاں تک ان دونوں اخباروں کا تعلق ہے، ان کی اشاعت اس وقت ہوئی جب مولانا آزادؒ رپن اسٹریٹ میں رہنے لگے۔بعد میں یہ اخبار پارک لین سے شائع ہونے لگے ۔ جب مولانا آزادؒ کو 19اے بالی گنج سرکولر روڈ کا مکان کرایہ پر ملا کہ جس میں آج کل ان کا میموریل بھی قائم ہے، وہ وہیں سے ان اخباروں کی طباعت واشاعت کرنے لگے ۔ مولانا آزاد ؒ کا ذہن انقلابی طبعیت کا تھا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے وہ بڑے کوشاں تھے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بنگال کے متعدد بنگالی برہمن رہنماؤں سے تاریخ جد وجہد آزادی ہند کے تعلق سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ باقاعدگی کے ساتھ ایک مہم مغربی بنگال سے شروع کی ۔ شعلہ بیان بنگالی مقرر شیام سندر چکر ورتی ،اربند وگھوش ، چندنجن داس، سریندر ناتھ بنرجی، بین چندرپال وغیرہ سے بھی استفادہ کیا۔ ان کا مشن مغربی بنگال میں اس لیے کامیاب رہا کیونکہ وہ روانی سے بنگالی بولتے تھے اور اس کے ساتھ اردو عربی وفارسی پر بھی دسترس حاصل تھی۔ ان کی کامیابی کا ایک اور راز یہ تھا کہ انہوں نے بے شمار رسائل واخبارات سے جڑ کر مغربی بنگال میں جد وجہد آزادی ہند کا بیڑا اٹھایا ۔مغربی بنگال کے تعلق سے سریندر ناتھ بنرجی سے مولانا کی گاڑھی چھنتی تھی۔ مولانا بسااوقات سریندر ناتھ بنرجی کے رپن کالج تشریف لے جایا کرتے تھے جہاں وہ تاریخ کے استاذ تھے۔ سریندر ناتھ بنرجی اور مولانا آزادؒ نے مل کر بنگال کی تقسیم کو روکا اور کئی مرتبہ انہوں نے سودیشی موومنٹ کو بڑھاوا دینے کےلئے کلکتہ ٹاؤن ہال سے تقاریر بھی کیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بنگالی رہنما پرفل چندر رائے سے بھی مولانا کے کافی فراسم تھے۔ پرفل چندر انقلابی تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ ایک تعلیم داں اور سائنس داں بھی تھے۔ اس کےعلاوہ ان کا تعلق نیل رتن سرکار سے بھی تھا جو پیشہ سے تو ایک ڈاکٹر تھے مگر ساتھ ہی ساتھ زبردست سماجی کارکن بھی تھے۔ یہ مولانا کی کوشش ہی تھی کہ جس کی مدد سے نیل رتن کے ساتھ میں ایک میڈیکل کالج بھی بنالیا تھا۔
مولانا آزاد ؒ کا کافی وقت رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ بھی گزرا ۔ٹیگور سے انہوں نے ڈٹ کر لکھنا سیکھا ۔ یہی نہیں ٹیگور سے بھی مولانا نے جدوجہد آزادی ہند کے لئے استفادہ کیا۔ جب انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے مل کر ‘‘لکھنؤ پیکٹ ’’ (1916) کی بنیاد ڈالی تو اس میں بڑے بڑے لیڈران جیسے اپنی بسنت اور بی۔جی۔تلک کا اہم رول تھا۔ اسے مولانا نے کچھ اچھے انداز سے نہیں لیا ۔مولانا آزادؒ اس راضی نامہ پر بالکل بھی متفق نہ تھے کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح کے سیاسی گٹھ جوڑ وں سے آگے چل کر ملک وقوم کو نقصانات ہی ہوئے ۔مولانا کی یہ بات اس وقت بالکل ٹھیک ثابت ہوئی جب 1919میں امرتسر میں جلیاں والا باغ میں بے شمار بے گناہ ہندوستانیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مولانا آزاد ؒ کو اے ۔کے ۔فضل الحق کامسلم لیگ سے جڑنا بھی بھلا نہیں لگا۔ ادھر شاما پرساد مکھرجی اور فصل الحق بھی ایک دوسرے کی حمایت کرنے لگے ۔ اسی دوران ہندو مہاسبھا کی جڑوں کو تقویت پہنچانے کے لیے ویر ساور کر بھی اس مشن میں ساتھ ہولیے ۔اپنی کتاب ‘‘ماڈرن انڈیا : وی اور یجنس آف ایشین ڈیمو کریسی’’ (Modern India: The Origins of Asian Democracy) میں جو ڈتھ ایم ۔براؤن نے رقم کیا ہے کہ مولانا آزادؒ ایسا ہندو مسلم یگا نگی والا پلیٹ فارم چاہتے تھے کہ جس کی بنیاد انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے نہیں بلکہ انہیں ہندوستان سے باہر بھگانے کےلئے ڈالی جائے۔ یہ انہی دنو ں کاذکر ہے کہ کئی پارٹیوں کا قیام عمل میں آیا جیسے فارورڈ بلاک ، کرشک پرجا پارٹی وغیرہ ۔ جب 19مارچ 1940کو حسین سہر وردی مسلم لیگ کے کچھ ورکرس کو لیکر لاہور پہنچے تو ساتھ میں 22مارچ کو فضل الحق بھی لاہور جا پہنچے اور محمد علی جناح سے ہاتھ ملا لیا ۔بقول ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری، مولانا آزاد ؒ کا مغربی بنگال میں یہ دور بڑی آزمائش کا دور تھا۔باوجود اس کے کہ ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ جوکہ بنگال کا پارٹیشن چاہتے تھے اور مولانا کے سخت ترین مخالف تھے ،اس بات کا اعتراف کرتے تھے اور اس میں ان کےدوست خواجہ نظام الدین (وزیر اعظم :غیر تقسیم شدہ بنگال) بھی شامل تھے کہ مولانا آزادؒ بڑی خصوصیات کے مالک تھے ۔مولانا کے گیر یکٹر کی جس خاص خوبی سے وہ مرعوب تھے، وہ یہ تھی کہ اپنے مخالف کوکبھی وہ برا بھلا کہنا جانتے ہی نہیں تھے۔ مولانا کے متعلق مسلم لیگ یا اس کے رہنماؤں ودیگر لوگوں نے کیا کچھ نہیں کہا، ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا لیکن ایک مرتبہ بھی کسی نے کبھی مولانا کی زبان سے قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خاں یا مسلم لیگ کے متعلق بدگوئی سنی ہی نہیں ۔ ان میں اس قدر وسعتِ ظرف تھی کہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی غیبت کرتے تھے ۔ مغربی بنگال میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی سب سے بڑی یاد گار مولانا آزاد ؒ میموریل ہے جو ان کی رہائش گاہ پر ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میموریل کی اپنی ایک الگ ہی تاریخ ہے۔ یوں تو یہاں مولانا کرایہ پر ہی رہتے تھے مگر مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ فارایشین اسٹڈیز کی کاوشوں سے اس کی بازیابی ہوئی اور اسے نورالحسن ،مہاویر سنگھ ، ویر یان شاہ، گوپال کرشن گاندھی ،احمد سعید ملیح آبادی ، راقم وغیرہ کی کوششوں سے بھی کافی سہارا ملا ۔مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے تعلق سے کلکتہ میں گزری ان کی زندگی کے بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں۔ راقم کے والد مرحوم نورالدین احمد نے ایک مرتبہ مولانا کی خود داری کے تعلق سے ایک بہت فکر انگریز واقعہ سنایا تھا ۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ مولانا آزادؒ اپنے 19اے بالی گنج سرکلر روڈ والے مکان میں رہ رہے تھے کہ یکایک مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو ان سے ملاقات کرنے آگئے جد وجہد آزادی ہند اس وقت عروج پر تھی۔
مولانا اس وقت کچھ تحریر کررہے تھے۔کاندھے پر سے ان کا کرتہ پھٹا ہوا تھا۔ پنڈت جی کی جب ان پر نظرپڑی تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا ‘‘مولانا صاحب ،اگر کسی قسم کا مالی بحران ہے تو بلا جھجک عرض کریں’’۔مولانانے نگاہ اٹھاکر اوپر دیکھا اور ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ،‘‘پنڈت جی! آپ کی ذرہ نوازی کا بہت بہت شکریہ مگر ا س وقت مجھے کسی چیز کی کوئی قلت نہیں ۔’’یہ وہی مکان ہے کہ جس میں مولانا کا ‘‘الہلال ’’ و‘‘البلاغ’’ اخبارات کی طباعت کرنے والا جرمن ٹائپ کا اردو پریس بھی لگا ہواتھا ۔ کچھ عرصہ قبل ماہنامہ ‘‘دین دنیا’’ کے ایڈیٹر ارشد فہمی سے پتہ چلا کہ وہ پریس بہت بری حالت میں ان کے پاس آیا جس کو محفوظ کرانے کے لیے انہوں نے مختلف منسٹریوں، میوزیموں و جدوجہد آزادی سے متعلق اہم مقامات پر فون بھی کئے مگر نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش ۔ ہمدرد یونیورسٹی میں بھی کوشش کی گئی کہ اس پریس کو بطور ایک نادر شے کے نمائش کے میوزیم میں رکھو ادیا جائے جس کے لئے اس وقت وہاں کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ایس ۔ اے۔ علی نےرضا مندی بھی ظاہر کی مگر نہ جانے پھر بعد میں کیا ہوا کہ وہاں بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخر کار اس پریس کو کھول کر لوہے کے مول فروخت کردیا گیا۔ کچھ یہی حالت ہے خود مولانا آزاد ؒ کی ہے کہ جنہیں ہر سرکار کے ذریعہ نظر انداز کردیا گیا ہے۔ موجودہ منسٹروں میں سے سوائے پروفیسر سیف الدین سوز کے کسی کےدفتر میں بھی مولانا آزاد ؒ کی تصویر دکھائی نہیں دیتی ۔کلکتہ میں مولانا آزاد ؒ نے شعر وشاعری سے بھی ناطہ جوڑا۔ شاید کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ مولانا آزادؒ کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا تھا۔ بقول ڈاکٹر حلیمہ فرودس ،صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ آر ۔ سی ۔سی ۔کالج ،بنگلور ،یہ عبدالواحد خاں کی صحبت کا اثر تھا کہ ان کے دل میں شاعری کا شوق جاگا۔ اس زمانہ میں ‘‘گلدستوں ’’ میں شائع شدہ غزل کا کوئی مصرع بطور طرح طبع آزمائی مصرع کے لئے دیا جاتا تھا ۔1990کے اوائل میں مولانا نے طرحی مصرع پر ایک غزل لکھی جس کے شائع ہونے پر مولانا پر تعریف کے ڈونگر سے برسنے لگے۔ ان کی پہلی غزل کے اشعار میں وہی لگے ۔ ان کی پہلی غزل کے اشعار میں وہی طمطراق ،وہی دبدبہ ، وہی بے خودی موجود تھی جو آخر ی دم تک مولانا کی فطرت کا حصہ رہی ۔ اس غزل کے دوشعر ملاحظہ ہوں:
زاد بے خودی کی نشیب وفراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسماں کی
گنبد ہے گردباد تو شامیانہ گرد
شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی!
یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آج کلکتہ میں سوائے مولانا آزاد میوقریل کے ان کی کوئی دیگر یادگار نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل کلکتہ میں گوپال کرشن گاندھی، گورنر مغربی بنگال اور پروفیسر مشیر الحسن نے راقم سے مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ایشین اسٹڈیز کی سالانہ گورننگ باڈی میٹنگ میں وعدہ کیاکہ مولانا آزاد ؒ کے اوپر ایک ایسی فلم بنائی جائے گی کہ جس میں ان کی سیاسی، صحافتی، علمی ،دینی وذاتی زندگی پر روشنی ڈالی جائے گی۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/abul-kalam-struggle-independence-calcutta/d/2913