فاروق ارگلی
13 اکتوبر، 2014
ہندوپسماندہ طبقات اور ملک
کے عظیم رہنما آنجہانی جگ جیون رام جب مسلمانوں کے کسی اجتماع سے خطاب کرتے تو اکثر
کہا کرتے تھے: ’’اسلام دُنیا میں مساوات اور انسانی برابری کا پیغام لے کر آیا تھا
مگر ہندوستان آکر اس کا دامن بھی اُونچ نیچ کی کالک سے داغدار ہوگیا ہے۔‘‘یہ ایک غیرمسلم
سیاستداں کا تجزیہ ہے جو ہمیں برصغیر کی مسلم تاریخ اور سماجی پس منظر میں جھانکنے
پر مجبور کرتا ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے کہ اس سرزمین پر دینِ حق کی روشنی دلق
پوش فقیروں اور صوفیوں کے ذریعہ پہنچی اور اسلام کے اس آفاقی پیغام نے کفر و ضلالت
اور جبر و استحصال کے ماحول میں انقلاب برپا کردیا کہ خالقِ کائنات کی نظر میں ہر انسان
یکساں ہے، عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے اس کے کہ وہ اچھا
انسان ہو۔ اسلام کے پیغامِ مساوات نے اس سرزمین پر بسنے والے کمزوروں اور ظلم و ستم
کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کی دُنیا بدل کر رکھ دی۔ لیکن شاید اس ملک میں صدیوں
سے چلی آرہی اُونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم اس قدر طاقتور تھی کہ طاقت کے نشے میں چور،
دنیوی اقتدار کے خواہاں مسلم فاتحین نے اسلام کی اس انقلابی تعلیم کو فراموش کردیا
جس نے انھیں اس قابل بنایا تھا کہ دُنیا پر غالب آجائیں مگر اسلام ان کے لیے فتح و
کامیابی کا نشان بھر رہ گیا۔ اللہ، رسول اور قرآنی احکام محض شناخت اور نعروں کی آواز
بن ہوگئے، اسلامی تعلیمات عمل کے لیے نہیں سیاست کا وسیلہ رہ گئیں۔ صاحبِ اقتدار طبقے
بالادست ہوئے تو زیردست کمزور اورحقیر ہوگئے۔ ہندوستان کے قدیم برہمنی نظام میں بڑی
کشش تھی جس نے اسلامی انقلاب کوبھی اپنے نرغے میں لے لیا۔
یہاں برہمن اور کشتری اعلیٰ
و ارفع تھے، ویشیہ تیسرے درجے پراور شودر ان تینوں طبقوں کے غلام، جانوروں کی طرح بالادستوں
کی خدمت کے لیے استعمال کی جانے والی مخلوق، جسے انسان ہوتے ہوئے بھی انسانوں کی طرح
جینے کا حق نہیں تھا۔ مسلم فاتحین بھی ایک حد تک اسی رنگ میں رنگ گئے۔ بادشاہ، امراء،
جاگیردار اوپر ہوگئے، باقی مسلمان نیچے سمجھے جانے لگے۔ منوسمرتی کے ورن بھید کا جادو
سر چڑھ کر بولاتو حاکم طبقہ اعلیٰ قرار پایا، ہنرمند اور پیشہ ور طبقے خدمتگار اور
زیردست بن گئے۔ عربی النسل سیّد اور شیخ برہمنوں کی طرح قابلِ احترام بن گئے، تلوار
باز ترک،مغل اور پٹھان مسلمانوں کے ’کشتری‘ بن کر اینڈنے لگے، اور وہ دبے کچلے لوگ
جنھیں اسلام کے دامانِ رحمت میں پناہ ملی تھی، انھیں پیشوں اور برادریوں میں بانٹ کر
ہمیشہ کے لیے کم ذات بنادیا گیا۔ جولاہے، کنجڑے، قصاب، لوہار، نجّار، درزی،نائی، دھوبی
ہر پیشہ کی مناسبت سے منسوب طبقوں پر بالادستوں کی حاکمیت خدائی قانون کی طرح نافذ
ہوگئی۔ پسماندہ ذات، ارزال اوراشراف کی اصطلاحوں کو علماء، صلحاء، مدبرین اور مفکرین
تک نے تسلیم کیااور اسلامی اصولِ مساوات پر منوسمرتی کا طبقاتی نظام حاوی ہوگیا۔قوموں
اور ملتوں پر گزرتے ہوئے ادوار بدلتے ہوئے موسموں کی طرح ہوتے ہیں۔ برطانوی اقتدار
کے خلاف ہندوستانیوں کی تحریکِ آزادی نئے موسم کی دستک تھی جس نے ہر طبقے، ہر ذات اور
ہر برادری کو جگادیا۔
احساسِ کمتری کی نیند ٹوٹی تو سبھی
زیردست اپنے اپنے جتھیداروں کے پرچم تلے لشکرِ آزادی میں برابر سے شریک ہوگئے۔ ملتِ
اسلامیہ ہند کے 85 فیصد زیردست، پسماندہ اور ارزل کہے جانے والے طبقات میں سب سے بڑے
طبقے یعنی کپڑا بننے والے پارچہ بافوں، جولاہوں اور بنکروں نے ولی اللّٰہی تحریکِ حریت،
سیّداحمد شہیدؒ کی جہدِ آزادی اور انگریزی استعمار کے خلاف تاریخ ساز وہابی تحریک سے
لے کر تحریکِ خلافت اور کانگریس کی فیصلہ کن جدوجہد تک جو مؤثر کردار ادا کیا وہ ہندوستان
کی تاریخِ آزادی کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔ صدیوں سے پسماندہ رہنے والے بنکر سماج نے
اپنے با حوصلہ رہنماؤں کی قیادت میں مومنانہ شان کے ساتھ ملک و ملت کی نصرتوں کے پرچم
لہرائے اور خود کو نہ صرف ’مومن‘ و ’انصار‘ کے محترم القابات کا سچا حقدار ثابت کیا
بلکہ آزاد ہندوستان میں دینی، علمی، وطنی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر مسلمانانِ
ہند کا ترقی یافتہ اور نمایاں طبقہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ مومن و انصار برادری
کی ترقی اور کامیابی میں اس کے اکابر رہنماؤں کی تاریخ ساز قیادت نے بنیادی کردار ادا
کیا ہے جن میں ایک اہم رہنماکا نام نامی ہے، مجاہدِ آزادی جناب عبدالقیوم انصاری، جن
کے جوش و جذبے اور حکیمانہ سیاسی و سماجی فراست نے صدیوں سے زبوں حالی کا شکار بنکر
برادری کو نئے انقلاب سے ہمکنار کردیا۔
یوں تو ملک کی تحریکِ آزادی
میں کروڑوں مسلم عوام اور لاتعداد مسلم رہنماؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور عظیم
المثال قربانیاں پیش کی ہیں لیکن جناب عبدالقیوم انصاری کی ذاتِ گرامی اس لحاظ سے نہایت
اہم ہے کہ انھوں نے بیک وقت دو محاذوں پر نبردآزمائی کی اور دونوں میں کامیابی حاصل
کی۔ وہ ملک کی تقسیم چاہنے والی مسلم لیگ کے مخالف ایک پرخلوص قوم پرست کانگریس رہنما
کے طور پر انگریزی استعمار سے لڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کو اُونچا اُٹھانے کے لیے
بھی زندگی کی آخری سانس تک متحرک، فعال اور سرگرم رہے۔ اور اس طرح وہ نہ صرف مومن و
انصار جماعت بلکہ تمام ملتِ اسلامیہ کے لیے بھی دائمی فخروناز کا مرکز بن گئے۔سرکردہ
کانگریس رہنما، آل انڈیا مومن کانفرنس کے روحِ رواں اور پرجوش مجاہدِ آزادی جناب عبدالقیوم
انصاری کا تعلق علمائے صادق پور کی اس انقلابی جمعیت سے تھا۔ ان سرفروش علمائے کرام
کی جدوجہد کو تاریخ میں ’وہابی تحریک‘ کا نام دیا گیاجو درحقیقت مسلمانانِ ہند کا وطن
کی آزادی کے لیے مقدس جہاد تھا۔ صوبہ بہار کی انقلاب آفریں سرزمین کے ہزارہا فرزندان
اسلام نے جہادِ آزادی میں لازوال قربانیاں پیش کیں جن میں عبدالقیوم انصاری کا خانوادہ
بھی شامل تھا۔ انصاری صاحب کے جدِّاعلیٰ حضرت شیخ شاہ عالم صاحب شہنشاہ ہمایوں کی حکومت
میں چکلہ دار کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔بادشاہ آپ کی شجاعت، دیانت اور دینداری سے
بیحد متاثر تھے۔
آپ بوجہ ضعیفی شاہی خدمت سے سبکدوش
ہوکر اوّلاً اپنے وطن اکبرپور اور بعدہ‘ اپنی آباد کردہ بستی نولی (ضلع غازی پور، یوپی)
میں اقامت اختیار کی۔ اس دور سے لے کر انقلاب 1857ء تک اس خاندان کے افراد کاشتکاری
اور تجارت سے وابستہ رہے۔ قرب و جوار میں یہ گھرانہ ہمیشہ بااثر اور معزز رہا۔
1876ء میں یہ خاندان سون ندی کے کنارے واقع ڈہری آن سون (نزد قصبہ سہسرام، ضلع شاہ
آباد، بہار) آکر آباد ہوگیا۔عبدالقیوم انصاری کے والد مولوی عبدالحق ایک خوشحال تاجر
اور بااثر انسان تھے، ان کے نانا حضرت مولانا عبداللہ غازیپوریؒ جید عالمِ دین اور
خدارسیدہ بزرگ تھے، ان کی والدہ محترمہ صفیہ خاتون حافظۂ قرآن اور عالمہ فاضلہ خاتون
تھیں۔ انصاری صاحب کی ولادت ڈہری آن سون میں یکم جولائی 1905ء کو ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی
تعلیم اپنی والدہ اور نانا جان کے زیر سایہ حاصل کی۔ وہ اس قدرذہین تھے کہ آٹھ سال
کی عمر میں انھوں نے اُردو، عربی، فارسی اور دینیات میں خاصی دستگاہ حاصل کرلی۔
1913ء میں ڈہری آن سون کے مڈل اسکول اور اس کے بعد سہسرام کے ہائی اسکول میں داخلہ
لیا۔ انھیں نصابی تعلیم سے زیادہ اخبار بینی اور حالاتِ حاضرہ سے آگاہ رہنے کا شوق
تھا۔ وہ تحریکِ آزادی کا طوفانی دور تھا، بارہ تیرہ سال کی عمر سے ہی وطن کی آزادی
کا جذبہ ان کے دل میں انگڑائی لینے لگا تھا۔ 1919ء میں جب وہ صرف چودہ برس کے تھے،
ان کی غیرمعمولی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی دوران مولانا محمد
علی جوہرؔ خلافت تحریک کے سلسلے میں سہسرام تشریف لائے۔
آزادیِ وطن کے جذبے سے سرشارطالب
علم عبدالقیوم مولانا محمد علی جوہرؔ جیسی عظیم انقلابی شخصیت سے ملاقات کرتا ہے، اس
ہونہار بچے کی گفتگو اور چہرے پر جھلکتا ہوا اقبال مولانا کے دل کو چھوُ جاتا ہے۔ وہ
اُسے بخوشی خلافت تحریک کا مجاہد بنا دیتے ہیں۔ 1920ء میں پندرہ سالہ عبدالقیوم ڈہری
آن سون خلافت کمیٹی کے جنرل سیکریٹری بن جاتے ہیں اور اسی سال وہ کانگریس کے خصوصی
کلکتہ اجلاس میں صوبہ بہار سے ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب
جلیانوالا باغ کے خونیں سانحے نے ہندوستانیوں کے دلوں میں آگ لگادی تھی۔ اجلاس میں
پرجوش کارکنوں نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی تجویز پیش کی لیکن گاندھی جی نے صبر
و تحمل اور اپنے نظریۂ عدم تشدد کا دامن نہیں چھوڑا۔ اسی اجلاس میں عبدالقیوم انصاری
مہاتما گاندھی سے ملے۔ گاندھی جی اس کمسن مجاہد سے بیحد متاثر ہوئے تو دوسری طرف عبدالقیوم
پر گاندھی جی کی تعلیمات اور شخصیت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ تاحیات مہاتما گاندھی کے
معتقدرہے۔ تحریکِ آزادی کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال شاید موجود نہیں ہے کہ اتنی چھوٹی
سی عمر میں وہ بڑوں کے برابر سمجھدار اور سرگرم مجاہدِ آزادی بن گیا ہو۔
ایک پختہ کار سیاسی ورکر کی
طرح عبدالقیوم نے گاندھی جی کی تحریک سول نافرمانی میں حصہ لیا۔ بیٹے کی سیاسی سرگرمیوں
کا اثر ان کے والد کے بزنس پر پڑاجو انگریزوں اور ان کے ہمنواؤں کی کمپنیوں کے ساتھ
جاری تھا، لیکن بیٹے کے باغی ہونے کی وجہ سے ان سے تجارتی تعلقات ٹوٹ گئے جس سے جناب
عبدالحق کا کاروبار بھاری خسارے سے دوچار ہوگیا۔ لیکن انھوں نے آزادی کی راہ پر بیٹے
کو آگے جانے سے نہیں روکا بلکہ ہمت افزائی کی۔ ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے پڑے، تلاشیاں
ہوئیں لیکن ان کے چہرے پر شکن نہ آئی۔ شاید یہ ان کے بزرگوں کی قربانیوں کا اثر تھا
جن کے قصّے سینہ بہ سینہ چلے آتے تھے، وطن کی آزادی کو ان کے بزرگوں نے ایمان کا جز
سمجھ کراپنا خون بہایا تھا۔1921ء میں گاندھی جی نے سول نافرمانی اورٹیکس ادا نہ کرنے
کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ سوال پیدا ہوا کہ کس مقام سے اس کا آغاز کیا جائے۔ بہار
کے سرکردہ کانگریس لیڈر بابو راجندر پرشاد چاہتے تھے کہ اس ستیاگرہ کا آغاز ڈہری آن
سون سے ہو کیونکہ پورے صوبے میں یہ مقام سیاسی بیداری اور عوامی جوش کا مرکز تھا۔ اس
موقع پر ڈہری آن سون کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے عبدالقیوم انصاری
نے راجندر بابو سے مل کر ستیا گرہ ڈہری آن سون سے شروع کرنے کی تجویز زوردار طریقے
سے پیش کی تھی۔ راجندر بابوبھی ان سے بہت متاثر تھے، لیکن سردار پٹیل بضد ہوگئے کہ
ستیا گرہ باردولی سے شروع ہونا چاہیے۔
آخر میں فیصلہ باردولی کے لیے ہوا
اور سردارپٹیل کو یہ نیک نامی حاصل ہوگئی۔فروری 1922ء میں پولیس نے عبدالقیوم کو ان
کی باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کرلیا۔ لیکن سہسرام ضلع جیل کی بدترین سختیاں
اُنھیں دل شکستہ نہیں کرسکیں۔ اس کے برعکس وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ارادوں کے ساتھ آزادی
کی لڑائی میں نمایاں ہوئے۔ اسی جدوجہد کے دوران کچھ برسوں تک انھوں نے علی گڑھ اور
کلکتہ میں آگے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ کا انگریز نواز ماحول انھیں پسند
نہیں آیا۔تو کلکتہ جاکر انھوں نے تعلیم جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن پڑھنے لکھنے سے
زیادہ وہ سیاست میں سرگرم رہے۔ تب تک ان کا شمار ایسے پرجوش سیاسی کارکنوں میں ہونے
لگا تھا جو وطن کی عزت و وقار کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار تھے۔تاریخ شاہد ہے کہ
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے ناپاک قدم جمانے کے بعد سب سے پہلے یہاں کی
بڑی صنعتوں کو تباہ کیا۔ ہندوستانی کپڑے کی صنعت اس وقت دُنیا بھر میں مشہور تھی اور
اس کا بڑا حصہ مسلمان بنکروں کے ہاتھ میں تھا۔ 1857ء کے بعد تو خاص طور پر اسی طبقے
کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہندوستانی کاریگروں کا مال باہر بھیجنے پر پابندی لگادی
گئی۔یہاں کے بازار مانچسٹر کی ملوں کے تیار کپڑوں سے بھر دیئے گئے۔ انگریز کی اس سازش
کا شکار سب سے زیادہ مسلمان بنکر برادری ہوئی اور وہی انگریز کی سب سے زیادہ مخالفت
میں پیش پیش رہی۔ 1913ء میں کلکتہ میں مومن تحریک کا آغاز ہوا جس کے بانیوں میں زیادہ
تر بہاری اصحاب تھے۔ مولوی عاصم بہاری ایک حریت پسند عوامی رہنما تھے جن کی قیادت میں
یہ تحریک بڑی تیزی سے بنگال، بہار اور ملک کی دوسری ریاستوں میں پھیلی۔
دراصل یہ صدیوں سے کچلے گئے بنکر
سماج میں ایک نئے انقلاب کا آغاز تھا۔ چند سال تک یہ تحریک ایک سماجی تنظیم جمعیۃ المومنین
کے طور پر آگے بڑھتی رہی۔ عبدالقیوم انصاری اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی کانگریس،
تحریک خلافت اور مومن تحریک سے وابستہ تھے۔ لیکن تیسری دہائی کے بعد جب عبدالقیوم انصاری
اپنے وسیع ترین نصب العین کے ساتھ مومن تحریک کے قائد بنے تو یہ ایک مضبوط سیاسی طاقت
بن کر ملکی منظرنامے پر اُبھری۔ ان کے ذہن میں گاندھی جی کی شبیہ تھی جوان دلتوں اور
ہریجنوں کے حالات بدلنے کے لیے کوشاں تھے جنھیں اعلیٰ ذات کے ہندو سماج نے ذلت اور
پسماندگی کا شکار بنارکھا تھا۔ انصاری صاحب نے تحریکِ آزادی کی تمام تر سرگرمیوں کے
ساتھ ساتھ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو سماجی انصاف دلانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔
وہ ملک کی تقسیم کے خلاف تھے، اس لیے مسلم لیگ سے انھیں فطری طور پر نفرت رہی جو علیحدگی
پسندی کے نعرے لگاکر مسلمانوں کو ورغلا رہی تھی۔ جس وقت عبدالقیوم انصاری سیاست کے
میدان میں نمایاں ہوئے تو بقول پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری۔(جاری)
13 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:https://www.newageislam.com/urdu-section/reformer-thinker-statesman-freedom-fighter-part-1/d/99484