فاروق ارگلی
11 ستمبر، 2014
آصف علی کی سماجی خدمات دہلی کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ تمام تر سیاسی اور ذاتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ کم و بیش دو دہائیوں تک دہلی میونسپل کمیٹی کے ممبر بھی منتخب ہوتے رہے۔ آصف علی صاحب نے ہی سب سے پہلے دہلی میونسپل قوانین میں تبدیلی و اصلاح کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے اس وقت جو تجاویز پیش کی تھیں، انہی کی روشنی میں آزادی کے بعد دہلی میونسپل کارپوریشن کی تشکیل ہوئی۔ آج دہلی ملک کی راجدھانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خودمختار ریاست ہے۔ دہلی کو باقاعدہ ریاست بنانے کا خاکہ بھی آصف علی صاحب کی ہی دین ہے۔
انگریز حکومت نے ایک بار تعمیرنو کے نام پر فصیل بند شہر کو مسمار کردینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس ناپاک منصوبے کی مخالفت میں آصف علی صاحب کا ’دلّی بچاؤ‘ ستیا گرہ اور ان کی گرفتاری اس لیے تاریخ ساز ثابت ہوئی کہ اس کے بعد وال سٹی کو چھیڑنے کی کوشش انگریز حکومت نے کبھی نہیں کی۔ البتہ 1976ء میں سنجے گاندھی نے اسی طرح کی کوشش کی تھی جو ترکمان گیٹ کے ہنگامے کے بعد ناکام رہی تھی اور پرانا شہر بہت کچھ بدل جانے کے باوجود اپنی اصل حالت میں قائم ہے۔ پرانی دلّی آصف علی کا پیدائشی وطن تھی۔ ان کا گھر قدیم محلے کوچہ چیلان میں تھا جہاں سے مولانا محمد علی جوہر کا تاریخ ساز اخبار ’ہمدرد‘ شائع ہوتا تھا۔ اسی محلے میں مفتی اعظم مولانا کفایت اللہؒ اور مولانا احمد سعیدؒ جیسے عظیم دینی و سیاسی رہنماؤں کے گھر تھے۔ فصیل بند شہر سے آصف علی صاحب کی فطری محبت کا ہی شاید نتیجہ ہے کہ اجمیری دروازے سے دہلی دروازے تک پرانے شہر کو نئے شہر سے الگ کرنے والی سڑک (آصف علی روڈ) دہلی والوں کو ان کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
دہلی کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں آصف علی کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ ارونا آصف علی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ارونا گانگولی کے ساتھ آصف علی کی شادی محبت کی شادی تھی۔ ارونا حسین و جمیل، روشن خیال اور تعلیم یافتہ مجاہدۂ آزادی تھیں۔ آصف علی کی وجاہت، علمیت،آزادیِ وطن کے لیے ان کا جذبۂ حریت اور سر سے پاؤں تک انسانی خوبیاں ان کے دل کو بھا گئیں۔ لیکن دونوں کی شادی میں مذہب کی دیوار کھڑی ہوگئی۔ ایک طرف آصف علی کو ان کے اقربا اور ہم مذہب اس اقدام سے روک رہے تھے تو دوسری طرف ارونا گانگولی کے رشتہ داروں نے زمین آسمان سر پر اُٹھا لیے۔ ان کی قوم کی لڑکی ایک مسلمان کی شریک حیات بنے یہ انھیں گوارا نہیں تھا لیکن دونوں محبت کرنے والوں نے سماج اور مذہب کے ٹھیکیداروں کی بنائی ہوئی رسم و رواج کی اونچی اونچی دیواروں کو ٹھوکر مارکر گرادیا۔ اس مثالی جوڑے کو گاندھی جی کا آشیرواد حاصل ہوا۔ مہاتما نے اس شادی کو ہندو مسلم اتحاد کی خوبصورت علامت قرار دیا۔
دہلی شہر کے عوام میں آصف علی کس قدر محترم اور مقبول شخصیت تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1934ء میں جب قومی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب سامنے تھے اس وقت گاندھی جی نے آصف علی کے نام ایک ٹیلی گرام میں انھیں پارٹی امیدوار بنانے کے فیصلے کی اطلاع یہ کہہ کر دی تھی: ’’مجھے پوری امید ہے کہ دہلی کے عوام کا ایک ایک ووٹ تمھیں حاصل ہوگا۔‘‘
باپو کی بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔ آصف علی کانگریس کے دوسرے امیدواروں کے ساتھ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو گاندھی جی نے انھیں لکھا:
’’مجھے اس کامیابی میں خدا کی مہربانی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آیا۔ شاید ہم لوگ اس کامیابی کے مستحق تھے۔ میری آرزو ہے کہ تمھاری کامیابی دوبھائیوں کو دلوں کے ملاپ کا راستہ دِکھائے۔ دوبھائی یعنی ہندو اور مسلمان۔‘‘
آصف علی قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے خاص نمائندے ثابت ہوئے۔ بھولا بھائی ڈیسائی پارٹی لیڈر ہوئے۔ انھوں نے ہاؤس میں آصف علی کو پارٹی کا چیف وہپ مقرر کیا۔ آصف علی قانون ساز اسمبلی میں کانگریس ارکان کے اس گروپ میں تھے جو اسمبلی میں اپنی قوت کو ملک کی آزادی کے لیے استعمال کرنے کے طریقے تلاش کررہا تھا۔ آصف علی نے حکومت کے بجٹ کا خاص طور پر مطالعہ کیا اور ایوان میں اس طرح حکومت پر تنقید کا طوفان برپا کیا کہ ان کا شمار ملک کے نہایت اہم سیاستدانوں میں ہونے لگا۔ آصف علی دل سے کانگریسی تھے لیکن ملک کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے پارٹی کے خلاف بھی قدم اُٹھانے کی جرأت رکھتے تھے۔ وہ تحریک عدم تعاون سے پوری طرح وابستہ تھے۔ کانگریس کے وہ اہم رہنما بن چکے تھے لیکن وطن کے مفاد میں انھوں نے مسٹر سی آر داس کی سوراج پارٹی کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ایک اور موقع پر انھوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر پارٹی کی اکثریتی رائے کو درکنار کیا۔ جب پارٹی کے اندر یہ غوروخوض ہورہا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کا نفاذ کیا جائے یا نہیں، آصف علی نے اکثریت کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے ان لیڈروں کے حق میں پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کی جو قانون ساز اسمبلیوں کو عوام کی آرزوؤں کی تکمیل اور ملک کی آزادی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ آصف علی ملک کے مسلمہ دانشور اور ماہرِ سیاسیات تھے۔ جب کرپس مشن ہندوستان آیا تھا اور کانگریس پارٹی کے نمائندہ کی حیثیت سے مولانا آزاد کو مسٹر کرپس سے مذاکرات کرنے تھے اس وقت مولانا آزاد نے آصف صاحب کو اپنا معاون بنانا پسند کیا تھا۔آصف علی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ جس چیز کو ملک و قوم کے لیے بہتر سمجھتے تھے اس کا بغیر کسی مصلحت سازی کے برملا اظہار کرتے تھے، نہ صرف اظہار بلکہ عمل کرکے دکھا دینے کی ہمت رکھتے تھے۔ انھوں نے زندگی بھر اسلام کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالفت کی۔ ایک بار جب وہ پنجاب کی گجرات جیل میں سزا کاٹ رہے تھے، انھوں نے دہلی میں اپنے دوست اُردو کے نامور ادیب ملا واحدی کو لکھا:
’’اگر اس وقت آپ کے سامنے علامہ اقبال کا مجموعۂ کلام ہو تو ذرا ان کی نظموں ’رام‘ اور ’نانک‘ پر نظر ڈالیے۔ میں اس جگہ فیضی کے کیے ہوئے گیتا کے فارسی ترجمے کو یاد کررہا ہوں جس میں درجنوں اشعار ایسے ہیں جن سے مسلمان اختلاف کرسکتے ہیں نہ ہندو، ہمارے صوفیائے کرام کا مسلک بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔‘‘
اسی خط میں آگے لکھتے ہیں:
’’ ممکن ہے آج یا کل ہمارا ملک ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہوجائے لیکن اس ملک کی مشترکہ تہذیب تقسیم نہیں ہوگی، یہ ہمیشہ اسی طرح باقی رہے گی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہر مذہب و ملت کے لوگ ایک دوسرے کی روحانی خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
1940ء میں آصف علی کانگریس ورکنگ کمیٹی کے باقاعدہ رکن بنائے گئے حالانکہ وہ اس سے قبل ستیا گرہوں اور سول نافرمانیوں کے عوض خاصی لمبی سزائیں کاٹ چکے تھے اور پارٹی کے تمام اہم امور میں وہ بڑے رہنماؤں کے ساتھ برابر کے شریک رہے تھے۔ 1942ء میں ہندوستان چھوڑو تحریک میں انھوں نے زبردست حصہ لیا تھا لیکن انھوں نے کبھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی تھی۔ 1946ء میں عارضی حکومت کا قیام عمل میں آگیا جس میں آصف صاحب وزیر ریلوے بنائے گئے۔ اس زمانے کا ایک اہم واقعہ مسز ارونا آصف علی نے اپنی مشہور کتاب \'Resurgence of Indian Women\'میں بیان کیا ہے:
’’جب میرے شوہر ریلوے کے وزیر مقرر ہوئے تو انھوں نے گاندھی جی کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ریلوے اسٹیشنوں سے ’ہندوپانی‘ اور ’مسلم پانی‘ کی لعنت کو دور کردیا جائے۔ گاندھی جی نے اس سے پورا اتفاق کیا اور ریلوے پلیٹ فارمز سے ہندوپانی اور مسلم پانی کی تفریق ختم کردی گئی۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ یہ کارنامہ انجام دے کر مسٹر آصف علی نے ہندوستانی سماج کے ایک کلنک کو ہمیشہ کے لیے مٹادیا۔
آصف علی صاحب نے گاندھی جی کو ہمیشہ اپنا آئیڈیل اور گرو تصور کیا۔ 1946ء میں وہ ہندوستان کے پہلے سفیر بناکر امریکہ بھیجے گئے۔ امریکہ روانہ ہونے سے پہلے وہ گاندھی جی سے ملاقات کے لیے نواکھالی کے قریب ایک گاؤں پہنچے جہاں زبردست ہندو مسلم تناؤ تھا اور بہت خون خرابہ ہوچکا تھا۔ اس گاؤں میں رہ کر گاندھی جی ہندو مسلم نفرت اور تعصب کی آگ بجھانے کی کوشش کررہے تھے۔ گاندھی جی نے اپنی پرارتھنا سبھا میں مسٹر آصف علی کا تعارف حاضرین سے کراتے ہوئے کہا تھا:
’’یہ آصف علی ہیں۔ ہندوستان کے سفیر بن کر امریکہ جارہے ہیں، ان کا انتخاب بہترین انتخاب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ میں ہندوستان کی سچی تصویر پیش کرنے کا مشکل کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔‘‘
انھوں نے دو سال تک سفارتی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ اس دوران جب ملک تقسیم کے مراحل سے گزررہا تھا انھیں اضافی ذمہ داری دی گئی۔ وہ اقوامِ متحدہ میں واحد ہندوستانی نمائندہ مقرر کیے گئے۔ سفارت اور اقوامِ عالم میں اپنے وطن کی نمائندگی جیسے مشکل فریضے کو انھوں نے بڑی لیاقت اور تدبر کے ساتھ انجام دیا۔
ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کے بعد دونوں ملکوں میں انسانیت کا قتل عام ان کے لیے بیحد جانکاہ تھا۔ گاندھی جی کے قتل نے تو انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ایسے نازک اور دل شکن حالات میں انھوں نے بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ خود کو سنبھالا۔
اکتوبر 1948ء میں صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد نے انھیں اڑیسہ کا گورنر بنادیا۔ اس عہدے پر آصف علی صاحب چار برسوں تک فائز رہے۔ اڑیسہ آزادی سے قبل ایک ایسی ریاست تھی جہاں کے عوام ترقی اور سہولیات سے پوری طرح ناآشنا تھے۔ آصف علی صاحب نے چار سال کی مدت میں نہ صرف وہاں ایک عوام دوست انتظامیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں وہاں کے عوام نے آزادی کی برکتوں کو محسوس کیا۔ ریاست اڑیسہ کی تعمیر و ترقی کا جو راستہ انھوں نے دِکھایا تھا اس پر مسلسل آگے بڑھ کر ہی وہ اس مقام تک پہنچ سکی ہے جہاں اس کا شمار کم سہی لیکن خاصی ترقی یافتہ ریاستوں میں کیا جاتا ہے۔ اندازہ لگانا آسان ہے کہ 1948ء تک وہ ہندوستان کا کس قدر پسماندہ خطہ رہا ہوگا۔
اڑیسہ کی چار سال تک گورنری کے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میںآزاد مرکزی حکومت نے انھیں سفیر بناکر سوئٹزرلینڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ سوئٹزر لینڈ کی سفارتی ذمہ داریوں کے ساتھ انھیں آسٹریلیا میں بھارت کے نمائندہ کی ذمہ داریاں بھی نبھانی تھیں اور اقوامِ متحدہ میں ہندوستانی وفد کو بھی صلاح مشورہ دیتے رہنا تھا۔
آصف علی صاحب کی ازدواجی زندگی آخری مرحلے میں خوشگوار نہیں رہی۔ محترمہ ارونا آصف علی ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کے بعد کانگریس سے بددل ہوکر بائیں بازو کی سیاست میں داخل ہوگئیں۔ سیاسی نظریات کے تصادم نے دونوں کی راہیں الگ کردیں۔ آصف صاحب سچے کانگریسی تھے جبکہ تحریک آزادی میں ہندوستانی خواتین کا نام روشن کرکے ارونا آصف علی بھی قومی شہرت کی حامل سیاسی رہنما بن گئیں۔دونوں نامور شخصیتوں کے مابین میاں بیوی کے رشتے اگرچہ ختم ہوگئے تھے لیکن یہ ایک مثال ہے کہ دونوں کے درمیان دوستانہ اور انسانی تعلق آخر تک برقراررہا۔
سالہا سال تک دن رات محنت، تحریک آزادی کی صعوبتوں اور قیدوبند کی تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ 2اپریل 1953ء کو انھیں دل کادورہ پڑا۔ اس وقت مسز ارونا اپنے شوہر کے ساتھ تھیں لیکن بیوی نہیں بلکہ ایک دوست کی طرح۔ وہ اسی حیثیت سے ان سے ملتی جلتی رہتی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ سیاست نے انھیں بظاہر ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا لیکن یہ دوریاں دل کے رشتوں کو ختم نہیں کرسکی تھیں۔ آسٹریلیا کے برن ہسپتال میں وہ ان کے بالیں پر تھیں۔ آصف صاحب نے ان سے کہا ’’دل کے آپریشن کے لیے ماسکو جانا چاہتا ہوں، وہاں کے ڈاکٹر بہت لائق ہیں۔‘‘ ارونا نے ان سے کہا ’’آپ فی الحال ماسکو جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ کو یہیں رہ کر علاج کرانا چاہیے۔‘‘ یہ سن کر آصف علی صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک چمک دِکھائی دی۔ اسی لمحے سب کچھ ختم ہوگیا۔ آزادیِ وطن کا جانباز سپاہی اس دُنیا سے رخصت ہوگیا۔ ارونا آصف علی اپنے شوہر کے جنازے کے ساتھ ہندوستان پہنچیں۔
مسٹر آصف علی کے انتقال کی خبر سے دہلی میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جنازے کے جلوس میں جیسے سارا شہر امنڈ پڑا تھا۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی امیر غریب سب کا عزیز رہنما دُنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ بستی حضرت نظام الدین اولیا میں واقع اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کیے گئے۔
آزادیِ وطن کا بہادرسپاہی اور آزادی سے پہلے و آزادی کے بعد ہندوستان جیسے عظیم ملک کی جمہوری حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے آصف علی کا شمار ملک کے ان سچے گاندھین رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے ملک اور عوام پر اپنی پوری زندگی نچھاور کردی اور بدلے میں نیک نامی اور دُکھی دلوں کی دعاؤں کے سوا کچھ نہیں چاہا۔ ان کی بظاہر یادگار آصف علی روڈ نام کی سڑک اور دہلی دروازے کے باہر نصب کیا گیا ان کا مجسمہ ہے لیکن بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ دہلی میں اور بھی زندہ و تابندہ یادگاریں ہیں جو آصف علی مرحوم کی یاد دلاتی ہیں، جیسے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کا قائم کردہ طبیہ کالج اور ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم درسگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جن کے بانیوں کے ایثاروقربانیوں کے ساتھ آصف علی صاحب کا پرخلوص تعاون اور بے مثال ملی جذبہ بھی ان اداروں کے ساتھ وابستہ ہے۔
11 ستمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/lawyer-freedom-fighters-barrister-as-part-2af/d/99073