درسی کتب اور عسکریت پسندی
فواد علی شاہ
26 جنوری، 2016
اب انہو نے بڑی بے رحمی کے ساتھ یونیورسٹی کے طالب علموں کو قتل کر دیا۔ اس قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟ منتخب حکومت یا سیکورٹی انتظامیہ؟ کیا حکومت اس سانحے کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات اٹھا سکتی تھی؟ کیا اس نے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے؟ یہ ایسے چند سوالات ہیں جو باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد پیدا ہوئے ہیں، اور نیشنل ایکشن پلان (این اے پی)کے نفاذ کی جانچ پڑتال چل رہی ہے۔ این اے پی کے تحت حکومت نے عسکریت پسندی پر قابو پانے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور مدارس کی اصلاحات کا آغاز کرنے کا حل پیش کیا تھا۔ لیکن جب این اے پی کے نفاذ کی بات آتی ہے تو فوج کے کردار اور عوامی حکومت پر اکثر بحث و مباحثے کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف فوجی کارروائیوں اور فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت انگیز تقریر کو روکنے کے لئے چند کوششوں تک ہی محدود ہے۔
عسکریت پسند پیدا کرنے میں مدارس کے کردار پر متعدد آوازیں اٹھائی گئی ہیں۔ تاہم، زیادہ تر لوگ اس سلسلے میں سرکاری اسکولوں کے کردار پر خاموش ہیں۔ حکومت پاکستان درسی کتابوں سے پیدا ہونے والی موضوعیت اور ثقافتی تشخص سے انکاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پبلک سیکٹر میں تعلیمی اصلاحات کے لئے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ پاکستان اسکولوں کی نصابی کتاب میں پیش کیے گئے مضامین کے باریک تجزیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی کتابیں ایسے نظریات اور ثقافتی تشخص کو جنم دیتی ہیں جو حکومت کے بجائے تحریک طالبان پاکستان کے نظریات کے حامی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عسکریت پسندی کو بنیاد فراہم کرنے میں پاکستانی اسکولوں کا بھی اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا پاکستانی مدارس کا۔ ہمارے ایک خاص نظریہ، ثقافت اور قومی تشخص کو مضبوط بنانے کے لیے نصابی کتابوں میں آزادی کے بعد واقع ہونے والے مختلف واقعات کو منظم طریقے سے ایک خاص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے مواد کو اس نداز میں پیش کیا گیا ہے جو طالب علموں کو حاشیہ پر کر دیتے ہیں اور ان کے اندر دیگر سماجی گروپوں کے تئیں معاندانہ رویہ پیدا کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی نصابی تبدیلی اب بھی اسی طرح برقرار ہے۔ ان تبدیلیوں کے دو اہم مقاصد تھے: 1) پاکستانی نظریے کی حیثیت سے اسلام کی ایک مخصوص تشریح کو تقویت فراہم کرنا؛ 2) ایسے نظریہ ساز پیدا کرنا جو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف اور کشمیر میں بھارت کے خلاف محاذ قائم کر سکیں۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمہوری حکومتیں ہماری نصابی کتابوں میں شائع ہونے والے تخریبی نظریہ کے بارے میں الجھن اور انکار کی صورت حال میں ہیں۔ اپنی سرکاری گفتگو میں حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں ایک روشن خیال اور اعتدال پسند معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے، جس میں پاکستان کے تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے اور جہاں بنیاد پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم نواز شریف نے 2014 کی اپنی ایک تقریر میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کو ایک ایسا ملک بنایا جائے گا جہاں اقلیتوں کو مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہوں گے۔ تاہم، مذہبی بنیاد پرستی اور عسکریت پسندوں کے تئیں ریاست کی عوامی پالیسی میں ایک انقلابی تبدیلی کے باوجود، ہمارے نصابی کتابوں کے مضامین میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ پاکستانی کو بار بار ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو غیر مسلم پاکستانیوں کو مساوی حقوق دیئے جانے کے قابل نہیں سمجھتا ہے یا نہیں اچھا انسان شمار نہیں کرتا ہے۔
ہمارے نصابی کتابوں میں ایسے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کا ثقافتی تشخص پاکستانی غیر مسلموں سے مختلف ہے۔ ان میں دین کی ایک مخصوص تشریح پیش کی گئی ہے اور اسے ملک کا نظریہ قرار دیا گیا ہے، تاکہ یہ پیغام پہونچایا جا سکے کہ پاکستان صرف مسلمانوں کے لئے بنایا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں مذہب کو ایک ‘‘جامع نظام حیات’’ کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے جس میں ہماری ثقافت اور قومیت کا تعین کیا گیا ہے، اور اس طرح پاکستان کی قومیت سے یہاں کے غیر مسلموں کو خارج کر دیا گیا ہے۔ ان کتابوں میں بمشکل ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ابواب ہوں گے اور درسی کتب ملک کی ترقی میں مختلف فرقوں اور برادیوں کے تعاون کے بارے میں خاموش ہیں۔
پرویز ہود بھائی اور عبدالحمید نیئر (1985) نے خبردار کیا تھا کہ اگر معاشرتی علوم کی نصابی کتابوں کی اصلاح نہیں کی گئی اور غیر مسلموں کو غیر بنانے اور ان پر تسلط قائم کرنے کے عمل کو روکا نہیں گیا تو اس کے نتیجے میں ایک ایسا تعلیمی نظام قائم ہو جائے گا کہ جب اسکول جانے والے بچوں کی موجودہ نسل عمر دراز ہوگی تو پوری صدی اس کے اثرات کو محسوس کیا جائے گا۔ وہ حق بجانب تھے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ صفورا گوٹھ قتل عام کو انتہائی تعلیم یافتہ دہشت گردوں نے انجام دیا تھا۔
مدرسوں کو الحاق کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ اب ہمارے لیے خواب غفلت سے بیدار ہونے اور تعلیمی نظام میں اصلاحات کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ ہم ہر چیز کے لئے جنرل ضیاء اور سابق فوجی حکمرانوں پر الزام نہیں لگا سکتے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) گزشتہ آٹھ سالوں سے اس ملک پر حکمران ہے۔ کیا اصلاحات پیدا کرنا یا کم از کم اس معاملے پر اپنا موقف واضح کرنا ان کا کام نہیں ہے؟ ہمارے نصابی کتاب ان دہشت گرد درندو کی تخلیق میں اتنا ہی کردار ادا کر رہے ہیں جتنا ہمارے مدارس۔ جب تک حکومت اس بات کا احساس نہیں کرتی تب تک ہم اے پی ایس اور چارسدہ میں رونما ہونے والے واقعات جیسے سانحات کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔
ماخذ:
tribune.com.pk/story/1034668/textbooks-and-militancy/
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/pakistan-studies-textbooks-peddle-talibani/d/106129
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/discourse-narrated-pakistan-studies-textbook/d/106145