فضل ہادی
10 جنوری، 2013
ہمارے معاشرے میں جب کسی بھی
لڑکی کی شادی کا ذکر کیا جاتاہے تو سب سے پہلے ذہن میں جو خیال آتا ہے وہ جہیز ہے جس کی لعنت نے آج پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا ہے اور ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ بھاری بھر کم جہیز کے بغیر والدین کیلئے اپنی بیٹی کاہاتھ پیلے کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔ جہیز
کی لعنت ہمارے مسلم معاشرے میں ایک ایسی لعنت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس کا علاج
آسان نہیں ، نہ جانے کتنی جوانیاں جہیز پورا کرنے کے انتظار میں بابل کی دہلیز پر
بڑھاپے تک جا پہنچتی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے
میں جہاں ہر روز غیرت کے نام پر بہن، بیٹی
کے قتل کی خبریں عام ہیں وہاں جہیز کے معاملے
پر ہماری غیرت بالکل بے خبری کی چادر اُوڑھ
کر سو جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ بعض اوقات تو یہاں
تک دیکھا گیا ہے کہ جہیز کی آگ شادی پر مگر افسوس کہ آج مرد حاکم ہو کر اپنے مقام و
منصب کے خلاف عورت کے سامنے سائل و ذلیل ہوتا
ہے مال کے اعتبار سے عورت کا مرد پر حق ہے اور مرد کا عورت پر کسی طرح کا مالی مطالبہ
شریعت میں ہر گز جائز نہیں یہ سراسر بد اور
غیروں کی تقلید ہے۔ کچھ لوگ کھل کر مانگتے تو نہیں مگر نسبت طے کرنے
میں اس کا بخوبی لحاظ کرتے ہیں کہ ایسی جگہ نسبت ہوکہ جہاں جہیز زیادہ ملنے کی امید
ہو، چنانچہ کبھی امید کے بر خلاف کم جہیز ملتا ہے تو سخت ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے اس طرح کالالچ بھی شریعت میں سخت
مذموم ہے۔
لڑکے والے شادی کے بعد بھی
طرح طرح کے مطالبے کرتے ہیں اور اگر ان کو پورا نہ کیا جائے تو لڑکی کی زندگی کو ایک
بار پھر لعن طعن اور آزمائشوں کی دریا سے گزرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ کبھی کبھی جہیز
نہ دینے پر لڑکی کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے ۔ دیہات میں تو اکثر و بیشتر چولہے پھٹ جانے کے بہانے لڑکی کو زندہ جلا کر مار دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک دوسری جہیز کا بندوبست کیا
جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اللہ کے چار عذاب ہیں جو انسان خوشی سے قبول کرتا ہے وہ سود،
غیبت، جھوٹ او رجہیز ہیں۔
اس زمانے میں تو غور کرنے
والی بات تو یہ ہے کہ قرآن اور سنت میں جہیز کی رسم کو برا قرار دیا گیا ہے اور حقیقت
یہ ہے کہ اسلام اس طرح کے تمام رسوم پر پابندی لگاتا ہے اور مذکورہ رسم تو کسی طرح سے بھی اسلامی تعلیمات کی روسے جائز نہیں اور
اس رسم سے حاصل ہونے والی رقوم سے کھانا پینا
کسی طرح بھی حلال نہیں ۔ اسلامی تعلیمات کی
روشنی میں تو شادی کے موقع پر بیٹی کے باپ
کاایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس ضمن
میں اگر قرآن و حدیث پر عمل کیا جائے تو اتنی نا انصافی ، غیر اسلامی روایات
اور ظلم دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ ہماری دین میں قانون سے بالاتر نہیں، لیکن قانون
کے نفاذ میں ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہے یہ ذکر کرتے ہیں خلفائے راشدین
کا اور ان کی حرکتیں اس کے منافی ہیں۔
شادی سادگی اور خوشی سے طے
ہونی چاہئے مگر جہیز کی لعنت سے غریب والدین شدید پریشان ہوتے ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش
کو رحمت سمجھنے کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں
۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز کی رسم کے خلاف
سیاسی اور مذہبی سطح پر مہم آغاز کیا جائے ۔جہیز مانگنے سے بھیک مانگنا بہتر ہے اگر لڑکی سے
جہیز کے بجائے شرم وحیا اور احترام مانگا جائے تو ہمارے معاشرے کیلئے بہتر ثابت ہوسکتا
ہے ۔
جہیز کی لعنت پر قابو پانے
کیلئے ایسے سخت قوانین وضع کئے جائیں جس سے
جہیز کے لین دین کو روکنا ممکن ہوسکے۔ اس ضمن میں لڑکے کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ہرلڑکا
اپنی شادی کے وقت یہ کہہ دے کہ اُسے لڑکی والوں سے کچھ نہیں چاہئے تو
اس رسم کے ختم ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے
۔ لڑکی کے گھر والوں کو بھی اس بات کا احساس
کرنا پڑے گا کہ اگر آج وہ اپنی بیٹی کو جہیز دینے سے انکار کردیں تو کل ان کی بہن
بیٹی بھی آسانی سےاپنے پیا گھر سدھارے گی
اور دوسروں کی بھی ۔ مہنگائی کے اس دور میں جتنی
جلدی ہوسکے، جہیز کی لعنت کو ختم کرنا چاہئے ۔ اس میں ہمارے اور ہمارے معاشرے
کی بھلائی ہے۔
10 جنوری، 2013 بشکریہ : روز
نامہ آزادی ، پاکستان
URL: